New Age Islam
Tue Dec 03 2024, 10:47 AM

Urdu Section ( 31 May 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

A Society in Love with Death موت کی محبت میں مبتلا معاشرہ

 

 

مجاہد حسین، نیو ایج اسلام

31 مئی، 2014

گجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی ایک حاملہ خاتون کو لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں پولیس کی موجودگی میں اسکے ناراض والدین نے ساتھیوں سمیت باقاعدہ سنگسار کردیا اور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔اقوام متحدہ سے لے کر دنیا کے کئی ممالک نے اِس اندوہناک واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہے جس کے بعد وزیراعظم نے ملزمان کی فوری گرفتاری کے احکامات جاری کرکے معاملے میں حکومتی دلچسپی کا ثبوت فراہم کردیا ہے۔اس کے بعد کیا ہوگا، پاکستان میں پولیس تفتیش،سیاسی دباو اور آخر میں عدالتی فیصلوں کے منطقی انجام کے بارے میں آسانی کے ساتھ رائے قائم کی جاسکتی ہے۔

پاکستان میں ہرسال ہزاروں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے اور سو فیصد واقعات میں مقتولہ کے لواحقین اپنے عزیز رشتہ دار ملزمان کو معاف کردیتے ہیں۔اکثر اوقات مقتولہ کے والدین مقدمات میں مدعی قرار پاتے ہیں جو پولیس تفتیش کے بعد عدالتی سماعت کے اولین مراحل میں ملزمان جوعموماً اُن کے بیٹے بھانجے ہوتے ہیں، اُنہیں معاف کردیتے ہیں اور یوں ایک مظلوم عورت انصاف سے محروم ہوجاتی ہے۔ایک متشدد رحجان کے حامل مردانہ معاشرے میں عورت کی زندگی اس کے لواحقین اور رشتہ داروں کی مرہون منت ہے، اگر وہ چاہیں تو عورت کو زندگی گزارنے کا موقع مل سکتا ہے بصورت دیگر ایک اندوہناک موت اس کے بالکل سامنے موجود رہتی ہے۔معاملہ جنسی زیادتی سے متعلق ہو یا جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے بارے میں آخر میں جھکنا اور نقصان برداشت کرنا عورت کا مقدر بن چکا ہے۔اور اگر وہ اپنی مرضی سے قطعی طور پر دین اور قانون کی طرف سے ودیعت کردہ حق کے مطابق بالغ ہونے پر اپنی مرضی سے کسی بالغ مرد سے شادی کرنا چاہے تواس کو ایک ایسے وحشی پاگل پن سے واسطہ پڑتا ہے کہ جس میں اس کی مظلومانہ موت ناگزیر ہوجاتی ہے۔

ہم چوں کہ اپنے مرتب شدہ معاشرتی رویوں میں عورتوں کے حقوق کی بات کو اپنے خود سے وضع کردہ غیرت کے اُصولوں کے منافی سمجھتے ہیں اس لیے پاکستان میں انسانی حقوق یا خصوصاً عورتوں کے حقوق کی بات کرناایک جرم کی نوعیت اختیار کرچکا ہے۔ہمارا قومی بیانیہ یہ ہے کہ جو فرد یا تنظیم پاکستان میں انسانوں کے حقوق کی بات کرے وہ یقینی طور پر اسلام دشمن، سماج دشمن اور ملک دشمن ہے کیوں کہ حقوق اور بالخصوص عورتوں کے حقوق کی بات کے اندر ایک بغاوت پوشیدہ ہوتی ہے، جس کا مقصد پاکستان کے ایک انتہائی مذہبی معاشرے کو تباہ و برباد کرنا ہے۔پاکستان کی عورتوں کو اس بات پر اُکسانا ہے کہ وہ مذہب اور ریاست کے عطا کردہ حقوق کے حصول کے لیے اپنا منہ کھولیں اور اگر اُنہوں نے ایسا کردیا تو پھر نہ صرف ہمارا دین تباہی کی طرف گامزن ہوجائے گا بلکہ ہمارا ملک اور معاشرہ بھی جہنم بن جائے گا۔مثال کے طور پر دین اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ایک بالغ عورت اپنی شادی کے لیے شوہر کے انتخاب کا حق رکھتی ہے اور اگر وہ راضی نہ ہو تو دین کے مطابق شادی انجام نہیں پا سکتی، لیکن ہم جو معاشرے کی ٹھیکیداری اپنے سر لے چکے ہیں ، ہم یہ نہیں چاہتے کہ عورت ہماری مرضی کے بغیر اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کرے اور جو فیصلہ ہم کریں اس سے سرمو بھی انحراف کرے۔اگر وہ اللہ کے عطا کردہ حق کو استعمال کرتے ہوئے اپنے شوہر کے انتخاب میں ذاتی فیصلہ کرے تو ہم اس کو سزادیں گے کیوں کہ اس نے ہمارا فیصلہ کیوں تسلیم نہیں کیا ۔اگر عورت اسلام اور ریاستی قوانین میں طے شدہ اپنے حقوق کے بارے میں آواز اُٹھائے تب بھی وہ باغی۔ہم عورت کو اپنی زمین،مکان اور جائیداد میں وہ حق بھی نہیں دینا چاہتے جو حق اُس کو اللہ اور اللہ کا رسولﷺ دیتے ہیں۔معروف ترقی پسند دانشور طارق علی نے اپنی تازہ کتاب میں لکھا ہے کہ ملک میں پیپلز پارٹی جیسی ترقی پسند سیاسی جماعت جو پاکستان کے عوام کو اُن کا حق دلوانے کا نعرہ استعمال کرکے ووٹ لیتی ہے اُس کے ایک بانی لیڈر نے اپنی چار بہنوں کی شادی اس لیے قرآن سے کردی تاکہ اُس کو اپنی زمین میں سے حصہ نہ ادا کرنا پڑے جو شریعت کی رو سے اُن خواتین کا حق ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم جس معاشرے کے باسی ہیں وہاں عورت کی حالت زار کیا ہے اور ہم کس قدرمنافقت زدہ ماحول میں سانس لے رہے ہیں۔

چوں کہ لاہور ہائی کورٹ میں رونما ہونے والی قتل کی اس لرزہ خیز واردات کے بعد حکومت حرکت میں آچکی ہے اور یقینی طور پر تمام ملزمان بھی گرفتار ہوجائیں گے اور بعید نہیں کہ اُن میں سے چند ایک کسی پولیس مقابلے کا شکار بھی ہوجائیں، جس کے بعد حکومتی عہدے دار یہ یقین کرلیں گے کہ انصاف رونما ہوچکا ہے، لہذا کسی اگلے سانحے تک اس حوالے سے خاموشی بہتر ہے۔پنجاب کے وزیراعلیٰ تقریباً ہر ہفتے لاہور سے ہنگامی طور پر سفر کرکے ایسے علاقوں میں پہنچتے ہیں جہاں اس قسم کی کوئی واردات ہوتی ہے اور متاثرہ خاندان یا خاتون کو انصاف کی یقین دہانی کرواتے ہیں لیکن آج تک وہ صوبائی اسمبلی میں ایسی کوئی تحریک نہیں چلا سکے کہ خواتین کے ساتھ اس قسم کے ظلم کا مکمل خاتمہ ہوسکے۔حکومت ایسی قانون سازی کا اہتمام کرے کہ اس طرح کے واقعات کو مکمل طور پر روکا جاسکے۔وزیراعلیٰ کے تمام تر مہنگے اور ہنگامی دورے پنجاب میں خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی کے واقعات کو کم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکے بلکہ ایسے واقعات خود چل کر وزیراعلیٰ کے دفتر کے آس پاس رونما ہونے لگے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کوئی انفرادی مسئلہ نہیں اور نہ ہی اس کو منتخب واقعات پر فوری ردعمل سے روکا جاسکتا ہے بلکہ اس کی نوعیت اجتماعی ہے اور اس کا تعلق اجتماعی سماجی رویوں کے ساتھ ہے، جس کے تدارک کے لیے زیادہ جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔وہ منصوبہ بندی کون کرے گا یہ ابھی حکومت اور اس کے عہدے داروں کو معلوم نہیں ہوسکا۔

یہ ایک ایسا گھمبیر مسئلہ ہے جس کے لیے صحیح الدماغ ہونا بہت ضروری ہے، جہاں صورت حال یہ ہو کہ ملک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت کا لیڈر یہ مشورہ دے کہ جس عورت کے ساتھ زیادتی ہو جائے اُس کا خاموش رہنا ہی بہتر ہے وہاں سوشل میڈیا سے سیاسی و سماجی شعور کی غذا حاصل کرنے والی اکثریت کی دماغی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔معاشرہ ہجوم کی صورت میں انتقام لینے اور جرم پر اُکسانے کی طرف مائل ہوتا جارہا ہے، جو ایک ریاست کی سماجی موت کا استعارہ ہے۔جہاں مظلوم کے حق کی بات کرنا جرم ٹھہرے وہاں مجرموں کی طاقت اور پشت پناہی جیسے عوامل کو روک دینا ایک مشکل امر بن جاتا ہے۔ یہی صورت حال ہمارے سماج کی ہے اور اس کی بہتری کے امکانات کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں۔ہمارے ہاں فتاوی بازوں کی بہتات ہے لیکن معاشرے میں انصاف اور حقوق کے حصول کے لیے کام کرنے والے عملی کارکنوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔جو لوگ اس حوالے سے کچھ کرتے آئے ہیں ہم ان کو مسترد کرچکے ہیں اور اُن کو نہ صرف اسلام دشمن بلکہ سماج دشمن قرار دے کر بے اثر اور غیر محفوظ بنا چکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے پاس صرف حملہ آور باقی ہیں جو کسی کو بھی غیر ثابت شدہ توہین کے الزام کے تحت سرعام مار دیتے ہیں یا غیرت کے تصور کے تحت عدالتوں کے احاطوں میں سنگسار کردیتے ہیں، کوئی اُن کو روکنے والا نہیں۔حیران کن امر یہ ہے کہ جو سماج عورت کی عزت و آبرو کے بلند بانگ دعوئے کرتا ہے اُسی معاشرے میں عورتوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے، کوئی سر بازار بے رحمی سے قتل ہوجاتی ہے، کسی کو طاقت ور دشمن سربازار بے آبرو کردیتا ہے، کوئی زیادتی کے بعد حصول انصاف کی کوشش میں جل مرتی ہے، کسی کو تیزاب جھیلنا پڑتا ہے اور کسی کو انصاف کے کٹہروں کے عین سامنے پتھر مار مار کر ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے۔جس غیرت کے اساطیری تصور کے تحت ہم اکڑتے پھرتے ہیں ، ہوا میں پھونکیں مارتے ہیں اور نجانے کیا کیا لاف زنی کرتے ہیں، وہ غیرت ناہید ہماری آنکھوں کے سامنے تار تار ہوجاتی ہے۔ایک مظلوم عورت کی موت بنیادی طور پر پورے سماج کی موت ہے جس کے بارے میں متفکر ہونے کی ضرورت ہے۔اس سے بھی زیادہ اس بات پر پریشان ہونے کی ضرورت ہے کہ ہم بحثیت مجموعی اس قدر موت پسند کیوں ہوتے جارہے ہیں ؟

مجاہد حسین ، برسیلس (Brussels) میں نیو ایج اسلام کے بیرو چیف ہیں ۔ وہ حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’  سمیت نو کتابوں کے مصنف ہیں۔  تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے  اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔

URL:  https://newageislam.com/urdu-section/a-society-love-with-death/d/87289


Loading..

Loading..