مجاہد حسین نیو ایج اسلام
30 اپریل، 2013
پاکستان کی تاریخ کا پہلا الیکشن دہشت گردی اور انتہاپسندی کی نذر ہونے جارہا ہے کیوں کہ تحریک طالبان اور اس سے جڑے ہوئے تمام دھڑے یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی ’’تبدیلی‘‘ نشان زدہ سیاسی جماعتوں پر حملوں سے اِنہیں خوفزدہ کرکے حاصل کی جاسکتی ہے۔
کسی ملک میں انتخابات پر اثر انداز ہونے اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کا یہ منفرد طریقہ ہے کیوں کہ بظاہر اس کی کامیابی کے امکانات نظر آنا شروع ہوگئے ہیں اور پاکستان کے کم از کم تین صوبائی دارلحکومتوں کوئٹہ، کراچی اور پشاور میں اس طرح کے مہلک حملوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔واضح نشانہ پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم ہیں جو گذشتہ حکومت میں اتحادی تھیں ۔اگر پچھلے پانچ برسوں کو یکسوئی کے ساتھ دیکھا جائے تو مذکورہ سیاسی جماعتوں نے دل و جان سے پاکستان کے طاقت ور ادارے افواج پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کی مثال قائم کی ہے۔فوج اور دیگر سیکورٹی ادارے اِن سیاسی جماعتوں کو تحفظ فراہم کرنے سے قاصر ہیں کیوں کہ فوج خود نشانے پر ہے اور جوں جوں افغانستان سے نیٹو اور امریکی افواج کے انخلاء کا وقت قریب آرہا ہے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کشیدہ ہوتے جارہے ہیں
۔پچھلے دنوں برسلز میں سہ فریقی مذاکرات میں موجود یخ بستگی سے محسوس ہوتا ہے کہ نہ پاکستان افغانستان کے ساتھ کھلے دن سے بات کرنے پر رضامند ہے اور نہ ہی امریکہ پاکستان کی سرحدوں سے افغانستان کی طرف برآمد ہونے والی انتہا پسندی میں تخفیف کے کسی دعوئے کو تسلیم کرنے کو تیار ہے۔افغان انتظامہ سرحد پار دہشت گردی کے موضوع پر پاکستانی انتظامیہ سے نالاں ہے اور اس کو یقین ہے کہ اگر پاکستان کے اندر موجود انتہا پسند افغانستان میں در اندازی چھوڑ دیں تو افغانستان میں امن و مان کی حالت بہتر ہوسکتی ہے۔
پاکستان میں طالبان کی غیر مشروط حمایت یافتہ سیاسی جماعتوں میں شامل پاکستان مسلم لیگ نوازانتخابات میں جیت کے لیے ایسے سابق انتہا پسندوں اور فرقہ پرستوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوئی ہے جو نہ صرف پارلیمنٹ میں اس کی نشستوں میں اضافہ کرسکتے ہیں بلکہ گیارہ مئی کو بعض’’حساس‘‘ انتخابی مراکزپر درکار مسلح کمک بھی فراہم کرسکتے ہیں۔اس کے بعد پنجاب کی مخصوص فرقہ وارانہ فضاء کس قدر مکدر ہوگی، اس کے بارے میں سوچنے کے لیے ابھی سے نواز لیگ کی قیادت کے پاس کوئی وقت نہیں کیوں کہ اِنہیں کسی قدر غیر متوقع طور پر پذیرائی حاصل کرنے میں مصروف سابق کرکٹر عمران خان کا سامنا ہے جو اپنے طور پر پنجاب میں پیپلز پارٹی کو روند چکا ہے اوربے تابی سے گیارہ مئی کا انتظار کررہا ہے۔عمران خان پر طالبان اور اُن کے ساتھی انتہا پسند اس لیے حملے نہیں کرنا چاہتے کہ اپنے عزائم کے حوالے سے متذبذب عمران خان اور اِن کی پارٹی کی اجتماعی سوچ کے بارے میں ابھی سے کوئی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔عمران خان کی انتخابی مہم کے لیے تشہیر کا کام کرنے والے عوام کو ایسے عبادتی اشتہار دکھارہے ہیں جن میں عمران خان نماز پڑھتے نظر آرہے ہیں۔ ان کوکافروں کی ایجاد کردہ کرکٹ کے ہیرو کے طور پر پیش نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اِن کی بطور کرکٹر مصروفیات کی کوئی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ واضح رہے کہ طالبانی سوچ کے متعدد پاکستانی معماروں میں شامل ایک انتہائی قابل عزت نام ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کا بھی ہے جو نوے کے وسط میں یہ فتوی دے چکے ہیں کہ عمران خان کا کرکٹ بال کو اپنی رانوں پر رگڑنا غیر شرعی فعل ہے، عمران خان فوری طور پر اس قبیح فعل سے باز آجائے اور توبہ کرے۔دوسری طرف ہم سب کے پیارے مولانا فضل الرحمن ہیں جن پر طالبان کا ایک ناہنجار گروہ ماضی میں دو خودکش حملے کرچکا ہے لیکن مستند طالبان نے گذشتہ روز واضح کردیا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمن کی انتخابی مہم پر کسی قسم کا حملہ نہیں کریں گے۔
اس میں شک نہیں مولانا فضل الرحمن کے مدارس لاتعداد طالبان کی مادر عملی رہ چکے ہیں اور لاتعداد اس وقت بھی دینی علوم کی پیاس بجھا رہے ہیں ۔اسی طرح اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمن کو مستقبل میں طالبان کے ساتھ کسی قسم کا معاہدہ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوگا ۔طالبان کا سب سے بڑا مخمصہ اس وقت یہ ہے کہ اِن کی دو حمایت یافتہ سیاسی جماعتیں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ نواز آپس میں بُری طرح گتھم گتھا ہیں اور اس طرح پیپلز پارٹی ،ایم کیو ایم یا عوامی نیشنل پارٹی جیسی سیکولر جماعتیں اس باہمی لڑائی سے فائدہ اُٹھا سکتی ہیں۔ طالبان کی غیر مشروط حمایت یافتہ پارٹیوں میں شامل چوتھی مذہبی و سیاسی پارٹی جماعت اسلامی انتخابی معرکے میں سب سے لاغر ہے اور اپنے تربیت یافتہ کارکنوں کے تقدس کے سحر میں اس حد تک گرفتار ہے کہ اس کو کوئی اتحادی برداشت نہیں کرسکتا۔جماعت اسلامی پہلے نواز لیگ کی طرف جھکی لیکن مرضی کے نتائج نہ پاکر تحریک انصاف کی طرف لڑھکنے لگی لیکن وہاں بھی جماعت کا روایتی تقدس آڑے آیا اور اتحاد کی بات نہ بن سکی،لیکن صرف مسلح طالبان کی حمایت سے جماعت اسلامی شاید کوئی ایک نشست بھی نہ جیت سکے۔
اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ طالبان اور اُن کے سچے ہمدرد انتخابات سے کچھ دن پہلے اپنی پسندیدہ جماعتوں سے اپیل کریں کہ وہ آپس کی انتخابی جنگ کو چھوڑ کر مل کر لادین اور لبرل جماعتوں کا مقابلہ کریں۔لیکن یہ مطالبہ ایک اِن جماعتوں کے لیے اُلجھا دینے والا عمل ہوگا اور ایسا نظر نہیں آتا کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ نواز کبھی کسی قسم کے اتحاد میں بندھ سکیں گی ،ایسی ہی صورت حال مولانا فضل الرحمن کی جماعت کے ساتھ بھی ہے جو مذکورہ پارٹیوں کے ساتھ کسی قسم کے اتحاد سے بدکتی ہے۔
اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ گیارہ مئی کو ایسی تمام پارٹیاں فتح سے ہمکنار ہو جاتی ہیں اور اب اِنہیں حکومت بنانے کے لیے ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال کے پیش نظر کوئی ایک سیاسی جماعت تنہا حکومت بنانے کے لیے درکار اکثریت حاصل نہیں کرسکتی۔جب یہ تمام پارٹیاں کسی ایک شخص کو قائد ایوان بنانے پر متفق نہیں ہوپاتیں تو ’’خصوصی‘‘ احکامات کے لیے ملا عمر یا حکیم اللہ محسود کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور وہاں سے یہ حکم صادر ہوتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن یا منور حسن کو یہ ذمہ داری سونپ دی جائے، تو کیا عمران خان اور میاں نواز شریف ایسے کسی فیصلے پر متفق ہو جائیں گے؟اس قسم کے حالات کی فرضیت میں بہت کچھ اندازوں کی مدد سے لکھا جاسکتا ہے لیکن آخر میں ایک ہی فیصلے پر اکتفا کرنا پڑے گا کہ اب طالبان نئی حکومت کے خلاف خودکش حملوں کے لیے حکم جاری کرچکے ہیں اور ساتھ ہی دھماکوں اور ذمہ داری قبول کرنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔
بنیادی طور پر یہ ایک ایسا اہم موقع تھا کہ جب طالبان نے اپنی پسندیدگی اور ناپسندیدگی کی اسناد تقسیم کرنا شروع کیں تو پاکستان کی سیاسی جماعتیں اس ایک نکتے پر متفق ہوتیں کہ کسی صورت میں بھی دہشت گردی کو برادشت نہیں کیا جائے گا چاہے وہ کسی کے بھی خلاف ہو۔لیکن بدقسمتی سے طالبان کی اس روش کو اپنے مقاصد کے لیے خاموشی سے استعمال کیا گیا ہے اور سیکولر ،لبرل جماعتوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔پنجاب میں انتخابی فتح کے قریب کھڑی مسلم لیگ نواز اس لیے خاموش رہی کہ اس طرح وہ جنوبی پنجاب میں خصوصاً انتہا پسندوں کی حمایت سے محروم ہوجائے گی جب کہ عمران خان کی جماعت اس خدشے کے تحت کچھ نہ بولی کہ خیبر پختونخواہ میں اس کو متوقع نشستوں سے ہاتھ نہ دھونا پڑیں۔جماعت اسلامی کے لیے اُمید کی واحد کرن کراچی میں طالبان کے ہاتھوں ایم کیو ایم کی بربادی ہے تاکہ وہ اپنی چھینی ہوئی نشستوں میں سے کچھ دوبارہ حاصل کرسکے۔غرض انتخابی فتح کے لیے مخالف کی موت پر رضامند ہوجانے کی یہ نئی روایت اب پاکستان میں پروان چڑھ رہی ہے جو ریاست کے بارے میں خدشات کو مزید توانا کرے گی۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کامیابی کے بعد کون سی جماعت پاکستان میں دہشت گردی اور فرقہ وارایے کے بارے میں کون سا لائحہ عمل اختیار کرتی ہے، فیصلے حقائق اور شواہد کو مدنظر رکھ کر لیے جاتے ہیں یا انتہا پسندوں کو کھلی چھوٹ دیدی جاتی ہے کہ وہ جس طرح چاہیں دہشت مچائیں اور اقلیتوں کو ریاست سے نکال باہر کریں۔اس میں شک نہیں کہ آیندہ انتخابات پاکستان میں جمہوری تسلسل کے حوالے سے بہت اہم ہیں بلکہ ریاست کے مستقبل کے حوالے سے بھی نہایت فیصلہ کن اور نتیجہ خیز ثابت ہوں گے۔
مجاہد حسین ، برسیلس میں نیو ایج اسلام کے بیرو چیف ہیں ۔ وہ حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’ سمیت نو کتابوں کے مصنف ہیں۔ تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/is-decision-taliban’s-hand-/d/11362