مشرّف عالم ذوقی
6 اپریل 2020
تبلیغی جماعت پر پابندی لگاوٹویٹر اور سوشل ویب سائٹس پر یہ ٹرینڈ چل گیا ہے . یہ سب کچھ چلتا رہے گا اگر آپ آواز بلند نہیں کرتے .تاریخ کے صفحات ٹھگوں کے غیر معمولی کارناموں سے بھرے پڑے ہیں۔ان داستانوں میں امیر علی ٹھگ جیسے ہزار ٹھگوں کے قصّے ملتے ہیں جو کمال مہارت سے لوٹ پاٹ کو انجام دیتے تھے ۔عام طور پر یہ ٹھگ دریا کنارے پڑاو لگاتے تھے ،ان کے ساتھ گورکن بھی ہوتا تھا ۔انیسویں صدی کی پہلی تین دہائیاں ان ٹھگوں کے کارناموں سے متاثر رہیں لیکن ایسا نہیں کہ ہندوستان سے ٹھگ چلے گئے،ٹھگ غضب کے اداکار ہوتے تھے ،ٹولیوں میں شکار کرتے تھے،پورے پورے قافلے کو قتل کر دیتے تھےاور عام لوگوں کی طرح ذمہ دار شہری بن کر ہمارے سماج اور معاشرے کا حصّہ تھے .بہرام ٹھگ ،امیر علی ٹھگ جیسے اان کے ہزاروں نام تھے ۔اسی طرح راجستھانی ہندو ٹھگوں کے بھی کچھ قصّے مشہور ہیں ۔کچھ اپنی عظمت کا احساس دلانے کے لئے نشانیاں بھی چھوڑ جاتے تھے۔جیسے مقتول کو لوٹنے کے بعد ایک نیلا رومال نشانی کے لئے چھوڑ دیا۔عہد جاہلیت کے یہ ٹھگ نا خواندہ اور علمی روشنی سے قطعی بے بہرا تھے ۔اپنی اصلی شناخت کو پوشیدہ رکھتے ہوئے ٹھگ اپنے کام کو عبادت سمجھ کر انجام دیتے تھے ۔ٹھگ ہندوستان سے غائب نہیں ہوئے وہ بھیس بدل کر اب سیاست میں آ گئے ہیں. میڈیا میں آ گئے ہیں اور نفرت کا کھیل عبادت کے نام پر انجام دے رہے ہیں ۔ہم ایک بار پھر عہد جاہلیت میں اچھال دیے گئے ہیں ۔رف منظرنامہ بدلا ہے .کھیل وہی بلکہ ٹھگی کا یہ کھیل وقت کے ساتھ خوفناک صورت اختیار کر چکا ہے ۔
ٹھگی وہی ہے ،ایجنڈا بدل گیا ہے .جھوٹ اور جملے بازی نے عوام سے آزادی اور جمہوریت کے خوبصورت احساس تک کو چھین لیا ہے .کچھ خوفناک چہرے ہیں اور نفرت کی نفسیات، جس کا استعمال ایک خاص مذہب والوں کو مہرہ بنا کر کیا جا رہا ہے ..چارلس ڈکینس کے ایک ناول کی یاد آتی ہے ...جو اندھا ہے ،وہ اندھا ..نہیں ہے لنگڑا ، لنگڑا نہیں ہے .. غنڈے شھدے ،موالیوں کی تعریفیں بدل گیں ۔قاتلوں کے لئے بہتر روزگار کے دروازے کھول دیے گئے ۔ ہندوستانی وراثت کو ختم کرنے والے اب تاریخ پڑھا رہے ہیں۔نصاب کی کتابوں میں جھوٹ بھر دیا گیا ۔
اب ان دونوں بیانات کا جائزہ لیجئے ۔بھارت میں کورونا پھیل نہیں رہا بلکہ پھیلایا جا رہا ہے اس کی تازہ مثال نظام الدین سے ملے چودہ سو سور ہیں۔ راہل کمار ( فیسبک)
نظام الدین میں لوگ چھپے ہوتے ہیں لیکن ماتا ویشنو دیوی مندر میں پھنسے ہوتے ہیں۔ پروفیسر خالد مبشر ( فیسبک )
