مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
13اپریل، 2014
تازہ ترین مرتب شدہ قومی بیانیہ کچھ یوں ہے کہ پاکستان میں آئے روز ہونے والے مہلک بم دھماکے طالبان یا اُن کے اتحادی انتہا پسند نہیں کررہے بلکہ طالبان ایسے دھماکوں کے ذمہ داروں کی پہچان کے لیے حکومت کی مدد کررہے ہیں۔اگر واقعی اِن دھماکوں کے پیچھے طالبان اور اُن کے انتہا پسند اتحادی نہیں تو پھر طالبان سے مذاکرات چے معنی دارد؟طالبان اگر امن و امان پر آمادہ ہوچکے ہیں اور حکومت کو اِن پر یقین کامل ہے کہ وہ اب ریاست کے خیرخواہوں میں بدل چکے ہیں تو پھر مذاکرات کا اس قدر طویل اور اُکتا دینے والایکطرفہ عمل دھراتے رہنے کی کیا ضرورت ہے؟دوسری طرف طالبان نے پہلی مرتبہ کھل کر اس بات کا اعلان کیا ہے کہ اُن کی باقاعدہ ترجمان ویب سائٹ عمر میڈیا کے نام سے جاری کردی گئی ہے۔واضح رہے کہ عمر میڈیا کے نام سے تحریک طالبان پاکستان کی ترجمان ویب سائٹ پہلے ایک بلاگ کی صورت میں موجود تھی، جو اب باقاعدہ ویب پورٹل کی صورت اختیار کرچکی ہے۔اگر اس ویب سائٹ کا سرسری جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ حقیقی طالبان کیا ہیں اور ریاست پاکستان بشمول پاک افواج اور دیگر ریاستی سیکورٹی اداروں کے بارے میں اُن کا موقف کیا ہے۔تحریک طالبان پاکستان پاک فوج کو ناپاک فوج کے نام سے پکارتی ہے اور اُن تمام جرائم کا کھل کر اعتراف کرتی ہے جو گذشتہ برسوں میں پاکستانی فوج کے خلاف ہوئے ہیں۔ہوسکتا ہے حکومت کی طرف سے طالبان کویکطرفہ طور پر سہولیات کی فراہمی کے بعد اُنہوں نے پاک فوج کے بارے میں اپنے قدیمی موقف میں کچھ ترامیم کر لی ہوں لیکن بدقسمتی سے اِن ترامیم کو ابھی طالبان نے اپنی ویب سائٹ پر پیش نہیں کیا اور موقف کی بے لچک سختی کو یہاں پوری قوت کے ساتھ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔صاف ظاہر ہے کہ طالبان نے اپنے موقف میں تبدیلی کے کسی امکان کو صاف طور پر رد کردیا ہے اور حکومت کے موقف میں ایک ایسی جنگ بندی درکار ہے جس کی موجودگی میں بھی روزانہ درجنوں پاکستانی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتے رہیں۔
مذاکراتی ٹیم کے اہم رکن پروفیسر ابراہیم کے اس اعتراف کے بعد کہ مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار ہوگئے ہیں ،اب کوئی مزید ابہام باقی نہیں رہا اور ایسا لگ رہا ہے کہ مذاکرات کے اس انجام کی ذمہ داری فوج پر ڈالی جائے گی کیوں کہ حکومت کی طرف سے بے تحاشہ لچک اور طالبان کو فراہم کی جانے والی سہولیات کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ طالبان اور اُن کے حامی فوج کو مورد الزام ٹھہرائیں گے۔لیکن سوال اس سے بھی اہم ہے کہ حکومت نے طالبان جنگجوؤں سے سوائے جزوی جنگ بندی کے مزید کیا حاصل کیا ہے؟ حکومت نے متضاد اطلاعات کے مطابق درجنوں طالبان قیدیوں کو مختلف جیلوں سے رہا کیا ہے لیکن طالبان کی طرف سے کسی ایک بھی قیدی کو رہا نہیں کیا گیا بلکہ طالبان نے مذاکرات سے پہلے جن غیر عسکری قیدیوں کے بارے میں اعتراف کیا تھا کہ وہ اُن کی حراست میں ہیں، اُن کے بارے میں بھی بعد میں یہ موقف اختیار کرلیا کہ وہ اُن کے پاس نہیں۔طالبان نے بظاہر بہت سوچ سمجھ کر مذاکرات کے لیے اپنے آپ کو تیار کیا اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میاں نواز شریف حکومت کس قسم کے مسائل کا شکار ہے اور حکومت کی فوری ترجیح محض جنگ بندی ہے اس سے زیادہ وہ فوری طور پر کسی چیز کی خواہش مند نہیں۔طالبان نے بہت جلد یہ جان لیا کہ سول حکومت اور سیکورٹی اداروں کے درمیان واضح اختلافات موجود ہیں جن کا وہ فوری طور پر فائدہ اُٹھا سکتے ہیں، جو اُنہوں نے کامیابی کے ساتھ اُٹھایا بھی ہے۔واضح رہے کہ اس موقع پر جب یہ تجویز دی گئی کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں دوطرفہ ترجیحات کا تعین کیا جائے تو میڈیا پر اس قسم کی تجویز دینے والوں کو حکومت اور طالبان ہمدردوں کی طرف سے مذاکرات دشمن قرار دیا گیا۔یہاں تک کہہ دیا گیا کہ یہ لوگ نہ صرف پاکستان دشمن ہیں بلکہ اسلام دشمن بھی ہیں۔حالاں کہ بہت شروع میں ہی حکومت کی طرف سے لجاجت آمیز رویے سے یہ ثابت ہوگیا تھا کہ اصل معاملہ دہشت گردی کے عفریت کا خاتمہ نہیں بلکہ جنگ بندی کے نام پر اس کو مزید مہلت فراہم کرنا ہے اور اس کے بدلے میں نہ صرف یکطرفہ رعایات دی جائیں گی بلکہ بہت سے ایسے مطالبات بھی تسلیم کرلیے جائیں گے جو ریاست کے مفاد میں نہیں ہوں گے۔
یہ بالکل واضح ہے کہ حکومت ایسے طالبان قیدیوں کو رہا کرنا چاہتی ہے جن کی رہائی ریاست کے لیے خطرناک ہے۔اس قسم کے ممکنہ اقدامات کے بارے میں سیکورٹی اداروں کے اپنے تحفظات ہیں جن کی وجہ سے حکومت اور فوج کے درمیان ایک واضح اختلاف نظر آنے لگا ہے۔سول حکومت اس حوالے سے کوتاہ نظری کا شکار ہے اور اس کا خیال یہ ہے کہ اگر اس موقع پر طالبان اور اُن کے اتحادی القاعدہ ارکان کو رعایات دی گئیں تو وہ بطور شکر گزاری ریاست پاکستان کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچائیں گے اور اپنی تمام تر عسکری توجہ ہمسایہ ملک افغانستان کی طرف مبذول کردیں گے۔ یہ ایک بچگانہ خواہش ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔ کیوں کہ طالبان اور اُن کے اتحادیوں نے کبھی بھی اپنے تصور عسکریت و شریعت میں جغرافیائی حدود کو مد نظر نہیں رکھا اور اگر اِن کی مطبوعات اور روزمرہ معمولات بشمول بیانات و تقاریر کا جائزہ لیا جائے تو وہ ہر صورت پاکستان میں مسلح جہاد سے لے کر اقلیتوں کے قلع قمع تک مکمل ایمانداری سے سب کچھ واضح کردیتے ہیں۔جب ایک طرف مذاکرات ہورہے ہیں اور بظاہر ایک دوسرے کے بارے میں خیر سگالی کے جذبات کا ایک دریا میڈیا پر بہہ رہا ہے تو کم از کم خودساختہ خیر سگالی کے اِن محدود ایام میں ہی طالبان اور اُن کے ہر قسم کے اتحادی اپنے تصور بربریت کو لگام دے دیتے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔پاکستان سے جاری ہونے والے جہادی بلاگز سے لے کر انتہا پسندوں کی ویب سائٹس اور دوسرے ابلاغیاتی ذرائع پر نہ صرف پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے بارے میں پرانے تصورات کا احیاء ہورہا ہے بلکہ لہجہ اور عزائم پہلے سے بھی درشت ہوگئے ہیں ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات کی اصل حیثیت کیا ہے اور انتہا پسندوں کی طرف سے اِن مذاکرات کو کس قدر سنجیدہ لیا جارہا ہے۔
ریاست کے لیے اصل مسئلہ انتہا پسندوں اور اُن کے حامیوں کی ناقابل گرفت ہوتی ہوئی طاقت اور اس کا پھیلاؤ ہے، جس کے تدارک کے لیے درکار اہلیت اور حوصلہ مفقود ہے۔سول قیادت اپنے مخصوص اجزائے ترکیبی اور تحفظات کے گرداب میں پھنسی نظر آتی ہے جس کے باعث کٹھن حالات میں سخت اور فیصلہ کن اقدامات اُٹھانے سے قاصر ہے۔دوسری طرف ریاستی سیکورٹی ادارے ایک طویل مدت کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ انتہا پسند قوتیں ریاست کے لیے کس قدر مہلک ہیں اور اِنہیں مہلت اور سہولیات فراہم کرنا کس قسم کے نتائج سامنے لائے گا۔یہ ایک ایسی فیصلہ کن گھڑی ہے جو ریاست اور اس کے عوام کے مستقبل کو محفوظ یا غیر محفوظ بنا سکتی ہے۔پاکستان کو انتہا پسندی کے گرداب سے نکال سکتی ہے یا خدانخواستہ ہمیشہ کے لیے اس میں دھکیل سکتی ہے، فیصلہ سول قیادت اور سیکورٹی اداروں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کیسا پاکستان چاہتے ہیں۔
مجاہد حسین ، برسیلس (Brussels) میں نیو ایج اسلام کے بیرو چیف ہیں ۔ وہ حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’ سمیت نو کتابوں کے مصنف ہیں۔ تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/pakistan-decisive-crossroad-/d/66524