مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
30 مارچ ، 2013
پاکستان میں سابق صدر پرویزمشرف کو سخت نفرت کا سامنا ہے کیوں کہ پاکستان میں دائیں بازو کے اسلام پسندوں سے لے کر ایسی سیاسی قوتیں بھی مشرف سے نفرت کرتی ہیں جنہیں اس کے سابق دور اقتدار میں نشانہ بنایا گیا تھا۔نواز لیگ البتہ قدیمی نفرت کو برقرار رکھنے سے قاصر ہے کیوں کہ جن سعودی قوتوں نے نواز شریف کو مشرف کے دور میں سزا سے نجات دلوائی تھی وہ اب مشرف کے ضامن کے طور پر سامنے آگئی ہیں۔مشرف پاکستان کی موجودہ صورت حال کوسمجھنے کے لیے ایک زبردست مثال کا درجہ رکھتے ہیں۔جب وہ آرمی کے سربراہ تھے اور ابھی وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ اِن کے اختلافات منظر عام پر نہیں آئے تھے، وہ اسلامی جہادی تنظیموں کے ساتھ تعلق قائم رکھنے والے فوجی کمانڈر تھے۔القاعدہ میں تیزی کے ساتھ ترقی کے زینے طے کرنے والے سابق کشمیری جہادی اور حرکت الجہاد السلامی کے پرانے مجاہد الیاس کشمیری کو اُنہوں نے جی ایچ کیو طلب کرکے ایک لاکھ روپے نقد انعام دیا تھا، جو بھارتی کشمیر سے ایک فوجی آفیسر کا سرکاٹ کر اپنے ساتھ لے آیا تھا۔بعد میں اسی الیاس کشمیری نے پاکستانی فوج کے ایک ہونہار کمانڈو آفیسر اور فوج کے کمانڈو مرکز چراٹ کے سربراہ میجر جنرل علوی کو راولپنڈی میں قتل کیا اور آخری معرکے کے طور پر پاکستان نیوی کے مرکز مہران بیس کراچی پر حملے کا منصوبہ بنایا جس میں پاکستانی دفاع کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔جب مشرف نے اپنے چند قریبی ساتھیوں سے مل کر کارگل حملے کا منصوبہ بنایا تو حرکت الجہاد السلامی کے کئی دوسرے جہادی لیڈروں کے علاوہ اِسی الیاس کشمیری کو اس حد تک معلومات حاصل تھیں کہ پاکستانی فضائیہ اور نیوی کے سربراہ کو بھی حاصل نہیں تھیں۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کشمیر اور افغانستان میں کس قسم کی کارروایؤں میں کس طرح کے لوگوں کو ساتھ ملایا گیا۔
اِنہی دنوں جب ابھی کارگل کا محاذ گرم تھا وزیراعظم میاں نواز شریف کو شدید تنقید کا سامنا تھا جب کہ آرمی کے سربراہ جنرل پرویز مشرف پر دادو تحسین کے ڈونگرے برسائے جارہے تھے اور لشکر طیبہ کے سربراہ سے لے کر سپاہ صحابہ،حرکت الجہاد السلامی،جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کی پرویز مشرف سے محبت کا یہ عالم تھا کہ اِن کی سپہ سالاری اور اسلام دوستی کے بارے میں مضامین اور اداریے لکھے جارہے تھے۔آئی ایس آئی کے سابق سربراہان بشمول حمید گل اور جاوید ناصر مشرف کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے درخشندہ ستارہ قرار دے رہے تھے جو دیرینہ دشمن بھارت سے بنگلہ دیش کی علیحدگی کا بدلہ لینے میں کامیاب ہوتا نظر آرہا تھا۔دائیں بازو کے اخبارات خصوصی ایڈیشن شائع کررہے تھے اور جہادیوں میں سرشاری کی لہریں دوڑ رہی تھیں۔پھر اچانک پانسہ پلٹا اور مشرف نواز شریف کو ہٹا کر اقتدار میں آگئے،لیکن ابھی بھی جہادیوں کی اُمیدیں جوان تھیں اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ پورے ملک میں جہاد کا دور دورہ ہوگا اور پاکستان عالم اسلام کی قیادت اپنے سر لینے کے لیے بالکل تیار ہے۔