پہلا بیان ارون کمار کا ہے ۔یہ نام فرضی ہے یا نہیں ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اس طرح کے بیانات بلکہ اس سے بھی زیادہ فحش بیانات مسلمانوں کے خلاف سوشل ویب سائٹ پرچھاہے ہوئے ہیں ۔ خالد مبشر نے چھپے اور پھنسے کے فرق کو ظاہر کیا ہے . یہ بات صاف تھی کہ کورونا کے دنوں میں بھی سوشل میڈیا ، گودی میڈیا کو ایک بڑی چونکانے والی مسلم مخالف خبر کی ضرورت تھی ،اور وہ انھیں آسانی سے نظام الدین کے حوالہ سے مل گئی۔ بغیر سوچے سمجھے مسلمانوں نے بھی سیکولرازم کے دروازے کو کھول دیا اور تبلیغی جماعت والوں پر برس پڑے . کیا تبلیغی جماعت میں جاہل لوگ آتے ہیں ؟ یہ نہ بھولے کہ ان میں ڈاکٹر ، انجینئر اور وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو شاہانہ منصب پر ہیں ۔ کیا ہندوستان بھر کے مندروں میں کورونا سے دہشت زدہ لوگوں نے پناہ نہیں لی ہے ؟ کیجریوال اور وزیر اعظم سروے کریں تو حقیقت آشکارا ہو جائے گی لیکن کیوں کرائیں گے سروے ؟ کیوں لیں گے جائزہ ؟
جب پہلی بار یہ خبر مجھے ملی ، اس وقت بھی میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ تبلیغی جماعت کے لوگوں سے اتنی بڑی غلطی نہیں ہو سکتی۔اب کچھ باتوں کو دیکھئے ، حکومت نے اچانک لاک داؤن کا اعلان کیا . تقسیم کے بعد سب سے بڑی ہجرت مزدوروں کی شکل میں سامنے آئی،کئی مزدور راستے میں دم توڑ گئے . یہ ہجرت ابھی بھی جاری ہے ۔وزیر اعظم نے معافی مانگ لی جو سب سے آسان کام تھا ۔ جو مر گئے ؟ جو کورونا کے وائرس اپنے ساتھ لئے جا رہے ہیں ، ان کا کیا ہوگا ؟ گاؤں کے دروازے بھی ایسے مزدوروں کے لئے بند کر دے گئے ہیں ۔ اپنے ہی ملک میں یہ پہلی ہجرت ہے اور تاریخ اس ہجرت کے لئے حکمران طبقے کو کبھی معاف نہیں کرے گی لیکن ہجرت کرنے والے مزدوروں سے میڈیا کا کوئی زیادہ تعلق نہ تھا۔ویسے بھی حکومت سے ملنے والی امداد نے میڈیا والوں کے اندر سے سکھ دکھ کو سمجھنے ، ہمدردی کے احساس ، دردمندانہ جذبات کو ختم کر دیا ہے ۔ اب ہندوستانی میڈیا کو گرم تندوری خبر کی ضرورت تھی۔ کیا نظام الدین ، تبلیغی جماعت والوں نے حقیقت میں غلطی کی تھی ؟ میں یہی سوچ رہا تھا . پھر مجھے خیال آیا کہ جب لاک داؤن کا فرمان جاری ہوا تو تبلیغی جماعت کے مرکز نے پولیس تھانے ، ایس پی ڈی ایم کو خبر کرنے کی ضرورت کیوں نہیں محسوس کی ؟. حالات نازک ہیں .یہ غلطی کیسے ہوئی ؟ پھر سارا معاملہ سامنے آیا ۔نظام الدین دہلی سے تعلق رکھنے والے تبلیغی مرکز کے مولانا یوسف نے ۲۵مارچ ۲۰۲۰کو انتظامیہ کو ایک خط لکھا تھا ، جس میں کہا گیا تھا کہ مرکز سے۱۵۰۰افرادباہر بھیج دیے گئے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے قریب ۱۰۰۰ افراد ابھی وہاں موجود ہیں اور ان کے لئے گاڑی پاس جاری کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی گاڑیوں کی فہرست بھی رکھی گئی تھی لیکن انتظامیہ نے گاڑیوں کے پاس جاری نہیں کیے۔ اس طرح یہ غلط الزام لگایا جارہا ہے کہ مرکز کمیٹی نے حکومت کے احکامات پر عمل نہیں کیا ۔
