مجاہد ندوی
3 دسمبر،2021
مہنگائی ایک ایسا لفظ ہے
جس کے متعلق جب بھی پڑھا ہے یہی پڑھا ہے کہ مہنگائی بہت بڑھ رہی ہے۔ تاریخ میں شاذ
و نادر ہی ایسا ہوا ہے کہ مہنگائی کم ہونے کے متعلق کوئی بات ملتی ہے۔دور حاضر کی
مہنگائی تو ایک ریکارڈ ساز ہے۔ جہاں پچھلے چند برسوں میں ہی روز مرہ کے استعمال کی
چیزیں کچھ تو ایسی بھی ہیں جن کی قیمتیں تقریباً دُگنی ہوگئی ہیں۔ اس ہو ش ربا
مہنگائی نے جہاں غریب طبقہ کے منہ اور نوالے کے بیچ میں فاصلے کو بڑھا دیا ہے ،
وہیں متوسط طبقہ کی کمر بھی توڑ کر رکھ دی ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ، ظاہر ی بات
ہے، اثر یہی ہوگا کہ معیشت مجموعی طور پر زوال پزیر ہوگی۔ اسے حالات کی ستم ظریفی
کہئے کہ اس ظالم مہنگائی کے دور میں کورونا ، پھر طویل لاک ڈاؤن اور اب ایک نئے
وائرس اومائیکرون کی آہٹ نے اس فقرو فاقہ اور غربت کے درد کو مزید گہرا کردیاہے۔
اس تمہید سے مراد صرف اس
دور کا ایک خاکہ یا ایک جھلک پیش کرناہے جس میں ہم جی رہے ہیں، اس لئے کہ معاشی
طور پر یہ نہایت پر آشوب اور چیلنج سے بھرا دور ہے۔ لیکن قربان جائیے اسلامی
تعلیمات پر کہ قرآن مجید اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں انسانوں کو پیش
آنے والے سارے حالات ، ساری مشکلات کا حل نہایت ہی آسان انداز میںبتلادیاگیا ہے۔
اسلام کی انہی جاوداں تعلیمات میں سے ایک ہے: قناعت پسندی۔
ویسے تو قناعت پسندی امت
مسلمہ کے لئے ہر دور میں ، ہر حال میں ایک نہایت ہی پسندیدہ اور ضروری شئے رہی ہے،
لیکن اس نئے دور میں جن معاشی مسائل نے انسانیت کے سامنے سر اٹھایا ہے ان سے نمٹنے
کے لئے قناعت پسندی اک نسخہ اکسیر ہے، ایک کیمیا گری ہے جو مہنگائی اور انسان کی
معیشت سے جڑے سارے مسائل کو تھوڑے ہی عرصے میں کافور کرسکتی ہے۔
قناعت کے لغوی معنی اکتفا
کرنا او رمطمئن ہونا ہیں۔ شرعی اصطلاح میں قناعت کی تعریف یہ ہے : اللہ عزوجل نے
بندے کو جو دیا ہے اس پر راضی ہونا پھر چاہے اور تھوڑا ہی کیوں نہ ہو، او رجو ملا
ہے اس سے زیادہ کی تمنا نہ کرنا۔ امام سیوطی ؒ قناعت کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں:
بندے کا دل زیادہ کی تمنا کررہا ہو اس صورت میں بھی وہ جو تھوڑا ملا ہے اس پر راضی
ہوجائے ، او رجو اس کو نہیں ملا ہے اس پر وہ ماتم نہ کرے اور جو ملا ہے اس سے بے
نیازی برتے۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ جہاں ایک طرف قناعت کی روشن مثال ہے، وہیں
مختلف احادیث مبارکہ انسانی زندگی میں قناعت کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔ حضرت
عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
خوش نصیب ہے وہ شخص جو اسلام لایا، اور ضرورت بھر سامان رکھتا ہے او رجو کچھ اللہ
نے اس کو دیا ہے اس پر قناعت کرتاہے۔ (مسلم شریف) اس لئے کہ قناعت کا مطلب ہی یہ
ہے کہ رزق کے معاملے میں جو ملا ہے انسان اس سے خوش رہے او رجو نہ ملا ہے اس کی
حسرت ویاس میں زندگی برباد نہ کرے۔ اس لئے کہ ہمارے معاشرے کا ایک معاشی تجزیہ
بآسانی ثابت کردے گا کہ عام طور پر آج ہمارے معاشی مسائل ضرورتوں کے متعلق کم
اور خواہشوں کے متعلق زیادہ ہیں۔ خوردنی تیل کی قیمتوں سے زیادہ لوگوں کو موبائل
ڈاٹا کی قیمتیں بڑھنے کی فکر کھا ئے جارہی ہے۔ اسلامی تعلیمات سے انسان کو ضرورتوں
کی جانب توجہ دلاتی ہیں اور خواہشات سے اس کو دور لے جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک
بڑا ہی پیارا قول کہیں مطالعے میں آیا کہ : اپنی زندگی کو ضرورتوں تک محدود رکھو،
خواہشوں تک نہ لے جاؤ ۔ اس لئے کہ ضرورتیں فقیروں کی بھی پوری ہوجاتی ہیں او
