مشتاق الحق احمد سکندر، نیو ایج اسلام
14 فروری 2018
ہر سال ویلنٹائن ڈے پر مسلم دنیا اور ہندوستان میں بھی زبردست بحث و تکرار کا ماحول بن جاتا ہے۔ علیحدگی پسند، تنگ نظر اور بعض معاملات میں فسطائی گروہ سڑکوں پر نکل جاتے ہیں اور بزعم خویش ‘‘عاشق جوڑوں’’ کو ہراساں کرتے ہیں، انہیں پریشان کرتے ہیں اور زد و کوب کرتے ہیں۔ ہر سال اسی تاریخ کو اس تصور کے ساتھ دہرایا جاتا ہے کہ ویلنٹائن ڈے اپنے ساتھ بے حیائی اور بد خلقی کا رجحان لے کر آتا ہے۔ محبت کے اظہار کا یہ طریقہ ایک مغربی ایجاد ہے جسے یہ جماعتیں آزادانہ جنسی تعلقات، قبلِ شادی جنسی تسکین، ہوس اور بدخلقی کے مترادف قرار دیتی ہیں۔ محبت کے اس مغربی تصور کے بارے میں ان جماعتوں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ محبت کا یہ طرز ہوس اور جنسی انتشار پر مبنی ہے۔ وہ اس غلط تصور کے حامل ہیں کہ مغرب کے لئے محبت کا کوئی تصور یا کوئی اصول نہیں ہے، بلکہ ان کے لئے اس محبت کا معنیٰ صرف متعدد جوڑوں کے ساتھ شب باشی کرنا ہے۔ لہذا ایک لڑکا اور لڑکی کے درمیان محبت نہیں ہو سکتی۔ اور اگر کچھ ہو بھی تو وہ صرف شہوت اور ہوس ہے۔
ان جماعتوں کے لئے پاک یا بے داغ محبت کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اگر ایک لڑکا اور ایک لڑکی کے درمیان تعلق ہے خواہ وہ تعلق دوستی کا ہو، خواہ وہ کسی قسم کی رفاقت کا ہو یا وہ ہم منصب ساتھی ہوں؛ اس میں شہوت اور جسمانی لذت کا عنصر ضرور شامل ہوگا۔ اس کے علاوہ محبت کے عوامی سطح پر اظہار پر مکمل طور پر پابندی لگا دیا جانا چاہئے، یہی وجہ ہے کہ اخلاقی پولیس یا رومیو جولیٹ چیکنگ دستہ کے نام سے غنڈوں کی غیر منظم فوج کو اس بات کا پورا پورا حق حاصل ہے کہ اگر وہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو عوامی مقامات پر گھومتے پھرتے ہوئے یا کسی ریستوران میں بات چیت کرتے ہوئے دیکھیں تو انہیں ہراساں کریں اور زد و کوب کریں ۔ کئی مرتبہ ایسے نوجوان جوڑے حقیقی بہن بھائی، چچا زاد بھائی بہن اور ہم جماعت ساتھی نکل آتے ہیں۔ اتر پردیش میں اس طرح کے دستوں کو قانونی منظوری حاصل ہے اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی کئی ٹیمیں اخلاقی پولیس اہلکاروں کے ساتھ سرگرم عمل ہیں جبکہ اسمگلر ، چور اور ڈاکو ، منشیات فروش اور بدعنوان سمیت اصل مجرمین بے لگام گھوم رہے ہیں۔ اگر یہ ناپسندیدہ دستے اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں تو مستقبل میں والدین اپنے بچوں کے ساتھ گھر میں رہنے پر مجبور ہو جائیں گے ، اس لئے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ گروہ انہیں بد کار قرار دیں اور دوسروں کے لئے زنا بالمحرم کا الزام ناقابل برداشت ہو گا۔ اس کے علاوہ مباشرت یا انسانی تعلقات کے جسمانی پہلوؤں کو تاریک کمروں کے اندر انجام دیا جاتا ہے جہاں تک ان اخلاقی غنڈوں کی رسائی نہیں ہے اور وہ اس حقیقت سے غفلت برتنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس طرح نوجوانوں کو ناجائز طریقے سے ہراساں کیا جانا ایک سخت قابل مذمت عمل ہے کیونکہ صرف کسی شخص کے ساتھ چند یادگار لمحات بسر کرنے سے خاندانی نظام کی ساکھ تباہ نہیں ہو جائے گی۔ اسلام اور دیگر مذاہب یا آئین ہند کسی بھی گروہ یا ریاست کو ایسے مختلف لوگوں کو ہراساں کرنے کا اختیار نہیں دیتا ہے جو کہیں بیٹھ کر بات چیت کر رہے ہوں یا کسی ریستوران میں کچھ تناول کر رہے ہوں۔ اس کے بجائے قرآن زنا یا بدکاری سے متعلق الزامات کے بارے میں سخت ہدایات دیتا ہے۔ جو شخص اس کا الزام لگاتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ چار گواہوں کو پیش کرے جو اس بات کی گواہی دیں کہ ہم نے یہ عمل اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اگر جانچ میں ان میں سے کوئی ایک بھی لڑکھڑا جائے تو وہ سخت سزا کا مستحق ہوگا۔ اس طرح اسلام کی روح کا مطالبہ ہے کہ ریاست یا کسی فرد کو کسی فرد کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
علاوہ ازیں سوشل میڈیا کے ہمارے دور میں صنفی بنیاد پر روایتی علیحدگی کا تصور لغو مانا گیا ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ ایک نوجوان مرد اور عورت کی ملاقات میں سخت رکاوٹیں بھی پیدا کر دیتے ہیں تب بھی سوشل میڈیا انہیں ہر وقت رابطے میں رہنے میں مدد کرتا ہے۔ جنسی علیحدگی کے لئے قائم کئے گئے روایتی حدود بہت پہلے ہی ختم ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ، جدیدیت نے ایسے بہت سارے مواقع فراہم کر دئے ہیں کہ مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے ساتھ آسانی سے اپنے تعلقات استوار کر سکتے ہیں اور انہیں کنٹرول کرنا ناممکن ہے۔
اس کے علاوہ ہر مذہبی روایت میں محبت کو پسند کیا گیا ہے۔ اسلام اس سے الگ نہیں ہے۔ حملہ آور اور خونریز جنگجوؤں کے طور پر مسلمانوں کی دقیانوسی تصویر نے بھی بہت سے مسلمانوں کو اس حقیقت کی آگہی سے محروم کردیا ہے کہ اسلام میں تصوف محبت کی سب سے اعلیٰ ترین علامت ہے۔ ہمارے پاس یوسف زولیخا، شیرین فرہاد اور لیلا مجنون کی روایت ہے جو کہ حقیقی محبت کی ایک اعلیٰ ترین مثال ہے۔ ہم ان سرگزشتوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں جو کہ ہماری تاریخ کا حصہ ہیں۔ لہذا ہمیں محبت کا جشن منانا چاہئے کیونکہ یہ ہمیں خدا کی اعلی ترین مخلوق بناتی ہے۔ ایک جنسِ مخالف کے لئے محبت خدا کی ابدی محبت کی طرف پہلا قدم ہوسکتا ہے۔ لہذا، اگر کوئی ویلنٹائن کو محبت کے ایک دن کے طور پر مناتا ہے تو اس میں غلط کیا ہے جبکہ ہم دیگر تمام ایام میں نفرت اور تشدد کا ہی چرچا کرتے ہیں۔
اس دلیل کی بات کرنا جو محبت کو شہوت بنادیتی ہے ایک ناقص عذر ہے۔ اگر دو لوگ کسی عوامی مقام پر محبت کا اظہار کر رہے ہیں تو ہوس اس کا حصہ کیسے ہو سکتی ہے، اس لئے کہ شہوت رانی تو ایک سیاہ کمرے کے اندر بند دروازوں کے پیچھے کی جاتی ہے، کسی عوامی مقام پر نہیں؟ علاوہ ازیں کیوں محبت کا اظہار ہوس میں کیا جانا چاہئے، کیا یہ اس کی تکمیل ہے یا اس سے محبت پر فتح ملتی ہے؟ محبت پاک بھی ہو سکتی ہے جس میں ایک دوسرے کے لئے الفت ہو ، جس میں فراق کا درد ہو اور اس میں کبھی بھی کوئی جسمانی تعلق نہ ہو۔ اکثر حقیقی داستان محبت میں کوئی جسمانی یا جنسی پہلو نہیں پایا جاتا۔
اس کے علاوہ اسے ویلنٹائن ڈے یا یوم محبت یا جو بھی نام دیا جائے اس کے امکانات میں اس کی تاریخی تفصیلات میں جائے بغیر وسعت پیدا کی جا سکتی ہے۔ محبت اور اس کا اظہار صرف جوانوں کے درمیان محدود نہیں ہونا چاہئے۔ بزرگوں اور دیگر لوگوں کو بھی اس کی طلب کرنی چاہئے۔ آج جب کہ پوری دنیا تشدد، قتل، نفرت اور ظالمانہ عسکریت پسندی سے بھری ہوئی ہے، انسان کو یقینی طور پر ایک ایسے دن کی ضرورت ہے جب ہم محبت اور اس کی فصل بہاراں کا جشن منا سکیں۔ محبت ہمیں بہتر بنانے، اپنے آپ پر توجہ دینے اور دوسروں کے ساتھ خوبصورت لمحات کو فروغ دینے کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ محبت ہمارے تعاون کے ذریعہ اس دنیا کو بہتر بنانے میں ہماری مدد کرے گی کیونکہ محبت انسانی اقدار کا ہی ایک دوسرا نام ہے۔ آج جب کہ قوم پرستی، علیحدگی پسند مذہبی تعبیر اور تنگ نظر فرقہ واریت نے ہمیں اس قدر پستی میں مبتلاء کر دیا ہے کہ ہم ہر دوسرے شخص کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں، ہمیں درحقیقت اس طرز محبت کو مغربی قرار دینے کے بجائے اسے فروغ دینا چاہئے۔ محبت عالمگیر ہے اور اس کی تقسیم مشرقی بمقابلہ مغربی کے تنگ حدود میں نہیں کی جا سکتی۔
لیکن پھر ایسا کیوں ہے کہ غنڈوں کے قانونی یا غیر قانونی گروہ ویلنٹائن کے خلاف اتنے شدید مخالف بن چکے ہیں۔ میں چند وجوہات کی تلخیص یہاں کر سکتا ہوں۔ سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ اخلاقی پولیس کے گروہوں کے نزدیک محبت اور ہوس کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلاء ہیں کہ مغرب سے جو کچھ بھی آ رہا ہے وہ مذہب مخالف ہی ہے اور اس کے اندر ہمارے خاندانی، ازدواجی اور سماجی نظام کی ساکھ کو تباہ کرنے کی طاقت موجود ہے اسی لئے اس کی شدید مخالفت ضروری ہے۔ سوشل میڈیا کو وہ قبول کرتے ہیں اور تنہائی کے لمحات میں ان کی شخصیتیں مختلف ہوتی ہیں، لیکن عوامی زندگی میں اخلاقی اقدار کا حامل ہونے کا مطلب ان کے لئے غیر متعلقہ کمزور لوگوں کے انفرادی اور نجی معاملات میں دخل اندازی کرنا ہے۔
اور اس کی آخر وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ دنیا کو سیاہ اور سفید کی عینک میں دیکھتے ہیں اور ان کے نزدیک ان دونوں کے بین بین کسی اور امکان کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا، آپ یا تو دوست یا دشمن ہیں۔ اس کے علاوہ بچپن سے ہی نفرت و عداوت کے ماحول میں ان کی پرورش ہوئی ہے اور وہ ان اخلاقی اقدار کے علم بردار ہونے کے بے بنیاد تصور کے حامل بھی ہیں جس کا بظاہر مظاہرہ وہ منافقانہ طور پر کرتے ہیں۔ لہٰذا، نفرت کی تعلیم و تربیت پانے کی وجہ سے وہ کسی بھی طرح محبت کو فروغ نہیں دے سکتے ، لہذا وہ ان لوگوں کی زندگیوں سے محبت کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں جو اس کے طلبگار ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی ازدواجی زندگی بھی محبت سے خالی ہوتی ہے اور وہ صرف ایک دوسرے کی ضروریات کو پوری کرتے ہیں اور صرف افزائش نسل کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہتے ہیں۔ معاشرے کے لئے حقیقی خطرہ ان لوگوں کی جانب سے نہیں ہے جو ویلنٹائن پر محبت کا اظہار کرتے ہیں لیکن ان لوگوں کی جانب سے ہے جو نفرت اور تشدد پر یقین رکھتے ہیں اور اس کو فروغ دیتے ہیں جس کا نتیجہ بالآخر فسادات اور قتل عام کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اس لئے کہ انہیں محبت اورگوناگونئیت کا اظہارکرنے کے بجائے دوسروں سے نفرت کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔
URL for English article: http://www.newageislam.com/interfaith-dialogue/mushtaq-ul-haq-ahmad-sikander,-new-age-islam/a-different-perspective-on-valentine/d/114277
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism