New Age Islam
Mon Mar 27 2023, 01:28 PM

Urdu Section ( 10 Jun 2010, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Commercialization Of The Mushairas کاروباری ہوگئے ہیں مشاعرے

Munawwar Rana, one of the most popular Urdu poets of our times, has kicked off a controversy by saying that not a single poetess below the age of 45 is genuine, sparking protests from poets and poetesses. He also speaks about the commercialisation of the mushairas and its adverse effects on the standard of Urdu language and culture. In this informal interview in Urdu with Shabbir Shaad, Munawwar Rana speaks his heart out.

Source: Sahafat, New Delhi

URL: https://newageislam.com/urdu-section/commercialization-mushairas-/d/2979



اسٹیج پر45سال سے کم کی کوئی شاعرہ ایسی نہیں جو خود کلام کہتی ہو

معروف شاعر منور رانا سے شبیر شاد کا خصوصی انٹر ویو

منور رانا اردو ادب اور شاعر ی کی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ حالانکہ متقد مین شعرا میں ایک سے ایک تاریخ ساز شخصیت گزری ہے لیکن ہم جیسے کو تاہ بین جب معاصر تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو تاریخ ساز شاعری کے لئے اس شعر کے خالق کے سوا کوئی اور نام ذہن ودماغ میں گھر نہیں کرتا کہ ۔

رعایا تھے تو پھر حاکم کا کہنا کیوں نہیں مانا

اگر ہم شاہ تھے تو کیوں رعایا چھوڑ آئے ہیں

تاریخ ساز جیسا مشکل اور اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لئے محض اچھے اشعار کہہ لینا ہی کافی نہیں بلکہ جب موقع ہوتو وہی بات نثر میں بھی کہہ دینا اور برملا کہہ دینا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ ایسی خوبی اور ایسا وصف بہت کم صاحبان فن کے حصہ میں آیا ہے۔ معاصر شعرا میں اگر سب کا نہیں تو بیشتر کا حال اس خوبی اور اس وصف سے خالی ہے۔ بابری مسجد کی شہادت پر شعر کہہ دینا کوئی مشکل کام نہیں مشکل ہے کہ کہنا کہ جتنا ضروری بابری مسجد کی شہادت پر ماتم کرنا ہے اس سے کہیں زیادہ ضروری پنج وقتہ نماز ادائیگی ہے۔ منور رانا اگر اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہہ دیں کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد شاعر ،صدام حسین اور اسامہ کی نمائندگی کرنے لگا ہے اور یہ کہ میں نے شعرا میں وسیم بریلوی کے علاوہ کسی کو نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا ،تو بتائیے کہ ان کے علاوہ کس کو تاریخ ساز شاعر کہا جائے۔ منور رانا نے مہاجر نامہ لکھ کر دنیا ئے شاعر ی میں جو تازہ کارنامہ انجام دیا ہے اس کی ماضی قریب میں کوئی نظیر نہیں ملتی ۔اور اگر یہ کہا جائے کے منور رانا جو جادو نظم میں بکھیر تے ہیں وہی ان کی نثر میں بھی نظر آتا ہے تو بے جانہ ہوگا ۔

