By Muhammad Yunus, NewAgeIslam.com (Translated from English by Samiur Rahman, NewAgeIslam.com)
7. Not to mock or find fault in each other
“You, who believe, let not any people (qawm) among you mock other people (qawm) who may be better than they are; nor should some women (ridicule) other women who may be better than they are; and do not find fault in each other, nor insult others with (insulting) nicknames. (Giving) an insulting name after embracing the faith is most wicked, and those who do not repent (after giving such nicknames to others) – it is they who are unjust” (49:11).
8. To avoid excessive suspicion and backbiting.
“You, who believe, avoid excessive suspicion, for suspicion in some cases is a sin; and do not spy (over others), nor backbite each other. Would any of you like to eat the flesh of his dead brother? You would hate it! So heed God and (remember,) God is Most Relenting and Merciful” (49:12).
“Woe to every backbiting critic, who amasses wealth, and keeps counting it (and does not share it with the needy)” (104:1-2).
9. To exercise moderation, and behave graciously at places of worship
“Children of Adam, conduct yourself graciously at every place of worship. Eat and drink - but do not be lavish, for He does not approve of those who are given to excesses” (7:31).
“The servant of the Benevolent are those who walk humbly on earth and when the ignorant address them, they say ‘Peace!’ (25:63),…. and those, when they spend, are not wasteful, nor miserly but take a position in between” (25:67).
URL for English article:
عالی شان رویے کی قرآنی مثالیں
محمد یونس ،نیو ایج اسلام
ڈاٹ کام
(شریک مصنف) اسلام کا اصل پیغام ،آمنہ پبلکیشن ،یو ایس اے،2009
‘اور اس طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا ہے ،تاکہ تم لوگوں پر گواہ
بنو......’(2:143)
....پھول کی ایک پنکھڑی ہیرے کے دل کو چاک کرسکتی ہے.....لیکن اعلیٰ
الفاظ بھی جاہل پر کوئی اثر نہیں کرتے ہیں۔(محمداقبال)
موجودہ کارکردگی اور آمدنی
پر مبنی اور تفریح اور خریداری کے زیر اثر دنیا میں انسانی رویے کو ماضی کے اقدار مان
کر الگ رکھ دیا گیا ہے، لیکن سچائی یہ ہے کہ
خاص انداز کا برتاؤ انسان کے نزدیکی تعلقات کو ختم کرسکتا ہے ، شادی یا پرانی دوستی
ختم ہوسکتی ہے ۔ اس کے علاوہ قریبی تعلقات سے باہر ہر ایک ا نسان جیسے: مالک ،ساتھ
کام کرنے والے، ماتحت اور دوسرے زمرے کے لوگوں سے بات چیت کرتا ہے اور بصورت دیگر کے
مقابلے یہ ہمیشہ اچھا ہے کہ خوشگوار انداز میں برتاؤ کیا جائے۔ قرآن ایسی مثالیں
پیش کرتا ہے جس کی مدد سے کوئی بھی دوستوں کا دل جیت سکتے ہیں ،شوہر اور بیوی ایک دوسرے
کا پیارحاصل کرسکتے ہیں، ساتھ کام کرنے والوں کا احترام حاصل کر سکتے ہیں اور روز مرّہ
کی پیشہ وارانہ ازدواجی زندگی کی معمولی او
رچھوٹی موٹی پریشانیوں سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ مقبول اسلامی واعظ کا حصہ نہیں
ہے۔ ان کا درج ذیل میں قاری کی سہولت کے مطابق پیش کیا گیا ہے۔
1۔ بدلہ لینے والے نہ بنیں اور ماضی کی دشمنیوں کو بھول جائیں۔
‘عفواختیار کرو اور نیک کام کرنے کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ کرلو،۔
(7:199)
‘اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے ۔ مگر جو درگزر کرے اور
(معاملے کو) درست کردے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنے
والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ (42:40)
‘مومنوں سے کہہ دو کہ جو لوگ خدا کے دنوں کی (جو اعمال کے بدلے کےلئے
مقرر ہیں) تو قع نہیں رکھتے ان سےدر گزر کریں۔ تاکہ وہ ان لوگوں کو ان کے اعمال کا