رخواہشیں بادشاہوں کی بھی ادھوری رہتی ہیں۔ آج ہم جس معاشی تنگی کا رونا روتے ہیں
اس کااہم سبب وہ بلاوجہ کے شوق ہیں جنہیں ہم نے پال رکھا ہے ، اب وہ شوق ہم پر
اتنے حاوی ہوگئے ہیں کہ معاشی طور پر انہوں نے ہمیں خسارے میں ڈال رکھا ہے۔ اس لئے
کہ انسان کی تمنائیں اور خواہشات نہ کبھی پوری ہوئی تھیں نہ ہوں گی۔
انسان کی اس فطرت کو واضح
کرنے کے لئے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیاری سی حدیث ہی کافی ہے کہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: اگر انسان کو ایک سونے کی وادی مل جائے تو
وہ چاہے گا کہ اس کو دو وادیاں مل جائیں ۔ اس کاپیٹ صرف قبر کی مٹی ہی بھرسکتی ہے
(یعنی جب موت آجائے گی تبھی اس کی خواہشات ختم ہوں گی) ۔ اسی بنیاد پر ہم کہہ
سکتے ہیں کہ انسان خواہشات کا مجموعہ ہے اور اس بے تحاشہ مہنگائی او رمعاشی مسائل
کی ایک اہم وجہ ہماری بلا وجہ کی خواہشات ہی ہیں۔ مثال کے طور پر آج کے دور کاایک
عام انسان خود کچھ بھی کھالے گا،پھٹا پرانا پہن لے گا لیکن اپنے بچوں کی ہر خواہش
وہ پوری کرے گا۔ یہ عین فطری بات بھی ہے۔ لیکن اس کا فائدہ بازار میں کچھ اس طرح
اٹھا یا جاتا ہے کہ آج بڑوں کے مقابلے میں بچوں کی ہر چیز مہنگی دستیاب ہوتی
ہے۔اس لئے کہ استحصال کرنے والے انسان کی نفسیات اورا س کی خواہشات کو جانتے ہیں،
پرکھتے ہیں اورا س کے مطابق اپنا لائحہ عمل بناتے ہیں۔
اسی طرح ہر جگہ انسانی
خواہشات کومدنظر رکھ بازار کے بھاؤ اٹھائے او رگرائے جاتے ہیں۔ معاشی افراتفری کے
اس عالم میں ایک عام انسان ہے کہ معیشت کے بوجھ تلے دبا جاتاہے جب کہ اسلام نے
نہایت ہی آسان حل اس کو بتا دیا ہے کہ انسان کے پاس جو ہے ، جتنا ہے اور جیسا ہے
اس پر ہی قناعت کرجائے۔اردو زبان کا نہایت ہی خوبصورت محاورہ اس نکتہ کو نہایت ہی
آسان انداز میں واضح کرسکتا ہے:چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا ۔ بس یہی چادر دیکھ کر
پاؤ ں پھیلانے کا عمل آج ہمارے بے تحاشہ پھلتے پھولتے معاشی مسائل کا حل ثابت
ہوسکتا ہے۔ معاشی مسائل کی بات کرتے ہوئے یہ بات یاد رکھنا بھی اہم ہے کہ قرآن
مجید میں اللہ عزوجل نے مال و اسباب کے متعلق ایک بات بڑی سخت تنبیہ کے ساتھ ارشاد
فرمائی کہ: بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔ اس سے یہ تو واضح ہوہی
جاتاہے کہ فضول خرچی کس قدر بڑا گناہ ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ فضول خرچی اور
اسراف ہماری دنیا وی معاشی زندگی کو بھی گھن کی طرح کھا رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ
معاشی حالات کا رخ بھی چیخ چیخ کر اعلان کررہا کہ من حیث القوم ہم ہوش کے ناخن
لیں، فضول خرچی اور اسراف سے کنارہ کشی اختیار کریں، آنے والے کل کے متعلق بھی
سوچیں، اس لئے کہ اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وارثین کو فقیر
ونادار چھوڑنے کے بدلے مالدار چھوڑنے کی ترغیب بھی دی ہے او راسی طرح آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے اس فقرسے ان الفاظ میں بھی متنبہ فرمایا ہے کہ : کچھ تعجب نہیں کہ
فقر کفر تک پہنچا دے۔
لیکن ہم لوگ ہیں کہ ایک
ہی رخ پر سو چنے کے عادی ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اسلامی تعلیمات کو دیکھیں اور ان پر
عمل کریں۔ اس لئے کہ آنے والے وقتوں کے لئے قبل از وقت تیاری کرنا ہی دنیا کی
زندہ قوموں کی نشانی ہوتی ہے۔ جو مردہ ہیں وہ سننے سمجھنے او رعمل کرنے سے عاری
ہیں ، ان پر آنسو بہا کر کیا فائدہ۔
3 دسمبر،2021 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism