مجاہد حسین، نیو ایج اسلام
6مارچ، 2013
پاکستان میں بہت سے تجزیہ نگار اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آخر کار پاکستانی فوج کروٹ لے گی اور ایسے تمام مذہبی انتہا پسندوں اور فرقہ پرست قاتلوں کو بے بس کردے گی جو ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں کامل یقین ہے کہ پاکستان میں اہل تشیع سمیت دیگر اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ اسلام اور پاکستان دشمن طاقتوں کا کیا دھرا ہے۔جن کا وجدان توانا ہے اور دل ایمانی قوت سے لبریز ہے اُنہیں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ پاکستان کی شیعہ اقلیت کو اِن کی آبادیوں میں گھس کر قتل کرنے والے یا تو بھارتی ہندو کی سازش کے آلہ کار ہیں یا پھر اِنہیں اسلام دشمن امریکہ اور اسرائیل کی مالی امداد حاصل ہے۔ایسے زبردست خیالات کے حامل اِن متقی دانش وروں میں ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے قلمی پہلوان اور فوج کے سابق محب وطن جرنیل اور اعلیٰ عہدیدار شامل ہیں جو یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مخصوص متشدد اور فرقہ پرست سوچ کے حامل تربیت یافتہ مسلمان جہادی اللہ و رسول کی خوشنودی کے حصول کے لیے قتل وغارت کا میدان گرم کیے ہوئے ہیں۔اب ایسے لوگوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے جو توازن قائم رکھنے کے لیے یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ نا سمجھ اور بھٹکے ہوئے مسلمان ہیں جو اصل تفہیم دین سے عاری ہیں اور دوسرے مسلمانوں کا گلا کاٹ کر دشمن کے مشن کو کامیاب کررہے ہیں۔ظاہر ہے مذکورہ بالا خیالات و تصورات موجودہ صورت حال سے خوفزدہ عام افراد کی دلجوئی کے لیے خاصے حوصلہ افزاء ثابت ہوتے ہیں اور یوں نہ صرف تاک میں لگے قاتلوں کا کام چلتا رہتا ہے بلکہ دانش ور اور ایمان کی قوت سے بھرئے ہوئے محبان اسلام اور پاکستان بھی معمول کی یاوہ گوئی کو جاری رکھتے ہیں۔
معاملہ ہر قسم کی یاوہ گوئی اور خیال بازی سے کہیں آگے نکل چکا ہے اور ریاست اوندھے منہ گرنے کو تیار ہے۔مشکل اور پریشانی اس لیے ناقابل برادشت ہوتی جارہی ہے کہ پاکستان میں متشدد مذہبیت اور فرقہ پرست سوچ کے سامنے کھڑے ہوجانے والوں کا سراغ لگانا بھی ممکن نہیں رہا۔جہاں پاکستان کا وزیرداخلہ اپنے ایک قریبی ترین عزیز کے ذریعے جہادی اور فرقہ پرست تنظیموں کے لیڈروں کو اسلحہ لائسنس سے لے کر مالی تعاون تک فراہم کرتا ہے اور ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ اور اس کی کابینہ میں شامل وزیرقانون پاکستان میں اعلانیہ طور پر اقلیتوں کو قتل کرنے والوں کو لاکھوں روپیہ ماہانہ خرچ کے طور ادا کرنے اور اِنہیں ہر قسم کی سہولت فراہم کرنے کا بندوبست کرتے ہیں وہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے جو مذکورہ بالا اعلیٰ عہدیداروں کی ماتحتی میں کام کرتے ہیں وہ کسی قاتل کو گرفتار کرسکتے ہیں یا اپنے تحفظ کے حوالے سے اِن عہدیداروں سے کہیں کمزور عدالتیں ایسے لوگوں کو سزا دے سکتی ہیں؟ایسی صورت حال میں جو لوگ فوج سے یا اس کے خفیہ اداروں سے ایسی توقع کرتے ہیں کہ وہ متشدد مذہبی قوتوں یا فرقہ پرست قاتلوں کا قلع قمع کرسکتی ہے، اِن کی سادگی پر سوائے ہنس دینے کے کچھ اور نہیں ہوسکتا۔
پاکستان میں فوج متشدد مذہبی تنظیموں اور فرقہ پرستوں کے خلاف کریک ڈاون نہیں کرسکتی کیوں کہ فوج کے خفیہ ادارے جنہیں فوج کادماغ سمجھا جاتا ہے،اِنہیں’’اثاثہ‘‘ قرار دیتے ہیں اور اِن سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ کسی قسم کے سرحدی بحران یا ہمسایؤں سے کشیدگی کی صورت میں یہ ’’اثاثہ‘‘ ان کے کام آئے گا۔اس میں بھی شک نہیں کہ کام آتا بھی رہا ہے لیکن جب سے افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اِنس ’’قومی اثاثے ‘‘کا غلبہ قائم ہوا ہے یہ کام آنے سے زیادہ پلٹ کر حملہ کرنے میں مصروف ہے۔اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے فوری بعد برسلز میں پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے راقم کے سوال کے جواب میں واضح طور پر اس بات کا اقرار کیا تھا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پنجاب میں نہیں چھیڑنا چاہتے اور ایسی متشدد تنظیموں پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے جو کشمیر میں جاری جہاد میں شامل رہی ہیں یا اب بھی شامل ہیں۔اس سے فوج کی بے بسی اور خوش گمانی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے فیصلہ ساز افراد کے نزدیک خطرے کی تعریف کیا ہے اور اِن کی ترجیہات کیا ہیں۔
پاکستان میں فرقہ وارانہ قتل وغارت ختم ہوتی نظر نہیں آتی کیوں کہ اس پر اکثریت کا اجماع موجود ہے جو اول تو ایسے ہولناک واقعات کو بیرونی ہاتھ کا شاخسانہ سمجھتے ہیں،دوم اِن کی خاموش حمایت بھی شامل حال ہے۔خاموش حمایت اس لیے کہ یہ اکثریت فرقہ وارانہ تعصب کا شکار ہے اوراپنے سے مختلف مذہبی و مسلکی عقائد کے حامل افراد کی نسلی تطہیر سے چنداں پریشان نہیں۔جب روزانہ محراب و منبر سے اِنہیں بتایا جاتا ہے کہ مخصوص عقائد کے حامل افراد دائرہ اسلام سے خارج ہوچکے ہیں اور اسلام دشمنوں کی سازشوں میں آکر قلب اسلام میں چھرا گھونپ چکے ہیں تو اُن نشان زدہ مسلکی و مذہبی اقلیتوں کے ساتھ فطری بیزاری کے تاثر کا پیدا ہوجانا بھی عین فطری نظر آتا ہے۔پاکستان میں سینکڑوں ایسی کتب دستیاب ہیں جن میں اکثریت سے مختلف عقائد کے حامل مسلمانوں کو کافر قرار دیا گیا ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لیے حوالے پیش کیے جاتے ہیں۔لاتعداد خطیب گلا پھاڑ پھاڑ کر یہ اعلان کرتے نظرآتے ہیں کہ فلاں فلاں مسلک کے حامل افرادبدترین کافر ہیں اور اِن کے ساتھ کسی بھی قسم کا سماجی تعلق جائز نہیں تو یہ توقع کس طرح کی جاسکتی ہے کہ عوامی سطح ایسی کوئی تحریک یا ہلچل پیدا ہوگی جو فرقہ پرستوں کو کھدیڑ کر رکھ دے گی۔
اس میں بھی شک نہیں کہ جمہوری ریاستوں میں عوام کی سطح پر کسی قسم کی تبدیلی کے لیے عوام کے نام پر سیاست کرنے والوں کو ایک واضح کردار ادا کرنا ہوتا ہے اور جب یہ عوامی نمایندے ہی مذہبی انتہا پسندوں اور فرقہ پرستوں کی مدد کے بغیر منتخب ہوکر قانون ساز اداروں میں نہیں آسکتے تو اِن سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ یہ آگے بڑھ کر انتہا پسندوں اور فرقہ پرستوں کے خلاف کی کسی عوامی مہم کا حصہ بنیں گے؟ اسی لیے مجھے یہ کہنا پڑا ہے کہ پاکستان میں مذہبی و مسلکی اقلیتوں کی نسل کشی اکثریتی عوام اور طاقت ور اداروں کی باہمی رضامندی کے ساتھ جاری ہے۔جو لوگ ایسے قاتلوں کی نشاندہی سے خوفزدہ ہیں (جو چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ قتل ہم نے کیے ہیں) وہ کسی قاتل گروہ کے خلاف کسی قسم کی نفرت یا بیزاری کے اظہار کی کسی تحریک میں کس طرح شامل ہو سکتے ہیں؟
اگر ہم قدیم اساطیر کے تقدس کو چھونا نہیں چاہتے تو ٹھیک ہے لیکن کم از کم اس عنصر کی واضح نشاندہی تو کرسکتے ہیں جو ہمارے ہاں مروج اسلام کے مختلف مسالک کو دوسروں کے بارے میں مہلک نقطہ نظر اپنانے پر اُکساتا ہے۔یہ تباہ کن رویہ جو آگے بڑھتا ہوا مسلکی اساس کی حیثیت اختیار کرچکا ہے اس کے خدوخال پر معروضی بات چیت ہونا چاہیے۔لیکن چونکہ پاکستان میں متخارب مسالک اب اس قدر منہ زور ہوچکے ہیں کہ اس قسم کی بحث کے لیے کوئی بھی دستیاب نہیں۔کوئٹہ میں سینکڑوں اہل تشیع کی اموات کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان نے قاتل گروہ لشکر جھنگوی کا سرعام نام لے لیا تو پاکستان کے بہت سے لوگ دنگ رہ گئے۔حالاں کہ لشکر جھنگوی کا ترجمان چیخ چیخ کر دنیا کو بتا رہا تھا کہ کوئٹہ میں ہم نے بچوں اور عورتوں سمیت اہل تشیع کو نشانہ بنایا ہے۔
اصل وہ مقام جہاں اس قسم کے مہلک نظریات کو اذہان میں ٹھونسا جاتا ہے، وہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے مدارس اور مکاتب ہیں جہاں نوخیز دماغوں میں فرقہ واریت کا زہر اُنڈیلا جاتا ہے۔لیکن کیا پورے ملک میں کوئی ایک بھی یہ آواز اُٹھا سکتا ہے کہ اِن مدارس اور مکاتب کے نصاب کو دیکھا جائے؟ کیا کوئی ڈپٹی کمشنر یا پولیس کا ضلعی عہدیدار اپنے زیر حکم علاقوں میں کسی مدرسے کی نصابی سرگرمیوں کی جانچ پڑتال کا اہتمام کرسکتا ہے؟ یا کم از کم اپنے علاقے میں کسی آتش بیان ملاں کو روک سکتا ہے کہ وہ دوسرے مکاتب فکر کے خلاف زہر افشانی نہ کرے؟جب وزیراعلی، وزیرداخلہ اور وزیرقانون فرقہ پرستوں اور انتہا پسندوں کی خم ٹھونک کر مدد کرنے میں مصروف ہوں تو پھر کیا ہوسکتا ہے؟وزیرداخلہ بظاہر رینجرز کا سربراہ ہے لیکن یہ بھی ذہن میں رکھا جانا چاہیے کہ رینجرز عملی طور پر فوج سے سربارہی کے لیے مستعار شدہ جرنیل کی کمانڈ میں ہوتی ہے اور فوجی جرنیل کمزور سویلین وزیرداخلہ کے بجائے اپنے فوجی سربراہ کی ہدایات کو کلی اہمیت دے گا۔یہی معاملہ فرنٹیر کور اور اس جیسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ بھی ہے۔
جو لوگ ابھی تک یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ تنازعہ اور مذہب کے نام پر تشدد کے واقعات کو پاکستان کی فوج پلک جھپکنے میں ٹھیک کردے گی اُن کو پاکستان میں آئی ایس آئی کے تقریباً تمام صوبائی ہیڈکورٹرز کی تباہی کو بھی سامنے رکھنا چاہیے،مہران بیس سے لے کر کامرہ بیس تک جو کچھ پاکستان کے حساس ترین فوجی آلات کے ساتھ ہوا،اسے بھی نظر میں رکھیں اور میجر جنرل علوی سے لے کر جنرل مشتاق بیگ تک کی اندوہناک اموات کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کیوں کہ یہ سب کچھ اِنہی قوتوں نے کیا جو آج فرقہ وارانہ قتل وغارت میں مصروف ہیں۔پاکستان کی فوج کو اپنے ہیڈکوارٹر پر حملے کے بعد یرغمال بنائے گئے فوجی عہدیداروں کی رہائی کے لیے لشکر طیبہ کے حافظ سعید، لشکر جھنگوی کے ملک اسحاق اور سپاہ صحابہ کے احمد لدھیانوی کی منت سماجت کرنا پڑتی ہے،جو خود اپنے عہدیداروں کی جان بخشی کے لیے فرقہ پرستوں کی قیادت کے مرہون منت ہیں وہ پاکستان کی کمزور اور بے بس اقلیتوں کو اِن فرقہ پرستوں سے تحفظ کیسے فراہم کرسکتے ہیں؟
حال ہی میں شائع شدہ کتاب ‘‘پنجابی طالبان’’ سمیت نو کتابوں کے مصنف، مجاہد حسین اب نیو ایج اسلام کے لئے ایک باقاعدہ کالم لکھتے ہیں۔ تقریبا دو دہائیوں سے وہ تحقیقاتی صحافی کی حیثیت سے معروف اخبارات میں لکھ رہے ہیں۔ ان کی تحریریں پاکستان کے سیاسی اور سماجی وجود اوراسکے اپنی تشکیل کے فوراً بعدسے ہی مشکل دور سے گزرنے سے متعلق موضوعات کا وسیع پیمانے پر احاطہ کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر دہشت گردی اور سلامتی سے متعلق امور ان کے مطالعہ کے خصوصی شعبے رہے ہیں۔ مجاہد حسین کے پاکستان اور بیرون ملک کے سنجیدہ حلقوں میں کافی قارئین ہیں۔ آزاد اور غیر جانبدارانہ طرز فکر کو ماننے والے مصنف مجاہد حسین، بڑے پیمانے پر طبقوں، اقوام، اور انسانیت کو درپیش چیلنجوں کا ایماندارانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/pakistani-army-stop-communalists-extremists/d/10665