مجاہد حسین نیو ایج اسلام
20 اپریل، 2013
پاکستان میں انتخابات کی تاریخ جوں جوں قریب آرہی ہے خیبر پختونخواہ کے مختلف شہروں اور کراچی میں القاعدہ، طالبان اور فرقہ پرستوں کے چھوٹے بڑے دہشت گروہ اپنی کارروائیاں تیز کررہے ہیں جن کا اولین نشانہ عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی ہیں۔
ایسے محسوس ہوتا ہے کہ انتخابات کے انعقاد سے پہلے مذکورہ پارٹیوں کو خاصا نقصان پہنچ چکا ہوگا لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ وہ سیاسی پارٹیاں جو دہشت گردوں کے واضح نشانے پر نہیں وہ اِن حملوں کی مذمت بھی نہیں کررہیں۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یا تو وہ دہشت گردوں کی خاموش حمایت پر رضامند ہیں یا پھر مخالف سیاسی پارٹیوں کی مشکلات کو اپنے لیے فائدہ مند سمجھ رہی ہیں۔نواز لیگ جس کی جیت کے بارے میں پیشگی دعوئے کیے جارہے ہیں پنجاب میں فرقہ پرستوں اور القاعدہ و طالبان کے ساتھیوں سے گہرے روابط جیسے الزامات کی زد میں ہے۔تحریک انصاف کے بارے میں رائے ملی جلی ہے کیوں کہ نہ تو اس کو انتہا پسندوں کی مکمل حامی قرار دیا جاتا ہے اور نہ ہی کھلم کھلا مخالف۔جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام سمیت چھوٹی بڑی مذہبی جماعتیں پنجاب میں تو کسی طرح کی سیاسی پوزیشن حاصل نہیں کرپائیں گی البتہ خیبر پختونخواہ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ اپنی روایتی نشستیں دوبارہ جیتنے میں کامیاب ہوجائے گی۔دوسری طرف سابق صدر پرویز مشرف ضمانت کی منسوخی کے بعد احاطہ عدالت سے فرار ہوکر اپنے گھر میں مقید ہیں جس کو بعد میں سب جیل قرار دیدیا گیا۔پرویز مشرف نے اگرچہ اپنے فیس بک پیغام کے ذریعے لوگوں کو آگاہ کرنے کو شش کی ہے کہ اس طرح کے واقعات پاکستان میں اداروں کے درمیان کشیدگی کا باعث بنیں گے لیکن ابھی تک ان کے ادارے یعنی فوج کی طرف سے کسی قسم کا ردعمل سامنے نہیں آیا۔اس میں شک نہیں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں فوج نے اپنے سابق اعلی عہدیداروں کو بھی مکمل تحفظ فراہم کیا ہے اور اِنہیں عدالتوں یا سول حکومتوں کی طرف سے کسی قسم کی تکلیف سے محفوظ رکھا ہے۔
اس حوالے سے مسلح جہادی قوتوں کے ردعمل کا ابھی انتظار ہے کیوں کہ جس دن مشرف پاکستان پہنچے تھے اُسی روز القاعدہ کے لیڈر عدنان رشید نے اپنے ویڈیو پیغام میں مشرف کو قتل کی ’’باتصویر‘‘ دھمکی پہنچا دی تھی جس کو پوری دنیا کے میڈیا نے دکھایا۔یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ مشرف کو اپنے اوپر لگے سنگین الزامات کے باعث مستقل جیل جانا پڑے گا کیوں کہ مشرف کے واضح ضامنوں میں شامل سعودی عرب کا شاہی خاندان پاکستان میں اپنے بے مثال اثرو رسوخ کی وجہ سے مشہور ہے۔یہ امکان بھی موجود ہے کہ مشرف کو کچھ عرصہ بعد ’’مشروط‘‘ رہائی اور اپنی خودساختہ جلا وطنی جاری رکھنے کا عندیہ دے دیا جائے، جس کو موجودہ حالات کو سمجھتے ہوئے مشرف کے لیے قبول کرنا بھی آسان ہوگا۔پاکستان میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور لیڈروں کو کسی قسم کے کڑے ضابطہ اخلاق کا حامل قرار دینا ممکن نہیں کیوں کہ اقتدار کی سیاست میں دراندازیوں کے رسیا کردار ضرورت کے مطابق پینترے بدلتے رہتے ہیں۔سب سے زیادہ بھاشن بازی کے ماہر پاکستان کی مذہبی جماعتوں کے رہنما وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ موقع پرست اور لالچی ثابت ہوئے ہیں اوراس صورت حال میں یہ قرار دے لینا کہ کوئی شیخ السلام یا قائد محترم پاکستان کی رواں سیاست میں کسی قدر اعلی کردار کا مظاہرہ کرے گا یا کسی اُصولی موقف کو اپنانے کی کوشش کرے گا محض خام خیالی سے بڑھ کر کچھ نہیں۔
زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ پاکستان میں اقتدار ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ نواز کو ملے گا کیوں کہ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے خیر خواہوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور تمام تر ریاستی مسائل کی ذمہ داری اس جماعت کے سر ڈالی جارہی ہے۔عمران خان جو خود کو بہترین متبادل اور پاکستان میں واضح تبدیلی کا استعارہ قرار دے رہے ہیں ،پاکستان کی روایتی سیاست بازی میں اِن کی واضح جیت کے امکانات بہت کم ہیں۔یہ ممکن ہے کہ اِنہیں قانون ساز اسمبلیوں میں کسی قدر نمایندگی حاصل ہوجائے لیکن ابھی تک سامنے آنے والی صورت حال اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ عمران خان ایک بے لچک سیاست دان کے طور پر اُبھرے ہیں جو کسی قسم کے اتحاد کی ضروریات پر پورا نہیں اُترتے۔اِنہیں یقین ہے کہ وہ پاکستان کی قدیم سیاست کو یک لخت تبدیل کردیں گے اور ملک میں ایک جمہوری انقلاب آجائے گا جس کے سامنے دیگر طاقت ور ریاستی ادارے ریت کی دیوار ثابت ہوں گے اور پھر وہ پاکستان کے عوام کو برسوں سے لاحق مسائل سے نجات دلائیں گے۔پاکستانی سیاست کا گہرا تجربہ رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ عمران خان ایک مہلک خام خیالی کا شکار ہیں اور کھیل کے میدان کے اپنے سخت گیر اور بے لچک روئیے کو بروئے کار لاکر پاکستانی سیاست کا حلیہ تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔اس روئیے سے دو چیزیں اخذ ہوتی ہیں، اول یا تو عمران خان کی شخصیت میں آمریت کی ایک مخصوص قسم پل رہی ہے ،دوئم وہ اپنی ہی جماعت کے دوسرے کہنہ مشق سیاست دانوں کے بارے میں پوری طرح نہیں جانتے جو پاکستان کی روایتی سازشی سیاست میں نام کما چکے ہیں اور جنہیں کسی قسم کے اقتدار کے دوران جماعت کے اندر اور باہر بالکل بے اثر کردینا آسان کام نہیں۔
نتائج جس بھی قسم کے ہوں گے ایک بات بہت حد تک طے ہے کہ پاکستان کے اقتدار میں موجود قوتوں کی مخصوص وضح ذہنی کے سبب پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کا عنصر مزید طاقت ور ہوگا اور ریاست کی اندرونی صورت حال تادیر مخدوش رہے گی۔اس کی بنیادی وجہ پاکستان کی مخصوس سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس حوالے سے چپ سادھ لینے کا رویہ اور مخالف سیاسی جماعتوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے بڑی تعداد میں دستیاب مسلح انتہا پسندوں اور فرقہ پرستوں پر بھروسہ کرنے کی روایت ہے جو گذشتہ ایک عشرے میں پاکستان میں قائم ہوئی ہے۔سیاسی جماعتوں اور طاقت ور اداروں کی کشمکش میں ہمیشہ سیاست دانوں کا نقصان ہوا ہے اور سیاسی جماعتیں ہی معتوب قرار دی گئی ہیں کیوں سیاسی جماعتیں واضح شناخت کی حامل ہوتی ہیں جبکہ طاقت ور ریاستی اداروں میں ذمہ داروں کی اکثریت بے نام ہوتی ہے۔بے نام اس لیے کہ وہ کوئی بھی ذمہ داری لینے سے مبرا ہوتے ہیں اور بالآخر سارا الزام محض کسی ایک ادارے کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے جو کچھ عرصے کے بعد بے اثر ہوکر رہ جاتا ہے۔سیاست دان اور اس کی سیاسی جماعت کچھ عرصے کے بعد دوبارہ غصے سے بھرے عوام کی طرف رجوع کرتے ہیں اور نتائج کا سامنا کرتے ہیں۔ اگرچہ بہت بڑی تعداد میں ہمارے دانش ور اور سیاسی سوجھ وان مئی کے انتخابات کو پاکستان کی سیاست میں ایک سنگ میل کا درجہ عطا کررہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ پاکستان ایک قدرے نئی ڈگر کی طرف رواں دواں ہوگا لیکن مجھے تھوڑا سا اختلاف ضرور ہے کہ پاکستان کو جس مصیبت کا سامنا انتہا پسندی اور فرقہ واریت کی فروغ پذیر صورت حال کی وجہ سے ہے ،اس کا تدارک کرنے کی طرف کسی سیاسی جماعت کا کوئی رحجان نظر نہیں آتا۔کم از کم اس وقت نظر نہیں آتا۔
تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/pakistan-elections-its-scenario-/d/11219