منور رانا سے کھل کر سوالات کیجئے تو وہ بھی کھل کر جواب دیتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ بشیر بدر کے مقابلے کا ایک بھی شاعر آج اسٹیج پر نظر نہیں آتا، بیشتر شعرا کی دوکان ہی بشیر بدر کے بعد چلی ہے۔ راحت اندوری کے بارے میں پوچھنے پر وہ کہتے ہیں کہ راحت اندوری نے چونکہ اپنی شاعری کو مشاعروں سے جوڑ دیا ہے ایسے میں ان سے اچھی شاعری کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ ان کاکہنا ہے کہ چونکہ آج پیشہ وارانہ ہوس بڑھ گئی ہے اور جب تک اسے ہم کم نہیں کریں گے ہم اچھی شاعری کی تخلیق نہیں کرسکتے ۔ وہ کہتے ہیں کہ آج اسٹیج پر ایک اصلی شاعر دیکھنے کو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔ جو اصلی شاعر ہیں انہیں موقعہ ہی نہیں ملتا ،وہ نہ تو ایڈیٹر کی خوشامد کرسکتے ہیں اور نہ ہی وہ متشاعر کی طرح کنوینر مشاعرہ کی چاپلوسی کرسکتے ہیں۔مشاعروں کے گم شدہ وقار پر رائے زنی کرتے ہوئے منور رانا کہتے ہیں کہ مشاعروں کا کھویا ہوا وقار اسی وقت واپس آسکتا ہے جب مشاعرہ کے باذوق سامعین لوٹ آئیں ۔پہلے ہمارے سامعین اور شعرا تہذیب کادامن ہاتھ سےنہیں چھوڑتے تھے لیکن اب تو سب کچھ بدل گیا ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اچھے اور کل ہند مشاعرہ میں ایک شرط رکھ دی جائے کہ ہر شاعر ایک تازہ غزل ضرور سنائے گا۔کل ہندمشاعرہ میں پانچ مقامی شعرا کو بھی ضرو ر پڑھوایا جائے۔ اس لئے کہ سال بھر مقامی شعرا ہی اس شہر میں رہ کر غزل کا ماحول بنائے رکھتے ہیں لیکن جب موقع آتا ہے تو بیرونی شعرا دولت اور شہرت لوٹ کر چلے جاتے ہیں ۔ یہ ایک طرح کا ادبی استحصال ہے اور اسے ختم ہونا چاہئے ۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ مشاعرہ کمیٹی میں شعرا کو شامل کیا جائے اور جہاں تک ہوسکے جاہل کو کنوینر شب نہ دی جائے ۔

منور رانا کی نظر میں شاعر ہ کی نظامت کافن ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد اور انور جلال پوری کےسوا کسی کو نہیں آتا۔ باقی لوگوں کو وہ صرف اناؤنسر مانتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ بشیر بدر مشاعروں کے گرتے ہوئے وقار کے سبب مشاعروں سے دور ہوگئے ہیں اس کے بعد سے تو بہت سوں کی لاٹری نکل آئی ہے ۔ بشیر بدر کی خراب عادتوں کو تو کئی شعرا نے اپنا یا لیکن ان کی اچھی شاعری کی نقل کسی نے نہیں کی۔مشاعروں میں ہاں کرنے کے بعد بھی نہ پہنچنے پر منوررانا کہتے ہیں کہ کوئی ایک شاعر ایسا بھی ہونا چاہئے جس کے پیچھے مشاعرے کا کنوینر دوڑے۔ عمدہ اور خراب شاعری پر ان کا خیال ہے کہ شاعر کا کام شعر کی تخلیق کرکے اسے عوام کی عدالت میں پیش کردینا ہے۔ شاعروہ ہے جو ایک مشاعر ہ تک نہیں بلکہ صدیوں تک زندہ رہے ۔

منوررانا کی ایک خوبی یہ ہے کہ ان کی دنیا کےبہت سے ممالک میں بلایا گیا مگر وہ بہت کم ملکوں میں گئے ۔ ان کاکہنا ہے کہ شاعری صرف دوقسم کی ہوتی ہے۔ اچھی اور بری ۔جبکہ لوگوں نے اس کی دوسری ہی قسمیں گڑھ لی ہیں جن کو مشاعروں کی شاعری او رکتابی شاعری کا نام دے دیا گیا ہے۔ مشاعروں میں چونکہ پیسہ خوب ملنے لگا ہے اس لئے شعرا کم اورکاروباری زیادہ درآئے ہیں ۔منور رانا نے ایک بات بڑے وثوق سے کہی ہے وہ یہ ہے کہ اسٹیج پر 45سال سے کم عمر کی کوئی شاعرہ ایسی نہیں جو خود کلام کہتی ہو۔ انہوں نے اس کو ستم ظریفی بتایا کہ کچھ شاعر ذریعہ ہی مشاعر وں میں مدعو کئے جارہے ہیں ۔ ایسے میں کیا خاک شاعری ہوگی۔

