New Age Islam
Tue Dec 10 2024, 08:35 PM

Urdu Section ( 18 Dec 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Saudi-Led Islamic Anti-Terrorism Alliance سعودی قیادت والی اسلامی انسداد دہشت گردی اتحاد

 

 

 

مرات یتکین

16 دسمبر 2015

امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر نے داعش کے خلاف جنگ میں "امریکہ کے ایک عظیم تر سنی کردار کے مطالبہ کی مطابقت میں ایک نئی"سعودی قیادت والی ایک اسلامی انسداد دہشت گردی اتحاد" کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے یہ تمام باتیں پینٹاگون کے امریکی صدر براک اوباما کے سامنے اس کا ایک تصوراتی خاکہ پیش کرنے کے صرف ایک دن کے بعد ہی اس وقت منظر عام پر آئیں جب وہ 15 دسمبر کو ترکی انسریلک ہوائی اڈے پر اپنا خطاب پیش کر رہے تھے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کارٹر نے اپنے اس دورے سے چند روز قبل 9 دسمبر کو اپنی اس "خواہش" کا اظہار کیا تھا کہ سنی عرب ممالک داعش کے خلاف جنگ میں اپنا زیادہ تعاون پیش کر سکتے ہیں۔

یہ محض کوئی اتفاق نہیں ہے کہ کل کارٹر کے بیان سے بالکل پہلے ترکی نے اس بات کا اعلان کیا کہ ایک غیر عرب اور آئینی طور پر ایک سیکولر ملک ہونے کے باوجود ترکی نے بھی 34 ممالک کے اس اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایک "سنی محاذ" قائم کرنے کا خیال صرف ایسا کوئی معمولی خیال نہیں ہے کہ جو گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پیش کیا گیا ہے۔ یہ ترکی کے صدر طیب ایردگان سمیت عالمی رہنماؤں کے لیے سعودی عرب کے شاہ سلمان کی طرف سے پیش کیا گیا ایک خیال ہے جو اس سال مارچ میں ان کی تخت نشین کےموقع پرانہیں مبارکباد پیش کرنے کے لیے ریاض گئے تھے۔ 10 ممالک پر مشتمل ایک سنی محاذ کا قیام مارچ کے اختتام تک یمن میں مشترکہ کارروائی کرنے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ سلطان سلمان نے مشرق وسطی میں "ایران کی حمایت یافتہ شیعہ توسیع" کے خلاف ایک موقف کے طور سنی محاذ کی تجویز شاپیش کی ہے۔

اب سعودی عرب کی قیادت میں نئے اتحاد نے داعش کے خلاف اور بالعموم دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنا ہدف مقرر کر لیا ہے۔ یہ صرف عرب ممالک پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اس میں پاکستان، سینیگال، ملیشیاء اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں اور اس کا دعویٰ ہے کہ یہ "سنی" نوعیت کا امریکی محاذ ہے۔

اس اتحاد میں لبنان بھی شامل ہے جو کہ دنیا کی سب سے اہم شیعہ طاقت ایران کے ساتھ ایک مضبوط حزب اللہ کا مرکز ہے۔ تاہم اس میں عراق شامل نہیں ہے، جو کہ شیعوں کا ایک مضبوط مرکز ہے، جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بغداد کی رضامندی کے بغیر اس طاقت سے کیسے لڑا جائے جو کہ عراق کے تقریبا ایک تہائی حصے پر قابض ہے۔ اس سلسلے میں دوسرے بھی کئی اہم سوالات ہیں، مثلاً مصر اور ترکی اپنے در میان سفارتی تعلقات کے بغیر اس سمت میں اپنا تعاون کس طرح پیش کریں گے۔

ایسا لگتا ہے کہ "سنی محاذ" ایک مؤثر تنظیم کے بجائے صرف ایک مزید پبلک ڈپلومیسی کوشش ہے۔

لیکن اس کے علاوہ کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک سنی محاذ قائم کرنا ایک برا نظریہ ہے، مشرق وسطی کو جس چیز کی ضرورت نہیں ہے اس میں موجودہ بحران کے اس دور میں فرقہ وارانہ پہلو پر زور نہ دینا ہے۔ امریکہ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ اسے اس دنیا میں اسلام کی اندرونی فرقہ وارانہ تقسیم میں دراندازی کرنا اس کی ذمہ داری ہے؟ اور امریکہ سعودی عرب کے اہم کردار کی تعریف کیوں کرتا ہے جبکہ فی الحال داعش کے لیے وسائل کا سب سے اہم ذریعہ سعودی عرب ہی ہے ، اورجس سے وہابیت سے لیکر القاعدہ تک بہت سی بنیاد پرست تحریکیں ابھر کر سامنے آئی ہیں؟

اور کیوں انقرہ "سنی محاذ" کے ایک خطرناک خیال کا حصہ بنتا جا رہا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ وہ یہ راگ بھی الاپتا ہے کہ ترکی تمام فرقہ وارانہ اختلافات سے بالا تر ہے؟

یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ صدر اوباما داعش کے خلاف ایک مقامی، عرب کا باہمی تعاون حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اسلام کے اندر پہلے ہی موجود دھماکہ خیز فرقہ وارانہ تقسیم کے خطوط پر ایسا کرنے کی کوشش کرنے سے بڑھتی ہوئی علاقائی کشیدگی کو ختم کرنے کے امکانات نظر نہیں آتے۔

ماخذ:

goo.gl/gV0cJX

URL for this article: https://newageislam.com/islam-terrorism-jihad/saudi-led-islamic-anti-terrorism/d/105628

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/saudi-led-islamic-anti-terrorism/d/105645

New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Womens in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Womens In Arab, Islamphobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism,

 

Loading..

Loading..