New Age Islam
Tue Apr 22 2025, 02:59 PM

Urdu Section ( 2 Jan 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Kerala Muslim Woman Challenges Islamic Law of Inheritance کیرلا کی مسلم خاتون نے وراثت کے اسلامی قانون کو چیلنج کیا

ارشد عالم، نیو ایج اسلام

 31 دسمبر 2022

ان کی عدالت سے گذارش ہے کہ 1937 کا شریعت ایکٹ آئین کی خلاف ورزی کرتا ہے

 اہم نکات:

 1. درخواست گزار کا کہنا ہے کہ وراثت کا اسلامی قانون ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 15 اور 13 کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

 2.  اسلامی شرعی قانون اب تک مردوں کے مقابلے عورتوں کے لیے نصف حصہ مختص کرتا ہے۔

 3. بہتر ہوگا کہ مسلمان اسے اپنے مذہب کے خلاف ایک عظیم سازش کے طور پر نہ دیکھیں۔

 4. انہیں اسے صنفی طور پر غیر منصفانہ قوانین میں اصلاح پر بات چیت شروع کرنے کا ایک موقع سمجھنا چاہیے۔

 5. ہر چیز کو خدا کے حکم سمجھنے کے بجائے اسلام کے اندر حقوق کے بارے میں ایک خود مختار غیر فقہی بحث کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

 -----

 کیرالہ کی ایک مسلم خاتون نے شریعت ایپلیکیشن ایکٹ 1937 اور شریعت ایپلیکیشن (کیرالہ ترمیم) ایکٹ 1963 کی دفعات کو اس بنیاد پر چیلنج کرتے ہوئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے، کہ ان قوانین سے مرد اور عورت کے درمیان تقسیم وراثت میں امتیازی سلوک واقع ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، وصیت کا سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب خاندان کا سربراہ (عام طور پر ایک مرد) بغیر وصیت کے مر جاتا ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مسلم پرسنل لا، جیسا کہ شریعت ایپلیکیشن ایکٹ، 1937 کے ذریعے واضح کیا گیا ہے، خاندان میں مرد اور خواتین کو مساوی حصہ نہیں دیتا۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین کا حصہ نصف ہے۔ درخواست گزار نے اپنی درخواست میں استدعا کی ہے کہ:

 "شریعت کے مطابق، لڑکیوں کے ساتھ مرد اولاد کے مقابلے امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، یعنی جو حصہ عورت کو وراثت میں ملتا ہے وہ مرد اولاد کی وراثت کا نصف ہے۔ یہ ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 15 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ایک مرد کے مقابلے عورت کو مساوی حصہ نہ دینے کی حد تک لاگو شرعی قانون ہندوستانی آئین کی دفع 13 کی وجہ سے باطل ہے۔

 درخواست گزار بنیادی طور پر اسلامی وراثت کے غیر مساوی قانون کو چیلنج کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو ہندوستانی آئین کی روح کے خلاف ہے، کیونکہ یہ مرد و عورت سب کے درمیان مساوات کا حامی ہے۔ خاص طور پر، آرٹیکل 15 جنس اور صنف سمیت مختلف بنیادوں پر امتیازی سلوک کی ممانعت کرتا ہے اور واضح طور پر شریعت کا قانون اسی بنیاد پر مساوات کا حامی نہیں ہے۔ مزید برآں، آئین کی دفع 13 کا کہنا ہے کہ 1950 سے پہلے کے تمام قوانین، جو مساوات کی آئینی دفعات سے ہم آہنگ نہیں ہیں، ان پر نظرثانی کی جانی چاہیے۔ اس طرح درخواست گزار کے پاس ایک مضبوط بنیاد ہے جس کی بناء پر وہ اپنا کیس بنا رہی ہے اور ہائی کورٹ نے بھی اس کیس کو سننے کے لیے رضامندی ظاہر کر دی ہے، لیکن ہمیں کیس کا نتیجہ معلوم ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔

 کئی وجوہات سے، یہ چیلنج طویل عرصے سے التوا کا شکار تھا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلامی مذہبی قانون خواتین کے حوالے سے امتیازی نوعیت کے ہیں۔ اور صرف وراثت کے معاملات میں ہی نہیں بلکہ طلاق، بچوں کی پرورش وغیرہ کے معاملے میں بھی، اس کو چیلنج کیا جا رہا ہے اور اس سے ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے۔ جلد یا بدیر، کسی نہ کسی کو تو یہ کرنا ہی تھا۔ ملک کی مختلف عدالتوں میں دیگر چیلنجز بھی موجود ہیں اور وقت آنے پر ان پر بھی بحث کی جائے گی۔

 ایک دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ مرکز کی بی جے پی حکومت کے کہنے پر ایسے کیس عدالت میں لائے جا رہے ہیں۔ یہ ایک بے بنیاد الزام ہے۔ شاہ بانو کے معاملے سے واقفیت رکھنے والے اس بات سے متفق ہوں گے کہ مسلم خواتین کئی دہائیوں سے اس طرح کے امتیازی دفعات کو چیلنج کر رہی ہیں، یہاں تک کہ جب ’مسلم مخالف‘ بی جے پی حکومت اقتدار میں نہیں تھی تب بھی یہ عمل جاری تھا۔ جو لوگ اس طرح کے قوانین کی زد میں ہیں وہ کسی بھی طرف سے مدد کا خیرمقدم کریں گے۔ چاہے معاشرے کے اندر سے ہو یا اس سے باہر سے۔ مسلم معاشرے کے اندر ملاؤں کے رجعت پسند مذہبی اثر کو دیکھتے ہوئے، یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ آخر کیوں کچھ مسلم خواتین نے مسلم پرسنل لا کے کچھ صریح امتیازی سلوک والی دفعات کو درست کرنے کے لیے ریاست سے مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔

 20ویں صدی کے اوائل میں، برصغیر میں مسلم خواتین کو اپنی مرضی کے مطابق جائیداد کے حقوق دیے گئے تھے۔ کیرلا کے کچھ حصوں میں خواتین، کیونکہ ان کا نسب ماں سے متعلق ہے، صدیوں سے جائیداد کے حقوق حاصل کر رہی تھیں۔ مسلمانوں کے اندر اصلاحی تحریکوں کی وجہ سے، 1914-1918 کے درمیان نافذ کیے گئے کچھ قوانین نے خواتین کو اپنے جائداد کے حقوق کا استعمال کرنے سے مؤثر طریقے سے روک دیا۔ مسلم اصلاح پسند بنیادی طور پر ثقافتی اور سماجی حقائق کو اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ درحقیقت اس پورے نسب نامہ مادری کے نظام کو غیر اسلامی قرار دیا گیا اور مسلمانوں سے کہا گیا کہ وہ اس نظام کو نسب پدری کے حق میں ترک کر دیں، کیونکہ یہی شریعت کا حکم ہے۔ روایتی نسب مادری نظام کے حق میں اس قدر مخالف ہو گئے کہ بعض مقامات پر علاقائی قاضی یہ فرمان جاری کرنے لگے کہ جو بھی مسلمان مردوں کو جائیداد میں حصہ لینے کی وکالت نہیں کرے گا اسے کافر قرار دیا جائے گا۔ ملک کے دیگر حصوں میں بھی اسی طرح کے رواج تھے جن میں مسلم خواتین کو جائیداد سے کچھ حصے دیے جاتے تھے۔ تاہم، جب آل انڈیا مسلم پرسنل لاء کا مطالبہ ہوا تو ان سے وہ سب کچھ چھین لیا گیا۔ 1937 کے شریعت ایپلیکیشن ایکٹ نے اس طرح کے روایتی حقوق کو مؤثر طریقے سے روک دیا اور اسے ایک معیاری اسلامی اصول سے بدل دیا۔

 لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ 1937 کے ایکٹ نے مسلم خواتین کو آبائی زرعی اراضی کی وراثت سے بھی محروم کر دیا، جس کا اسلامی قانون میں کوئی جواز نہیں تھا۔ لہٰذا، صرف اسلامی قانون کے انطباق سے خواتین جائیداد حاصل کرنے سے محروم ہوئیں، بلکہ اس کی وجہ ان مردوں کا رویہ بھی تھا جنہوں نے ایک ساتھ مل کر خواتین کو زرعی جائیداد کے معاملے میں جو کچھ بھی اسلامی قانون نے پیش کیا تھا اس سے محروم کر دیا۔

شریعت کے محافظ عموماً یہ دلیل دیتے ہیں کہ چونکہ اسلامی قانونی نظام خدا کا مقرر کردہ قانون ہے، اس لیے اسے انسانی مرضی سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن یہ ایک ناقص دلیل ہے۔ وراثت لوگوں کے حقوق کا معاملہ ہے۔ یہ خالق کے تئیں روزہ نماز وغیرہ جیسے فرائض کا معاملہ نہیں ہے۔ حقوق کا دائرہ تبدیل ہوتے ہوئے اخلاقی اقدار پر انحصار کرتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ ایک وقت تھا جب تمام معاشروں بشمول مسلمانوں کے، کم عمری کی شادی کو معمول سمجھا جاتا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، مذہبی کتابوں کے بر خلاف، آج بہت کم مسلمان اس طرز عمل کو اپنانے کے لیے تیار ہیں۔ وقت کے ساتھ، صحیح اور غلط کے پیمانے بھی بدل گئے ہیں۔ لہٰذا، اگرچہ قرآن اور احادیث میں ان کی اجازت ہے، لیکن مسلمان اب اس کی تعمیل نہیں کرتے کیونکہ اس سے بچیوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اسی طرح آج جائیداد میں مردوں کے مقابلے خواتین کے لیے آدھا حصہ مختص کرنا خواتین کے حقوق سے انکار کے مترادف ہے اس لیے اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔

 مسلمانوں کو خود ہی پہل کرنی چاہیے اور ایسے امتیازی قانون کو اپنے اندر سے ختم کرنا چاہیے۔

 English Article: Kerala Muslim Woman Challenges Islamic Law of Inheritance

URL: https://newageislam.com/urdu-section/muslim-woman-islamic-law-inheritance/d/128777

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..