مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
5دسمبر، پاکستان کے بعض باخبر قرار دئیے گئے اداروں اور افراد میں اِن دنوں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جنرل کیانی کی سبکدوشی کے بعد پاک فوج کے نئے سربراہ جنرل راحیل شریف کا انتخاب وزیراعظم کی روایتی سیاسی سوچ کا مظہر ہے ،وہاں اس طرح کی افوائیں بھی گردش کررہی ہیں کہ ریاست سے برسر پیکار مذہبی انتہا پسندوں کے جذبات کو بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ایسی اطلاعات کی کسی جانب سے کوئی تردید بھی ابھی سامنے نہیں آئی اور نہ ہی پاک فوج کی طرف سے اس پر کوئی ردعمل سامنے آیا ہے۔پاکستان کے مہم جو میڈیا کی طرف سے اس تعیناتی کے بارے میں حد سے زیادہ بڑھی ہوئی دلچسپی اورقیاس آرائیوں نے مختلف اقسام کی افواہوں کی پرورش میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ایک خالصتاً ادارہ جاتی اور پیشہ ورانہ عہدے کے معاملے کو اس قدر موضوع بحث بنایا گیا کہ اب کہنے کو کچھ باقی نظر نہیں آتا۔بہت سے دانش ور حیران ہیں کہ فوج کی طرف سے اِنہیں کسی ردعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔کئی حلقے اس بات پر حیران ہیں کہ ملک کے قبائلی علاقوں میں مصروف جنگ شدت پسندوں کی طرف سے بھی اس تقرری کو خوش آئند قرار دیا گیا ہے۔حالاں کہ شدت پسندوں کی طرف سے جاری غیر تصدیق شدہ بیان کا مقصد نئے فوجی سربراہ کو خوش آمدید کہنے سے زیادہ سابقہ فوجی سربراہ سے اظہار ناپسندیدگی ہے۔
ماہرین جس بات سے خوفزدہ ہیں وہ وزیراعظم نواز شریف اور اُن کی جماعت کی طرف سے مقامی انتہا پسندوں کی جانب واضح جھکاؤ اور نرم لہجے کا برتاو ہے جس کی کئی مثالیں پنجاب اور مرکز میں دیکھی جاسکتی ہیں۔مثال کے طور پر نواز شریف کے چھوٹے بھائی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے اپنی پچھلی حکومت کے دوران مقامی طالبان سے درخواست کی تھی کہ وہ پنجاب کو اپنے حملوں کا نشانہ نہ بنائیں۔اس کے بعد پنجابی طالبان کے ایک اہم رہنما اور فرقہ پرست گروپ کے سربراہ ملک محمد اسحاق کو سینکڑوں سنگین مقدمات کے باوجود رہا گیا، ایسے واقعات کے بعد پنجاب حکومت کو ’’انتہا پسند دوست‘‘حکومت کا خطاب دیا گیا۔ماضی کے اِنہی خدشات کے پیش نظر اس مرتبہ بھی یہ خدشہ طاہر کیا جارہا ہے کہ میاں برادران انتہا پسندوں کو بے جا رعایات دینے کی حکمت عملی پر کاربند رہیں گے جو مجموعی طور پر ریاست کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔کیوں کہ ماضی میں ایسا کئی بار ہوچکا ہے۔میاں برادران کا خیال ہے کہ اس حکمت عملی کے باعث وہ حکومت کاری کے دورانیے کو بڑھا سکتے ہیں اور اِن کی حکومت قبول عام کی سند بھی حاصل کرسکتی ہے۔
ایک نہایت خوفناک اور اہم ترین نکتہ جس کو پوری شدت کے ساتھ نظر انداز کیا جارہا ہے، وہ عام لوگوں میں ریاست کے مقابلے میں غیر ریاستی عناصر اور اُن کی جنگی کارروائیوں کی قبولیت کا بڑھنا ہے۔مثال کے طور پر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی قیادت اچھی طرح جان چکی ہے کہ اصل طاقت کہاں پوشیدہ ہے اور اس کو کس طرح استعمال میں لانا ہے۔بنیادی طور پر یہ ایک ایسی دوڑ ہے جس کا مقصد دم توڑتی ہوئی ریاست کے مقابلے میں ممکنہ غالب آنے والی قوتوں کا بازو تھامنا ہے۔اس تمام کوشش میں قابل توجہ کردار پاکستان کے غالب میڈیا کا ہے جو مستقل مزاجی کے ساتھ پاکستانی عوام کو یہ یقین دلانے میں مصروف ہے کہ پاکستان کے تمام تر موجودہ مسائل کا منبع پاکستان کے بدعنوان حکمرانوں کی مغرب نوازی ہے جنہوں نے پاکستان کے مفادات کو پس پشت ڈال کر مغربی ممالک کے گھناونے عزائم کی تکمیل کی ہے۔عام تاثر یہ ہے کہ مغرب پاکستان کو اس کے ایٹمی بم سے محروم کرنا چاہتا ہے،اس کی اسلامی شناخت کو ختم کرنا چاہتا ہے اور اس کوشش میں مصروف ہے کہ اس کو ہمسایہ ہندو بھارت اور عرب مسلمانوں سے برسر پیکار یہودی اسرائیل کے تابع بنادیا جائے۔یہ ایک ایسا تسلیم شدہ تصور ہے جس کی لگاتار آبیاری کی گئی ہے۔سوشل میڈیا نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ہے اور کروڑوں بیروزگار اور اُکتائے ہوئے جذباتی افراد کے پاس اب اس کے سوا کرنے کا کوئی کام باقی نہیں کہ اُمت مسلمہ کے تاج میں جڑے ہیرے پاکستان کے بارے میں متذبذب حب الوطنی کا درس دیا جائے۔حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں حب الوطنی صرف جنگ و جدل سے مشروط ہے ۔جب تک ایک پاکستانی مسلمان بھارت، اسرائیل اور امریکہ سمیت تقریباً تمام مغربی ممالک سے برملا نفرت کا اظہار نہیں کرتا اُس کی حب الوطنی مشکوک رہتی ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ اب حب الوطنی کے مستند نمائندوں نے پاکستان کے اندر ہی ایسے افراد بھی تلاش کرلیے ہیں جن کی حتی المقدور مذمت بھی واجب ہے۔مثال کے طور پر حب الوطن حضرات پاکستانی انسانی حقوق کمیشن کی سابق سربراہ عاصمہ جہانگیر کو پاکستانی تسلیم کرنے پر تیار نہیں اور اُن کا دعویٰ ہے کہ عاصمہ جہانگیر دشمن کی ایجنٹ ہیں۔یہی معاملہ معروف صحافی نجم سیٹھی کے ساتھ بھی ہے کیوں کہ نجم سیٹھی متذبذب بیانی سے گریز کرتا ہے اور اس کی بین الاقوامی دشمن داری کا تصور اکثریت سے مختلف ہے۔وہ پاکستان میں برسرپیکار اسلامی انتہا پسندوں کو بھی پسند نہیں کرتا۔اس سے ملتا جلتا تصور عاصمہ جہانگیر کا بھی ہے جو پاکستان میں مذہبی جبر اور تعصب کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔ایسا نقطہ نظر معروف سائنسدان جناب پرویز ہود بھائی کا بھی ہے جن کو باقاعدہ دھمکیاں دی جاتی ہیں اور بعید نہیں کہ کسی دن کوئی متلاشی جنت اُن پر حملہ کردے۔امتیاز عالم بھی اِسی صف میں کھڑے ہیں کیوں کہ وہ پاکستان میں میڈیا کی آزادی کی بات کرتے ہیں جو اکثر طاقت ور اداروں کو ہضم نہیں ہوتی۔
دوسری طرف اہل وطن اب پوری تیاری اور قوت کے ساتھ فرقہ وارانہ جنگ کو بڑے پیمانے پر لڑنے کے لیے تیار ہورہے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت بگل بج سکتا ہے۔مذہبی انتہا پسندوں کی تیاری عروج پر ہے کیوں کہ اِنہیں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ قتل و غارت کے لیے جس قدر افرادی قوت اور آزادی عمل کی ضرورت ہے۔نواز شریف حکومت میں تیزی کے ساتھ حصار میں آرہی ہے ۔کرم ایجنسی، کراچی، شمالی علاقہ جات اور خیبر پختونخواہ میں شیعہ اقلیت نشانے پر ہے اور آئے روز ان کے لوگ مارے جارہے ہیں۔انتہا پسندوں کو یقین ہے کہ ریاست ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی کیوں کہ زیادہ تر شورش زدہ علاقوں میں ریاستی مشینری ان کے ساتھ تعاون کرتی ہے۔جیلوں میں اِنہیں خصوصی رعایات حاصل ہیں اور جہاں اِن کی تعداد بڑھ جاتی ہے ،وہاں وہ آسانی کے ساتھ جیل توڑ لیتے ہیں اور کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا۔بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کی جیلوں کو جس طرح توڑا گیا اور اس کے بعد جتنے بھی انتہا پسند اِن جیلوں سے بھاگے وہ سب ریاست کے خلاف برسر پیکار ہیں اور پہلے سے زیادہ مستحکم ارادوں کے ساتھ ریاست کو اُکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔پاکستان کے غالب میڈیا پر براجمان دائیں بازو کے تشدد پسندوں نے آج تک اِن واقعات کو موضوع بحث نہیں بنایا اور نہ،ہی حکومت پر کسی قسم کا دباو ڈالا کہ وہ اِن دہشت گردوں کے خلاف تادیبی کارروائی کریں۔
مجاہد حسین ، برسیلس میں نیو ایج اسلام کے بیرو چیف ہیں ۔ وہ حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’ سمیت نو کتابوں کے مصنف ہیں۔ تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/pakistan-glimpse-deepening-crisis-/d/34721