منوررانا نے براہ راست تو ہجرت کا کرب نہیں جھیلا ہے لیکن اپنی تازہ تخلیق مہاجر نامہ میں انہوں نے تقسیم وطن کے دوران ترک وطن کرجانے والے اپنے اعزا واقرابا کے مصائب کا اور ان کے توسط سے خود اپنے آلام ومسائل کا جو دلدوز نقشہ کھینچا ہے، اس کے آگے ہجرت کا کرب بھی پھیکا پڑ گیا ہے۔منور رانا نے یوں تو ہزار ہا روشن اشعار پر مشتمل شاعری کی ہے لیکن ‘مہاجرنامہ’ میں انہوں نے مسلسل پانچ سو اشعار کہہ کر ایک تاریخ رقم کردی ہے۔نوشاد مومن کا یہ کہنابجا ہے کہ جہاں اردو کے کئی قلم کاروں کو اپنی مٹی سے کٹ جانے اور اپنے تہذیبی سرچشموں سےمحروم ہوجانے کے احساسات کو صفحہ قرطاس پر بکھیر نے کے لئے فکشن کا محتاج ہونا پڑا وہیں منور رانا نے ہجرت کے المناک سلسلے کی پوری کہانی کودومصرعوں میں ڈھال کرنہ صرف یہ کہ غزل کے تقدس کی حفاظت کی ہے بلکہ اسےدیگر اصناف پر مقدم بھی ثابت کردیا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ مہاجر نامہ دنیا کی سب سے بڑی اجتماعی اور خون آشام ہجرت کی منظوم داستان ہے ۔ انسانی تاریخ میں برصغیر کی تقسیم محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک ایسا المیہ ہے کہ جس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتےہیں۔منوررانا کی یہ تخلیق انہی ذہنی کیفیات اور نفسیاتی احساسات کا مستند حوالہ ہے جسے ایک نئے اور بامعنی انداز میں پیش کرنے کے لئے انہیں ماضی کے کربناک لمحوں سے گزر کرنہ جانے کتنی راتیں کالی کرنی پڑیں ۔ وہ اس دوران تین بار بیمار ہوئے اور انہیں داخل ہسپتال کرانا پڑا۔

مہاجر نامہ کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں جہاں مسلسل ایک ہی موضوع پر پانچ سو اشعار کہے گئے ہیں ، وہیں اس کا دوسرا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ اس کے ہر شعر کا مصرعہ ثانی ‘چھوڑ آئے ہیں’ پر پورا ہوتا ہے ۔ یعنی انہوں نے ڈھائی سو مرتبہ  ایک ہی ردیف کا استعمال کیا ہے۔ اسی طرح انہوں نے قافیہ پیمائی کا بھی پورا خیال رکھا ہے اور شاید قافیہ کے کسی ایک لفظ کو دوبارہ استعمال نہیں کیا ہے۔ اتنی طویل نظم میں اتنی بڑی تعداد میں متنوع قوافی کا استعمال بہر حال اگر کوئی معجز ہ نہیں تو کسی کرشمہ سے کم بھی نہیں ہے۔اس دور میں جب کہ ادب سکڑ کر رہ گیا ہے اور وقت میں بے برکتی ہوگئی ہے اتنا علمی شعری ذخیرہ جمع کردینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

منور رانا ایک انسان دوست شاعر ہی نہیں بلکہ خدا کی تمام مخلوقات سے محبت کرنے والے انسان بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے یوں بھی تقسیم شدہ گھر ہو یا ملک ، دیکھا نہیں جاتا کہ پرندوں کا گھونسلہ تو ایک ہی ہوتا ہے لیکن پرندے پورے باغ کر اپنے ملک میں شامل رکھتے ہیں ۔ لیکن دوسری طرف ہم انسان تعلیم یافتہ او رمہذب ہونے اور خدا وبھگوان پر یقین رکھنے کے باوجود اس کی بنائی ہوئی زمین کو تقسیم کر کے خوش ہوتے ہیں ۔زمینوں کوبانٹنا شاید خدا کی سب سے بڑی نافرمانی ہے۔ منور رانا اپنے اسی کرب کو یوں بیان کرتے ہیں:۔

کئی درجن کبوتر تو ہمارے پاس ایسے تھے

جنہیں پہنا کے ہم چاندی کا چھلہ چھوڑ آئے ہیں

منور رانا نے صرف سرحد کے اس پار رہ جانے والوں کا درد وغم ہی نہیں سمیٹا ہے بلکہ سرحدوں کے اس پار چلے جانے والوں کہ دکھ درد کو بھی محسوس کیا ہے ۔ وہ اپنے پیاروں کو روتا بلکتا چھوڑ کر چلے جانے والوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔

ہمیں اس زندگی پر اس لئے بھی شرم آتی ہے

کہ ہم مرتے ہوئے لوگوں کو تنہا چھوڑ آئے ہیں

ہمیشہ جاگتے رہنا ہی اب اپنا مقدر ہے

ہم اپنے گھر میں سب لوگوں کو سوتا چھوڑ آئے ہیں

تیمم کے لئے مٹی بھلا کس منہ سے ہم ڈھونڈیں

کہ ہم شفاف گنگا کا کنارا چھوڑ آئے ہیں

ہندوستان میں تقسیم وطن کے بعد انسانوں ایک ایک بڑی بھاری جمعیت کو جس طرح کے طعنے ایک عرصہ تک سننے کو ملتے رہے اسی طرح کے طعنے وہاں ہجرت کر جانے والوں کو بھی حصے میں آئے ۔لیکن خدا کا شکر ہے کہ یہاں اب وہ فضا دم توڑ چکی ہے اور نئی نسلوں نے باور کر لیا ہے کہ ملک کی آزادی انہی متوالوں کی مرہون منت ہے جنہیں ایک عرصہ تک غیر ملکی کہہ کر چڑایا جاتا رہا ۔ لیکن سرحد کہ اس پار جن لٹی پٹی قوم نے یہ سوچ کر ہجرت کی تھی کہ وہاں ایک کلمہ گو باہم شیر وشکر ہوجائیں گے آج تک ‘مہاجری’کاکرب جھیلتے ہیں اور آج تک ان کے سینوں پر ‘پردیسی ’ کا لیبل چڑھا ہوا ہے۔

مہاجر کہہ کے دنیا اس لئے ہم کو ستاتی ہے

کہ ہم آتے ہوئے قبروں میں شجرہ چھوڑ آئے ہیں

تو اتنی بے رخی سے چاند ہم سے بات کرتا ہے

کہ ہم اپنی جھیل میں اک چاند اتر ا چھوڑ آئے ہیں

نئی دنیا بسالینے کی ایک کمزور چاہت میں

پرانے گھر کی دہلیزوں کو سونا چھوڑ آئے ہیں

کسی موسم میں ہم کو چین سے سونے نہیں دیتیں

وہ رشتے داریاں جن کواکیلا چھوڑ آئے ہیں

مہینوں تک تو امی نیند میں بھی بڑ بڑاتی تھیں

سکھانے کے لئے چھت پر پودینہ چھوڑ آئے ہیں

اگر ہجرت ہی کرنی تھی تو واپس ہم عرب جاتے

ذرا سا عطر لے کر مشک نافہ چھوڑ آئے ہیں

منور رانا کے فن پر کلام کرنے کےلئے انہی جیسا فن ہاتھ میں ہونا چاہئے ۔واقعہ یہ ہے کہ ان کے فن پر اگر کوئی بغرض حصول برکت کلام کرے تو شاید اپنی دستاربچالے جائے ورنہ نقدو نظر کے ارادہ کو بھی ایک ہمالیائی حوصلہ درکار ہے جو معاصر ناقدین شعر وادب میں موجود نہیں ہے۔ منور رانا نے مہاجر نامہ کو قلم کی سیاہی سے نہیں اپنے خون جگر سے لکھا ہے ۔ اور اس کا پردرد ذائقہ وہی محسوس کرسکتا ہے جو مہاجرنامہ کو از اول تا آخر ایک ہی نشست میں خود پڑھا جائے ۔یقین کامل ہے کہ منور رانا کی یہ تخلیق برصغیر ہندوپاک کے بکھر ے ہوئے خاندانوں میں پھر وہی گرمی ،وہی جوش اوروہی دردانگیز جذبہ بیدار کرنے میں کامیاب ہوگی جس کے بغیر بچھڑ ے ہوؤں کو نہ ادھر سکون میسر آتا ہے اور نہ ادھر ۔

ہمیں روتے ہوئے وہ لوگ اب بھی یاد آتے ہیں

جنہیں ہم بے سبب اور بے ارادہ چھوڑ آئے ہیں

کتاب زیست کی ترتیب اب تک نامکمل ہے

تمہارا نام تھا جس پر وہ صفحہ چھوڑ آئے ہیں

سیاست کے بنے اک جال میں ہم پھنس گئے آخر

محبت سے بنایا گھر کا نقشہ چھوڑ آئے ہیں

رعایا تھے تو پھر حاکم کاکہنا کیوں نہیں مانا

اگر ہم شاد تھے تو کیوں رعایا چھوڑ  آئے ہیں

URL for this article :

https://newageislam.com/urdu-section/commercialization-mushairas-/d/2979


Loading..

Loading..