ابھے کمار
26 نومبر،2024
دلت،آدی واسی،پسماندہ ذاتوں اور اقلیتوں کی آوازوی ٹی راج شیکھر اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ 20نومبر کو ان کا انتقال منگلور کے ایک اسپتال میں ہوا۔ ان کی عمر 93 سال تھی۔ ان کا صحافتی تجربہ 60برسوں پر محیط تھا۔ وہ ایک معروف صحافی تھے اور’دلت وائس‘ نامی میگزین کے بانی ومدیر بھی۔ دودہائیوں تک ملک کے بڑے انگریزی اخباروں میں کام کرنے کے بعد، راج شیکھر کو یہ احساس ہوا کہ یہ ادارے صرف طاقتور طبقات اور اعلیٰ ذاتوں کے مفادات کی ترجمانی کرتے ہیں، جب کہ کمزور، مظلوم او ر دبے کچلے طبقات کے مسائل سے ان کا کوئی خاص سروکار نہیں ہوتا۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ نام نہاد قومی میڈیا اعلیٰ ذاتوں کے زیر اثر ہے، جہاں دلت، آدی واسی،پسماندہ ذاتوں اور اقلیتوں کو مختلف طریقو ں سے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے میڈیا میں ملک کے سماجی تنوع کی عکاسی نہیں ہوتی۔ اس کی ایک نمایاں مثال یہ ہے کہ ملک کے صدر جمہوریہ کے عہدے پر دلت، آدی واسی یا مسلمان تو فائز ہوچکے ہیں، لیکن آج بھی کوئی دلت، آدی واسی کسی قومی اخبار کا مدیر بننے میں کامیا ب نہیں ہواہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کے ارباب اقتدار میڈیا کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ جب تک وہ اخبارات اور نیوز چینلز پر مکمل کنٹرول نہیں رکھیں گے، ان کے مفادات محفوظ نہیں رہ سکتے۔ یہی تلخ حقائق تھے جنہو ں نے راج شیکھر کو بہوجن میڈیا کی طرف مائل کیا۔
کچھ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں کہ راج شیکھر کسی دلت خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا تعلق کرناٹک کی شیٹی برادری سے تھا، جو ایک پسماندہ ذات کے طور پر جانی جاتی ہے۔ ان کے والد ایک بڑے سرکاری افسر تھے، او ران کو ابتدائی زندگی میں ذات پات کی بنیاد پر امتیاز ات کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ تاہم، قومی میڈیا میں قدم رکھنے کے بعد، انہوں نے نام نہاد انگریزی اخباروں کی ’لبرل‘ شبیہ کی حقیقت کو قریب سے دیکھا۔ اگرچہ اپنے کالج کے دنوں میں وہ مارکسی نظریات سے متاثر تھے اور ذات پات کی عدم مساوات کی بجائے طبقاتی غیر برابری پر زیادہ زور دیتے تھے۔ اس دوران انہوں نے کپڑے کے کارخانوں میں مزدوروں کے درمیان کا م کیا۔ وہ تب سمجھتے تھے کہ طبقاتی جدوجہد کے ذریعے ایک غیر مساوی سماج سے نجات ممکن ہے۔ لیکن صحافتی ادارے اور باہر کی دنیا میں ذات پات کی حقیقت کو قریب سے دیکھنے کے بعد ان کا نظریہ بدلنے لگا۔ انہیں یہ احساس ہوا کہ بھارت میں ذات پات کے خلاف جدوجہد ہی دراصل حقیقی طبقاتی جدوجہد ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، وہ کارل مارکس کے نظریات سے زیادہ ڈاکٹر امبیڈ کر، پیریار او رلوہیا کے خیالات کے قریب آنے لگے۔ اب وہ اپنی تحریروں کے ذریعے دبے کچلے طبقات کی آواز بلند کرنا چاہتے تھے۔ لیکن ان کے یہ خیالات اخبار کے مالکان کو ناگوار گزرے، اور ایک دن انہیں نوکری سے نکال دیا گیا۔ اس وقت، جب وہ صحافت میں دو دہائیوں سے زیادہ کا تجربہ رکھتے تھے، کوئی بھی بڑا اخبار انہیں ملازمت دینے کو تیار نہیں تھا۔ لیکن شاید دنیا کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ برطرفی ان کی زندگی کا ایک نیا باب ثابت ہوگی۔
مشکل کے اس وقت میں، مشہور انگریزی ادیب ملک راج آنند ان کی مدد کو آئے۔ آنند نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ انگریزی میں ’دلت وائس‘ کے نام سے ایک میگزین شائع کریں۔ نہ صرف میگزین کا عنوان آنند نے تجویز کیا، بلکہ مالی امداد بھی فراہم کی۔ 1981 میں ’دلت وائس‘ کا پہلا شمارہ منظرعام پر آیا۔ اگر چہ یہ جریدہ انگریزی میں شائع ہوتا تھا، لیکن اس کے مضامین دیگر ہندوستانی زبانوں میں بھی ترجمہ کیے جاتے تھے۔ محدود وسائل کے باوجود، اس میگزین کی مقبولیت نہ صرف ہندوستان میں بلکہ بیرون ملک بھی تھی۔ خاص طور پر مسلم ممالک میں اس کے شمارے کا شدت سے انتظار رہتا تھا۔
راج شیکھر کی بے خوف صحافت اور سیاسی بصیرت اس کامیابی بنیادی وجہ تھی۔ وہ کبھی اس بات کی پرواہ نہیں کرتے تھے کہ ’دلت وائس‘ کس کو خوش یا ناراض کررہا ہے۔ یہ جریدہ ایک عیسائی چرچ سے شائع ہوتا تھا، لیکن فرقہ پرست شرپسندوں نے چرچ کو دھمکیاں دیں اور دیگر پرنٹنگ پریسز کو ڈرادھمکا کر جرید ے کی اشاعت روکنے کی کوشش کی۔ تین دہائیوں تک ’دلت وائس‘ کامیابی سے شائع ہوتا رہا، حالانکہ اعلیٰ ذات کی لابی نے اسے بدنام کرنے مدیر اعلیٰ کے خلاف مقدمات درج کروانے اور ریاستی مشینری کے ذریعے انہیں گرفتار کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ان کا پاسپورٹ 20سالوں تک ضبط رکھا گیا تاکہ وہ باہر کے ملکوں میں جاکر دبے کچلے طبقات کے حق میں آواز نہ اٹھا سکیں۔ ان تمام مشکلات کے باوجود، راج شیکھر نے نہ صرف ’دلت وائس‘ کو جاری رکھا بلکہ اپنی 100 سے زائد کتابوں کے ذریعے ایک عظیم فکری ورثہ چھوڑ ا۔
راج شیکھر کی فکر کا محوریہ تھا کہ محکوم طبقات کے درمیان اتحاد قائم کیا جائے تاکہ ذات پات پر مبنی نظام کو جڑسے ختم کیا جاسکے۔ اس مقصد کے تحت انہوں نے دلتوں اور مسلمانوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پرلانے کی بھرپور کوشش کی۔ ان کا ماننا تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت انہی دلتوں پرمشتمل ہے، جو صدیوں پہلے سماجی استحصال سے نجات حاصل کرنے کے لیے مذہب تبدیل کرکے مسلمان ’خونی بھائی‘ ہیں، کیونکہ ان دونوں کے کھانے پینے کے انداز، ثقافتی عادات، اور سماجی زندگی میں بے پناہ مماثلت ہے۔ اس کے علاوہ دونوں طبقات ذات پر مبنی عدم مساوات کے شکار رہے ہیں۔ وہ اسلام کو غریبوں او رمظلوموں کا دین سمجھتے تھے۔ ایس کے بسواس کی کتاب(دلت اینڈ مسلم ایز بلڈ برادرز) کے مقدمے میں راج شیکھر نے لکھا کہ ’اسلام ایک انقلابی مذہب ہے۔ یہ امیروں کا مذہب نہیں ہے۔ یہ بنیادی طور پر غریب، مظلوم عوام کا مذہب ہے۔ ’تاہم،انہیں اس بات کا افسوس تھا کہ سرکردہ مسلم قیادت نے دلتوں کو ساتھ لانے کی سنجیدہ کوششیں نہیں کیں۔وہ شکوہ کرتے تھے کہ مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے کے اسلام کے پیغامات کو حقیقی روح کے ساتھ نہیں سمجھا گیا۔ راج شیکھر اس حقیقت کو تسلیم کرتے تھے کہ بعض مسلم مخالف فسادات میں فرقہ پرست طاقتیں دلتوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتی ہیں۔ لیکن ان کا ماننا تھا کہ ان حالات میں دلتوں کو مکمل طور پر قصوروار ٹھہرانا مناسب نہیں ہے، کیونکہ اس کے پیچھے فرقہ پرست عناصر کا کھیل ہوتاہے۔ ان کا خیال تھا کہ دلت۔مسلم اتحاد کی راہ میں جو رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں، ان کو دور کرنے کی ذمہ داری محکوم طبقات کے رہنماؤں پر عائد ہوتی ہے۔ مختصر اً، راج شیکھر کی زندگی کاپیغام یہ ہے کہ طاقتور لوگوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے یا آسان راستہ اختیار کرنے سے حقیقی تبدیلی ممکن نہیں۔ مصلحت پسندی کی چادر میں چھپنے سے معاشرے میں مثبت تبدیلی نہیں آتی ہے۔
26 نومبر،2024،بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
-----------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/mujahid-dalit-muslim-alliance/d/133848
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism