مجاہد
حسین، نیو ایج اسلام
جماعت
الدعوہ کے امیر حافظ محمد سعید اورایک دوسرے اہم عہدیدار عبدالرحمن مکی کی تلاش کے
لیے امریکی انتظامیہ کی طرف سے انعامی رقوم کے اعلان کے بعد پاکستان میں اس اقدام کا
سخت ردعمل سامنے آنے کی توقع ہے کیوں کہ دفاع پاکستان کونسل نے احتجاجی مظاہرے کرنے
کا اعلان کیا ہے۔حافظ سعید اور عبدالرحمن مکی امریکہ کو مطلوب دیگر ملزمان کی طرح روپوش
نہیں ہیں بلکہ دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم سے ملک بھر میں پوری طرح متحرک ہیں۔بظاہر
ایسے محسوس ہوتا ہے کہ نیٹو کی معطل شدہ سپلائی لائن سے نالاں امریکی انتظامیہ نے اپنے
غصے کے اظہار کے ساتھ ساتھ بھارتی حکومت کی تکالیف میں کسی قدر کمی کرنے کی کوشش کی
ہے اور پاکستانی ریاست کے ذمہ داروں کو ایک سخت پیغام دیا ہے۔ایبٹ آباد میں اُسامہ
بن لادن کو تلاش کرکے ہلاک کرنے کے بعد حافظ سعید اور اُن کے قریبی عزیز عبدالرحمن
مکی کی تلاش میں مدد فراہم کرنے والوں کے لیے انعامی رقم مختص کرنے کے کاامریکی اقدام
پاکستان کی ریاست کے ساتھ ممکنہ تلخ تعلقات کی پیشگی اطلاع کی طرح ہے۔حافظ سعید برملا
یہ کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں لشکر طیبہ کا کوئی وجود نہیں اور وہ فلاح انسانیت
فاؤنڈیشن نام کی ایک تیزی سے پروان چڑھتی ہوئی فلاحی تنظیم کے ساتھ منسلک ہیں جس نے
بہت تھوڑے عرصے میں ملک بھر میں سینکڑوں تعلیمی ادارے اور فلاحی مراکز قائم کیے ہیں
جن میں ہسپتال اور ابتدائی طبی مراکز سے لے کر پنجاب کی جیلوں میں قیدیوں کے لیے دواخانے
اور تربیتی مراکز تک شامل ہیں۔
کالعدم
لشکر طیبہ کے سابق امیر حافظ سعید اور اُن کے ماموں زاد اور برادر نسبتی عبدالرحمن
مکی( واضح رہے کہ عبدالرحمن مکی ممتاز اہل حدیث عالم مولانا عبداللہ بہاولپوری کے صاحبزادے
ہیں اور حافظ سعید مولانا بہاولپوری کے بھانجے اور داماد بھی ہیں)پاکستان کے مختلف
شہروں میں دفاع پاکستان کونسل کے تحت جلسے جلوسوں میں مصروف ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ
جماعت الدعوہ کی منعقد کردہ تقریبات میں شرکت کررہے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’لشکر
طیبہ‘‘ کے نام سے کوئی جہادی تنظیم اس وقت پاکستان کے اندر نہ تومتحرک ہے اور نہ ہی
ملک کے درودیوار پر لشکر طیبہ کے جہادی کارناموں کی کوئی جھلک ملتی ہے، لیکن لشکر طیبہ
کے ساتھ جڑے نظریات اور نعروں کو آج بھی پوری قوت کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ اگر محض
جنوبی پنجاب کے شہروں ملتان ،بہاول پور،بہاول نگر،ڈیرہ غازی خان،لیہ، مظفر گڑھ، خانیوال
یا لودھراں سے کسی دوسرے شہر کی طرف سڑک کے ذریعے سفر شروع کیا جائے تو راستے کے دونوں
طرف دیواروں پر واضح طور پر لکھا نظر آتا ہے کہ ’’جہادیوں کو بھارت،امریکہ اور اسرائیل
کو شکست دینے کے لیے کس قدر امداد کی ضرورت ہے ۔بعض جگہوں پر ہندوؤں سے نفرت کو اُبھارنے
کے لیے بہت سے جذباتی نعرے نظر آتے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ ہندؤوں سے بیزاری کا
اظہار اسلام میں کس قدر پسندیدہ عمل ہے۔اگر کوئی سچا مسلمان بننا چاہتا ہے تو اُس کو
ہر صورت میں ہندوؤں سے شدید نفرت کرنا پڑے گی۔یہ مطالبات اب لشکر طیبہ کی بجائے جماعت
الدعوہ کے پلٹ فارم سے سامنے آتے ہیں اور جماعت الدعوہ پوری قوت کے ساتھ وہی طرز اختیار
کیے ہوئے ہے جو کالعدم لشکر طیبہ نے کچھ عرصہ پہلے اختیار کی تھی۔ظاہر ہے پاکستان میں
قانون کی نظر میں جماعت الدعوہ کی وہ تعریف موجود نہیں جو لشکر طیبہ کی ہے اس لیے اُس
وقت تک ایسا طرز اختیار کرنا شاید جماعت الدعوہ کے لیے پریشان کن نہیں جب تک اُسے بھی
کالعدم کی ذیل میں نہیں رکھ لیا جاتا۔
نیٹو
حملوں اور خاص طور پر ڈرون حملوں کے خلاف سخت ترین مؤقف کے حامل پاکستانی عوام کی اکثریت
کی نظر میں جماعت الدعوہ کے امیر جناب حافظ سعید کی گرفتاری پر انعام مقرر کرنے کا
امریکی فیصلہ پاکستان کے خلاف گھناؤنی سازش ہے اور امریکہ اب اُن تمام مذہبی رہنماؤں
کو راستے سے ہٹانا چاہتا ہے جو خطے میں اس کی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔اس میں بھی
شک نہیں کہ نیٹو کی سپلائی لائن کی معطلی کے حق میں سب سے جاندار آواز پاکستان کے مذہبی
گروہوں کی ہے جو دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم سے متحد ہیں۔بھارت میں بھی اس امریکی
فیصلے کے بعد جشن جاری ہے لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حافظ سعید کو واقعی
گرفتار کر لیا جائے گا جنہیں پاکستان کی عدالتیں بے گناہ قرار دے چکی ہیں؟ اس فیصلے
کے مضمرات کیا ہوں گے اور کیا اگلے انتخابات میں پاکستان کی مذہبی جماعتیں ایک مرتبہ
پھر ایسا اتحاد تشکیل دینے میں کامیا ب ہوجائیں گی جو ایم ایم اے کی یاد تازہ کردے؟جہاں
تک ممبئی حملوں میں حافظ سعید کی سابقہ تنظیم لشکر طیبہ کے ملوث ہونے کا تعلق ہے تو
اس حوالے سے کہیں ابہام نہیں کیوں کہ ممبئی حملوں کے واحد زندہ کردار اجمل قصاب نے
واضح طور پر اعتراف جرم کیا ہے کہ اُس کا تعلق لشکر طیبہ سے ہے اور تمام حملہ آوروں
کو لشکر طیبہ کے مراکز میں تربیت دی گئی۔اگر لشکر طیبہ کی پاکستان سے باہر سرگرمیوں
کے حوالے سے کی فرد جرم کا تیار کرنا مقصود ہوتو جماعت الدعوہ کے سابقہ ترجمان رسالے
’’مجلہ الدعوہ‘‘ اور موجودہ رسالے .’’الحرمین‘‘ کا ریکارڈ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے جس
میں واضح طور پر وہ تمام اعداوشمار وضاحت کے ساتھ دئیے گئے ہیں کہ کس طرح لشکر کے جنگجوؤں
نے دوسرے ملک کی سیکورٹی فورسز اور عام لوگوں کو نشانہ بنایا۔
اگر
جذباتی ہونے کی بجائے دستیاب حقائق اور اعداد وشمار کو مدنظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا
ہے کہ جناب حافظ سعید دنیا کے کئی متنازعہ خطوں میں مسلح جدوجہد کے پُرزور حامی رہے
ہیں اور اس مقصد کے لیے اُن کے خطابات اور تحریروں کو سامنے رکھا جاسکتا ہے۔لیکن اگر
ہم اس سارے قصے کو موجودہ علاقائی اختلافات اور بین الاقوامی تناظر میں پاکستان کے
خلاف تیار کیے جانے والے یکطرفہ مقدمے کے ایک جزو کے طور پر دیکھ رہے ہیں تو پھر اس
فیصلے کے بعد سامنے آنے والے اجتماعی ردعمل کو جواز دیا جاسکتا ہے۔لیکن اصل مسئلہ ریاست
کی اندرونی صورت حال اور اس کا بیرونی تاثر ہے جس کی مرمت مشکل سے مشکل ہوتی جارہی
ہے اور ہم جذباتی انداز میں اپنے لیے ایک بین الاقوامی تنہائی کی چادر بُن رہے ہیں۔اب
دیکھنا یہ ہے کہ ریاست انفرادی اور منہ زور کرداروں کے بارے میں کیا رویہ اختیار کرتی
ہے؟
حال
ہی میں "پنجابی طالبان" سمیت نو کتابوں کے مصنف، مجاہد حسین اب نیو ایج اسلام
کے لئے ایک باقاعدہ کالم لکھیں گے۔ تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت
سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود
، ایک ملک کے اس کے ابتداء کے مختصر وقت گزرنے کے بعد سے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق
موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی
سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد
حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر
جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حیسن، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا
ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL: