مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
19اپریل، 2014
طالبان کے ساتھ مذاکرات تقریباً معطل ہیں اورامکان یہی ہے کہ طالبان کے ذیلی گروہ اس موقع پر استعمال ہوں گے اور ایک نئی صورت حال ہمارے سامنے ہوگی۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جنگ بندی اب مکمل جنگ میں بدل جائے گی اور حالات پہلے جیسی صورت حال اختیار کرجائیں گے۔اگر دیکھا جائے تو حالات مکمل طور پر پہلے بھی تبدیل نہیں تھے محض ایک خودساختہ بسرام تھا جس کوفریقین نے اپنے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے جب کہ ذرائع یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہر کوئی اپنی اپنی جگہ نہ صرف احساس فتح مندی میں مبتلا ہے بلکہ اپنی پوزیشن کو پہلے سے زیادہ مستحکم اور بہتر سمجھتا ہے۔حکومت کا خیال ہے کہ وہ آخر کار منہ زور طالبان اور القاعدہ کے ملغوبے کو پاکستانی قبائلی علاقوں میں محدود کردینے میں کامیاب ہوئی ہے اور مذاکرات کا موجودہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو ایک نہ ایک دن یہ باہم مفاد کی خاطر متحد ہوئے جنگجو گروہ بکھر جائیں گے اور ایک ایسا موقع بھی آئے گا جب اِن کو الگ اور کمزور کرکے حتمی شکست سے دوچار کردیا جائے گا۔
دوسری طرف بھی توقعات اور احساسات کچھ اسی قسم کے ہیں اور جنگجو گروہوں کو یقین ہے کہ ریاست اُن کے مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی اور اُن کی طاقت رفتہ رفتہ قبائلی علاقہ جات سے نکل کر شہری آبادیوں میں منتقل ہوجائے گی اور یوں وہ اپنے مقصد کے قریب سے قریب تر ہوتے جائیں گے۔یہ ایک ایسی کش مکش ہے جس کو کسی ایک معینہ وقت تک محدود کردینا ممکن نہیں رہا اور اگر دیکھا جائے تو یہی سب سے بڑی کامیابی ہے جو قبائلی و شہری علاقوں میں طاقت پذیر جنگجو گروہوں کو حاصل ہوئی ہے۔اِن گروہوں کی اثر پذیری کو نہ صرف دیکھا جاسکتا ہے بلکہ اس کے اثرات بھی پاکستانی سماج پر واضح طور پر محسوس کیے جاتے ہیں۔
اگر طالبان ترجمان اور اُن کے دیگر ابلاغیاتی ذرائع کو بغور سنا جائے اور باریک بینی سے موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل عیاں ہوتی ہے کہ حالیہ مذاکرات اور خاص طور پر طرز مذاکرات جنگجو گروہوں کے لیے ایک نئی زندگی لے کر آئی ہے جس میں نہ صرف اُن کے موقف کو ایک باقاعدہ تسلیم شدہ قوت کے موقف کا سا درجہ حاصل ہوا ہے بلکہ بعض اقدامات سے اُن کے حوصلے کئی منزلہ بلند ہوگئے ہیں اور وہ جس تیقن اور اعتماد کے ساتھ اپنے موقف کو پیش کرتے ہیں، اس سے پہلے وہ حوصلہ و طاقت اُنہیں میسر نہیں تھی ۔اور خاص طور پر یہ احساس کہ اُن کی بات کو نہ صرف سنا جاتا ہے بلکہ وہ اپنا اثر بھی رکھتی ہے ،پاکستان میں جنگجو گروہوں کی ایک نفسیاتی کامیابی ہے، جس کو پوری طرح سمجھنا شاید معذرت کے ساتھ فوری فائدے کے لیے سودے بازی میں طاق ہمارے سول حکمرانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔
ہمارے ہاں محض لفظ مذاکرات سے فطری طور پرجڑی صلح جوئی اور مثبت پن کو ہی کامیابی کی پہلی باقاعدہ دلیل مان لیا جاتا ہے لیکن مذاکرات کہیں بھی ہوں اور کسی بھی مسئلے پر ہوں اُن کے لیے دوطرفہ اہلیت ایک بہت بنیادی شرط کی سی حیثیت رکھتی ہے۔جب آپ فریق ثانی کو اپنے مد مقابل لے آتے ہیں تو آپ کی اپنی حیثیت بھی اُسی کے درجہ کے قریب قریب پہنچ جاتی ہے اور دوطرفہ مطالبات اور پیش کشیں ایک دوسرے کے وزن کا تعین کرتی ہیں۔جہاں تک حالیہ تعطل شدہ مذاکرات میں فریقین کی حیثیتوں کا تعلق ہے تو معاملہ کہیں بھی بالادستی یا زیردستی کا نہیں بلکہ بعض اوقات طاقت کا واضح جھکاو جنگجوؤں کی طرف نظر آتا ہے۔مثال کے طور پر طالبان نے جزوی جنگ بندی کے دوران بھی اپنے بعض قیدیوں کو کامیابی سے رہا کروالیا ہے اور بدلے میں اپنی قید میں موجود غیر عسکری پاکستانیوں کو رہا کرنا تو درکنار اِن کے بارے میں مکمل معلومات بھی مذاکرات کاروں کو فراہم نہیں کیں۔ بلکہ جنگجوؤں نے یقینی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا متشدد دباؤ قائم رکھنے کے لیے ایک دوسرے محاذ کو آسانی کے ساتھ کھول دیا۔اُنہوں نے اپنی متشدد ترین خیالات و اقدامات سے لیس ویب سائٹ شروع کردی اور ریاست کے سیکورٹی اداروں کے بارے میں زہر پھیلانے کا سلسلہ پوری قوت کے ساتھ شروع کردیا۔
اس میں شک نہیں کہ سلامتی کونسل کمیٹی کا حالیہ اجلاس ایک مثبت پیش رفت ہے اور ایک جاندار پیغام بھی جس کے ذریعے جنگجوؤں کو یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ جس اندرونی تضاد کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے وہ اگر تھا بھی تو اب اس کی صورت مختلف ہے۔حکومت اور سیکورٹی ادارے ایک ہی سمت دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں اوربعض قوتوں کا پھیلایا ہوا ابہام اصل میں کچھ خاص قابل توجہ نہیں۔یہ ایک ایسا موقع ہے کہ حکومت کو کوشش کرکے ابہام پھیلانے کے تمام ممکنہ ذرائع کا تدارک کرنا چاہیے کیوں کہ سابقہ دو تین ماہ کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ حکومت کی طرف سے یا تو مکمل تیاری نہیں تھی، یا پھر عجلت میں ایڈہاک بنیادوں پر اقدامات اُٹھائے گئے یا کہیں نہ کہیں اہلیت کا مہلک فقدان ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ساری مصیبت میں زیادہ نقصان ریاست اور اس کے اداروں کا ہے جبکہ دوسری طرف نقصان کو ابدی فائدے کا نام دیدیا گیا ہے اس لیے وہ نقصان بھی فریق مخالف کے لیے اجر و ثواب کا درجہ رکھتا ہے۔فریق مخالف اگر معصوم ریاستی شہریوں کو مارے تب بھی وہ اس کو اجر وثواب کی نظر سے دیکھتا ہے اور اگر ریاستی سیکورٹی اداروں کو نقصان پہنچائے تب بھی ثواب ہی اس کے کھاتے میں جمع ہوتا ہے۔اس لیے ایسے دشمن سے لڑنے کے لیے جس اہلیت اور سمجھداری کی ضرورت ہے اس کو اپنایا جائے ناکہ محض تذبذب کا شکار ہوکر فریق مخالف کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا جائے۔
حکومت جس بنیادی فریضے سے ابھی تک کسی مصلحت کے تحت اجتناب برتتی رہی ہے، اب اس کو اس حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ بہر حال جنتے ذرائع ریاست اور حکومت کے پاس ہیں اُتنے ذرائع اس سے برسر پیکار گروہوں کے پاس نہیں۔بنیادی طور پر حکومت کو ایک ایسی جامع پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے جو اس کے اور ریاست کے شہریوں کے درمیان رابطے کو مزید سیدھا اور تیز بنائے۔حکومتی ارکان اگر ریاست کو لاحق مہلک مسائل کے حوالے سے عوامی ذہن سازی کا کام نہیں کرسکتے تو اِنہیں کس کام کے لیے منتخب کیا گیا ہے؟ اگر اُن کے پاس اس قسم کی اہلیت نہیں تو اس کا متبادل سامنے لایا جائے جو ریاست کے مفادات سے ریاستی عوام کو آگاہ کرے اور عوامی سطح پر ذہن سازی کا کام کرے۔کیوں ذرائع ابلاغ پر ریاستی بالادستی اور ریاستی قوانین کی اہمیت کو اُجاگر نہیں کیا جاتا؟ یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ ریاست دشمن مسلح جنگجو کیا چاہتے ہیں اور اگر اُن کی بات مان لی جائے تو ہماری ریاست اور ہمارے سماج کا کیا بنے گا؟کیوں یہ نہیں بتایا جاتا کہ مسلح متشدد مذہبی جنگجوؤں کا فکری ماخذ کیا ہے اور وہ کس قسم کے حالات ریاست کے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں؟اُن کی نظر میں ایک عام مسلمان کی کیا حیثیت ہے اور وہ اگر طاقت میں ہوں گے تو اقلیتوں کے ساتھ کس قسم کا رویہ اختیار کریں گے؟ کیا یہ سب کچھ عوام کو بتانے کے لیے مزید قربانیوں اور ابتلاء کی ضرورت ہے؟یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ اب تک اِن مسلح جنگجوؤں نے کتنے معصوم پاکستانیوں کے گلے کاٹے ہیں، اُن متاثرہ خاندانوں کا آج کیا حال ہے جو اِن کی بربریت کا شکار ہوئے؟
مجاہد حسین ، برسیلس (Brussels) میں نیو ایج اسلام کے بیرو چیف ہیں ۔ وہ حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’ سمیت نو کتابوں کے مصنف ہیں۔ تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/pakistan-this-national-silence-/d/66625