مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
4 جولائی، 2014
پاکستان عوامی تحریک کے قائد نے اعلان کیا ہے کہ انقلاب محض چند ہفتوں کی دوری پر ہے اور عوامی انقلابی کونسل قائم کردی گئی ہے۔اُن کا لہجہ بہت زیادہ تلخ اور غصہ سے بھرپور تھا جس میں وہ جذبات کی رو میں بہتے ہوئے پولیس اور دیگر محکموں کے افسران کو کتا بھی کہہ گئے۔
اس میں شک نہیں کہ علامہ طاہر القادری کی جماعت کے ارکان کو قتل کیا گیا ہے اور ایک بظاہر انتظامی معاملے کو سلجھانے کے لیے پُرتشدد طریقہ اختیار کیا گیا جس کے بعد عوامی تحریک کی قیادت غصے میں ہے اور اس کے قائد اس غصے کو ’’انقلاب‘‘ میں بدل دینا چاہتے ہیں۔دوسری طرف عمران خان بھی اپنے انقلاب کے لیے اسلام آباد میں اجتماع کی کال دے چکے ہیں،اگرچہ علامہ طاہر القادری نے اپنے انقلاب کے لیے عمران خان کے سونامی کی مدد کو خارج ازامکان قرار دیدیا ہے لیکن علامہ صاحب کا یہ کہنا دراصل عمران خان کے انقلاب سے اپنی علیحدگی کا اقرار ہے جبکہ عمران خان بھی علامہ قادری کے انقلاب کے ساتھ کسی قسم کے اشتراک کے امکان کو رد کرچکے ہیں۔علامہ طاہر القادری اور عمران خان یقینی طور پر الگ الگ طرز سیاست کے عادی ہیں اور عمران خان پاکستانی کی پارلیمانی جمہوریت میں خاصی کامیابی حاصل کرچکے ہیں اور ایک صوبے میں اِن کی جماعت اقتدار میں ہے جب کہ قومی اسمبلی میں بھی عمران خان کی جماعت کو بڑی نمایندگی حاصل ہے۔طاہر القادری کے پاس ایسی کوئی قوت نہیں اور نہ ہی کسی منتخب پارلیمنٹ میں اِن کی جماعت کو کوئی نمایندگی حاصل ہے۔ایک عام خیال یہ ہے کہ طاہر القادری اور عمران خان کو پاکستان کی روایتی فیصلہ کن طاقت یعنی فوج کی طرف سے خاموش حمایت حاصل ہے اور فوج محض یہ دیکھ رہی ہے کہ دونوں میں سے کون موجودہ حکومت کے لیے مشکل پیدا کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔عمران خان چودہ اگست کو سونامی اجتماع کا اسلام آباد میں اعلان کرچکے ہیں جب کہ طاہر القادری چند ہفتوں میں انقلاب کی نوید سنا رہے ہیں۔
اسلام آباد جس کو اگرچہ ملکی دارلخلافے کی حیثیت سے جانا جاتا ہے،حکومتوں کے بننے ٹوٹنے اور سازشوں کی تیاری میں بھی اس کا اہم کردار ہے۔اسلام آباد میں اِن دنوں یہ تاثر عام ہے کہ میاں نواز شریف کی حکومت سخت امتحان کی زد میں آنے والی ہے کیوں کہ اس کے کم از کم دو سخت مخالف دھڑے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک حکومت کو ہر صورت میں ختم کردینے کے درپے ہیں۔ایسی خبریں بھی عام ہیں کہ مقتدر جماعت کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیز ہوچکا ہے اور وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان عملی طور پر حکومتی عہدے سے علیحدہ ہونے کے بہت قریب ہیں۔اِنہیں منانے کے لیے پنجاب کے وزیراعلی اور اِن کے بہت قریب سمجھے جانے والے میاں شہباز شریف روزانہ لاہور سے اسلام آباد جاتے ہیں لیکن ابھی تک کامیاب نہیں پائے۔چوہدری نثار علی خان کی ناراضگی کے ضمن میں بہت سی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں لیکن ابھی تک ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے جاسکے کہ کیوں وہ ایک اہم ترین عہدئے پر موجود ہوتے ہوئے اپنی سیاسی قیادت سے ناراض ہیں۔ جس بات پر تمام مبصرین کا تفاق ہے وہ یہ ہے کہ چوہدری نثار علی شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن پر کچھ تحفظات رکھتے تھے،جن کو سنا نہیں گیا جب کہ اس سے پہلے وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کے کچھ ارکان سے بھی ناخوش تھے لیکن میاں نواز شریف نے اُن کے تحفظات کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی، یوں یہ کشیدگی بڑھتی گئی اور پھر چوہدری نثار علی خان عملی طور پر اپنے گھر بیٹھ گئے۔اب چوہدری نثار علی اپنے منصب پر واپس آکر دوبارہ وزیرداخلہ کے طور پر کام شروع کرتے ہیں کہ نہیں،اس کے بارے میں ابھی سے کچھ نہیں کہا جاسکتا، لیکن یہ ضرور ہے کہ اس کشیدگی سے حکومت مخالف قوتیں مزید تقویت حاصل کررہی ہیں۔
دوسری طرف ایک مختلف قسم کا انقلاب آئی ایس پی آر کے سابق ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس نے برپا کردیا ہے جس کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بھی چوہدری نثار مارے مارے پھر رہے ہیں۔جنرل اطہر عباس نے اپنے ہی سابق چیف پر ڈرون حملہ کردیا ہے۔اطہر عباس کی بیان کردہ کہانی میں مزید رنگ بھرنے کے لیے سوشل میڈیا اور دوسرے ذرائع پر خوب محنت ہورہی ہے اورایسے ایسے انکشافات سامنے آنے لگے ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے۔سابق فوجی سربراہ پر واضح ترین الزام یہ ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے معاملے پر شدید تذبذب کا شکار تھے اور آخر کار اُنہوں نے یہی فیصلہ کیا کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں اس قسم کے کسی آپریشن سے اجتناب کریں گے۔اطہر عباس کا دعوی ہے کہ اگر اُس وقت آرمی چیف ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہ کرتے اور فوج جو اس قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے بالکل تیار تھی، اُس کو شمالی وزیرستان میں آپریشن کا حکم جاری کردیا جاتا تو جس قسم کے حالات بعد میں پیدا ہوئے اُن سے بچا جاسکتا تھا۔اُن کا کہنا یہ ہے کہ تین سال کے عرصے میں جتنا نقصان پاکستانی ریاست اور سیکورٹی فورسز کو اُٹھانا پڑا ہے ،اس سے بچا جاسکتا تھا لیکن محض ایک فرد کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا۔
یہ ایک گھمبیر الزام ہے اور ظاہر ہے الزام لگانے والا بھی کوئی عام فرد نہیں بلکہ ایک اہم عہدے پر موجود رہ چکا ہے۔بعض خود ساختہ ’’احتیاط پسند‘‘ اس الزام کے بعد سیخ پا ہیں اور اُن کا خیال یہ ہے کہ سابق جنرل نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے اور ایک ایسے وقت میں اس قسم کا الزام لگایا ہے جب پاکستان کی افواج دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں اور اس طرح کی الزام تراشیوں سے اُن کے مورال میں فرق پڑ سکتا ہے۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ سابق جنرل کا انکشاف بھی ایک سابق عہدیدار کے بارے میں جس کا موجودہ فوجی قیادت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی موجودہ فوجی کارروائی کے بارے میں اس الزام میں کچھ کہا گیا ہے، تو یہ کہنا کسی حد تک محض قیاس آرائی ہے کہ اس الزام کے بعد سیکورٹی فورسز کے مورال کا مسئلہ ہوگا۔اصل میں ہم سابقین کے ادوار کو بھی مکمل طور پر ڈھانپ دینے کے عادی ہیں اور ایسی غلطیوں کو بھی سامنے نہیں لانا چاہتے جو مستقبل کے لیے ایک راہ عمل متعین کریں تاکہ آئندہ ایسی غلطیوں سے بچا جاسکے۔یہ ایک عجیب و غریب قسم کی ’’پیشگی حُب‘‘ ہے جس کی تیاری ہم بہت اہتمام کے ساتھ کرتے ہیں کہ کہیں کوئی ناراض نہ ہوجائے اور اگر ایسا ہوگیا تو ملکی سلامتی کے لیے مسائل پیدا ہوجائیں گے۔مثال کے طور پر اطہر عباس کوئی عام آدمی نہیں ہے اور وہ کئی عشرے تک پاکستان کی فوج کا ایک اہم عہدیدار رہا ہے، یقینی طور پر ہم اطہر عباس سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن اگر وہ کچھ کہہ رہے ہیں تو ہم کو وہ بھی سننا چاہیے کہ کیوں وہ اس طرح کہنے پر مجبور ہوئے۔غلطی سابق آرمی چیف پرویز کیانی ہی نہیں کرسکتا جنرل اطہر عباس کے اندازے بھی غلط ہوسکتے ہیں لیکن ہم کو اطراف کا نقطہ نظر جاننا چاہیے تاکہ اصل صورت حال سامنے آسکے۔میرے خیال میں اطہر عباس نے اپنے بیان میں شمالی وزیرستان میں آپریشن میں تاخیر کی نشاندہی کی ہے اس کے علاوہ اُن کے بیان میں کہیں کوئی سازش پنہاں نہیں اور نہ ہی یہ کوئی ایسا بیان ہے جو ہماری سیکورٹی فورسز کی موجودہ صورت حال پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔
مجاہد حسین ، برسیلس (Brussels) میں نیو ایج اسلام کے بیرو چیف ہیں ۔ وہ حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’ سمیت نو کتابوں کے مصنف ہیں۔ تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/the-season-revolutions-pakistan-/d/97881