مذکورہ بالا جذباتی کیفیت اس وقت ہوا ہوگئی جب امریکہ میں ہوئے دہشت گرد حملوں کے بعد مشرف کو سربراہ مملکت ہونے کے ناطے ناپسندید ہ فیصلے کرنا پڑے اور افغانستان میں طالبان اور القاعدہ پر حملے کے لیے پاکستان کو معاونت کے لیے راضی ہونا پڑا۔اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ ابھی کل کے واقعات ہیں جن کی تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں۔مشرف یک لخت پسندیدگی کی منزل سے اُتر کر نفرت کا استعارہ بن کر اُبھرے اور اِنہیں دو مرتبہ سامنے کھڑی موت سے بھاگنا پڑا۔پاکستان کی فوج کو نشانہ بنایا گیا اور پاکستان کے شہریوں کی بہت بڑی تعداد کو موت کا سامنا کرنا پڑا۔فوج کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے اور یہ سلسلہ کسی قدرآج بھی جاری ہے۔مشرف محبت سے نفرت تک ہمارے سامنے ہے اور جس دن وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کراہت آمیز یادداشت کے حامل ’’معاہدوں‘‘ میں شامل ایک ایسے ہی معاہدے کے بعد پاکستان واپس آتا ہے تو اسی دن القاعدہ اور طالبان ایک ایسی ویڈیو جاری کرتے ہیں جس میں مشرف کو کہا گیا ہے کہ وہ یا تو اپنے آپ کو ہمارے حوالے کردے یا مرنے کے لیے تیار ہوجائے۔جس طرح مشرف نے بلوچ سردار اکبر بگٹی کو کہا تھا کہ تم کو معلوم بھی نہیں ہوگا کہ کہاں سے تمہیں نشانہ بنایا گیا ہے، بالکل اُسی طرح مشرف کو آج القاعدہ اور طالبان بھی کہہ رہے ہیں۔
مشرف اگر سربراہ مملکت کے طور پر امریکہ کا ساتھ نہ دیتے تو آج پاکستان میں اِن کی ویسی ہی تکریم ہوتی جیسی جنرل حمید گل،اسلم بیگ اور جاوید ناصر کی ہے اور اِنہیں اسلام اور پاکستان کا سچا سپاہی قرار دیا جاتا۔آج پاکستان میں مشرف کو کوئی قابل ذکر جماعت پسند نہیں کرتی اور نہ ہی اِنہیں کسی قسم کی عوامی حمایت حاصل ہے۔اس کی اصل وجہ قومی مزاج کا آمادہ بہ جنگ ہونا ہے کیوں کہ ہم نے قومی سطح پر ایسی فضاء ہموار کرنے میں عشرے صرف کیے ہیں کہ پاکستان کو بھارت کا خاتمہ کرنا ہے،امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ دودوہاتھ کرنا ہیں جب کہ افغانستان میں ہماری مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلنا چاہیے۔نہ ہم ابھی تک بھارت کا کچھ بگاڑ سکے ہیں،نہ ہی امریکہ و مغربی ممالک کو کوئی سبق سکھا سکے ہیں اور نہ ہی آج افغانستان میں ہمارا کوئی ساتھی ہے۔یہ ایسا مزاج ہے جس کو تبدیل کرنے کے لیے اور ایک پُرامن ماحول میں بدل دینے کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عوامی رضامندی کا عنصر بھی ناگزیر ہے۔جس کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے کیوں کہ پاکستان میں نہ صرف متشدد مذہبی جماعتوں کی طاقت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے بلکہ پاکستانی اقلیتوں کو بھی تشدد کا سامنا ہے۔حیران کن امر یہ ہے کہ ابھی تک جمہوری حکومتیں بھی اس حوالے سے کسی قسم کی کامیابی حاصل کرتی نظر نہیں آتیں۔اب ڈر اس بات کا ہے کہ مشرف بھی عوامی حمایت کے لیے وہی انداز اپنائیں گے جو اِن کے پیش روں نے اپنایا اور عزت و تکریم حاصل کی کیوں کہ موجود صورت حال میں اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔
مجاہد حسین ، برسیلس میں نیو ایج اسلام کے بیرو چیف ہیں ۔ وہ حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’ سمیت نو کتابوں کے مصنف ہیں۔ تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/musharraf-being-booed-shoed-/d/10941