اب دوسرے سوال پر آئیے اورسمجھئے ، میڈیا اور حکومت آپ کا ساتھ کیوں دے گی ؟ ہم جس منطق اور دلائل کے ساتھ خود کو صحیح اور سیکولر اور جمہوریت نواز سمجھ رہے ہیں ، ان ہی دلیلوں کی روشنی میں میڈیا اور آر ایس ایس اور حکومت خود کو صحیح تسلیم کرتے ہوئے ہندو راشٹر کی بنیاد پر آگے بڑھ رہی ہے ۔اب ایک بات اور ،آر ایس ایس سپریمو نے کہا تھا ، نیشنلزم کے معنیٰ بدل چکے ہیں۔ ۶برس میں لبرل ازم ، سیکولرازم کے معنیٰ بھی بدل چکے ہیں .ہم جس سیکولر ہندوستان اور جمہوریت کو آئینی حقوق میں تلاش کرتے ہیں ، ان کے پاس یہ آئین منو اسمرتی کی شکل میں ہے . وہ ہندو راشٹر کے لئے سیکولرازم کے بنیادی ڈھانچے کو توڑ کر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں ۔ یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وقت کے ساتھ سیاسی پارٹیوں کےمینی فیسٹوسے بھی جمہوریت اور سیکولرزم کے الفاظ غائب ہو چکے ہیں ۔ تازہ مثال کجریوال کی ہے . اننا ہزارے کے مشن سے سیاست کی بنیاد رکھنے والے کجریوال اب وہیں پہنچ گئے جہاں وزیر داخلہ ہیں ۔ کیجریوال نے بغیر تاخیر اور وجہ جانے بغیر پولیس کو اپنی منظوری دے دی۔مسلمانوں نے بھی سوشل ویب سائٹ پر زہر اگلنا شروع کر دیا ۔ میں ذہنی طور پر تبلیغی جماعت والوں سے مطابقت نہیں رکھتا مگر اس وقت ضروری ہے کہ ہم ان کا ساتھ دیں۔ سنگھ کی ہزاروں شاخیں ہیں ، ہندو مت میں ہزاروں دیوی دیوتا ہیں۔ان کے مندر بھی پورے ہندوستان میں نظر آئیں گے۔ اچانک لاک ڈاؤن کے بعد بڑے بڑے منادر میں ہزاروں لوگ تو مل ہی جائیں گے لیکن یہ پھنسے ہوئے لوگ ہیں ۔تبلیغ والے مسلمان ہیں اس لئے چھپے ہوئے وائرس زدہ دہشت گرد ہیں۔ اور آخر میں ادب -- ہمارے ادیب ان چکروں میں نہیں آتے ۔ وہ وبا کے سنگین دنوں میں وبا پر کہانیاں ، شاعری یا ناولوں کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ گول گول گھومتے فلسفوں کے جال انہیں متاثر کرتے ہیں ۔ وہ اس بڑی دنیا سے کنارے رہنا چاہتے ہیں ، جہاں ایڈز ہے ، کینسر ہے ، کورونا ہے اور دنیا کی دوسری حقیقتیں ۔ ان حقیقتوں سے الگ وہ اب بھی ادب کی تعریف و تشریح میں الجھے ہیں اور انہیں نہیں معلوم کہ ان کی سادگی ، ان کی معصومیت پر کتنا بڑا خطرہ منڈلا رہا ہے ۔تبلیغی جماعت ہو ، ڈاکٹر کفیل یا ایسے بہت سارے ، افسوس کہ ہم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں . ایک بڑے بی مشن کو ( جس کی وضاحت میں نے مرگ انبوہ میں کی ہے ) بے حس ، بے ضرر ، معصوم مسلمانوں کی ضرورت ہے جو ان کے آلۂ کار ثابت ہو سکیں۔
6 اپریل 2020 بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/muslims-muslims-muslims-how-long/d/121504
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism