New Age Islam
Tue Feb 18 2025, 05:55 PM

Urdu Section ( 19 Oct 2011, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Word ‘Mushrikin’ in the Quran is not for the Hindus قرآن میں مشرکین لفظ ہندوؤں کے لئے نہیں ہے

By Muhammad Yunus, NewAgeIslam.com

To sum up, it is far more important for the Muslims to meet the social, moral, ethical and universal paradigms of the Qur’an than to tell others that they are not believers (4:94), or to insult those whom they invoke besides God (6:108).

“You who believe, whenever you campaign in God's way, be discerning and do not say to anyone who offers you peace: ‘You are not a believer’ - seeking worldly gains (by exploiting him), for there are plenty of gains with God. (Remember,) you were like them before - till God favored you. Therefore be discerning. Indeed God is informed of what you do” (4:94).

“Don’t insult those whom they invoke besides God, lest they ignorantly insult God in enmity. Thus We have made their action seem pleasing to every community; then their return is to their Lord, and He will tell them what they had been doing” (6:108).

URL for English article:

http://www.newageislam.com/interfaith-dialogue/hindus-are-not-‘the-mushrikin’-mentioned-in-the-qur’an/d/5655

 

قرآن میں مشرکین لفظ ہندوؤں کے لئے نہیں ہے

محمدیونس، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام

شریک مصنف۔ اسلام کا اصل پیغام، آمنہ پبلیکیشن، امریکہ،2009

موجودہ وقت میں اسلام کا خوف پھیلانے والے اسلام کو پرتشدد مذہب اور مشرکین کو قتل کرنے کی اجازت دینے والا مذہب ثابت کرنے کے لئے قرآن کی ان آیات کا حوالہ دیتے ہیں جن میں تمام مشرکین(تکنیکی طور پر مشرکین کا ترجمہ کافر، اور مورتی پوجا کرنے والے ہیں) کو قتل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ہندوستان میں کچھ انتہا پسند گروپ فرقہ وارانہ منافرت اور تشدد پھیلانے کے جواز کے طور پر انہیں آیات کا حوالہ دیتے ہیں اور مشرکین لفظ سے ہندوؤں کو تعبیر کرتے ہیں۔تبدیلی کے خواہش مند لوگوں کی تحریریں بتاتی ہیں کہ خدا کی روحانیت حاصل کرنے کے لئے موجودہ دور کے بھی کئی مسلمان اپنے ہندو بھائیوں کو مشرک(جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرے) قرار دیتے ہیں جبکہ کئی ہندو اسلام کے بارے میں غلط رائے رکھتے ہیں۔مندرجہ ذیل اقتباسات بنیادی ہندو اور اسلامی صحیفوں سے ہیں جو بتاتے ہیں کہ(1)ہندو مذہب میں وحدانیت کی جڑیں ہیں اور (2)قرآن میں جن مشرکین کا ذکر کیا گیا ہے وہ مکہ کے بت پرست تھے جنہوں نے پیغمبر اسلام محمد ﷺ کے پیروکاروں کے درمیان موجود منافقوں کے ساتھ سازش کی تھی اور وہ مومنوں کو ختم کر دینا چاہتے تھے۔

اپنیشد اور بھگوت گیتا

خدا ایک ہے وہ سب میں پوشیدہ ہے،وہ ذات جو سب میں شامل ہے،بطور گواہ ہر عمل و حرکت پر جسکی نظر ہے،جو سب کچھ جانتا ہے، جو اکیلا ہے، تمام خصوصیات (جو انسان اس کے لئے منسوب کرتے ہیں) سے بالا تر ہے۔‘شویتیشورا اپنیشد6:11

(عالمی کتاب، بین الاقوامی مذہبی فاؤنڈیشن،نیو یارک،1991)

میں تمام روحانی اور مادّی دنیا کا سر چشمہ ہوں۔ہر چیز مجھ سے جاری ہوتی ہے۔ایسے باشعور جو اچھی طرح اسے جانتے ہیں وہ پورے خشوع و خضوع کے ساتھ میری عبادت میں لگے رہتے ہیں‘۔بھگوت گیتا،10:8

اے ارجن،خدا کی عظیم شخصیت کی حیثیت سے، میں جانتا ہوں جوکچھ بھی ماضی میں ہواہے اور جو کچھ بھی دور حاضر میں ہو رہا ہے اور جو کچھ بھی مستقبل میں ہوگا، وہ سب میرے علم میں ہے لیکن مجھے کوئی نہیں جانتا۔۔۔‘بھگوت گیتا،7:26

(http://harekrishnatemple.com/chapter10.html)

