مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
28 مئی، 2014
امریکی محکمہ داخلہ نے جماعت الدعوہ اور اُس سے منسلک دیگر تین مذہبی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا ہے لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا پر یہ اہم خبر بالکل غائب ہے۔امریکی حکومت پاکستان پر جماعت الدعوہ اور اس کی دیگر تین ذیلی تنظیموں پر پابندی کے لیے پاکستان پر دباؤ بڑھاتا ہے کہ نہیں اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے لیکن یہ تو طے ہے کہ امریکہ کی نظر میں جماعت الدعوہ مستقبل میں ایک خطرہ بن سکتی ہے۔جماعت الدعوہ کے بانی رہنماؤں میں شامل نذیراحمد چوہدری اور محمد حسین گل کو بھی دہشت گردوں میں شامل کیا گیا ہے۔ امریکی سٹیٹ دیپارٹمنٹ کا دعوی ہے کہ جماعت الدعوہ سے منسلک تنظیمیں دراصل جماعت الدعوہ کے ہی دوسرے نام ہیں جب کہ اصل تنظیم جماعت الدعوہ ہی ہے جو اِن ناموں کے عقب میں موجود ہے۔یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ جماعت الدعوہ افغانستان کے شہر ہرات میں بھارتی قونصلیٹ پر حملے میں بھی ملوث تھی۔واضح رہے کہ اس سے پہلے جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ محمد سعید اور عبدالرحمن مکی کو دہشت قرار دے کر اِن کے سروں پر انعام مقرر کیا گیا تھا لیکن حافظ محمد سعید اور عبدالرحمن مکی جو آپس میں قریب رشتہ دار بھی ہیں، اُنہوں نے اس اعلان کو مسترد کردیا اور وہ پاکستان میں اپنی تنظیمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔جماعت الدعوہ کی طرف سے اس امریکی اعلان کو بھارت،امریکہ اور اسرائیل گٹھ جوڑ قرار دیا جو اسلام کے سب سے بڑے دشمن ہیں اور اسلامی جہادی و فلاحی اداروں کو برداشت نہیں کرسکتے۔حافظ محمد سعید کا موقف ہے کہ تازہ امریکی اقدام اصل میں بھارت کی ڈکٹیشن پر اُٹھایا گیا ہے جس کی واضح وجہ بھارت کی خوفزدگی ہے جو پہلے لشکر طیبہ سے خائف تھا اور اب جماعت الدعوہ اس کے لیے ایک ڈراونا خواب ہے۔
جماعت الدعوہ سے منسلک جن دیگر تین تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے اِن میں انفال ٹرسٹ، تحریک حرمت رسول ﷺاورتحریک تحفظ قبلہ اول شامل ہیں۔ پاکستان میں مسلح مذہبی تنظیموں کے بارے میں ایک عام خیال یہ ہے کہ اِن تنظیموں کو پاکستان کی فوج کی پشت پناہی حاصل رہی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ افغان جہاد کے پہلے دورانیے میں ملک کے زیادہ تر حصے اور خاص طور پر خیبر پختونخواہ بھرتی مراکز کے طور پر کام کرتے رہے اور امریکی وسائل سے ہماری مذہبی جماعتوں کو اس قابل بنایا گیا کہ وہ روسی افواج کا مقابلہ کرنے کے لیے جہاد افغانستان کے تصور کو پروان چڑھائیں اور پھر ہم نے دیکھا کہ پاکستان کے گوشے گوشے میں کس طرح جہادی نرسریاں اُگنا شروع ہوئیں ۔جہاد افغانستان اُس وقت تھا جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا یا اُس کے بعد جب جنگی سردار ایک دوسرے کے خلاف لڑرہے تھے یا پھر اُس وقت جب مدارس میں پڑھنے والے طلباء نے ہتھیار اُٹھا لیے اور اُن کو طالبان کا کہا گیا ؟ یا پھر اصل افغان جہاد اُس وقت شروع ہوا جب امریکی اور نیٹو افواج نے افغانستان پر حملہ کیا اور اس حملے کا مقصد یہ بتایا گیا کہ افغانستان میں القاعدہ نامی دہشت گرد تنظیم اپنے مضبوط مراکز قائم کرچکی ہے۔
