مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
24ستمبر، بہت زیادہ وضاحتی لب و لہجے کے ساتھ اسلام اور اسلامی اکابرین کی اقلیت دوستی کی داستانیں اگلے چند دنوں میں اخبارات اور دوسرے ذرائع ابلاغ میں پڑھی اور سنی جاسکتی ہیں لیکن کوئی بھی شخص اِن داستانوی معتقدین سے یہ نہیں پوچھے گا کہ ایسا کیا ہوا ہے کہ مسلمانوں کی روایتی اقلیت دوستی آج اقلیت کشی میں تبدیل ہوچکی ہے؟بڑے سے بڑا جغادری دانش ور اپنی پوری قوت کے ساتھ نتھنے پھلا کر یہی کہے گا کہ یہ اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کی سازش ہے۔کچھ دنوں کے بعد وہ بھی اپنے موقف کو تبدیل کرلے گا اور پھر اس کا خیال ہوگا کہ ایسے سانحات ردعمل کے طور پر سامنے آتے ہیں۔اس کے بعد ہمیشہ کی طرح اس بحث کو کسی اگلے ممکنہ سانحے تک موخر کردیا جائے اور سب اپنے اپنے ضروری کاموں میں مصروف ہو جائیں گے۔پشاور میں زیادہ ترخاکروب پیشہ انسان نما عیسائیوں کو دل نشین حوروں کے طلب گاروں نے جلا کر راکھ کردیا ہے، کچھ دنوں کے بعد اِن خوش قسمت حوران خلدکے دائمی شوہروں کی پھولوں سے لدی ویڈیومنظر عام پر آئیں گی اور بہت سے نوخیز فرشتہ صفت نوجوانوں کے اجسام پھڑکنے لگیں گے۔جیش محمد کے امیر مولانا محمد مسعود اظہر اپنے ہفت روزہ اخبار القلم میں اپنے قلمی نام ’’سعدی کے قلم سے ‘‘سے لکھتے ہیں کہ جب ایک مسلم نوجوان خودکش دھماکہ کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے تو رحمت کے فرشتے اللہ کے حکم سے اس کو اپنے حلقہ نور میں لے لیتے ہیں۔جنت میں حوریں اس دوڑ میں جت جاتی ہیں کہ کون اس شہزادے کی ذوجیت کا تاج اپنے سر پر رکھے گی۔واضح رہے کہ مولانا محمد مسعود اظہر ابھی تک چالیس کے قریب ایسی کتب لکھ چکے ہیں جن کا لب لباب یہ ہے کہ کفار اور اِن کے ساتھیوں کو کیسے تہہ تیغ کرنا ہے اور اس کے لیے قرآن و سنت میں کتنے احکامات موجود ہیں، جن کو آج امت مسلمہ فراموش کیے بیٹھی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران ایک محتاط اندازے کے مطابق تین سو سے زائد مرتبہ پاکستان تحریک طالبان اور اس کی ذیلی متشدد فرقہ وارانہ تنظیموں کی طرف سے تحریری طور پریہ موقف سامنے آچکا ہے کہ وہ سرزمین اسلام یعنی پاکستان میں کفار اور اِن کے ہمدردوں اور ساتھیوں کو نیست ونابود کرکے رکھ دیں گے۔واضح رہے کہ یہاں’’کفار‘‘ کی ذیل میں اہل تشیع ، احمدی قادیانی بھی شامل ہیں جب کہ مسلمانوں کے دیگر مسالک کی بھی الگ الگ وضاحت موجود ہے جن کو اِن کے عقائد میں موجود شرک و بدعات اور دوسری جزئیات کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹانا فرض تصور کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امام بارگاہیں، احمدی عبادت خانے، مزارات، مساجد،سکول اور دوسرے مراکز کو بڑی تعداد میں پاکستان میں نشانہ بنایا گیا ہے۔مجاہدین اسلام کی نظر میں غیر سرکاری اداروں یعنی این جی اوز کا مرتبہ بھی ایسا ہی ہے جب کہ سرکاری اداروں جیسے تعلیم اور صحت کے محکموں کے بارے میں بھی فتاوی اور عملی اقدامات کی فہرست بہت طویل ہے۔اتنا زیادہ ارتداد اور دشمنی کی تفصیلات کی موجودگی میں بھی اگر پاکستان کے سیاسی قائدین، اخبارات و ٹی وی کے سکہ بند دانش ور اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے باعمل حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ دہشت پسندوں اور فرقہ پرست قاتلوں کے ساتھ پرامن مذاکرات اور باہمی بھائی چارے کی فضاء قائم کرکے اِن کے دینی عقائد کی مرمت کی جاسکتی ہے توپھر معذرت کے ساتھ یہ کہنے دیجیے کہ یا تو یہ تمام کردار دہشت پسندوں اور فرقہ پرست قاتلوں کے ساتھی ہیں یا اِن کے دماغ مفلوج ہوچکے ہیں۔اور اِن سے کسی قسم کے خیر کی توقع رکھنا عبث ہے۔
سیاسی قائدین چاہے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو،دماغی بانجھ پن کا اس قدر شکار ہیں کہ روزانہ ایک ہی گفتگو کو استعمال لاتے ہیں اور اِن کے ہاں کسی قسم کے تنوع یا تبدیلی کاکوئی امکان اور اُمید نظرنہیں آتی۔اِنہیں یہ تک معلوم نہیں کہ ریاست اِن کی موجودگی میں تیزی کے ساتھ منہدم ہورہی ہے اور ایک ایسا وقت بہت قریب ہے جب اِنہیں اِن کے سیاسی مرتبے اور شناخت سے بھی محروم کردیا جائے گا۔لیکن اِن سے یہ اُمید بھی رکھی جانی چاہیے کہ وہ اپنے مفادات کے لیے کسی بھی ’’لشکر‘‘ کا حصہ بن سکتے ہیں۔کیوں کہ زیادہ تر لشکر آج انہی کی مہربانیوں سے پھل پھول رہے ہیں۔
طالبان کے استاد اورجامعہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم اعلیٰ مولانا سمیع الحق نے البتہ بہت اہم بات کی ہے اور کم از کم پاکستان کے شرمندہ دانش وروں سے زیادہ واضح موقف اختیار کیا ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ حکومت کے پاس طالبان سے مذاکرات کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں۔واضح رہے کہ مولانا سمیع الحق طالبان کے سب سے زیادہ اہم اور غیر متنازعہ رہبر ہیں،اس کی وجہ اِن کے والد مرحوم مولانا عبدالحق کا شروع کردہ مدرسہ دارالعلوم جامعہ حقانیہ ہے جہاں طالبان کے تقریباًتمام سرکردہ رہنماوں نے تعلیم حاصل کی ہے ۔طالبان کی صفوں میں موجود جتنے بھی ’’حقانی‘‘ ہیں، اِن کا اختیار کردہ حقانی تخلص مدرسہ حقانیہ کی وجہ سے ہے، جس کی سب سے بڑی مثال مولانا جلال الدین حقانی ہیں۔چونکہ ہمارے ہاں دانش وران اکرام میں مطالعہ اور حقائق جاننے کی خواہش اتنی پختہ نہیں اس لیے ہم اکثر اواقات طالبان، فرقہ پرستوں اور دیگر کئی اقسام کے انتہا پسندوں کے بارے میں اُن کے ارشادات سے بھی محظوظ ہوتے ہیں کہ وہ نہ جانتے ہوئے بھی کس قدر تیقن کے ساتھ سب کچھ کہہ جاتے ہیں۔مثال کے طور پر اکتوبر1965ء سے شروع ہونے والے دارالعلوم حقانیہ کے ماہانہ جریدے’’الحق‘‘ کی ورق گردانی کی جائے تو ہم آسانی کے ساتھ یہ جان سکتے ہیں کہ طالبان اور اُن سے قبل افغان جنگجوؤں کی اصل داستان کیا ہے۔کس نے کب اور کہاں کس کس کی مدد کی اور کس طرح اس خطے میں دائمی بدامنی اور قتل و غارت کا آغاز ہوا، سب سے بڑھ کر دنیا کے مختلف ممالک بشول وطن عزیز نے اس عفریت کے خدوخال وضح کرنے میں کیا کردار ادا کیا ہے اور کہاں کہاں اِن کو استعمال کیا ہے۔جو حضرات نوئے کے وسط میں اُٹھنے والی طالبان تحریک کے اجزائے ترکیبی جاننا چاہتے ہوں اُن کے لیے ماہنامہ الحق کے ہر شمارے میں شائع ہونے والے دو تین صفحات ہی کافی ہیں جو ’’دارالعلوم کے شب و روز‘‘ کے نام سے شائع ہوتے رہے۔
اب یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ کسی بھی قسم کی جدید ترین آلات کی مدد سے تیار کردہ فوج کے لیے اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے کہ وہ اس عفریت کا قطعی خاتمہ کرسکے۔اس کے لیے جس قسم کی اجتماعی ذہن سازی کی ضرورت ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کا فقدان بہت نمایاں نظر آتا ہے۔اس کی سب سے بھیانک مثال پاکستان ہے جہاں اعلیٰ عہدیداروں کا ایک غول اس جنگ میں کسی حد تک واضح موقف کا حامل تھا لیکن عمل درآمد کے ذمہ دار دیگر کردار اور عہدیدار متضاد سوچ کے حامل تھے۔نتیجہ ایک دائمی متذبذب کیفیت کی صورت میں برآمد ہوا ہے اور آج پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف اتفاق رائے شدید منقسم ہے۔آج پاکستان میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو ماضی اور حال کے حکمرانوں کو طالبان اور دوسرے انتہا پسندوں کی نسبت کہیں زیادہ ظالم اور خطرناک قرار دیتے ہیں بلکہ بعض تو اِنہی دہشت پسندوں کے ہاتھوں اِن حکمرانوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا خوفناک اتفاق رائے ہے جس کو پاکستان میں اقتدار سے دور رکھے گئے خواندہ مذہبی طبقے اور مذہبی جماعتوں نے تخلیق کیا ہے۔جماعت اسلامی اس کی درخشندہ مثال ہے جو خود طالبان اور اس قبیل کے انتہا پسندوں کے نشانے پر ہے لیکن اس قسم کی صورت حال کو اپنے لیے تسلی بخش قرار دیتی ہے اوراپنے داخلی و خارجی تصورات کوعام لوگوں تک پہنچانے کے لیے طالبان اور القاعدہ کی حکمت عملی کا دفاع کرتی ہے۔جماعت اسلامی ایک ایسا متشدد سوچ کا حامل معاشرہ دیکھنا چاہتی ہے جس کو وہ بعد میں اپنے تصور انقلاب کے عملی اہتمام کے لیے استعمال کرسکے۔کیوں کہ کسی قسم کے انتخابات میں جماعت اسلامی کو اپنا اقتدار نظر نہیں آتا۔
مولانا سمیع الحق نے جس بات کی طرف اشارہ کیا ہے، اس کو شاید ابھی بہت سے دانش مند اور سیاسی اکابرین بمعہ فوجی عہدیدار نہیں سمجھ پائیں گے۔مولانا واضح طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی ریاست طالبان اور اُن کے ساتھیوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی اور اگر ایسا کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر پاکستان کی ریاست قائم نہیں رہ سکے گی۔قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخواہ میں عملی طور پر ریاست کی رٹ مشروط ہوچکی ہے اور اگر اپنی گوناگوں مصروفیات کے پیش نظر دہشت گرد اُن علاقوں میں کوئی کارروائی نہ کرسکیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ایسا اس لیے نہیں ہورہا کہ ریاست اپنی رٹ قائم کرنے میں کامیاب ہے۔ریاست اس حوالے سے بہت حد تک دستبردار ہو چکی ہے اور اب دستبرداری کا یہ عمل دوسرے شہری علاقوں کی طرف منتقل ہورہا ہے جس کی واضح مثالیں کوئٹہ، پشاور اور کراچی کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
متذبذب قومی دانش وروں اور ہمارے سیاسی و مذہبی اکابرین کے لیے بہت زیادہ شرمندہ کردینے والا مرحلہ اگلے سال سے شروع ہوگا جب نیٹو اور امریکی افواج افغانستان سے روانہ ہورہی ہوں گی۔بہت سے لوگ اپنا سر سرعام پیٹنا چاہیں گے لیکن اس وقت تک ’’رجوع‘‘ میں تاخیر ہوچکی ہوگی اوروپ پھر اس خوف سے اپنی ندامت کا برملا اظہار بھی نہیں کرپائیں گے کہ کہیں اُن کا نام ہٹ لسٹ میں نہ شامل کرلیا جائے۔پنجاب اس حوالے سے اہم ترین کردار ادا کرے گا اور لاہور کو پاکستان کا قندھار قرار دینانہایت آسان ہوگا کیوں کہ آج جتنی طاقت اور مالی و سیاسی تعاون اس شہر سے پنجاب کے انتہا پسندوں کو حاصل ہورہا ہے،اتنا کسی دوسرے شہر سے نہیں ہورہا۔پنجابی حکمران ’’مذاکرات‘‘ کے بعد اپنے بچے کھچے اثاثے نکال کر لیجانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور آسانی کے ساتھ اپنے نصف صدی پرانے پیشے اور کاروبار کی طرف رجوع فرمالیں گے۔اصل مسئلہ فوج کے ساتھ ہوگا جو اپنی بقاء کے لیے جنگ کو کسی نہ کسی حد تک جاری رکھے گی اور معاملات مذاکرات اور سمجھوتوں کی مدد سے کچھ عرصے تک چلتے رہیں گے۔یہ ایک ایسا منظر نامہ ہے جس کی جزئیات کے بیان کے لیے ایک مکمل کتاب کی ضرورت ہے کیوں کہ معاملات جس حد تک بگڑ چکے ہیں اور پیچیدگی جتنی نمایاں نظر آرہی ہے اس کا بیان کسی ایک نشست کا معاملہ نہیں۔مجاہد حسین ، برسیلس میں نیو ایج اسلام کے بیرو چیف ہیں ۔ وہ حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’ سمیت نو کتابوں کے مصنف ہیں۔ تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/pakistan-current-situation-sami-ul/d/13661