مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
11مئی، 2012
تازہ ترین خبر یہ ہے کہ اعلیٰ
سطح کے ایک خصوصی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ دفاع پاکستان کونسل کے جلسوں کے
لیے بڑے شہروں میں اجازت نہیں دی جائے گی کیوں کہ دفاع پاکستان کونسل کے قائدین پاکستان
کے خارجی مسائل میں اضافے کی باعث بن رہے ہیں۔ جماعت الدعوہ جو عملی طور پر دفاع پاکستان
کونسل کے جلسوں کے تمام تر انتظامات کی ذمہ دار ہے ،اس کے امیر حافظ سعید کے تندوتیز
بیانات اور بیرونی دنیا کے بارے میں متشدد نقطہ نظرکے باعث پاکستان کو خارجہ محاذ پر
خفت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پاکستانی ہیئت مقتدرہ دفاع پاکستان
کونسل کو اندرونی و بیرونی محاذوں پر استعمال کررہی تھی اور جہاں ملک کے اندر سیاسی
جماعتوں کو اس کے ذریعے پیغام دیا جاتا تھا وہاں بھارت،امریکہ اور یورپی ممالک کو بھی
اس کونسل کے ذریعے سخت قسم کے پیغامات دئیے جارہے تھے۔ طاقت ور ادارے نہیں چاہتے کہ
دفاع پاکستان کونسل کو غیر مؤثر کیا جائے جب کہ وزارت خارجہ کی طرف سے واضح طور پر
بتا دیا گیا ہے کہ اگر دفاع پاکستان کونسل اِسی طرح متشدد رویے کا مظاہرہ کرتی رہی
تو نہ صرف پاکستان کے خارجہ تعلقات بُری طرح متاثر ہوں گے بلکہ پاکستان کے معاشی مفادات
کو بھی شدید دھچکا پہنچے گا۔
ظاہر ہے سہمی ہوئی اور گھیراؤ
زدہ سول حکومت ایک مرتبہ پھر جی ایچ کیو کی طرف دیکھے گی اور فوجی قیادت سے التجا آمیز
لہجے میں سوال کیا جائے گا کہ ملکی مذہبی جماعتوں کے اس متشدد الخیال اجتماع کی خفیہ
سرپرستی سے اجتناب کیسے برتا جاسکتا ہے؟ جواب میں ملکی سلامتی اور سرحدوں کے دفاع کی
مقدس ذمہ داری جیسے پُرپیچ الفاظ کی مدد سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ دفاع
پاکستان کونسل کی آواز قوم کی آواز ہے ۔ حالاں کہ دیکھا جائے تو قوم کی آواز پیپلز
پارٹی،مسلم لیگ نواز،مسلم لیگ قائد،ایم کیو ایم اور اے این پی ہیں۔حمید گل،حافظ سعید،منور
حسن،سمیع الحق،شیخ رشید،ایس ایم ظفر اور اعجازالحق کسی صورت بھی قومی نمایندگی کا دعویٰ
نہیں کرسکتے کیوں کہ اِن میں سے زیادہ تر پچھلے کئی انتخابات میں شرمناک شکست کھا چکے
ہیں۔ کئی ایک ایسے ہیں جنہوں نے پاکستان میں انقلاب لانے کا نعرہ لگایا ،اپنی الگ سیاسی
جماعتیں بنائیں لیکن سوائے اُن کے کوئی دوسرا اُن کی سیاسی جماعت کا رکن نہ بنا۔ مایوس
اور متذبذب افراد کے اس اجتماع کے پاس سوائے اس کے کچھ نہیں کہ پاکستان کی ریاست کو
خطرات سے دوچار کردیا جائے۔ المیہ یہ ہے کہ آج اس اجتماع کو بعض ریاستی ادارے مدد فراہم
کررہے ہیں تاکہ سول حکومت کو زچ کیا جائے اور متوقع انتخابات میں اپنی مرضی کے نتائج
حاصل کیے جائیں۔ یہ ادارے اس بات سے بے خبر ہیں کہ اس طرح کے متشدد الخیال اجتماعات
کو اگر کھل کھیلنے کا موقع دیا گیا تو خطرات میں گھری ریاست کا کیا بنے گا۔ مذہبی و
مسلکی تشدد کی پرچارک اِن جماعتوں کے ہاتھوں پاکستان کی کیا درگت بنے گی اور سب سے
بڑھ کر ریاست پاکستان کو کس قسم کے بیرونی محاذوں پر اُلجھنا پڑے گا؟
دفاع پاکستان کونسل کی قیادت
اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان کی روایتی انتخابی سیاست میں اُس کی جگہ نہیں ہے اور
وہ اپنے مسلح اور تربیت یافتہ مجاہدین اور فدائین کے ذریعے آسانی کے ساتھ اقتدار حاصل
نہیں کرسکتی۔ دفاع پاکستان کونسل کی قیادت کو اچھی طرح علم ہے کہ پاکستانی فوج کی اعلیٰ
قیادت پاکستان میں متشدد مذہبی انقلاب سے بدکتی ہے اور ابھی فوج میں ایسے لوگوں کی
تعداد بہت کم ہے جو مبینہ طور پر حزب التحریر سے جڑے بریگیڈئر علی خان جیسا سوچتے ہیں
اور اپنے سوچے ہوئے پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں بعض اوقات متشدد
دائیں بازو کے اخبارات و رسائل میں ایسے مضامین دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں اس بات پر
بھرپور تاسف کا اظہار کیا گیا ہوتا ہے کہ پاکستان کی فوج میں محمد بن قاسم جیسے لوگوں
کی کمی کیوں ہے۔ پاکستانی فوج کی قیادت کا اجتماعی تاثر سیکولر کیوں ہے اور پاکستانی
فوج عالم اسلام کی فوجی قیادت کا مقدس فریضہ کیوں ادا نہیں کرتی۔ حالاں کہ براس ٹیک
نامی جذباتی ادارے کی طرف سے اب ایسی کتب بھی شائع ہونے لگی ہیں جن میں پاکستانی فوج
کی قیادت کو اس بات پر اُکسایا جاتا ہے کہ اگر پاکستان بھارت پر ایٹمی حملہ کردے اور
ساتھ ہی اپنے دور مار میزائل کی مدد سے ایران کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے روئے زمین پر شیطانیت
کے مرکز اسرائیل پر بھی ایک چھوٹا ایٹمی ہتھیار داغ دے تو دنیا میں ہر سو امن اور شانتی
کا دور دورہ ہوجائے گا۔ اس کے بعد پاکستان دنیا بھر کے مسلم ممالک اور عوام کی آنکھ
کا تارا ہوگا اور دنیا بھر کے کفار خاک چاٹنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
غرض جوں جوں پاکستان کی سول
حکومتیں عوام کی ضروریات اور توقعات کو پورا کرنے میں ناکام ثابت ہورہی ہیں عوامی بے
چینی کی سمت وہی رخ اختیار کررہی ہے جس کا پرچار پاکستان کے مذہبی و مسلکی متشدد اذہان
کرتے آئے ہیں۔ تعلیم یافتہ اور زندگی کا بڑا حصہ مغرب میں گزارنے والے سابق کرکٹر عمران
خان سوائے نفاذ شریعت کے وعدے کے وہ سب کچھ کرنا چاہتے ہیں جو پاکستان کی متشدد مذہبی
جماعتوں کی خواہش ہے۔سیاسی طور پر متذبذب عمران خان سے یہ بعید نہیں کہ وہ پیپلز پارٹی
اور مسلم لیگ نواز کو شکست دینے کے لیے خود پر اور اپنی جماعت پر مذہبی رنگ چڑھا لیں
کیوں کہ اکثر اوقات اِنہیں اپنی راسخ العقیدگی کی وضاحت کے دورے پڑتے ہیں۔ المیہ یہ
ہے کہ ابھی تک عمران خان کی سیاسی پذیرائی کے عقب میں پاکستان کے روایتی بادشاہ گر
خفیہ اداروں کی مدد کا نام لیا جارہا ہے۔ ابھی تک اُمید کی واضح کرن مولانا فضل الرحمن
دکھائی دیتے ہیں جو اپنی مسلکی پذیرائی اور پاکستان میں مدارس کی اکثریت کے دباؤ کے
پیش نظر حکومتوں میں شامل رہے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ جمہوری حکومتوں کی مدد
سے ہی فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ وہ دفاع پاکستان کونسل اور اس جیسی متذبذب سیاسی
و مذہبی قوتوں سے اپنے آپ کو دور رکھنے میں کامیاب ہیں۔البتہ ہ کہنا مشکل ہے کہ وہ
کب تک ’’دور‘‘ رہیں گے کیوں کہ جوں جوں افغانستان سے مغربی ممالک کی افواج کے انخلاء
کا وقت قریب آرہا ہے پاکستان کے طاقت ور اداروں اور مذہبی قوتوں میں تشنج کے آثار نمایاں
ہوتے جارہے ہیں۔
حال ہی میں "پنجابی طالبان"
سمیت نو کتابوں کے مصنف، مجاہد حسین اب نیو ایج اسلام کے لئے ایک باقاعدہ کالم لکھیں
گے۔ تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے
ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود ، ایک ملک کے اس کے ابتداء کے
مختصر وقت گزرنے کے بعد سے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر
احاطہ کرتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی
سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون
ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے
والے مصنف مجاہد حیسن، بڑے پیمانے پر طبقوں،
اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/pakistan-growing-doubts-religious-preferences/d/7289