بدلہ دے۔ ’(45:14)
‘.....اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں
اس بات پر امادہ نہ کرے کہ تم ان پرزیادتی کرنے لگو اور (دیکھو) نیکی اور پرہیز گاری
کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو
اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے۔’(5:2)
یہ آیت وحی کے اختتامی مرحلے
کی ہے، جب مسلمان اپنے مکہ کے دشمنوں پر غالب آگئے تھے اور اس حالت میں تھے کہ اپنے
اوپر دو دہائیوں سے بھی زیادہ کے مسلسل زیادتیوں کا بدلہ لیں اور انہیں لوگوں نے مسلمانوں
کے غیر مسلح قافلے کو حج کے لئے مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔
2۔ غصے کو قابو میں رکھیں اور زیادتی پر اصرار نہ کریں۔
‘جو آسودگی اور تنگی میں (اپنا مال خدا کی راہ میں )خرچ کرتے ہیں اور
غصے کو روکتے ہیں اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں اور خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا
ہے۔ (3:134) اور وہ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اور برائی کر بیٹھتے
ہیں تو خدا کو یاد کرتے ہیں اور گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور خدا کے سوا گناہ بخش
بھی کون سکتا ہے؟ اور جان بوجھ کر اپنے افعال پر اڑے نہیں رہتے ۔،(3:135)
‘(خدا کا اجران لوگوں کےلئے ہے) جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی
باتوں سے پرہیز کرتے ہیں۔ اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کردیتے ہیں ۔’ (42:37)
3۔مہربانی کا اظہار کریں، تنازعات سے پرہیز کریں اور خود کی خامیوں
کو بتائیں۔
‘اور جب تم کو کوئی دعا دے تو ( جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے ) سے
(اسے) دعا دو یا انہیں لفظوں سے دعا دو بیشک خدا ہر چیز کا حساب لینے والاہے۔’(4:86)
‘اور خدا اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو اعلانیہ برا کہے
مگر وہ مظلوم ہو۔ اورخدا (سب کچھ) سنتا (اور ) جانتا ہے ۔’ (4:148)
‘اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ (لوگوں سے) ایسی باتیں کہا کریں جو بہت
پسندیدیہ ہو۔ کیونکہ شیطان (بری باتوں سے) ان میں فساد ڈلوادیتا ہے ۔کچھ شک نہیں کہ
شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔’ (17:53)
4۔غرور اور سخت انداز گفتگو کو چھوڑ دو
‘اور زمین پر اکڑ کر( اورتن کر) مت چل کہ تو زمین کو پھاڑ تو نہیں ڈالے
گا اور نہ لمبا ہوکر پہاڑوں (کی چوٹی) تک پہنچ جائے گا۔ ’(17:37)
‘اور (از راہ غرور) لوگوں سے گال نہ پھلا نا اور زمین میں اکڑ کر نہ
چلنا ۔ کہ خدا کسی اترانے والے خود پسند کو پسند نہیں کرتا ۔(31:18)اور اپنی چال میں
اعتدال کئے رہنا اور (بولتے وقت) آواز نیچی رکھنا کیو نکہ( اونچی آواز گدھوں کی ہے
اور کچھ شک نہیں کہ) سب آوازوں سے بری آواز گدھوں کی ہے۔ ’ (31:19)
5۔ تصدیق کے بغیر افواہوں پر یقین نہ کرنا او رجھوٹے الزامات لگانے
سےبچنا
‘مومنوں! اگر کوئی بد کردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب
تحقیق کرلیا کرو(مبادا) کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو۔ پھر تم کو اپنے کئے
پر نادم ہونا پڑے۔’ (49:6)
‘جو لوگ پرہیز گار اور برے کاموں سے بے خبر اور ایمان دار عورتوں پر
بدکرداری کی تہمت لگاتے ہیں ان پردنیا اور آخرت (دونوں) میں لعنت ہے۔ اور ان کو سخت
عذاب ہوگا، (24:23)
سب سے آسان چیز جو ایک شیطانی
دماغ والا انسان کرسکتا ہے وہ یہ کہ ایک نیک خاتون پر بدکرداری کاالزام لگائے ۔ ایسا
اکثر ہوتا ہے کیو نکہ آئینی اعتبار سے مرد ،عورتوں کے مقابلے میں زیادہ دعویٰ سے کہنے
والا ہوتا ہے اور جب عورتیں مزاحمت کرتی ہیں تو مرد ان کے خلاف جھوٹے الزامات لگاتے
ہیں۔
6۔ بخیل نہ بنو
‘جو خود بھی بخل کریں او رلوگوں کو بھی بخل سکھائیں اور جو (مال) خدا
نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے اسے چھپا چھپا کر رکھیں اور ہم نے ناشکروں کے لئے