تبصرہ: یہ واضح ہے کہ کچھ قدیم ہندو سنت ایک خدا کے تصور سے متاثر رہے ہوں گے دوسرے الفاظ میں انہیں خدا کی وحی حاصل ہوتی رہی ہوگی۔قرآن واضح طور پر اس بات کا ذکر کرتا ہے کہ ہر دور میں اور سبھی فرقوں میں اللہ نے پیغمبر بھیجے ہیں (10:47, 13:38, 15:10, 23:44, 30:47, 35:24, 43:6, 57:25 )ان میں سے کچھ کا ذکر قرآن میں ہے جبکہ کئی پیغمبروں کا نہیں ہے(40:78, 4:164)۔اس لئے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندو جن کی تہذیب قدیم ہے ان تک بھی اللہ کے پیغمبر یا سنت آئے ہوں گے، جنہوں نے ایک خدا کے نغمے گائے ہوں گے اور مجسمے یا اسکے بغیر اپنے تصور میں ایک خداکی نیت کی ہوگی۔جیسا کہ قرآن اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ خانقاہوں،چرچوں، کلیساؤں اور مسجدوں میں اللہ کا نام باقاعدگی سے ہمیشہ لیا جاتا رہتا ہے۔(22:40)

مسلمانوں کی دلیل ہے کہ ہندو اللہ کے ساتھ دوسرے کو شریک کرتے ہیں لیکن یہ ان کی فکر کا موضوع نہیں ہے کہ ایک ہندوکس طرح خدا کو اپنے ذہن میں یا تصاویروں کے ذریعہ سمجھتا ہے۔مغلوں نے ہندوستان پرتقریباً 300برسوں تک حکومت کی لیکن ہندوؤں کے ساتھ بطور مشرک یا کافر برتاؤ نہیں کیا۔اگر انہوں نے ایسا کیا ہوتا تو اس طرح کی اخلاقی پستی(مسلمانون کے نظریے سے)اس زمانے کی مقبول تحریروں میں ظاہر ہوتی یا اکثر فرقہ وارانہ فسادات ہوتے۔اس میں شک ہے کہ شاید ہی اس زمانے کے کسی مسلم شاعر یا سماجی موئرخ نے ہندوؤں کاشاید ہی اس طرح کے الفاظ میں ذکر کیا ہو، اور اگر فر قہ وارانہ فسادات ہوتے تھے تو تقسیم سے قبل کی ہندوستانی آبادی مذہب کے نام پر بنٹی ہوتی اور سامراجی دور کے مغربی موئرخین نے اس کا ذکر ضرور کیا ہوتا۔اس طرح یہ خود سے ثابت ہے کہ مغلیہ دور میں ہندو اور مسلمان ایک اچھے پڑوسی کی طرح رہتے تھے اور سبھی اپنے اپنے مذہب کے لئے وقف رہتے تھے۔

قرآن

قرآن میں جن مشرکین کا ذکر آیا ہے ظاہر ہے وہ وحی نازل ہونے کے وقت موجود تھے اوریہ لوگ عرب کے بت پرست تھے۔اگر کوئی دلیل دیتا ہے کہ قرآن دائمی کتاب ہے اور اس کے سبھی فیصلے تمام زمانوں کے لئے صحیح ہیں، تو درج ذیل آیات بتائیں گی کہ آج کے منافق مسلمان اللہ کی لعنت اور عذاب کے معاملے میں آج کے مشرکین(مبینہ طور پر ہندو) کے برابر ہوں گے۔

منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے کے ہم جنس(یعنی ایک طرح کے)ہیں کہ برے کام کرنے کو کہتے ہیں اور نیک کاموں سے منع کرتے ہیں اور(خرچ کرنے سے)ہاتھ بند کئے رہتے ہیں۔انہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے ان کو بھلا دیا۔بے شک منافق نافرمان ہیں(9:76)اللہ نے منافق مردوں اور منافق عورتوں اور کافروں سے آتش جہنم کا وعدہ کیا ہے جس میں ہمیشہ(جلتے) رہیں گے۔وہی ان کے لائق ہے۔اور خدا نے ان پر لعنت کر دی ہے۔اور ان کے لئے ہمیشہ کا عذاب(تیار)ہے۔(9:68)

تم ان کے لئے بخشش مانگو یا نہ مانگو۔(بات ایک ہے)۔اگر ان کے لئے ستّر دفعہ بھی بخشش مانگو گے تو بھی خدا ان کو نہیں بخشے گا۔یہ اس لئے کہ انہوں نے خدا اور اس کے رسول سے کفر کیا۔اور خدا نا فرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔‘(9:80)

دیہاتی لوگ سخت کافر اور سخت منافق ہیں اور اس قابل ہیں جو احکام (شریعت) خدا نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں ان سے واقف (ہی) نہ ہوں۔اور خدا جاننے والا(اور)حکمت والا ہے۔‘(9:97)

تاکہ خدا منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں اور مومن مردوں اور مومن عورتوں پر مہربانی کرے اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے۔‘(33:73)

اور (اس لئے کہ) منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو جو خدا کے حق میں برے برے خیال رکھتے ہیں عذاب دے۔ان ہی پر برے حادثے واقع ہوں اور خدا ان پر غصہ ہوا اور ان پر لعنت کی اور ان کے لئے دوزخ تیار کی۔اور وہ بری جگہ ہے۔‘(48:6)

انہوں نے اپنی قسموں کو اپنی ڈھال بنا لیا اور (لوگوں کو) خدا کے راستے سے روک دیا ہے سوا ان کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔‘(58:16)

