منیر الدین احمد
26 فروری، 2016
قرآن کریم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر 23 برسوں میں نازل ہوا ۔ کبھی ایک آیت او رکبھی دو یا زیادہ آیات نازل ہوتی تھیں ۔ آیات اور سورتوں کی ترتیب خدا تعالیٰ کی ہدایت کےمطابق خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ۔ قرآن کریم کا نزول لفظاً لفظاً ہوا اور مستشرقین کے زعم کے مطابق یوں نہیں ہے کہ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں۔ حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ میں قرآن پاک کو حفظ کرنے کا رواج عام تھا۔ البتہ حفاظت کےخیال سے بعض صحابہ لکھ بھی لیتے تھے ۔ چنانچہ آج جو قرآن کریم ہمارے پاس ہے وہ بغیر کسی ایک شعشہ کی تبدیلی کے وہی ہے ،جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا۔
شاید مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ قرآن کریم عربی زبان کی پہلی باقاعدہ کتاب ہے لیکن اس سےکوئی صاحب یہ نتیجہ اخذ نہ کریں کہ میں قرآن کریم کی اولیت پیش کرکے اس پر انتقاد کے اصولوں میں کسی قدر نرمی کی گزارش کروں گا۔ کیونکہ قرآن کریم پہلی کتاب ہونے کے باوجود اس بات کا بھی دعوے دار ہے کہ دنیا کی کوئی کتاب اس کی ہمسری کا دم نہیں بھر سکتی ۔ چنانچہ اس نے چیلنج کیا ہے:
‘‘ اور اگر تم اس (کلام) کے بارے میں شک میں مبتلا ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ اور ( اس کام کے لئے بے شک) اللہ کےسوا اپنے (سب) حمایتیوں کو بلا لو اگر تم (اپنے شک اور انکار میں) سچے ہو۔’’( سورہ البقرہ:23)
ممکن ہے کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہوکہ ا س میں تو قرآن کریم کےمضامین اور پیشنگوئیوں اور علمی خزائن کے مقابلہ کی دعوت دی گئی ہے، فصاحت و بلاغت کے لئے دعوت دینا کہاں سے نکلتا ہے؟ میں نہایت مؤدبانہ گزارش کروں گا کہ جب کسی کتاب کے مقابل کتاب لانے کی دعوت دی جائے تو اس میں صرف ویسے مضامین کےمقابل مضامین لانے کا مفہو م ہی نہیں سمجھا جائے گا ، بلکہ یہ بھی دیکھنا ہوگاکہ یہ مضامین کسی سانچے میں ڈھال کر پیش کئے گئے ہیں ۔ کیونکہ مضامین کی بلندی اور باریکی کے ساتھ اگر ویسی زبان اور اسلوب بیان میسر نہ آئے تو کتاب کا حسن ختم ہو کے رہ جاتا ہے ۔ بلکہ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ بلند مضامین او رنکات و معارف خوبصورت اور عمدہ زبان کے سوا بیان کئے ہی نہیں جاسکتے ۔ اور قرآن کریم کی زبان کے فصیح و بلیغ ہونےکا تو ذکر خود قرآن کریم میں موجود ہے۔ سورہ یوسف آیت نمبر 2، میں فرمایا گیا : ‘‘ بے شک ہم نے اس کتاب کو قرآن کی صورت میں بزبان عربی اتارا تاکہ تم ( اسے براہ راست) سمجھ سکو’’۔
لغت میں عربی کے معنی زبان کا ہر نقص سے پاک اور خوب واضح ہونا لکھا ہے۔ دوسری جگہ پر یہ دعویٰ ان الفاظ میں آیا ہے:
‘‘اور بےشک ہم جانتے ہیں کہ وہ (کفار و مشرکین) کہتے ہیں کہ انہیں یہ (قرآن) محض کوئی آدمی ہی سکھا تاہے، جس شخص کی طرف وہ بات کو حق سے ہٹاتے ہوئے منسوب کرتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ قرآن واضح و روشن عربی زبان ( میں) ہے۔’’( سورہ النحل:103)