ذلت کا عذاب تیار کررکھا ہے۔’ (4:37)
‘دیکھو تم وہ لوگ ہو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کےلئے بلائے جاتے ہو
۔ تو تم میں ایسے شخص بھی ہیں جو بخل کرنے لگے ہیں۔ اور جوبخل کرا تا ہے اپنے آپ سے
بخل کرتاہے۔ اور خدا بے نیاز ہے اور تم محتاج ۔ اور تم منھ پھیر و گے تو وہ تمہاری
جگہ او رلوگوں کو لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح کے نہیں ہوں گے۔’ (47:38)
‘اور جس نے بخل کیا اور بے پرواہ بنا رہا ۔ اور نیک بات کو جھوٹ سمجھا
۔ اسے سختی میں پہنچا ئے گا ۔ اور جب وہ (دوزخ کے گھڑے میں) گرے گا تو اس کا مال اس
کے کچھ کام نہ آئے گا۔ (92:8-11)
7۔ دوسروں کا مزاق نہ اڑاؤ اور نہ عیب تلاش کرو
‘مومنو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے
بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں۔ او راپنے
(مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ او رنہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو۔ ایمان لانے کے بعد
برا نام(رکھنا) گناہ ہے ۔اور جو تو بہ نہ کریں وہ ظالم ہیں۔ ’(49:11)
8۔بہت زیادہ شک اور غیبت سے بچیں
‘اے اہل ایمان ! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں۔
اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں
سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم
ضرور نفرت کروگے۔ ( توغیبت نہ کرو) اور خدا کا ڈر رکھو بے شک خدا تو بہ قبول کرنے والا
مہربان ہے۔ (49:12)
‘ہرطعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغل خور کی خرابی ہے۔ جو مال جمع کرتا
ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے ۔’ (04:1-0)
9۔ عبادت گاہوں پر نرم رویہ اعتدال کا رویہ رکھنا
‘اے نبی آدم ! ہر نماز کے وقت اپنے تئیں مذین کیا کرو او رکھاؤ اور
پیئوں او ربے جانہ اڑاؤ کہ خدا بے جااڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔’ (7:31)
‘اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب
جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں ( 25:63) اور جب وہ خرچ
کرتے ہیں تو نہ بے جا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں بلکہ اعتدال کے ساتھ۔
نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم۔’ (25:67)
نتیجہ: روایتی طور پر مسلمان
اپنی مذہبیت کو اسلام کے پانچ سطون تک ہی محدود رکھتے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر
علامتی دین داری کے اشاروں جیسے مسجد او رمیناروں کی اونچائی اور خاص شکل اور خواتین
کے پردے کے لئے جانا جاتا ہے لیکن اسلامی وعظ یا خاندان کی سطح پر نوجوان بچوں کی پرورش
کے معاملوں میں مثالی رویے کی بات بمشکل ہی آتی ہے۔ قرآن مسلمانوں سے توقع کرتا ہے
کہ وہ انسانیت کے لئے گواہ رہیں جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وقت کے لوگوں کے لئے گواہ تھے۔ وہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کی نمائندگی نہیں ہی کرپائیں گے اگر وہ دیگر چیزوں کے علاوہ برتاؤ کے ان
بنیادی معیار سے انجان رہیں گے جن کا ذکر اوپر کیا گیا۔
محمد یونس نے آئی آئی ٹی دہلی
سے کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور کارپوریٹ اکزی کیوٹیوکےعہدے سے سبکدوش
ہو چکے ہیں اور90کی دہائی سے قرآن کے عمیق مطالعہ اور اس کے حقیقی پیغام کو سمجھنے
کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کی کتاب اسلام کا اصل پیغام کو 2002میں الاظہر الشریف،قاہرہ
کی منظوری حاصل ہو گئی تھی اور یو سی ایل اے کے ڈاکٹر خالد ابو الفضل کی حمایت اور
توثیق بھی حاصل ہے اور محمد یونس کی کتاب اسلام کا اصل پیغام آمنہ پبلیکیسن،میری لینڈ
،امریکہ نے،2009میں شائع کیا۔
انگریزی سے ترجمہ۔سمیع الرحمٰن،
نیو ایج اسلام
URL: https://newageislam.com/urdu-section/quranic-examples-high-conduct-/d/6103