مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
9 مئی ، 2014
ملتان میں راشد رحمن کا قتل پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر پھیلتے ہوئے تشدد کی ایک لرزہ خیز مثال ہے۔راشد رحمن کا جرم یہ تھا کہ وہ ایک ایسے ملزم کے وکیل تھے جس پر توہین کا مقدمہ چل رہا ہے۔چونکہ ہمارے ہاں غلط طور پر وکیل کو موکل کا ساتھی سمجھا جاتا ہے، اس لیے مذہب کے نام پر تشدد اور قتل وغارت کا کاروبار کرنے والوں نے اس وکیل کو قتل کردیا جس نے خود کوئی جرم نہیں کیا تھا اور اپنے پیشے کی بنیادی ضرورت کے مطابق ایک موکل جس پر ابھی الزام ثابت ہونا باقی ہے،کی قانونی چارہ جوئی میں مدد کررہا تھا۔یاد رہے کہ ایک سابق جج عارف اقبال بھٹی کو بھی کچھ عرصہ پہلے لاہور میں بے دردی کے ساتھ قتل کردیا گیا کیوں کہ اُنہوں نے توہین کے ایک جھوٹے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے ملزمان کو بری کردیا تھا۔یہیں پر بس نہیں بلکہ دوسال پہلے اُچ شریف میں ایک پاگل شخص کو توہین کے الزام میں زندہ جلادیا گیا حالانکہ شریعت کے مطابق کسی فاتر العقل کو توہین کے الزام میں سزا نہیں دی جاسکتی۔مجھے اچھی طرح یاد ہے 1996ء میں گوجرانوالہ میں ایک حافظ قرآن فاروق احمد کو محض اس لیے ایک متشدد ہجوم نے پہلے پولیس کی حراست سے چھڑا کر بے دردی کے ساتھ قتل کیا پھر اس کی لاش کو جلایا گیا اور بعد میں ایک موٹر سائیکل کے پیچھے باندھ کر پورے شہر کی گلیوں میں گھسیٹا۔مقتول ایک عطائی ڈاکٹر تھا اور جب اُس پر توہین کا الزام لگایا گیا تو ایک مدرسے کی مسجد کے لاوڈ سپیکر سے ایک طالب علم نے اعلان کیا کہ بدبخت عطائی ڈاکٹر نے قرآن کو شہید کردیا۔ سننے والوں نے عطائی لفظ کو عیسائی سمجھا اور اُس حافظ قرآن کو قتل کرکے اُس کی لاش جلادی۔لیکن کسی ایک بھی ایسے واقعے کے بعد کسی ذمہ دار کو سزا نہیں دی جاسکی کیوں کہ پولیس اور عدالتوں پر مذہبی تشدد پسندوں کا دباؤ تھا۔ملتان کے تازہ مقتول راشد رحمن کے قاتل اول تو پکڑے ہی نہیں جائیں گے اور اگر کہیں پولیس کے ہتھے چڑھ بھی گئے تو کوئی عدالت اُن کو سزا نہیں دے سکے گی اور اس طرح ایک اور معصوم شخص انتہا پسندوں کا نشانہ بن گیا ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کا سماج مذہبی انتہا پسندوں اور فرقہ پرستوں کی یلغار کے سامنے بے بس ہے تو غلط نہیں ہوگا کیوں کہ ریاست اس حوالے سے مکمل طور پر دستبردار ہوچکی ہے۔یہ بھی ممکن تھا کہ راشد رحمن سماعت کے دوران کسی پولیس اہلکار کے ہاتھوں مارے جاتے اور پھر راشد رحمن کے ساتھی وکلا اُس پولیس ملازم کو عدالت پیشی پر کندھوں پر اُٹھالیتے، جب وہ پولیس اہلکار جیل جاتا تو وہاں قیدی اُس کے ہاتھ پاوں چومنے کے لیے دوسری جیلوں سے سفارش کرکے وہاں منتقل ہوتے۔پھر اُس غازی پولیس ملازم کے نام پر کسی شہر میں ایک مسجد بھی تعمیر ہوجاتی۔اگر اس امکان سے آپ متفق نہیں تو پنجاب کے گورنر کو قتل کرنے والے پولیس ملازم کے بارے میں معلومات حاصل کرلیں، وہ عقیدت کی یہ تمام منازل طے کرچکا ہے اور اب یہ ممکن نہیں رہا کہ کوئی عدالت اس کو سزا سنا دے حالاں کہ اس نے ایک ایسے شخص کو قتل کیا جس کی حفاظت پر وہ مامور تھا۔میں اس بحث میں اُلجھے بغیر کہ توہین کے متنازعہ قانون پر تنقید کرنا خود توہین کے زمرے میں آتا ہے کہ نہیں، یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مذہبی متشدد پن کے سامنے نہ صرف ریاست ڈھیر ہوچکی ہے بلکہ اس تشدد کے سامنے بند باندھنا ممکن ہی نہیں رہا۔ کسی سول یا فوجی حکومت میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ ریاست کے اندر پلنے والے اس عنصر کو قابو کرسکے بلکہ ایسے موضوعات پر حکومتیں ٹوٹ سکتی ہیں۔
راشد رحمن کے قتل کے بعد عین ممکن ہے کہ اب پاکستان میں کسی ایسے شخص کو بھی کسی قسم کی قانونی مدد حاصل نہیں ہوسکتی جس پر توہین وغیرہ کا چاہے کتنا بھی غلط الزام نہ لگایا گیا ہو، یہ ایک طرح سے ایسی روایت کا آغاز ہے جس میں جب بھی کوئی متشدد مذہبی فرد یا گروہ چاہے کسی کو بھی خود ہی توہین کا الزام لگا کر جہاں چاہے وہیں قتل کردے، اُس کا کوئی پُرسان حال نہیں ہوگا۔اگر خدانخواستہ کسی شخص پر توہین کا الزام لگ جائے تواس کا آدھا قتل اسی وقت ہوجاتا ہے کیوں کہ اُس کے لیے کہیں سے کوئی آواز بلند نہیں کرسکتا کہ ہم کو ملزم کو بھی موقع دینا چاہیے کہ وہ واقعی یہ فعل سرانجام دے چکا ہے یا محض الزام کا شکار ہوا ہے۔یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ جس ملزم کی وکالت کی پاداش میں راشد رحمن کو قتل کیا گیا ہے، اس کے بعد اُس کے تحفظات کس قدر بڑھ چکے ہیں اور اب وہ جیل سمیت کہیں بھی محفوظ نہیں۔عین ممکن ہے کہ اس واقعے کے بعد کوئی جج اس مقدمے کی سماعت ہی نہ کرنا چاہے۔
اس واقعے پر ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی خاموشی دیدنی ہوگی کیوں کہ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ گزرتے ہوئے تیر کے سامنے خود کو رکھ دے۔وزیراعظم، صدر اور وزیراعلیٰ کبھی اس اہم ترین اور پاکستان کے سماج کے لیے باعث شرم فعل کی مذمت نہیں کریں گے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک پُر خطر کام ہے ۔بڑے سے بڑا عالم دین اس گھناونے قتل کی مذمت کے لیے دستیاب نہیں ہوگا جب کہ دانش کا کام کرنے والے اس سانحے پر لکھنے کی بجائے نعتیں لکھنا شروع کردیں گے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سماج میں مذہبی تشدد پسندوں کا خوف پوری طرح سرایت کرچکا ہے۔کوئی نہیں جانتا کہ اس کے عقب میں موجود شخص کس قدر مذہبی جنونیت کا شکار ہے اور کب اس کو کاٹ کررکھ دے۔حکومتوں کی اس حوالے سے مکمل ناکامی اب ایک سمجھ میں آنے والی چیز ہے کیوں کہ جب سیاسی جماعتیں انتخابات میں کامیابی کے لیے مذہبی انتہا پسندوں اور فرقہ پرستوں سے مدد طلب کرتی ہیں تو اُس وقت سیاسی جماعت کی قیادت اور مذہبی متشدد گروہوں کے درمیان یہ طے ہوتا ہے کہ پارٹی اگر اقتدار کا حصہ بنی تو وہ اِنہیں’’سہولیات‘‘ فراہم کرے گی۔اگر یقین نہ آئے تو پنجاب کی موجودہ صوبائی حکومت اور انتہا پسندوں کے مابین ہوئے خاموش معاہدے کے ثمرات دیکھ لیں، جس کی بدولت پنجاب کی حکومت کو مذہبی انتہا پسندوں سے کسی قسم کی تشویش لاحق نہیں۔جب کہ انتہا پسندوں اور فرقہ پرستوں کو بھی کسی قسم کا کوئی خوف لاحق نہیں اور وہ پوری قوت کے ساتھ نہ صرف اپنی طاقت میں اضافہ کررہے ہیں بلکہ حکومت اِنہیں پوری معاونت فراہم کررہی ہے۔اس وقت پنجاب میں کم از کم تین ایسی متشدد مذہبی تنظیموں کو غیر تحریری طور پرحکومت کی طرف پسندیدہ قرار دیا گیا ہے، جنہیں نہ صرف اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سرکاری مدد فراہم کی جاتی ہے بلکہ اِنہیں فنڈز جمع کرنے کی بھی آزادی حاصل ہے۔بڑے بڑے سیاسی و حکومتی عہدیدار اِنہیں ماہانہ بھاری رقوم دیتے ہیں تاکہ نہ صرف وہ خود زندہ رہ سکیں بلکہ ان کے عزیز و اقارب بھی اغواء ہونے سے محفوظ رہیں۔جن لوگوں کی اپنی یہ حالت ہے وہ راشد رحمن جیسے مظلوموں کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/blasphemy-madness-islamist-extremists-complete/d/76923
URL English:
https://www.newageislam.com/radical-islamism-jihad/the-insanity-behind-anti-blasphemy/d/76944