اس آیت میں قرآن کریم نے نہایت واضح الفاظ میں اعجاز فصاحت و بلاغت کا دعویٰ کیا ہے۔ جیسا کہ ابھی بیان کیا گیا ہے کے عربی معنوں میں انتہائی فصاحت کا مفہو م داخل ہے او راس پر اسے مبین کہہ کر اس کے کمالات فصاحت و بلاغت اور معانی کی وسعت او رتمام لسانی خوبیوں کو جمع کردیا ہے۔ گویا قرآن مجید اس امر کا مدعی ہے کہ اس کی زبان کمالات فصاحت و بلاغت سے پرُ ہے۔
قرآن کریم کو از خود پرکھنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا رد عمل معلوم کیا جائے، جو اس کے اولین مخاطب تھے ۔ قریش مکہ او رپھر عرب کے دوسرے قبیلے قرآن پاک کے سب سے پہلے مخاطب ہیں۔ ان لوگوں کو بھی اپنی زباندانی اور فصاحت و بلاغت پر جس قدر ناز تھا، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ انہوں نے غیر عربوں کا نام ہی عجمی رکھ چھوڑا تھا، گویا غیر فصیح (لفظی طور پر دیکھا جائے ، تو اس کا مطلب تھا، ایسے لوگ جو زبان کے استعمال سے عاری ہیں) ۔ ان کی نظر میں صرف عرب ہی فصیح و بلیغ قوم تھی ۔ چنانچہ اپنے حسب و نسب او ربہادری کے ساتھ ساتھ جس چیز پر وہ فخر کرتے تھے، وہ ان کی فصاحت و بلاغت تھی ۔ اس لئے وہ لوگ واقعی اس بات کا فیصلہ کرنے کے حقدار ہیں کہ قرآن کریم کی زبان کس شان کی حامل ہے۔ او رپھر اگر ان کا فیصلہ قرآن کریم کے حق میں ثابت ہوجائے تو اس کی عظمت اس وجہ سے او ربھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ لوگ مسلمان نہ تھے تاکہ کہا جاسکے کہ اعتقاد کے باعث یہ رائے دےرہےہیں ۔ اس لئے ان کی رائے کا قرآن کے حق میں ہونا قرآن کی بہت بڑی فتح ہوگی۔
عتبہ بن ربیعہ قریش کا بڑا صاحب اثر و رسوخ شخص تھا ۔ ایک مرتبہ اہل قریش نے مشورہ کیا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائے تاکہ وہ روئے پیسے کا لالچ دےکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت اسلام سےروک دے۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر اپنا مدعا عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سورہ فُصِلت کا کچھ حصہ تلاوت کر کے سنایا اور پوچھا کہ اے ابوالولید کیا اب بھی تم اپنے پرانے خیال پر جمے ہوئے ہو؟ عتبہ خاموشی سے لوٹ آیا۔ اس نے کہا : ‘‘خداکی قسم میں نے ایک ایسا کلام سناہے کہ اس جیسا آج تک نہ سنا تھا۔ بخدا یہ کلام ہر گز ہر گز نہ شعر ہے نہ کوئی جادو اورنہ کسی کاہن یا نجومی کا قول ہے۔ اے قریش تم میری بات مانو’’۔
ولید بن مغیرہ بڑا فصیح و بلیغ انسان تھا۔ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا او رکچھ سنا نے کی درخواست کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ان اللہ بامر بالعدل ’’ والی آیت سنائی ۔ ولید اس درجہ متاثر ہوا کہ دوبارہ تلاوت کرنے کی درخواست کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بار سنایا ، تو کہنے لگا: ‘‘ خداکی قسم اس کلام میں کچھ او رہی شیر ینی ہے۔ اس میں ایک نئی تازگی ہے۔ اس نخل کا اعلیٰ حصہ ثمردار ہے اور اس کا زیریں حصہ تنا ہے۔ کوئی انسان اس جیسا کلام نہیں کرسکتا ۔’’
