مشر ف عالم ذوقی
12 جولائی،2020
قرة العین حیدر پر لکھنا
آسان نہیں۔ آپ پریم چند سے لے کر اردو فکشن کے 4 ستون یعنی منٹو، بیدی، کرشن چندر
اور عصمت چغتائی پر صفحے کے صفحے سیاہ کر سکتے ہیں مگر قرة العین حیدر کے ادب پر
لکھنے اور سوچنے کے عمل میں قلم خاموش ہوجاتا ہے۔ کیوں خاموش ہوجاتا ہے، اس کا بھی
جواب ہے۔ وہ اس بات کو تسلیم کرتی تھیں کہ اردو کے نقاد انہیں سمجھ ہی نہیں پائے۔
وہ ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں اور فکشن کی سمجھ نہیں رکھتے۔ جمیل اختر کی کتاب ’انداز
بیاں اور میں‘ ایک سوال کے جواب میں کہتی ہیں۔
’دیکھئے۔ میں بقراطی، فلسفیانہ گفتگو پسند نہیں کرتی۔ ایک کریٹیو
رائٹر جب لکھنے بیٹھتا ہے تو ایک پورا کریٹیو پروسیس ہوتا ہے۔ آپ لوگ بعد میں بحث
کرتے ہیں کہ اس طرح کیوں لکھا۔ کریٹیو رائٹر کے معاملے میں آپ لوگ بہت گڑ بڑ کرتے
ہیں۔‘ افسانے اور ناول کے تعلق سے جب علم نفسیات کا ذکر آیا تو یہاں بھی اپنے غصے
پر قابو رکھنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ انہوں نے صاف لفظوں میں کہا۔ ’مجھے کیا
پتہ۔ کیا میں کسی سائیکڑک کے پاس جاؤں، تجزیہ کراؤں، پھر بتاؤں کہ کون سی
نفسیات کام کررہی ہے۔
مجھے تاریخ اور ماضی سے
دلچسپی کیوں ہے؟ اس کی نفسیات کیا ہے۔ لکھنے والے کی نفسیات کیا ہوتی ہے۔ قرة
العین حیدر پر اچھا اور برا دونوں طرح کا لکھا گیا مگر آخر تک انہوں نے نقاد کے
وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ میں اپنی بات یہیں سے شروع کرتا ہوں۔ کریٹیو رائٹر کا
اپنا ایک کریٹیو پروسیس ہوتا ہے۔ وہ اپنی مخصوص فکر اور وژن کے ساتھ ایک ایسی
کائنات میں ہوتا ہے، جس کا تجزیہ کرنا آسان نہیں۔ ان پر بے پناہ لکھا گیا۔ آج بھی
لکھا جا رہا ہے۔
ان کے ادب کو مختلف
ادوار، تقسیم ہند، ہجرت، قیام پاکستان، پاکستان سے واپسی، قیام ممبئی اور دہلی کے
ذریعہ دیکھنے کی کوشش کی گئی۔ گھریلو ماحول سے لے کر فنون لطیفہ ان کی دلچسپیوں کا
تذکرہ بھی بار بار آیا۔ شاید ہی ان کی زندگی کا کوئی ایسا پہلو ہو، جسے دیکھنے اور
سمجھنے کی کوشش نہ کی گئی ہو، اس لیے میں ان پرانی باتوں کو دہرانا مناسب نہیں
سمجھتا۔ ان کی زندگی ایک ایسے آئینہ کی مثل تھی، جہاں کچھ بھی پوشیدہ نہ تھا اور
جو پوشیدہ تھا، وہ ان کی تحریروں کے ذریعہ سامنے آتا رہا۔
مگر اس کے باوجود یہ بھی
سچ ہے کہ جیسے کسی مصور کے شاہکار کو سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔ اور ہر بار کینواس کی
آڑی ترچھی لکیروں اور رنگوں کی آمیزش سے خیال ومعنی اور فکری بصیرت کی ایک نئی
دنیا سامنے آجاتی ہے، اسی طرح یہ کہنا مشکل نہیں کہ قرة العین حیدر کی تحریروں تک
رسائی کے لیے ابھی اور انتظار کرنا ہوگا۔ یہ بات غور طلب ہے کہ نقادوں کے رویہ سے
آخر تک وہ بیزار کیوں رہیں۔ ؟ جب کہ ان ان کے نام قصیدے پڑھنے والے بھی کم نہیں
تھے اور دوسری طرف ترقی پسند اور جدیدیت کے حامی بھی، جو ان کی تحریروں کے منکر
تھے۔
میں سمجھتا ہوں عام فکشن
کی طرح قرة العین حیدرکے فکشن کو سمجھا ہی نہیں جاسکتا۔ اپنے ہم عصروں میں مختلف
ایک طلسمی شخصیت کی حامل، اور اس شخصیت پر زبردست مطالعہ کا اثر کہ ماضی، حال اور
مستقبل سب تخلیقی پروسیس کے عمل میں شعور کی روکا حصہ بن کر ایک دوسرے میں سما
جاتے۔ پھر کہاں کا ماضی، کہاں کا مستقبل اور کیسا حال، خود قرة العین حیدر کو بھی
کہاں پتہ ہوتا تھا۔ اس لیے شاہین کی پرواز کی طرح آسمانوں، لا مکانوں کی سیر کرتی
ہوئی وہ ہندوستان کے ساتھ ساتھ ایک مکمل دنیا، ایک وسیع کائنات کو بھی اپنے ساتھ
ساتھ لیے چلتی تھیں۔
بے شمار تجربات اور وسیع
مطالعہ کی بنیاد پر آپ غور کریں تو صرف آگ کا دریا کو یہ امتیاز حاصل نہیں کہ یہ
ڈھائی ہزار برسوں کا قصہ ہے، ان کی عام کہانیوں میں بھی، قصہ چاہے ایک خاندان کا
کیوں نہ ہو، لیکن یہ خاندان پھیلتے پھیلتے صدیوں کی داستان میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
اور یہ بات محض قصے کہانیوں تک محدود نہیں، کتابوں کے دیباچے، مقدمہ یا پیش لفظ
لکھتے ہوئے بھی وہ ایک ایسی فاسٹ ٹرین میں سفر کرتی ہیں، جہاں قصے، واقعات وقت کے
کسی ایک لمحہ سے جست لگا کر لا مکانوں میں گم ہو جاتے ہیں۔
دلی سلطنت بھی۔ مغلیہ
سلطنت، عہد وکٹوریہ، خلافت عثمانیہ کی تباہی۔ پندرہویں صدی کا یوروپ، ہسپانیہ،
پرتگالی، گوا، مغربی کلچر سے پارسی کلچر تک، موسیقی سے مصوری تک، کہیں روہیلہ
پٹھانوں کا ذکر، کبھی یوروپ اور لکھنؤ کی تہذیب اور طرز معاشرت پر صفحہ در صفحہ،
ترقی پسندوں اور سرخوں پر بیلاگ تبصرہ، قدیم ہندوستان سے آزاد ہندوستان تک کو
سمجھنے کی کوشش، آکسفورڈ سے کیمبرج کے ذکر کے ساتھ مشرق یوروپ اور سابق سوویت
یونین کے تذکرے۔
۔ ۔ امریکن مشتریوں، مشرق کی کلونیل، تہذیب، کیٹس، شیلے، ٹیگور کا
تذکرہ، اہل لکھنؤ اور سوزخانی کا فن، تعزیہ داری، محرم کے جلوس، مختلف شہروں کی
رام لیلا، پشاور، چٹا گانگ سے قرول باغ تک۔ ۔ ۔ مغربی پینٹنگس سے لے کر پردہ نشیں
عورتوں تک۔ ۔ ۔ ان کا قلم چھلاوہ تھا۔ رکتا ہی نہیں تھا۔ اس لیے ایک قصہ شروع ہوتے
ہوئے ہزار داستانوں میں پھیلتا چلا جاتا۔ اردو افسانوں نے قرة العین حیدر سے قبل
یہ رنگ کہاں دیکھا تھا۔
پریم چند سے لے کر منٹو،
بیدی، عصمت اور کرشن چندر کی کہانیوں کے رنگ مختلف تھے۔ ایک کہانی شروع ہوتی تھی
اور ختم ہوجاتی تھی۔ وقار عظیم سے لے کر اب تک فکشن اور افسانے کی جو تعریف گڑھی
گئی، قرة العین حیدر کی کہانیاں اس تعریف سے مختلف تھیں۔ اور اسی لیے جب ان کی
کہانیاں قاری اور نقاد کے سامنے آئیں تو حیرانیوں کے در کھلتے چلے گئے۔ موضوع،
اسلوب، رنگ وآہنگ، ماحول، فضا، کہانی بیان کرنے کا انداز سب کچھ مختلف تھا۔
اور یہ رنگ اس سے قبل کی
