New Age Islam
Sun Jan 26 2025, 02:28 PM

Urdu Section ( 17 May 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

NEWAGEISLAM TV: History of Sectarian Divide in Pakistan پاکستان میں فرقہ وارانہ تقسیم کی تاریخ

مجاہد حسین،  بیورو چیف،  نیو ایج اسلام، برسلز کے ساتھ ایک انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ  (Transcript):

 16مئی، 2013

 

 

  جہاں تک آپ کا سوال ہے کے پاکستان میں فرقہ وارانہ قتل و غارت کی  شروعات کا ماخز کیا ہے، تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بنیادی طور پر  80 

 کے شروع کا دورانیہ ہے ، جب پاکستان میں فرقہ وارانہ  تشدد اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کے  امکانات پیدا ہوئے۔ تین ایسے واقعات تھے جو اس خطہ میں ہوئے یااس کے قرب و جوار میں ہوئے  جنہونے  بنیادی طور پر پاکستان میں  فرقہ وارانہ فضا کو ہموار کیا ۔ ایک تو روس کا افغانستان پر حملہ ،   جب ہم نے جہاد کے لئے سرکاری مشینری کو استعمال کیا ۔ اور پاکستان کے تمام  منظم ادارے تھے بشمول فوج، اس نے   اس جہاد کی رہنمائی کی۔

دوسرا واقعہ ایران میں انقلاب تھا۔ خمینی صاحب کی زیر سرپرستی جو انقلاب آیا  تو ایران نے خانہ فرنگ بنا کر  اپنے مخصوص نظریات   کو جو پر موٹ کرنا شروع کیا اور اس کے پر موشن کے لئے جو ادارے بنائے اس سے بھی ایک اس طرح کی فضا قائم ہوئی اور تیسرا تھا اقتدار میں ضیاء الحق کا مضبوط ہونا۔ اور ایک حکومت کا تختہ الٹ کر ، ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی دے کر ، پاکستان میں ایک نئی طرز کی بنیاد رکھنا ۔ یہ تین ایسے واقعات ہیں جن کے بطن سے ہمارے یہاں فرقہ واریت کا یہ جو ناسور ہے وہ پیدا ہوا ہے۔

میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کے، سب سے پہلے جو ایک فتویٰ ہمارے یہاں آیا  ایک کتاب آئی، وہ مولانا منظور احمد نعمانی صاحب   کی تھی جو ہندوستان کے ہیں، ایرانی انقلاب کے نام سے وہ کتاب آئی، جس میں شیعہ کے عقائد کوبڑی وضاحت کے ساتھ ، پھر ان کے جو اکابرین ہیں، شیعہ علماء  جیسے باقر مجلسی وغیرہ، ان کی تمام تر تحریریں تھیں اس میں سے جو  عقائد تھے صحابہ اکرام کے بارے میں ، ازواج مطہرات کے بارے میں اور دیگر  اکابرین اسلام ہیں ان کے بارے میں،  تو  وہ چونکہ بالکل نئے تھے،  پاکستان جیسے ایک سنّی  Dominated  مسلمانوں  کا سماج ہے، وہ اس میں  پھیلنا شروع ہوئے اور پھر یہ کتاب آ گئی اور  اس کے مندرجات پر لکھا جانا شروع ہوا۔

ایک ایسی فضا بننا شروع ہو گئی، جس سے یہ چیز سامنے آنے لگی کہ  اب اس ملک میں فرقہ وارانہ جنگ جو ہے وہ پروان چڑھے گی، فرقہ وارانہ قتل و غارت ہوگی اور ویسا ہی ہوا اور ہم نے دیکھا  کے کس طرح پاستان میں آج بھی یہ جنگ جاری ہے اور کس صورت کے ساتھ فرقہ وارانہ نسل کشی ہوئی ہے اس کے اعدا و شمار ہم سب کے سامنے ہیں۔

 پاکستان کے درو دیوار پر لکھ دیا گیا کافر ،کافر، شیعہ کافر  اور اس کے مقابلے مین دوسری طرف سے شیعہ حضرات کی طرف سے بھی اس میں بھرپور ساتھ دیا گیا۔ تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کے  ایک ایسی فضا ایک ایسا مٹیریل  تو ماضی سے ہی موجود تھا۔  اب اسکا استعمال یہاں پر شروع ہوا  تو اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ جب افغانستان میں جہاد  کے لئے تنظیمیں بنائی جا رہیں تھیں تب افغانستان میں جہاد کا آغاز ہو چکا تھا، تو پاکستان کو جو دیو بندی مکتب فکر ہے اس نے سب سے پہلے اس جہاد میں لبیک کہا ۔

 آج بھی وہی   Dominate کرتے ہیں، تو کراچی سے لےکر کوئٹہ تک، پشاور میں جہاں  بھی دیو بندی مدارس، چونکہ  ان کا سلسلہ پہلے سے ہی بہت منضبط  تھا ۔ یہ سب سے بڑا اور واحد وفاق المدارس تھا ، دیو بندی حضرات کا، تو اس میں  باقاعدہ ان کے یہاں یہ تربیت دی جانے لگی کے  ان کے یہاں جب مدارس میں چھٹیاں ہوتی تھیں ، تو بچے  چھٹیوں میں جانے کے بجائے  دو تین مہینے  وہ  جہاد افغان کے لئے بھرتی ہوتے تھے، تربیت حاصل کرتے اور ساتھ  ہی ان کے یہاں جو درس نظامی کے تحت انہیں جو تعلیم دی جا رہی تھی  اور دیگر جو کتب پڑھائی جا رہی تھی وہ کلیاتن  فرقہ وارانہ تھیں۔ ان میں ایک فرقہوارانہ عنصر جو ہے وہ زیادہ پروان چڑھنے لگا۔

 پھر اس کے بعد ہم نے دیکھا کے جھنگ میں ، جہاں بنیادی مظاہری غریب مزدوروں اور وہاں کے جاگیرداروں  کے درمیاں  ہوا، پھر وہ کیسے پھیلا، اس میں ریاستی اداروں کا کیا کردار رہا ۔ پھر اس دوران میں ایک اور بہت بڑا واقعہ ہوا جسے ہمارے یہاں  جو تحقیق کرنے والے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ وہ یہ تھا کہ ضیاء الحق نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ  مدارس کے طلبہ کی جو ڈگری تھی جو درس نظامی کر چکے  تھے اس کو سرکاری یونیورسٹیوں کے مساوی کر دیا ۔  تو ایک بہت بڑی  کھیپ فوج میں  نان کمیشنڈ افسر کے طور پر فوج میں بھرتی ہوئی، اب چونکہ یہی ایک ادارہ منضبط ادارہ تھا ، وفاق المدارس، تو جتنے  دیو بندی مدارس  کے لوگ تھے  ان کے لوگ فوج مین نان کمیشنڈ افسر کے طور پر فوج میں بھرتی ہوگئے۔ خطیب بن گئے، امام بن گئے۔ تو اس میں بھی فوج  کے اندر بھی  ایک نئی طرح کی صورتحال پیدا ہونی شروع ہو گئی۔

دوسری طرف اہل تشیع حضرات کے یہاں  ایرانی انقلاب کے بعد  جو ایک  مجالس سلسلہ  جو  تاریخی طور پر موجود تھا، ایک  نئے ولولے کے ساتھ ان لوگوں نے اپنے یہاں کام شروع کیا۔ ہم نے دیکھا کہ ایسے علماء  کو  زیادہ پزیرائی حاصل ہونی شورع ہو گئی  جو  مخالف مکتب فکر کے نظریات ان کے عقائد  اور ان کے رواج کو نشانہ بناتے تھے۔  یہی صورتحال دوسری طرف بھی تھی۔  تو ایک ایسا رنگ قائم ہونا شروع ہو  گیا ،  پھر کتابیں لکھی جانے لگیں۔ اس میں ایک دلچسپی سے کھالی یہ بات نہیں ہوگی کے  اہل تشیع میں اور دوسری طرف جو سخت گو تھے، ان میں سے اکثریت وہ لوگ تھے جو  کنورٹیڈ تھے، میں بتا سکتا ہوں  کے مجھے اگر فرقہ وارانہ طور پر  تحقیق کرنا ہے، پنجاب میں اور  پاکستان میں  تو میرے لئے جو اہل تشیع میں سب سے پہلے نام آئے گا  وہ مولانا محمد اسمٰعیل دیو بندی کا ہے، جو کہ دیو بندی تھے اور وہاں سے کنورٹ ہوکر شیعہ ہو گئے،  اب وہ جس تیقن کے ساتھ واقعات کی وضاحت کرتے تھے  کہ میں چونکہ اس مسلک پر تھا پہلے بعد میں مجھے ہدایت ملی اور میں راہ ہدایت پر آیا اور شیعہ ہو گیا، تو میں نے جانا کے میں کتنا غلط تھا۔ اب ان کی بات سن کر ایک زیادہ وثوق قائم ہونا شروع ہوا کے ایک ایسا آدمی جو اس مکتب فکر کو چھوڑ کر یہاں آ گیا ہے وہ جو بات کر رہا ہے وہ کلیتن ٹھیک کر رہا ہے۔ مولانا اسمٰعیل دیو بندی کے بعد ایک  لائن لگ جاتی ہے۔  ہم  آگے دیکھتے ہیں کہ  مولانا توکل نام کے  ایک صاحب آ جاتے ہیں، تاج دین حیدری صاحب  آجاتے ہیں، دوسری طرف شبیر شاہ  حافظ آبادی  آ جاتے ہیں،  کراچی میں یوسف لدھیانوی صاحب یہی کام کر رہے ہیں۔   حق نواز جھنگوی صاحب اٹھتے  ہیں اور کبیر والا کے مدرسہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد  جھنگ میں آ کر رہتے ہیں وہاں وہ  مسجد کے خطیب بنتے ہیں۔ ان کی شعلہ بیانی شروع ہوتی ہے، تو ایک اجتماعی  فضا جو ہے  وہ باہر نکلنا شروع ہو گئی، تاثر جو ہے وہ باہر پھیلنا شروع ہوا۔ یہ قائد ہیں  اہل تشیع لوگوں کے اور یہ ہیں ان کے مخالفوں کے۔ تو اس میں ایک واضح  کشیدگی نظر آنے لگی۔

80 کے درمیان میں   ہی فرقہ وارانہ قتل و غارت کا آغاز  ہوا۔ پہلے سندھ میں ایک واقعہ ہوا ، وہاں اہل تشیع لوگوں کی ایک مجلس پر حملہ ہوا۔ جس میں درجنوں لوگ مارے گئے۔ اس کے بعد بڑے شہروں میں واقعات ہونے شروع ہو گئے۔ علماء  کو نشانہ بنیایا گیا اس کے بعد  حق نواز جھنگوی صاحب کو نشانہ بنایا گیا   بلکہ ان سے پہلے ہی تحریک نفاز فقہ  جعفریہ  کے عارف حسینی  کو پشاور کے ایک مدرسہ میں  قتل کر دیا ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ چونکہ ہمیں وہاں افغانستان میںوہاں پر فوج  اور   جہادیوں کو رسد پہنچانے کے لئے جو  راست ہم استعمال کرتے تھے، اس کا ایک مسئلہ  تھا کہ اگر آپ جائے پارہ چنار میں  تو ایک تواڑ نام کا قصبہ ہے جو عارف حسینی کا قصبہ  تاھ۔ اس کے قرب و جوار میں  لشکری تعلق سے  بہت ہی  اہم راستہ تھا ، جس سے اسلحہ پہنچایا جاتا تھا۔ اب راستے میں شیعہ  قبائل تھے، ان کے خلاف پھر ضیاء الحق  کی طرف سے باقائدہ   فوج کشی کی گئی۔ ٹینکوں کی مدد سے ان کو مارا گیا۔ کشیدگی چاروں طرف سے بڑھنے لگی۔ فرقہ وارانہ حوالے سے ایران کی طرف سے مدد آ رہی تھی، خانہ فرنگ اپنی اشاعتیں سامنے لا رہا ہے، تعلیم دے رہا  ہے۔ ایرانی سفیر  جو ہے وہ  مجالس میں جا رہے ہیں۔ ایک  Visible قسم کی صورتحال تھی۔ سعودی عرب ہمیشہ سے ہی مہربان رہا ہے اس  معاملہ میں کے وہ کس طرح سے  اپنے کٹر  نظریات کو لاتا ہے، وہاں ان کی طرف سے مدد آنا شروع ہوئی۔ تو وہ براہ راست مدارس کو ملنی شروع ہوئی۔ یہ ایک ایسی فضا نہ صرف ریاست کی مدد سے بنی   بلکہ  سعودی عرب اور ایران  کی طرف  سے باقاعدہ ایک  Visible  مداخلت نظر آئی ۔ اور پاکستان میں فضا ہموار ہوتی جا رہی تھی۔ جہاد کے ترانے گونج رہے تھے۔ تنظیمیں بن رہیں تھیں،  ادھر ایران کی طرف سے بھی ایک پورا تعاون حاصل تھا  اہل  تشیع  لوگوں کو، پھر ہم نے یہ دیکھا کے  ہمارے سامنے سپاہ صابہ بنی حابہ  بنی، سپاہ محمد بنی، لشکر جھنگوی بنی۔ ان تنظیموں کے بارے بہت سے ایسے انکشافات بھی سامنے آئے  کہ یہ کس طرح قبضہ کرتے ہیں، کس طرح بینک لوٹتے ہیں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ راول پنڈی میں  ایک بہر معروف پولس افسر ہیں ، ڈاکٹر شعیب سڈّل، انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے پہلی مرتبہ 1996 میں انکشاف کیا تھا کے سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد کے لوگ بینک لوٹتے ہیں اور ڈکیتیاں کرتے ہیں۔ پھر ہم نے  آگے جاکر بہت سارے قوائف دیکھے  کے  اور جگہوں پر آپریشن ہوئے ٹھوکر نواز سے جو لوگ پکڑے گئے، جہاں پر سپاہ محمد کا ایک مرکز تھا۔ پھر ہم نے دیکھا کے جھنگ سے جو لوگ پکڑے جا رہے ہیں۔ پھر سرگودہ میں، راول پنڈی میں،   تو ایسی چیزیں جب پوری طرح سے پروان چڑ گئیں  تو  پھر اس قتل و غارت کو روکنا ممکن نہ رہا ۔

 پھر ہم افغانستان میں Strategic Depth کے متلاشی تھے وہ تو ہمیں مل نہ سکی، لیکن ہم نے یہ کیا کے جو تنظیمیں ، جو آرگنائزیشنس بنا چکے تھے اب ان آرگنائزیشنس میں پھیلنا تھا۔ ان کے پاس بہت سے مضبوط مراکز تھے۔ ان کے پاس  مدارس تھے۔ ان کے پاس لوگوں تک پہنچنے کے لئے براہ راست  رسائی کے کھلا ہوا بڑا میدان پڑا ہوا تھا۔ تو وہ ہوا۔ پاکستان میں ایسی کتابیں لکھیں دونوں مکاتب فکر کی جانب سے ، جن کتابوں کو عام آدمی پڑھ ہی نہیں سکتا۔ عام آدمی کے جو اعتقادات ہیں ، وہ تو اس کے سراسر منافی ہیں۔ یہ کتابیں آج بھی موجود ہیں۔ گو کے ان پر پابندی لگ چکی ہے۔ وہ میگزین آج بھی نکلتے ہیں۔ اب اگر کوئی آدمی نہ پڑھنا چاہے، یا کوئی ریاست نہ پڑھنا چاہے، یا کوئی قانون  کو نافذ کرنے والے ادروں کو نہ جاننا چاہے غلط بات ہے، میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کے نظام  خلافت راشدہ نام کا ایک  میگزین ہے،  کبھی اس  کو پڑھ کر دیکھیں، حق چار یار ایک میگزین ہے، اس کو پڑھ کر دیکھیں کے کس طرح تکفیر کے فتوے ہیں، کس طرح مخالف مسلک کی  بے کنی کی جا رہی ہے۔ ان کے جو اکبرین ہیں ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ یہی کام اہل تشیع لوگوں کی طرف سے بھی آیا۔ غلام  حسین نجفی نام کے ایک عالم تھے جو بعد میں مارے گئے ، انہوں  نے  چار پانچ  ایسی کتابیں لکھیں ، جن کتابوں کے اپ عنوان ہی نہیں پڑھ سکتے۔

نہ صرف ان کو عوامی پزیرائی حاصل ہو رہی تھی بلکہ  ان کے پاس فنڈس آ رہے تھے، ان کے پاس طاقت موجود تھی،  ان کو بین القوامی سطح پر بھی مدد مل رہی تھی، ایک طرف  ایران مدد کر رہا تھا، ایک طرف سعودی عرب مدد کر رہا تھا۔ تو بنیادی طور پر ان فرقہ پرستوں نے  پاکستانی سماج کو  ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے بلکہ  انہوں نے میدان جنگ بنا دیا ہے۔ اب پاکستان  فرقہ وارانہ حوالے سے سعودی عرب اور ایران  کا ایک میدان جنگ ہے، جہاں وہ اپنی اپنی جنگیں لڑتے ہیں، افرادی قوت  پہلے سے بہت موجود ہے، ریاست پہلے سے کمزور ہے، لوگوں کے پاس روزگار نہیں ہے، پہلے سے ہر طرف  جہاد کا غلغلہ ہے، اور یہ سمجھ نہیں آتی کے  یہ ریاست کس طرف کو جائے گی، تو  مین نہیں سمجھتا کے پاکستان میں جو فرقہ وارانہ صورتحال بن چکی ہے  اس کو کسی بھی طرح سے کنٹرول کیا جا سکے گا۔

نہ تو حکومتیں اس پر راضی ہیں نہ تو اعلی عہدیدار اس پر راضی ہیں  اور بد قسمتی سے فوج کے خفیہ ادارے جن کے پاس  طاقت ہے، جو ان لوگوں کو استعمال کرتے ہیں۔ اب تو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کے جیش محمد، لشکر طیبہ ، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی  ان کو بنانے میں ان اداروں کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ ایک واضح اور کھلی حقیقت ہے۔ ہم ان سے آنکھیں چراتے رہیں، یا اس پر ایک پردہ ڈالتے رہیں، یہ ایک  الگ  بات ہے ، لیکن مین آپ کو بتانا چاہتا ہوں کے پاکستان میں خطرہ دہلیزیں عبور کر چکا ہے۔ اب گھروں میں گھس چکا ہے۔ آج  پاکستان کا سماج اس بری طریقے سے تقسیم کا شکار ہے، کے لوگ آج برملہ یہ کہتے ہیں کے اگر سو شیعہ کوئٹہ میں مارا گیا ہے تو  اور ساتھ بچے مارے گئے ہیں تو کوئی بات نہیں ہے، سانپ کے بچوں کو مار دینا چاہئے۔ آج پاکستان کے اخبارات میں یہ خط شائع ہوتے ہیں کے  یہ کافر ہیں ان کے بچوں کو اغوا کر لیا جائے،  مردوں کو مار لیا جائے تو کسی کے بھی کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ فرقہ واریت جتنی دہشت گردی  اور انتہا پسندی خطرناک ہے ، فرقہ واریت اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔

URL for English article:

https://newageislam.com/multimedia/newageislam-tv-history-sectarian-divide/d/11616

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/newageislam-tv-history-sectarian-divide/d/11618

 

Loading..

Loading..