جب ابو جہل کو اس طرح ولید کے متاثر ہونے کا علم ہوا ، تو بھاگا ہوا اس کے پاس گیا اور ماجرا پوچھا ۔ ولید نے کہا : ‘‘شعر کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ، مگر یہ شعر نہیں ہے۔ ہم کاہنوں سے بھی ناواقف نہیں ہیں۔ یہ کہانت بھی نہیں ہے اور کذب بھی نہیں ہے ، کیونکہ اس شخص نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔’’
اس پر ابوجہل نے اصرار کیاکہ تم ا س کی نسبت کوئی بات ایسی ضرور کہو کہ قریش آپ سے متنفر رہیں ۔ اس نے کہا : ‘‘ یہ تو سحر ہے جو ایک شخص کو اس کے اہل و عیال سےجدا کردیتا ہے۔’’
ولید نے قرآن کریم کے شعر نہ ہونے کا اقرار کر کے بتایا کہ یہ کلام شعر کی لطافتوں سے بھی بالا تر ہے۔ کاہن غیب گوئی کے دعوے دار تھے او ران کی پیشگوئیوں کی زبان سے سب واقف تھے ۔ ولید نے یہ کہہ کر کہ یہ کہانت نہیں ہے قرآن کریم کی اس اعجازی قوت کا اعتراف کیا ہے جو اس کی پیش گوئیوں کا ایک مقتدرانہ رنگ ہے۔ او رپھر اس کا یہ کہنا کہ یہ سحر ہے، جو ایک شخص کو اس کے اہل و عیال سےجدا کردیتا ہے ، اتنا بڑا اخراج تحسین ہے، جو شاید ہی کسی اور کتاب کو ادا کیا گیا ہو۔ قرآن واقعی انسان کو ایسا متاثر کردیتا ہے کہ اس کے بعد انسان اس کے مقابل نہ اولاد کی پروا کرتاہے او رنہ بیوی کی اور نہ مال و منال کی ۔ مگر اسے سحر کہنا درست نہیں ۔
ایک مرتبہ ایک اعرابی نے کسی سے سورہ الحجر کی آیت 94 (ترجمہ) ‘‘پس آپ وہ (باتیں) اعلانیہ کہہ ڈالیں جن کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اور آپ مشرکوں سےمنہ پھیر لیجئے ’’ سنی، تو فوراً سر بسجود ہوگیا۔ کہنے لگا : میں نے اس وقت ا س کلام کی فصاحت و بلاغت سےمتاثر ہوکر سجدہ کیا ہے۔
ان لوگوں کو محض بغض و عناد نے روک رکھا تھا ۔ ورنہ وہ قرآن کی عظمت کے قائل تھے ۔ چنانچہ اسی خوف کے باعث کہ کہیں قرآن کو سن کر مسلمان نہ ہو جائیں ، کہا کرتے تھے ، کہ قرآن کومت سنو او رجب پڑھا جارہا تو ، تو تم شور مچاؤ کہ شاید اسی طرح اس کے اثر سے بچے رہو۔
خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کا باعث قرآن کریم کی ہی آیات ہوئی تھیں۔ اور ایک آدھ واقعہ نہیں، اسی قسم کے بہت سے واقعات ہیں، جن کے بیان کی اس وقت گنجائش نہیں ہے۔
قرآن کریم کے بارےمیں یہ رد عمل ان عربوں کا تھا، جو شعر و ادب کے بادشاہ تھے ۔ وہ لوگ اپنے مخالف قبیلہ کے شاعر کے کلام کا ایک ایک لفظ پرکھتے تھے ۔ ان کے ہاں طریق یہ تھا کہ میلوں کے موقع پر شاعر اپنے قبیلہ کی بہادری ، جرأت اور فصاحت کی تعریف میں اشعار پڑھتا تھا۔ دوسرے قبائل کے نقاد اس کے ایک ایک شعر کا بہت کڑا محاسبہ کرتے تھے ۔ جو جیت جاتا تھا اس کے اشعار میلہ سے واپس جانے والے لوگ اپنے ساتھ لے جاتے تھے ۔ اور پھر چند ہی دنوں میں وہ اشعار عرب کے بچہ بچہ کی زبان پر ہوتے تھے۔
میں یہاں پر ایک واقعہ کا ذکر کروں گا تاکہ آپ کو اندازہ ہوسکے کہ یہ محاسبہ کس درجہ کڑا ہوتا تھا۔ حسان بن ثابت عکاظ کے میلہ میں یہ اشعار پڑھتے ہیں۔
لنا الجفنات الغریلمعن با لضحیٰ
واسیافنا یقطرن من نجدۃ دما
ولدنا بنی العنقاء و ابنی محرق
فاکرم بنا خالاً و اکرم بنا ابنا
دوسرے قبیلہ کی شاعرہ خنساء نے للکارا کہ تم نے ان دو شعر وں میں آٹھ جگہ پر ٹھوکر کھائی ہے۔ حسان نے پوچھا کہ وہ کون کون سےمقامات ہیں؟ خنساء نے کہا : گنتے چلو۔ تم نے کہا لنا الجفنات اور جفنات دس سے کم کو کہتے ہیں ۔ تم نے ایک ایسا لفظ رکھا ہے، جو تمہارے مطلب کو ادا نہیں کرتا۔ تمہیں الجفان کہنا چاہئے تھا تاکہ تعریف سمجھی جائے۔ پھر تم نے کہا الغر اور غرۃ صرف اس سفیدی کوکہتے ہیں ، جو پیشانی پر ہوتی ہے۔ اگر تم البیض کہتے، تو مناسب تھا، کیونکہ اس کامفہوم زیادہ وسیع ہے۔ پھر تم نے کہا ہے لمعان او رلمع اس چیز کو کہتے ہیں، جو کسی اور چیز کے بعد آئے۔ اگر تم یشرقن کہتے ، تو درست ہوتا ۔ کیونکہ اشراق، لمعان سے زیادہ دیر پا ہوتا ہے ۔ پھر تم نے کہا ہے بالضحیٰ ۔ اگر تم بالعشیۃ کہتے تو مدح کے اعتبار سے زیادہ عمدہ ہوتا۔ کیونکہ مہمان اکثر رات کو آیا کرتے ہیں۔ تم نےکہا ہے اسیافنا اور یہ دس سےکم کےلئے مستعمل ہے۔جو کسی طرح مدح نہیں کہلا سکتی ۔ تم سیفنا کہتے ، تو کوئی بات بھی ہوتی۔ تم نےکہا ہے یقطرن جو قلت قتل پر دلالت کرتا ہے۔ اگر تم یجرین کہتے، تو زیادہ مناسب تھا، کیونکہ اس میں زیادہ خون بہنے کا مفہوم ہے۔ تم نےکہا دما حالانکہ دماء کہنا چاہئے تھا، کیونکہ اس میں زیادتی پائی جاتی ہے۔ تم نے اس قبیلہ پر فخر کیا ہے، جس کے تم رشتہ دار بنتے ہو۔ حالانکہ فخر تو اپنے آباء و اجداد پرکرنا چاہئے۔
اس ایک واقعہ سےآپ اندازہ لگا سکتےہیں کہ عرب کس درجہ سخت ناقد تھے ۔ وہ ایک ایک لفظ بلکہ ایک ایک حرف پر انتقاد سے نہ چوکتے تھے ۔ اگر سارے قرآن میں ایک لفظ بھی ایسا آجاتا ، جو کسی وجہ سے فصاحت و بلاغت سےگرا ہوا ہوتا، تو عربوں کی ضدی طبیعت کے پیش نظر میں کہہ سکتا ہوں کہ عرب سارے قرآن کو محض اس ایک لفظ کی وجہ سے اٹھا کر الگ رکھ دیتے ۔ وہ لوگ زبان کی لاکھ خوبیوں کو صرف ایک غلطی پر قربان کردینے والے تھے ۔ لیکن ان کا قرآن کو سن کر کلمہ شہادت پڑھنا تو ضرور ثابت ہے ہی، البتہ یہ ثابت نہیں کہ کسی کو اس پر ادبی لحاظ سے اعتراض کی جرأت ہوئی ہو۔ آخر کیا وجہ ہے کہ عرب کے نامی گرامی شاعروں کے چراغ ا س کلام کے سامنے گل ہوگئے؟ قرآن کریم کےنزول کے وقت عرب میں ایک سےایک بلند پایہ شاعر اور خطیب موجود تھے ، جنہیں اپنی زبان دانی پرناز ، اپنی فصاحت و بلاغت پر فخر اور اپنے ذوق شعری پر غرور تھا ۔ حضرت لبید عرب کے مشہور شاعر گزرہے ہیں ۔ آپ کا ایک قصیدہ و سبعہ معلقات میں بھی شا مل ہے۔ جب آپ نے اسلام قبول کرلیا تو شعر کہنا ترک کر دیا۔ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے شعر سنانے کی فرمائش کی، تو آپ نے جواب دیا: جب خدا نے مجھے بقرہ اور آل عمران سکھائی ہے، تو اب شعر کہنا میرے لئے موزوں نہیں ہے۔ (جاری)
26 فروری، 2016 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/quran-eloquence-expression-miracle-/d/106480