مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
25 ستمبر، 2014
ایسے محسوس ہونے لگا ہے کہ پاکستان کی ریاست تیزی کے ساتھ شورش زدہ ریاست کا روپ دھار رہی ہے۔سیاسی بے چینی اپنے عروج پر ہے اور مذہبی انتہا پسندی کا زور ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا۔مذکورہ شورشیں ایک طرح سے متوازی سفر طے کرنے میں مصروف ہیں۔وزیراعظم اور اُن کی جماعت کا کہنا ہے کہ رواں سیاسی شورش خاص اہمیت کی حامل نہیں اور اس کی طرف توجہ دینا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے جب کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف متعدد بار یہ اعلان کر چکے ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی کی علامت طالبان اور اُن کے ساتھیوں کو وزیرستان سے کھدیڑ دیا گیا ہے اور فوج اِن کا پورے ملک میں پیچھا کرے گی۔پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی سے منسلک حساسیت کا یہ عالم ہے کہ کسی وقت بھی کوئی شہر یا قریہ مکمل طور پر اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے ،جس کی تازہ ترین مثال رواں ہفتے راولپنڈی میں ہونے والی فرقہ وارانہ ہلاکت ہے جس کے بعد مشتعل ہجوم قابو سے باہر ہے اور ایک امام بارگاہ سمیت کئی دوسری عمارتیں جلادی گئی ہیں۔واضح رہے کہ فرقہ وارانہ حوالے سے پہچان رکھنے والے معروف مدرسے تعلیم القرآن کے نائب مہتمم کو قتل کردیا گیا تھا جس کے بعد شہر پر فرقہ پرستوں کی عمل داری قائم ہے۔مقامی انتظامیہ نے تمام خبروں کو روک دیا ہے کیوں کہ اس نوعیت کی خبروں سے ملک بھر میں پھیلے فرقہ پرست اور انتہا پسند فائدہ اُٹھا سکتے ہیں ۔پاکستان کی سول حکومت کے سربراہ اور پاکستان کی افواج کے سپریم کمانڈر کے مذکورہ بالا بیانات و اعلانات کی روشنی میں دیکھا جائے تو سب کچھ ٹھیک ہے یا بہتری کی طرف مائل ہے لیکن اگر اِن اعلانات و بیانات سے قطع نظر کرکے زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے سوالات اُبھر کر سامنے آتے ہیں ۔
مثال کے طور پر کچھ عرصے سے جاری فوجی آپریشن ضرب عضب کے بارے میں جو اطلاعات قومی سطح پر سامنے آتی ہیں اُن کا واحد منبع پاکستان کی فوج کا اطلاعاتی شعبہ ہے۔اس ادارے کے جاری کردہ اعدادوشمار کی رو سے اگر دیکھا جائے تو شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے مراکز کا تقریباً مکمل صفایا کیا جاچکا ہے اور در بدر پھرتے مسلح دہشت گردوں کو تلاش کرکے تلف کرنے کا کام جاری ہے۔ضرب عضب پر ملک کے اندر سے نہیں بلکہ باہر سے سوالات اُٹھائے گئے ہیں اور امریکہ یہ کہہ چکا ہے کہ آپریشن اپنے تمام اہداف حاصل کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکا جبکہ امریکہ کا خیال ہے کہ ضرب عضب حقانی نیٹ ورک کے خلاف موثر نہیں،بعض مبصرین بھی اسی خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ ضرب عضب ’’منتخب شدہ‘‘ اہداف کی نیت سے شروع کیا گیا ہے جس میں بعض ایسے خطرناک گروہوں سے صرف نظر کیا گیا ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ ہیں۔اُمید کی جاسکتی ہے کہ پاک فوج اِن تحفظات کو دور کرنے میں کامیاب رہے گی اور ضرب عضب کے بارے میں پھیلائی جانے والی غلط معلومات کے اثر کو زائل کردے گی کیوں کہ آپریشن شروع ہونے سے پہلے جس قسم کے دہشت گردانہ ردعمل کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا، وہ خوش قسمتی سے سامنے نہیں آیا اور فوج ٹھیک نشانوں پر ضرب لگانے میں کامیاب ہوئی ہے۔دہشت گردی کے اکا دکا واقعات کو کسی بڑے ردعمل کے کا شاخسانہ قرار نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ اس سے پہلے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ردعمل کے طور پر جس قسم کے واقعات رونما ہوئے اُن کی نوعیت مختلف تھی۔
البتہ اس قسم کی عارضی ’’صفائی‘‘ کو ابھی سے حتمی قرار دینا حالات کے تناظر میں عجلت محسوس ہوتا ہے کیوں کہ دہشت گردوں کا ماضی بتاتا ہے کہ وہ ایک جگہ سے اُٹھ جانے کے بعد دوبارہ اُسی جگہ اپنے قدم مضبوط کرنے میں بھی کامیاب رہے اور نئی جگہوں کی تلاش میں بھی اُنہیں کسی خاص دُشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ریاست کے لیے اصل مسئلہ دہشت گردوں کے ممکنہ مقامات کے امکان کا مکمل خاتمہ ہے جو کسی مخصوص علاقے میں دہشت گردوں کے خلاف وقتی کامیابی کو مستقل فتح میں تبدیل کرسکتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ ایسی مستقل کامیابی کے لیے درکار فضاء ابھی تک موجود نہیں کیوں کہ داخلی و خارجی حالات کے پیش نظر انتہا پسندی کی کسی صورت کو قبول کرنے کی اہلیت ابھی تک اپنا وجود رکھتی ہے جب کہ فرقہ وارانہ کشیدگی اور علاقائی کشمکش جیسے عناصر بھی اس میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔
دوسری طرف سیاسی شورش اپنا سر اُٹھا چکی ہے اور اس سوال کا جواب مشکل ہے کہ پاکستان میں سیاسی صورت حال ہموار رہے گی۔سیاسی و نیم سیاسی قوتیں اسلام آباد میں اپنی قوت کے مظاہرے میں مصروف ہیں۔عمران خان جزوی طور پر کامیاب نظر آنے لگے ہیں کیوں کہ وہ چالیس روز سے جاری اپنے دھرنے کو نئی اور متحرک شکل دینے میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں، جس کا مظاہرہ اُنہوں نے رواں ہفتے کراچی میں ایک بڑا اجتماع کرکے کیا ہے۔عمران خان اگلے راونڈ میں لاہور میں سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے والے ہیں جب کہ میڈیا تسلسل سے جاری دھرنوں میں در آنے والے پھیکے پن کو کراچی کے بڑے اجتماع سے حاصل ہونے والی قوت اور ہلچل میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ایک بار عمران خان کی کامیابی اور حکومت کی ناکامی کو دیوار پر لکھنے کی کوشش جاری ہے۔شاہراہ دستور پر دھرنے کا ایک گوشہ پاکستان عوامی تحریک اور منہاج القرآن کے پاس ہے ۔مثالی نظم و ضبط اور تنظیمی فعالیت کے حامل دھرنا دینے والے لوگ اپنے روحانی و مذہبی قائد ڈاکٹر طاہر القادری کی خطیبانہ گرفت میں ہیں۔ڈاکٹر طاہر القادری مکالماتی موقع پرستی اورسیاسی طاقت کے حصول کی خواہش کا ایک عجیب مغلوبہ ہیں جن سے صرف نظر آسان نہیں۔مالی و تنظیمی معاملات میں اَنہیں خاص مہارت حاصل ہے جب کہ اِن کے کارکنوں میں نظر آنے والی عقیدت اِنہیں پسپا ہونے سے باز کھتی ہے۔طاہر القادری کے پاس لاہور میں منہاج القرآن کے مرکزی دفتر پر ہوئے ہنگامے میں پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے چودہ افراد کی موت کا ہتھیار ہے جس کو وہ اب تک کامیابی سے استعمال کرچکے ہیں۔
اِن حالات میں جب کہ داعش کے پمفلٹ اور لٹریچر بھی پاکستان میں تقسیم ہونے لگا ہے اور فرقہ پرستوں کے سامنے بند باندھ دینا ممکن نظر نہیں آتا، پشاور میں طالبان گروہوں کے خودکش حملے شروع ہوچکے ہیں،ریاست کی نقاہت بہت واضح ہے۔منقسم اورسیاسی و مسلکی حوالے سے بٹی ہوئی انتظامیہ اور صوبائی عدم تعاون مرکزی حکومت کے مسائل میں بہت زیادہ اضافہ کررہا ہے۔اگر خدانخواستہ طالبان گروہ منظم ہوکر حملے شروع کردیتے ہیں تو پاکستان کی مشکلات میں مہلک اضافہ ہوتا جائے گا اور کشیدگی کو پھیلنے سے روکنا مزید ناممکن ہوجائے گا۔کراچی کی حالت بہت مخدوش ہے کیوں کہ مقامی انتظامیہ ہر قسم کے نشانہ باز قاتلوں کو روک دینے میں ناکام ہوچکی ہے۔ فرقہ وارانہ قتل و غارت اور اقلیتوں پر حملے جاری ہیں تازہ ترین اطلاعات کے مطابق میر پور خاص میں ایک احمدی ڈاکٹر کو قتل کردیا گیا ہے جبکہ شہر میں احمدیوں کے قتل کی چند ماہ میں یہ دوسری واردات ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ جن قسم کے سیاسی و انتظامی معمول کی خوشخبری سنائی جارہی ہے وہ کب تک قائم رہتی ہے اور ممکنہ شورش کس وقت تک تھمی رہتی ہے؟
مجاہد حسین ، برسیلس (Brussels) میں نیو ایج اسلام کے بیرو چیف ہیں ۔ وہ حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’ سمیت نو کتابوں کے مصنف ہیں۔ تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/will-state-remain-safe-case/d/99251