مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
31 مئی 2014
قبائلی علاقوں میں سیکورٹی اہلکاروں پر حملوں میں شدت آرہی ہے اور امکان یہی ہے کہ آنے والے دنوں میں اس نوعیت کے حملے بڑھ جائیں گے کیوں کہ طالبان دھڑوں میں جاری کش مکش اور گروہ در گروہ بٹے ہوئے شدت پسندوں کی شناخت کا مسئلہ پیدا ہونے لگا ہے۔سادہ نظر سے دیکھیں تو دشمن میں اس طرح کی پھوٹ سود مند تصور کی جاتی ہے لیکن طالبان شدت پسندوں کے معاملے میں اس نوعیت کی پھوٹ پاکستانی سکیورٹی فورسز کے لیے مزید پیچیدگیوں کی حامل ہے۔دوسری طرف ابھی تک جو حقائق ہمارے سامنے آئے ہیں اُن کے مطابق تحریک طالبان پاکستان سے الگ ہوجانے والے کئی گروہ، جن کے بارے میں یہ بھی تصور کیا جاتا تھا کہ وہ پاکستان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں،رفتہ رفتہ اپنی اہمیت اور طاقت کھو بیٹھے اور یا تو اِنہیں دوبارہ تحریک طالبان کے مرکز کی طرف پلٹنا پڑا یا پھر اِن کی تنظیمی اہلیت ختم ہوگئی اور اُس کی افرادی قوت پھر واپس اُس مرکز کے ساتھ جا کر مل گئی جس سے وہ الگ ہوئی تھی۔اس صورت حال کی اصل وجہ تحریک طالبان پاکستان پر غیر ملکی شدت پسندوں کا غلبہ ہے جو عام شدت پسندوں سے بالکل الگ سوچ کے حامل ہیں اور ریاست پاکستان کے بارے میں اِن کے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں۔ اُن کی اکثریت افغان جنگ کے دور سے برسر پیکار ہے اور القاعدہ کے ساتھ اُن کی روابط بہت گہرے ہیں۔مقامی سطح پر بھی اُن کی رشتہ داریاں موجود ہیں لیکن اُن کی اصل طاقت اپنے اپنے ممالک میں متمول اور مخیر افراد اور تنظیمیں ہیں، جو اُنہیں جہاد کے لیے فنڈز فراہم کرتی ہیں اور اُن کی مقامی طور پر تکریم موجود رہتی ہے۔چوں کہ ایسے غیر ملکی شدت پسند اپنے گروہ کے لیے مالی امداد کا بندوبست کرتے ہیں اس لیے اِنہیں گروہ کے اندر ایک خاص مقام حاصل ہوجاتا ہے۔
مثال کے طور پر تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حافظ گل بہادر گروپ نے حکومت کے ساتھ امن معاہدہ ختم کرکے مقامی لوگوں کو شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کا مشورہ دیا ہے اور گل بہادر گروپ کی طرف سے علاقے میں تقسیم کیے گئے پمفلٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حکومت دس جون سے شمالی وزیرستان میں ایک بڑے آپریشن کا آغاز کررہی ہے، اس لیے مقامی لوگ ایسے علاقوں کی طرف نقل مکانی کریں جہاں سے افغانستان میں ہجرت کرنا آسان ہو۔گل بہادر گروپ میں غیر ملکی خصوصاً اُزبک جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے اور اس گروپ کو خدشہ لاحق ہے کہ ممکنہ آپریشن میں اس کو زیادہ نقصان پہنچے گا۔گل بہادر گروپ کے بارے میں عمومی طور پر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ وہ محسود گروپوں کی نسبت زیادہ لچکدار ہے اور اس کے ساتھ معاملہ کرنا دیگر گروپوں کی نسبت آسان ہے۔اب گل بہادر گروپ کی طرف سے اس طرح کے اعلان کے بعد یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شمالی وزیرستان میں حالات کس رخ کی طرف جارہے ہیں۔اگر حکومت یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ وہ وزیرستان میں فیصلہ کن آپریشن کرے گی تو اس کے بعد جو حالات جنم لیں گے وہ پہلے کی نسبت زیادہ کٹھن اور مشکل ہوں گے کیوں کہ وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں میں سیکورٹی اداروں کے بارے منفی پراپیگنڈہ پوری قوت کے ساتھ جاری ہے۔
دوسری طرف ایسی اطلاعات بھی عام ہیں کہ بعض فرقہ پرست گروہ بھی سیکورٹی اداروں کے خلاف صف بندی کررہے ہیں اور پنجاب حکومت کے ساتھ عرصے سے چلا آرہا غیر تحریری معاہدہ بھی ختم ہوچکا ہے کیوں کہ فرقہ پرست گروہوں کا خیال ہے کہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت اِن کے مفادات کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور اُنہیں دیوار کے ساتھ لگایا جارہا ہے۔فرقہ پرست گروہوں کا قبائلی چہرہ پنجابی طالبان پہلے ہی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کے بعد طالبان گروہوں میں اپنی اہمیت کھو چکا ہے اور اس کو قبائلی علاقوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔اگر موجودہ کشیدگی جاری رہتی ہے تو پنجابی طالبان بھی حکومت مخالف گروہوں کی طرف دوبارہ پلٹ سکتے ہیں، جس کے باعث وزیرستان میں ممکنہ آپریشن میں حکومت مخالف گروہوں کی طاقت بڑھ جائے گی ۔اس صورت میں پنجاب کو خصوصی طور پر نقصان کا خدشہ ہے کیوں کہ پنجابی طالبان کی فرقہ وارانہ جنگجوئی کی اہلیت پنجاب میں مخالف فرقوں کے خلاف استعمال ہوگی۔
اس سارے معاملے میں حکومت اور سیکورٹی اداروں کی پوزیشن پہلے سے کہیں زیادہ مستحکم نظر آتی ہے کیوں کہ حکومت کی طرف سے مذاکرات کی کوششوں اور شدت پسندوں کی ہٹ دھرمی کو واضح طور پر دیکھا گیا ہے، بعض ایسے مواقع بھی آئے جب حکومت کو حد سے زیادہ لچک اور سہولیات دینے جیسے الزامات کا سامنا کرنا پڑا لیکن حکومت کی طرف سے اس حوالے سے ثابت قدمی ایک سراہا جانے والا اقدام ہے، جس کی بدولت شدت پسندوں کی عام حمایت میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ خود شدت پسندوں کے درمیان پھوٹ پڑنے والی جنگ نے بھی اُن کی طاقت کو بہت زیادہ زک پہنچائی ہے، جو ریاست کے لیے سود مند ہے۔عام لوگ جو یہ سمجھ رہے تھے کہ ڈرون حملوں کے ردعمل میں شدت پسندوں کی کارروائیاں کسی حد تک جواز کی حامل ہیں،ڈرون حملوں کی بندش کے بعد یہ نقطہ نظر پس پشت چلا گیا ہے اور اس دوران جب حکومت مذاکرات کے لیے تگ ودو کررہی تھی شدت پسندوں کے سیکورٹی اداروں پر حملوں نے بھی عام پاکستانی کے تصور کو تبدیل کیا ہے ۔اس دوران سیکورٹی فورسز کی طرف سے فضائی حملوں نے بھی موثر کردار ادا کیا ہے اور نہ صرف شدت پسندوں کو ایک سخت پیغام دیا ہے بلکہ ریاست کی بالادستی کے تصور کو مزید توانا کیا ہے۔
مذکورہ بالا صورت حال کے تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ شدت پسند ملک کے شہروں اور حساس مقامات کو نشانہ بنانے کی کوشش کریں گے۔کراچی، کوئٹہ،پشاور، اسلام آباد اور لاہور خاص طور پر اس حوالے سے حساس ترین مقامات کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہاں پر شدت پسند حملے کرنے کی کوشش کریں گے، جن کے سدباب کے لیے کہیں زیادہ سخت حفاظتی انتظامات کی ضرورت ہے۔پنجاب میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو قابو کرنے کے لیے مزید کوششوں کی گنجائش موجود ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مسلم لیگ نواز کے ایک رکن صوبائی اسمبلی رانا جمیل حسن کو نامعلوم افراد نے اغواء کرلیا ہے اور ان کی رہائی کے لیے تاوان کا مطالبہ بھی پیش کیا ہے۔اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوسکتا ہے اور امکان یہی ہے کہ ارکان اسمبلی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد کو نشانہ بنانے کی بھی کوشش کی جائے گی۔اس طرح کی وارداتوں کا مقصد حکومت کو وزیرستان میں آپریشن شروع کرنے سے روکنا ہے اور بعید نہیں کہ پنجاب میں دوبارہ بم دھماکوں کو سلسلہ شروع ہوجائے۔ایسی ہی صورت حال کراچی اور ملک کے دوسرے اہم شہروں میں بھی ہوسکتی ہے لیکن یہ ایک اسیا موقع ہے جس کو کسی صورت ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ شدت پسند نہ صرف آپس میں بٹے ہوئے ہیں بلکہ اِن کی حمایت میں بھی واضح ترین کمی آچکی ہے۔اگر حکومت اور سیکورٹی ادارے اس موقع کو بہتر انداز میں استعمال کرتے ہیں تو ملک کو شدت پسندی کے ناسور سے چھٹکارا حاصل ہوسکتا ہے اور پاکستان امن کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرسکتا ہے۔
مجاہد حسین ، برسیلس (Brussels) میں نیو ایج اسلام کے بیرو چیف ہیں ۔ وہ حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’ سمیت نو کتابوں کے مصنف ہیں۔ تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/rising-hopes-end-extremism-/d/87292