کہانیوں میں کبھی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ رومانی کہانیوں سے نکل کر ابھی
ابھی ہمارا فسانہ ترقی پسندی اور نئی نئی جدیدیت کی آغوش میں سمٹنے کی تیاری کر
رہا تھا، اور یہ نیا انداز جہاں سرخے بھی معتوب تھے اور جدیدیت کے استعاراتی
وعلامتی نظام سے بھی گریز کیا گیا تھا۔ اس لیے شروعات میں حملے دونوں طرف سے ہوئے
لیکن آخر اس نئے اسلوب کی مخالفت کب تک ممکن تھی۔ ناول اور کہانیوں کا ہر صفحہ یہ
اعلان کرنے کے لیے کافی تھا کہ اردو زبان میں ایک ایسی بلند و بالا شخصیت کی آمد
ہوچکی ہے، جس کی تحریر کے سامنے مغرب کے بڑے شاہکار بھی کمزور اور پھیکے لگتے ہیں۔
حاضرین ان خیالات کا اظہار بھی قرة العین حیدر کی افسانوی کائنات کے حوالے سے نقاد
حضرات بار بار کرچکے ہیں۔ پھر جو کچھ میں کہنا چاہتا ہوں، اس میں نیا کیا ہے؟ قرة
العین حیدر کے حیات وفن سے متعلق پرانی باتوں کو بار بار دہرانا کیا تضیع اوقات
نہیں؟
ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ
پرانی پرتیں ادھیڑنے سے کبھی کبھی چھن کر کوئی نئی بات سامنے آجاتی ہے۔ میں اس
سوال کو پھر سے دہراتا ہوں کہ آخر قرة العین حیدر کی تحریروں میں ایسی کون سی بات
تھی کہ ہزروں معترضین بھی پیدا ہوئے اور اس سے کہیں زیادہ قصیدے پڑھنے والے۔ کالج
کے دنوں میں جب پہلی بار ’آگ کا دریا‘ کا مطالعہ کرنا شروع کیا تو چار صفحہ سے
زیادہ پڑھنے کی خواہش نہیں ہوئی۔ کہانیاں لکھنے کی شروعات تک میں دو بار اس ناول
کے مطالعہ سے گزر چکا تھا۔
ناول کے آغاز میں ایلٹ کی
نظم نقل کی گئی اور نقاد حضرات ایلیٹ کے تصور وقت کو لے اڑے۔ پھر کسی نے پیچھے مڑ
کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ مجھے شدت سے احساس ہے کہ اس ناول میں صرف ایک ہی کردار
ہے، اور اس کردار کا نام ہے قرة العین حیدر۔ گوتم نیلام کی شکل ہو یا دو ہزار سے
زائد برسوں کی داستان کا ہر مسافر، حیات وممات اور کائنات سے وابستہ ہر فلسفے کے
پیچھے عینی بی کا ہی چہرہ ہے۔ شعور کی رو زندہ پرستان کی جن وادیوں میں بھی لے گئی
ہو، لیکن مرکز تو ہندوستان ہے۔
قدیم سے جدید تہذیبوں کے
الگ الگ دریا جس سمندر میں مل رہے تھے۔ وہ عینی کا ملک تھا۔ اور سمندر کے دھارے
میں طلسم ہوشربا، الف لیلیٰ، میجک ماؤنٹین، پنچ تنتر کی طرح ہزار کہانیاں شامل
ہوتی چلی گئی تھیں۔ یہاں ایک نکتہ اور بھی ہے، 71 سال کی عمر میں لالہ رخ کے نام
سے قرة العین حیدر کی جو پہلی کہانی ایک شام شائع ہوئی، بعد کے تمام ا فسانے اور
ناول اسی کہانی کا ایکسٹینشن تھے۔ عمر کی سیڑھیاں طئے کرتے ہوئے کثیر مطالعہ،
مشاہدہ اور تجربے سے وہ اس میں اضافہ کرتی چلی گئیں۔
12 جولائی،2020، بشکریہ: روز نامہ چٹان،سری نگر
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/qurat-ul-ain-haider-world/d/122352
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism