New Age Islam
Mon May 12 2025, 01:41 PM

Urdu Section ( 7 Nov 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Muslim Celebrity Preachers Must Be Held Accountable مسلم مبلغین کے افکار اگر مہلک ہیں تو گرفت کی جائے نہ کہ ان کی ستائش کی جائے

 ادیس ددریجا، نیو ایج اسلام

 15 ستمبر 2023

 میں گریفتھ یونیورسٹی میں مسلم پس منظر کا حامل ایک ماہر تعلیم ہوں اور اسلامی فکری روایت، اسلام اور جنس اور اسلام اور عالم مغرب میں مسلمانوں سے متعلق موضوعات پر تحقیق اور تدریس میں مہارت رکھتا ہوں۔ حال ہی میں میرے ایک تیسرے سال کے مسلم طالب علم نے مجھے ایک ویڈیو کے حوالے سے ایک مضمون سے آگاہ کیا جس میں ایک مشہور آسٹریلین مسلم مبلغ، جن کے سوشل میڈیا پر (انسٹاگرام اور یو ٹیوب پر ہزاروں اور لاکھوں میں) فالوور ہیں، جن کا نام محمد ہوبلوس ہے، ایک اسلامی مجلس میں سامعین سے خطاب کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ واضح الفاظ میں یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک مسلمان جو جان بوجھ کر روزانہ کی پانچ نمازوں میں سے ایک بھی چھوڑ دیتا ہے، جو کہ قدامت پرست سنی اسلام میں ایک معمول ہے، "وہ قاتل سے بھی بدتر ہے، بدکار سے بھی بدتر ہے، دہشت گرد سے بھی بدتر ہے اور اللہ کی نظر میں ایک اغلام باز سے بدتر ہے"۔ یہ ویڈیو 2017 میں ریکارڈ کی گئی تھی اور مذکورہ مضمون ڈیلی میل میں 2018 میں شائع ہوا تھا۔ لیکن ہوبلوس اب تک اپنی اس گفتگو میں موجود انتہائی مہلک پیغام کے باوجود مسلمانوں میں تبلیغ دین کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کی گرفت کرنے والا کوئی نہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہوبلوس جیسے مشہور مسلم مبلغین کے احتساب کے مسئلے اور اس سلسلے میں مرکزی دھارے کی مسلم قیادت کے کردار پر توجہ دی جائے اور عالم مغرب کے مسلم معاشرے اور بین المذاہب تعلقات پر ان کے اثرات کے مضمرات کا جائزہ لیا جائے۔

 مہلک نظریات کا وجود

ہوبلوس کے ان سنگین ترین تبصروں کے باوجود، اور اس کے کئی سال بعد، جو میرے نزدیک چونکا دینے والی اور مہلک گفتگو تھی، مجھے آن لائن ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ پورے آسٹریلیا میں کسی بھی امام نے ان کی گفتگو پر کسی بھی طرح کی کوئی تنقید کی ہو۔ اس کے برعکس، آن لائن سرچ سے پتہ چلتا ہے کہ ہوبلوس 2017 سے لیکر اب جولائی 2023 تک بغیر کسی روک ٹوک کے اپنی تقریروں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ پورے آسٹریلیا کی مساجد اور اسلامی سینٹروں میں بشمول گولڈ کوسٹ مسجد، سڈنی کی لکیمبا مسجد، لکیمبا کی السنۃ مسجد، ویسٹ آسٹریلیا کے اسلامک سینٹر، دارا (برسبین) کی اسلامی سوسائٹی، قرابی مسجد (برسبین)، وکٹوریہ کی پریسٹن مسجد، وولونگ کی عمر مسجد، اور کیبراماٹا کے علاقے کی عثمان بن عفان مسجد کے، اپنے تبلیغی اور تقریری اسفار جاری رکھے ہوئے ہیں جہاں ان مجلسوں میں عوام کا ہجوم ہوتا ہے۔

 2017 کی ان کی فضول گفتگو کے بعد سے، ان کی تبلیغی سرگرمیوں اور آن لائن ذرائع ابلاغ میں ان کی موجودگی کافی تیزی کے ساتھ بڑھی ہے، اور وہ سڈنی کے گروپ OnepathNetwork کے ساتھ بھی کام کر رہے ہیں، (اس تنظیم کا نام ہی ان کے نظریہ اور اسلامی روایت سے متعلق ان کے نقطہ نظر کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے) جس کی پورے آسٹریلیا میں شاخیں ہیں۔ مزید برآں، آن لائن تلاش سے مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کی کچھ عوامی تقریبات میں صنفی علیحدگی کا خاص خیال رکھا گیا تھا۔

اس کے علاوہ ہوبلوس کی عوامی تقریبات اور تقریری دورے صرف آسٹریلیا تک ہی محدود نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر، آن لائن تلاش سے معلوم ہوا کہ 2022 میں انہیں یوکے کے پانچ شہروں میں مقرر خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا تھا (جن کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ کسی بھی تقریب میں جگہ خالی نہیں رہی) اور اسی سال انہوں نے کینیڈا میں بھی مسلم سامعین سے خطاب کیا۔

 یہ سب کچھ ہمارے لیے باعث تشویش ہونا چاہئے اور اس سے ان مسلم لیڈروں کی دیانتداری اور جوابدہی پر سوال اٹھتا ہے جو انہیں یہ پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔

 مسلم قیادت کی ذمہ داری:

 باضمیر مسلمانوں کو اور خاص طور پر ان لوگوں کو جو اسلامی مراکز اور مساجد میں قائدانہ عہدوں پر فائز ہیں، ہوبلوس جیسے افراد کی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس طرح کے فاسد خیالات کے حامل کسی شخص کو اس کے ایسے پریشان کن تبصروں کے پانچ سال بعد بھی عوامی پلیٹ فارم کیسے دیا جا سکتا ہے جس کے بارے میں کافی کچھ لکھا اور بولا جا چکا ہے۔ یہ سوال مسلم رہنماؤں کی اپنی برادریوں کو مہلک نظریات سے بچانے کی ذمہ داری کے بارے میں ہے۔ ایسے مقررین کو نوجوان اور سادہ لوح سامعین سے خطاب کرنے کی اجازت دینے سے، نقصان دہ عقائد و نظریات کے فروغ کا خطرہ کافی بڑھ جاتا ہے۔ اگر وہ اس مسئلے کو حل نہیں کرتے تو اس سے مسلم قیادت کی ساکھ اور سالمیت اور اسلام کی معقول اور اخلاقی طور پر خوبصورت تفہیم کو فروغ دینے کے ان کے عزم کو دھچکا لگ سکتا ہے۔

 اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جو میں تمام باضمیر اور ہوش مند مسلمانوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، خاص طور پر ان لوگوں کے سامنے جو مسلمانوں کی قیادت کرتے ہیں، یعنی مختلف اسلامی مراکز/تنظیموں اور مساجد کو چلانے والے افراد، خواہ وہ آسٹریلیا کے ہوں یا عموماً عالم مغرب کے:

 1. اسے شخص کو، اس کے انتہائی پریشان کن خیالات کے باوجود جن سے اس نے کبھی عوامی طور پر برأت کا اظہار نہیں کیا، جن کا اظہار انہوں نے 5 سال پہلے کیا تھا، کیسے باقاعدگی سے عوامی پلیٹ فارم فراہم کیا جا سکتا ہے جس میں وہ مذہبی قیادت کا عہدہ رکھتا ہے اور اکثر اسے سادہ لوح مسلم سامعین کے سامنے تبلیغ و ارشاد کے مواقع دستیاب ہوتے ہیں؟

 2. ان جیسے افراد کی سوشل میڈیا پر اتنی بڑی تعداد میں فالووینگ کیسے ہے؟ اگر ہوبلوس کو اسلام کا مستند اور معتبر ترجمان ماں لیا جائے تو ان مسلمانوں کے درمیان اسلام کی کون سی تعبیر اور تصویر پائی جائے گی؟

 3. اگر ہوبلوس جیسے لوگوں کو مستند اسلام کے نمائندے کے طور پر پیش کیا جائے تو اسلام یا عالم مغرب میں مسلمانوں کے حوالے سے غیر مسلموں کی نظر میں کس قسم کی تصویر جگہ لے گی اور اس سے مغربی معاشروں میں مسلم-غیر مسلم تعلقات پر کیا اثر پڑتا ہے؟

 اس معاملے میں محمد ہوبلوس تنہا نہیں ہیں۔ آسٹریلیا اور عالم مغرب میں ایسے کئی مشہور و معروف مبلغین اور امام موجود ہیں جو بغیر کسی روک ٹوک کے پریشان کن افکار و نظریات کی تبلیغ میں لگے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر شادی/گھریلو تشدد، طلاق، یا بالعموم نسوانیت/خواتین کے جسموں اور خواتین کی جنسیت کے حوالے سے خواتین کے حقوق سے متعلق ان کے نظریات کے سلسلے میں یہ رویہ پایا جا رہا ہے، اور اب تک اس حوالے سے کسی کی کوئی جوابدہی طے نہیں کی گئی ہے۔

مزید برآں، ہم اس حقیقت سے نظر نہیں چرا سکتے کہ ہوبلوس جیسے افراد کو مستند اسلام کے ترجمان کے طور پر پیش کرنے سے، مغربی معاشروں میں مسلم-غیر مسلم تعلقات پر بڑے پیمانے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایسی شخصیات کو دیکھ کر غیر مسلم، اسلام کے حوالے سے انتہائی منفی تاثرات اپنے اندر پیدا کر سکتے ہیں اور بین المذاہب مکالمے اور باہمی افہام و تفہیم کی کوششوں میں رکاوٹ بن سکتے ہیں، جس سے سماجی ہم آہنگی کمزور ہوگی اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان سماجی تناؤ پیدا ہوگا۔ مزید برآں، خواتین کے حقوق، خواتین کے جسم اور جنسیت کے بارے میں ہوبلوس جیسے افراد کے فرسودہ اور قدامت پرست نظریات پدرسرانہ اقدار کے لیے براہ راست ذمہ دار ہیں جنہیں مذہبی جواز حاصل ہے، جن کا مشاہدہ ہم مسلمانوں کے درمیان بالعموم اور عالم مغرب میں بالخصوص کرتے رہتے ہیں۔ میرا بھی یہ ماننا ہے جس کی تائید کچھ علمی تحقیقات سے ہوتی ہے، کہ ہوبلوس جیسے افراد کی سوشل میڈیا پر تبلیغ و ارشاد کا ہی نتیجہ ہے- جنہیں اسلامی مان لیا جاتا ہے - کہ عالم مغرب کے بہت سے مسلمان اسلام کو چھوڑ رہے ہیں، کیونکہ وہ ان کی باتوں کو اخلاقی طور پر برا مانتے ہیں۔

 احتساب اور آگے کا راستہ

 ہوبلوس جیسی مشہور شخصیات کے مہلک افکار و نظریات کی تبلیغ کے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مسلم رہنماؤں کو فعال اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ مقررین کے انتخاب کے لیے واضح رہنما خطوط وضع کرنا اور ان کے پیغامات کے لیے انہیں جوابدہ ٹھہرانا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں، مساجد اور اسلامی مراکز کو اسلام کی جامع اور صنفی طور پر منصفانہ تعبیرات کے حامیوں کے افکار و نظریات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

 مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ذہنوں پر ہوبلوس جیسے نامور مسلم مبلغین کے نمایاں اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مسلم رہنماؤں کو اپنی برادریوں اور اسلام کی شبیہ کے تحفظ کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ مذہبی اتھارٹی کی آڑ میں مہلک اور فاسد افکار و نظریات کو فروغ نہ دیا جائے۔ ہوبلوس جیسے مبلغین کو ان کے نقصان دہ خیالات کے لیے جوابدہ ٹھہرانا ضروری ہے۔ اس کے لیے انہیں فراہم کیے جانے والے ذرائع اور وسائل اور جوابدہی کے طریقہ کار کا تنقیدی جائزہ لینا ضروری ہے۔ ان خدشات کا فعال طور پر تصفیہ کر کے مسلم رہنما اسلام کے ایک اخلاقی اور معقول نقطہ نظر کو فروغ دے سکتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان اور بالخصوص عالم مغرب میں مزید ہم آہنگ تعلقات کو فروغ دینے میں ایک اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

English Article: Muslim Celebrity Preachers Must Be Held Accountable not Rewarded for Their Harmful Views

 URL: https://newageislam.com/urdu-section/muslim-celebrity-preachers-accountable-harmful-views/d/131061

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..