جہاں تک جماعت الدعوہ کی وجہ پہچان بننے والی جہادی تنظیم لشکر طیبہ کا تعلق ہے،لشکر طیبہ کو شروع میں کشمیر جہاد کے لیے ترتیب دیا گیا اور کشمیر میں جاری کشیدگی کے دوران لشکر طیبہ کے ہزاروں مجاہدین نے بھارتی فورسز کا مقابلہ کیا اور مسئلہ کشمیر کی حساسیت اور دونوں ملکوں کے درمیان تنازعے کی نوعیت بہت حد تک اُجاگر ہوئی۔پاکستان میں لشکر طیبہ کو خصوصی پذیرائی سے واسطہ پڑا جب کہ لاہور کی انجینئرنگ یونی ورسٹی کے دو اساتذہ پروفیسر حافظ محمد سعید اور پروفیسر ظفراقبال نے مرکز الدعوۃ والارشاد کے نام سے ایک تعلیمی مرکز بنانے کے لیے سعودی و پاکستانی مخیر افرادسے رابطے کیے۔بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات بھی اس حوالے سے معاون ثابت ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک مضبوط تنظیم اور دینی مدرسہ وجود میں آگیا۔نوئے کے عشرے کا آغاز مرکز الدعوۃ و الارشاد کے لیے کامیابیاں لے کر آیا اور مریدکے لے قریب ننگل ساہداں نامی گاوں میں ایک وسیع و عریض جگہ پر یہ مرکز قائم ہوگیا۔واضح رہے کہ حافظ محمد سعید اور اُن کے پرانے رفیق جناب امیر حمزہ نے جہاد افغانستان کے دنوں میں کنڑ اور نورستان میں ممتاز سلفی مجاہد جناب شیخ جمیل الرحمن کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کرلیے تھے۔
اس دوران حالاں کہ پاکستانی فیصلہ ساز قوتوں کی آنکھوں کا تارا حزب اسلامی کے جناب گلبدین حکمت یار تھے اور شیخ جمیل الرحمن کے ساتھ اِن کی جنگ جاری تھی۔لیکن جناب حافظ محمد سعید ایک ایسا مضبوط ادارہ قائم کرنے میں کامیاب رہے جو پاکستانی فیصلہ ساز قوتوں کو پوری طرح اپنی طرف متوجہ کرسکتا تھا۔آگے چل کر یہ ادارہ ایک جہادی گروہ لشکر طیبہ کا مرکز بنا جس کی اپنی شائع شدہ کتب اور رسائل وجرائد کے مطابق اس لشکر نے انیس سو اننانوئے سے لے کر دوہزار آٹھ تک ہزاروں بھارتی فوجیوں کو کشمیر میں ہلاک کردیا۔اب لشکر طیبہ پاکستان میں ایک کالعدم تنظیم کی حیثت کا حامل ہے اور جناب حافظ سعید ممبئی حملوں کے بعد لشکر سے لاتعلقی کا اعلان کرچکے ہیں۔وہ جماعت الدعوہ نامی تنظیم کے سربراہ ہیں جس کو پاکستان میں حکومت کی طرف سے کالعدم قرار دینے کی کوشش کی گئی لیکن عدالتوں نے اس کے خلاف فیصلہ دیا۔
اس کے بعد جناب حافظ محمد سعید اور اُن کے قریبی عزیز عبدالرحمن مکی کو بھی امریکی محکمہ داخلہ کی طرف سے دہشت گرد قرار دے کر اِن کی گرفتاری پر انعام مقرر کیا گیا لیکن حافظ سعید اور عبدالرحمن مکی نے اس امریکی اقدام کو تسلیم نہ کیا اور ساتھ ہی حکومت پاکستان بھی اس اقدام سے متفق نہ ہوسکی اور یوں اس اعلان کے بعد بھی حافظ سعید اور عبدالرحمن مکی کو گرفتار نہ کیا جاسکا۔جماعت الدعوہ اور اس کی قیادت ایک مرتبہ پھر زیرعتاب ہے اور تازہ ترین امریکی اعلان کے بعد جماعت الدعوہ کی قیادت نے اس کو بھارت کی ایماء پر اُٹھایا گیا قدم قرار دیا ہے ۔بھارت میں سخت گیر جماعت بی جے پی کی حکومت اس حوالے سے ایک غیر لچکدار موقف کی حامل ہے اور اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں بھارتی حکومت کشمیری جہادی تنظیموں اور خصوصاً کالعدم لشکر طیبہ کے وابستگان کے بارے میں کجس قسم کا رویہ اختیار کرے گی۔دوسری طرف امریکی حکومت بھی جماعت الدعوہ پر یہ الزام لگارہی ہے کہ وہ افغانستان میں امریکی مفادات کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ہرات میں بھارتی قونصلیٹ پر ہوئے حملے میں لشکر طیبہ کے ملوث ہونے کا الزام لگایا جارہا ہے ،جس کا واضح مطلب ہے کہ ایک بار پھر جماعت الدعوہ کی سابق جہادی تنظیموں کے بارے میں حساسیت بڑھ رہی ہے اورجنوبی ایشیاء میں کشیدگی کے امکانات واضح ہورہے ہیں۔ اگر جماعت الدعوہ پر پابندی کے حوالے سے پاکستانی حکومت پر امریکی دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے تو امکان یہی ہے کہ ملک کے اندر بھی صورت حال کشیدہ ہوسکتی ہے جو پہلے ہی معمول کے مطابق نہیں۔آنے والے دنوں کے کٹھن ہونے کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
مجاہد حسین ، برسیلس (Brussels) میں نیو ایج اسلام کے بیرو چیف ہیں ۔ وہ حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’ سمیت نو کتابوں کے مصنف ہیں۔ تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/ban-jamat-ud-dawah-possibilities/d/97776