منعکس: مندرجہ بالا قرآنی آیات کی روشنی میں اگر آج کے ہندوؤں کو مشرکین کے طور پر جانا جاتا ہے تو اوپر ذکر کی گئی اور دیگر آیتوں میں آج کے مسلمانوں میں بڑی تعداد میں موجود منافق گمراہی کے معاملے میں اور اللہ کی لعنت اور عذاب کے معاملے میں مشرکین سے الگ بالکل نہیں ہوں گے۔کیا مسلم علماء اس طرح کی تجویز کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں؟اگر جواب نہیں ہے،تو آج کے ہندوؤں اور قرآن میں ذکر کئے گئے مشرکین میں فرق کا ہونا ضروری ہے۔

قرآن کی مزید مثالیں: جہالت (سماجی،اخلاقی اور دانشورانہ پستی)کے خلاف اپنے دلائل کے حصے کے طور پر قرآن مشرکین (بت پرست عوام)کی کچھ سماجی برائیوں کو سامنے لاتا ہے ۔وہ لوگ بچیوں کی پیدائش کو سخت ناپسند فرماتے تھے اوراس کی پرورش کے سبب ہونے والی شرمندگی اور بدنامی کے بجائے اسے زندہ دفن کر دیا کرتے تھے۔(16:58-59, 43:17, 81:8 )ان لوگوں نے اپنے ہی بچوں کی قربانی (6:137, 6:140, 60:12)اپنے بتوں کوپیش کیا کرتے تھے یاغربت کے سبب(6:151, 17:31) کرتے تھے ۔شادی شدہ خواتین زنا(اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں اجنبیوں لوگوں کے ساتھ رہتی تھیں) میں ملوث تھیں اور چوری سماجی معیار کا ایک حصہ تھا(60:12)۔مردوں نے اپنی بیویوں کو چھوڑ رکھا تھا صرف برائے نام ایک حلف لیکر انکو رشتہء ازدواج میں رکھتے تھے تاکہ ان کا استحصال کر سکیں۔بیوائیں خاندان میں وراثت کے طور پر ملتی تھیں(4:19)۔یہ ان کے سماج کی کچھ برائیاں تھیں۔موجودہ زمانے کے ہندو سماج کی کی سماجی واخلاقی برائیاں قرآن میں ذکر کئے گئے مشرکین کی برائیوں کی تردید کرتی ہیں۔اس طرح آج کے ہندوؤں کو قرآن میں ذکر کئے گئے مشرکین ماننا گمراہ کن ہوگا اور یہ ایسا ہی ہے جیسے آج کے مناقف مسلمانوں کو پیغمبر محمد ﷺ کے زمانے کے منافقین سے تعبیر کیا جائے۔تاہم اللہ بہتر جاننے والا ہے۔

خلاصہ بیان یہ ہے کہ مسلمانوں کو قرآن میں ذکر کئے گئے سماجی ،اخلاقی اور عالمی مثال بننے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ دوسروں کو یہ بتانے کی کہ وہ مومن نہیں ہیں(4:94) یا انکی توہین کرنے کی جو خدا کے علاوہ بھی کسی کو مدد کے لئے آواز دیتے ہیں۔

مومنوں جب تم خدا کی ر اہ میں ‘باہر نکلا کرو تو تحقیق سے کام لیا کرو اور جو شخص تم سے سلام علیک کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں اس سے تمہاری غرض یہ ہو کہ دینا کی زندگی کا فائدہ حاصل کرو سو خدا کے نزدیک بہت سی علامتیں ہیں تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے پھر خدا نے تم پر احسان کیا تو(آئندہ)تحقیق کر لیا کرو اور جو عمل تم کرتے ہو خدا کو سب کی خبر ہے‘(4:94)

اور جن لوگوں کو یہ مشرک خدا کے سوا پکارتے ہیں ان کو برا نہ کہنا کہ یہ بھی کہیں خدا کو بے ادبی سے بے سمجھے برا (نہ) کہہ بیٹھیں۔اس طرح ہم نے ہر ایک فرقے کے اعمال (ان کی نظروں میں) اچھے کر دکھائے ہیں۔پھر ان کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے تب وہ ان کو بتائے گا کہ وہ کیا کیا کرتے تھے۔‘(6:108)

محمد یونس آئی آئی ٹی دہلی سے کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور کارپوریٹ اکزی کیوٹیو کی عہدے سے سبکدوش ہو چکے ہیں اور90کی دہائی سے قرآن کے عمیق مطالعہ اور اس کے حقیقی پیغام کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کی کتاب اسلام کا اصل پیغام کو 2002میں الازہر الشریف،قاہرہ کی منظوری حاصل ہو گئی تھی اور یو سی ایل اے کے ڈاکٹر خالد ابو الفضل کی حمایت اور توثیق بھی حاصل ہے اور محمد یونس کی کتاب اسلام کا اصل پیغام آمنہ پبلیکیسن،میری لینڈ ،امریکہ نے،2009میں شائع کیا۔

انگریزی سے ترجمہ۔سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/the-word-‘mushrikin’-quran-hindus/d/5725

 

Loading..

Loading..