مشرف عالم ذوقی
3اپریل،2018
آزادی سے صرف ایک سال قبل جب نفرتیں اپنی انتہا پر تھیں ، ملک میں فرقہ وارانہ فسادات ہورہے تھے، اردو اور ہندی کے دانشور اور ادیب آپسی کوششوں سے نفرت کی آگ بجھانے میں لگے تھے۔ یہ دور کہاں چلا گیا؟ ہندی ادیبوں میں احتجاج کی لو کچھ زیادہ ہی تیز ہے۔ مسلمان او راردو کی حمایت میں لکھنے والوں کی کمی نہیں ،لیکن ایسالگتا ہے کہ ہمارے اردو کے دانشور اور ادیبوں نے گہری نیند سے بیدار نہ ہونے کی قسم کھا رکھی ہے۔
ہندوستان کو ایک مخصوص نظر یہ کے لوگ جلانے اور جمہوری اقدار کو دفن کرنے کی سازش کررہے ہیں ۔ بہار جل رہا ہے ،مختلف صوبوں میں نفرت اپنی تمام انتہا سے آگے نکل چکی ہے۔ بہار پر نفرتوں کا سایہ کچھ زیادہ ہی گہرا ہوچکا ہے۔ کیا اقتدار انہیں راستوں کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے؟ معیشت تباہ ہوچکی ہے ، ہندوستان سے روزگار ختم ہوچکے ، بینک دیوالیہ ، مودی حکومت نے کروڑوں کروڑ کی دولت لے کر مالیہ اور نیرو مودی جیسے لوگوں کو فرار ہونے کا آسان راستہ مہیا کرایا۔ یہ وہی حکومت ہے جس نے نوٹ بندی کے دوران ہندوستان کے غریب عوام اور خانہ داری چلانے والی عورتوں کو سیاہ دھن رکھنے کا مجرم قرار دیا اور ظالموں ، قاتلوں ، مجرموں کو بے گناہ ثابت کرنے میں انصاف ،قانون، پولیس اور فوج تک کا استعمال کیا۔ سپریم کو رٹ کے چار جج انصاف کا قتل ہوتے دیکھ کر آگے بڑھے تو بہت حد تک ان کی ذمے داریوں کو کم کردیا گیا۔ یہ ہماراملک ہے ،جہاں کھلے عام الیکشن کمیشنر ،مودی اور بی جے پی کو سپورٹ کرتاہے۔ مرکزی حکومت کی حمایت میں اپنے عہدے او رمنصب کو داغدار کرتاہے۔ کرناٹک اسمبلی انتخابات کے موقع پر ڈیٹ لیک کے معاملے نے الیکشن کمشنر کو پوری طرح ننگا کردیا۔اس ملک میں ان دنوں سب کچھ بک چکا ہے ۔ الیکشن کمشنر بک گیا، میڈیا بک گیا، رویش ، ابھیسار جیسے کچھ لوگ نے ضمیر کو فروخت نہیں ہونے دیا۔ یہ پہلا ملک ہے، جہاں اسٹنگ آپریشن میں میڈیا کو فرقہ وارانہ فسادات کی فرضی رپورٹنگ کا مجرم گردانا جاتا ہے اور انصاف سو یا رہتا ہے ۔ میڈیا ہندو اور مسلمانوں میں گہری خلیج پیدا کررہا ہے اور انصاف کے مجسمے سویے پڑے ہیں ۔ امت شاہ کے بیٹے پر کوئی الزام عائد نہیں ہوتا اور جج لویا کے قتل کو دبانے کی سازش میں میڈیا اپناسارا زورلگا دیتا ہے۔
رام نومی کے موقع پر اگر رام ہوتے تو ان کے بھی آنسو نکل آتے ۔ فسطائی طاقتوں نے پورے ملک کو رام کانام لے کر جلانے کی کوشش کی۔ بہار او ربنگال کے تشدد میں کئی ہلاکتیں سامنے آئیں ۔ ہندو تنظیموں اور مودی حکومت نے قاتلوں کی ہیروں بنادیا ۔ ادھر ڈاٹا لیک کامعاملہ اٹھا ہے۔ ملک کی سلامتی خطرے میں ہے۔ آدھا خطرہ آدھا ر کارڈنے پیدا کیا ۔ ہندوستان کے چیف جسٹس دیپک مشرا مودی کے آدمی ہیں۔ انصاف کی عمارتوں پر زعفرانی پرچم لہرائے جاچکے ہیں ۔ امبیڈکر کی مورتیوں او رگاندھی کے مجسمے کو علامتی طور پر توڑا جاچکا ہے ۔ ایک دن اسی ظلم کے راستے سے امبیڈکر کے آئین کی جگہ منواسمرتی کا آئین نافذ کردیا جائے گا ۔ بچوں کی تعلیم سے کھیلا جارہا ہے۔ مرکزی حکومت تعلیم کے بجٹ کو کم کر چکی ہے۔ ہندوتوں کے رکشک کھلے عام مسلم گھروں میں داخل ہوکر اپنی بزدلی کا ننگا ناچ اس لئے دکھا رہے ہیں کہ ان کی سرپرستی مرکزی حکومت اور آر ایس ایس کررہی ہے۔ گجرات میں گھوڑے پر بیٹھنے کے جرم میں ایک دلت نوجوان قتل کردیا جاتا ہے ۔ حب الوطنی کے جرم میں ، کاس گنج کے مسلمانوں پر حملہ کیا جاتاہے۔ خالد ، پہلو خان ، پردیپ راٹھور روہت ویمولا ، اخلاق مسلسل قتل کیے جارہے ہیں ۔۔مگر ۔۔
ہندوستان زندہ ہے۔کبھی کوئی امام رشیدی کھڑا ہوتا ہے کہ میرے بیٹھے کی شہادت کو رسوا نہ کرو ، انتقام نہ لو۔ کبھی کوئی یشپال سکسینہ سامنے آتا ہے کہ میرے بیٹے کی موت پر سیاست نہ کرو ۔ اور کبھی نفرت کی خوفناک سیاست کے خلاف ایک مورچہ بنارس ہندو یونیورسٹی میں لیا جاتا ہے ۔ جہاں اردو ہندی کی ساجھی وراثت کو قائم رکھنے کے لیے ہندی کے ادیب تاریخ کی گپھاؤں سے حال او ر مستقبل کے منظر نامے پر گفتگو کرتے ہیں تو احساس ہوتا ہے، ہندوستان زندہ ہے او ر جنہیں ہم مٹھی بھر سمجھ رہے ہیں ان کی تعداد وحشی بھیڑیوں کی تعداد سے کہیں بڑی ہے۔ یہ سمینار نہیں تھا، آزادی کے بعدفسطائی طاقتوں کے خلاف اردو اور ہندی کے ادیبوں کی مشترکہ پکار اورجنگ کا اعلان تھا۔ میں نے چار برسوں میں تو کجا ، آزادی کے ستر برسوں میں کسی ایسے اردو سیمنار کی توقع نہیں کی تھی ، جہاں بغیر مصلحت کے ظلم کے خلاف اس قدر پر جوش آواز بلند کی گئی ہو۔بی ایچ یو جو ہندو تو کاگڑھ ہے ، جو مودی کا انتخابی شہر ہے ،اسی گڑھ سے بلا خوف آفتاب احمد آفاقی نے مودی حکومت کا نام لے کر ، ہندی ادیبوں کو بلا کر ساجھی وراثت کا ایسا اہتمام کیا کہ اسے اگر صور پھونکا جانا کہوں تو غلط نہیں ہوگا ۔۔ آسمان تک سچ کی آواز گونج رہی تھی اور احساس یہ تھا کہ فسطائیت کے مجرم اور قاتل اپنی اپنی قبر کی طرف بڑھ رہے ہوں ۔۔
’’ اور صور پھونکا جائے گا ، تو بے ہوش ہوجائیں گے، جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں ، مگر جسے اللہ چاہے ،پھر وہ دوبارہ پھونکا جائے گا جبھی وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہوجائیں گے ۔(الزمر :68)
اصغر وجاہت، اقبال مسعود، یعقوب یادر، خطیب رفعت اللہ ، پروفیسر چمپا سنگھ، روہنی اگروال ، سید احمد قادری، شمیم طارق ، ڈاکٹر پریتی چودھری ،شالنی ماتھر، چوتھی رام یادو، سمیر پاٹھک ،پروفیسر کاشی ناتھ سنگھ ، آشیش ترپاٹھی اور بہت سے اردو ہندی والوں نے صدالگائی کہ جمہوری کردار و اقدار پر ہونے والے ہندو تو کے حملے کے خلاف مل کر لڑیں گے ۔
کیا ہم کسی ایسے سیمنار کے بارے میں سوچ سکتے ہیں ؟ کیوں نہیں سوچ سکتے ۔ بزدلی کے تمغوں کو زندگی بنانے والے آفتاب احمد آفاقی کیوں نہیں ہوسکتے؟ کیا کسی یونیورسٹی کا پروفیسر ہونے کا مطلب یہی ہے کہ خوف کو مسلط کردیا جائے اور سچ بولنے سے شرما یا جائے ۔ میں بنارس سے دلی لوٹ آیا ، ملک ابھی بھی جل رہا ہے ،لیکن میرے حو صلے مضبوط ہیں ۔ یہاں امام رشید ی ہیں ، تو یشپال سکسینہ بھی ہیں ۔۔ آفتاب احمد آفاقی ہیں تو نوجوان ادیب آشیش ترپاٹھی اور پریتی چودھری ،پروفیسر چمپا سنگھ بھی ہیں ۔ ہم سب مل کر اپنے ہندوستان کوبچالیں گے۔
ہندوستان زندہ ہے۔۔ زندہ رہے گا۔۔
یہ ملک جیسے ہندوؤں کا ہے، اسی طرح مسلمانوں کا بھی ہے۔ 1857ء کی بغاوت میں مادر وطن ہندوستان زندہ باد کا نعرہ پہلی بار عظیم اللہ خان نے لگایا تھا ، جو اس انقلاب کی ایک مضبوط کڑی تھے۔ اس نعرے کا ترجمہ ہندی میں بھارت ماتا کی جئے ہوتا ہے۔ان معتصب شرپسندوں کو کیا معلوم کہ جس نعرے کی بنا پر ہماری صدیوں پرانی ملت کی شیرازے بکھیر نے کی کوشش کی جارہی ہے،اس کے پیچھے بھی ساجھی سنسکرتی کا ایک نمائندہ کھڑاتھا ۔ یہ یوسف مہر علی تھے جنہوں نے پہلی بار انگریزوں کو ئٹ انڈیا، انگریز و بھارت چھوڑو کا نعرہ دیا ۔ سائمن گوبیک کا نعرہ دینے والے بھی یوسف مہر علی تھے ۔ اسی دور میں زین العابدین نے جے ہند کا نعرہ دیا اور اپنے نام کے آگے سافرانی کا اضافہ کیا، جس کی کہانی بھی کم دلچسپ نہیں ۔ انقلاب زندہ باد کا نعرہ حسرت موہانی نے 1921میں دیا۔ بھگت سنگھ نے انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے یہی نعرہ لگایا تھا مولانا کو گنگا دھر تلک کا نعرہ سوتنتر تا ہمارا جنم سدھ ادھیکار ہے بہت پسند تھا ۔ سرفروشی کی تمنا کا نغمہ بسمل عظیم آبادی نے سنایا ۔ آج جو ہمارا قومی پرچم ہے، اس کاڈیزائن حیدر آباد ی خاتون ثریا طیب جی نے تیار کیا ۔ ہزاروں مثالیں گواہ ہیں کہ اردو ہندی رشتے نے اپنی شگفتگی ،تازگی او رہمہ جہتی کی بنیاد پر عالم کاری کے اس عہد میں دنیا کے ہر خطے میں اپنے نقوش چھوڑے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم مصلحت سے بلند ہو ں تو فسطائی طاقتیں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ۔
3اپریل،2018 بشکریہ : انقلاب،نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism