New Age Islam
Tue Mar 21 2023, 06:25 PM

Urdu Section ( 4 Jun 2017, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Triple Talaq Must Be Invalidated Constitutionally and Criminalized تین طلاق کو غیر قانونی عمل اور ایک جرم قرار دیا جانا چاہیے

 

محمد یونس، نیو ایج اسلام

13 مئی 2017

(مشترکہ مصنف (اشفاق اللہ سید کے ساتھ)، اسلام کا اصل پیغام، آمنہ پبلیکیشنز، امریکہ، 2009)

تین طلاق پر مقدمے کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے عدالتی بنچ کے لیے تجویزات

یہ مضمون بھی راقم الحروف کے گزشتہ مضمون کی طرح ماہر قانونیات فیضان مصطفی کے اس موضوع پر درج ذیل عنوان کے ساتھ حال میں شائع ہونےوالے دوسرے مضمون کا ایک معروضی مطالعہ پیش کرتا ہے۔

تین طلاق کے عمل کو روکنے والے نکاح نامے اس عمل کو غیر قانونی بنانے کے بجائے زیاہ بہتر کردار ادا کر سکتے تھے

چونکہ اس مضمون میں قانونی ماہر نے تین طلاق کے عمل کو غیر آئینی قرار دیے جانے کے خلاف اپنی دلیل پیش کی ہے اور نکاح نامہ میں ایک مناسب پابندی کی شق شامل کیے جانےکی وکالت کی ہے، اسی لیے راقم الحروف کو ان کی یہ تجویز نکاح نامہ کی مذہبی روح کے خلاف اور عقد نکاح کو ختم کرنے کے لیے تین طلاق کو ایک سہولت کے طور پر پیش کرنے کی ایک خاموشی کوشش معلوم ہوتی ہے, اسی لیے میں تین طلاق کی ممانعت کو اس میں شامل کرنے کے بجائے اسے غیر آئینی ثابت کرنے کی خاطر اپنے موقف کی تائید میں یہ تنقیدی مضمون لکھ رہا ہوں۔

مذکورہ مضمون کی تنقید

مضمون کے پہلے دو پیراگراف میں تین طلاق کے عمل کا موازنہ اپنے پسند کی دلہن کے لیے ایک مرد کی آزادی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ لیکن یہ موازنہ نا معقول ہے اس لیے کہ کم آمدنی والے خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک مسلمان شادی شدہ عورت سے تین طلاق اس کی اولاد(اس لیے کہ زیادہ تر معاملات میں ان کے شوہرہی بچوں کو رکھ لیتے ہیں) اس کے گھر بار، اس کے فرنیچر اور اس کے ان تمام ساز و سامان سے محروم کر دیتے ہیں جو ان کے شوہروں نے ان کے لیے خریدا تھا اور ان سے ان کا ذریعہ معاش (زیادہ تر ایسی خواتین گھریلو خواتین ہوتی ہیں اور ان کے شوہر ہی بنیادی طور پر ان کا ذریعہ معاش ہوتےہیں) اور ان کی عزت و وقار بھی ختم ہو جاتی ہے اور وہ اس بنیاد پر ان مندرجہ ذیل حقوق سے محروم ہو جاتی ہیں جو قرآن انہیں عطا کرتا ہے:

1.     ثالثی کے حقوق (229-2:228)جو کہ ان کے عقد نکاح کو بحال کرنے میں معاون ہو سکتے ہیں

2.     تین ماہ تک ایام عدت کے درمیان شوہر کے گھر میں مفت رہائش کا حق، (2:231، 65:2)

3.     طلاق کے بعد اگر وہ حاملہ پائی گئی تو اس شوہر کا اس سے رجوع کرنے کا حق(2:228)

4.     اگر مذکورہ راستہ بھی بند ہو جائے تو طلاق دینے والے اپنے شوہر سے اس کے پیدا ہونے والے بچے کی پیدائش، دیکھ بھال، (اگر ضرورت ہو تو) دودھ پلانے کے اخرجات حاصل کرنے کے حقوق۔

ایک طلاق شدہ مسلمان عورت کے لیے سخت جسمانی تکالیف، مالیاتی خسارے، صدمے اور بدنامی کا باعث ہونے، اس کے ان بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کے علاوہ جسے قرآن نے ان کے لیے مختص کیا ہے تین طلاق کو "خطرے کی زبانی تلوار" قرار دیا جا سکتا ہے جو بہت سی مسلم خواتین پر لٹکی ہوئی ہے، جیسا کہ اس ویب سائٹ کے بانی و ایڈیٹر جناب سلطان شاہین صاحب کا موقف ہے۔ اس انتہائی ظالمانہ اور جابرانہ روایت کا محولہ معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے، " جس میں ایک مرد ایک ایسی انتہائی خوبصورت دلہن کی تلاش میں ایک شادی کا اشتہار جاری کرتا ہے جس کا قد دراز ہو، اعلی تعلیم یافتہ ہو اور کسی مشہور خاندان سے تعلق رکھنے والی بھی ہو"، لیکن اس کی شادی ایک "جاہل، بدصورت ، پست قد اور غریب لڑکی سے ہوتی ہے۔"بلکہ ایسے معاملے کا حوالہ دینا تین طلاق جیسے ایک سنگین معاملے کو ہلکا ظاہر کرنا معلوم ہوتا ہے۔

پیرا گراف 2 کا اختتام اس بیان پر ہوتا ہے: "یہ کہنا مشکل ہے کہ کس حد تک ہم شوہر اور بیوی کے درمیان نجی اور ذاتی فیصلوں کو غیر آئینی قرار دے سکتے ہیں"۔ اس دلیل کا بھی تین طلاق کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہےجو کہ کبھی بھی " شوہر اور بیوی کے درمیان کا ایک ذاتی فیصلہ نہیں ہے۔"بلکہ یہ ہمیشہ شوہر کا ایک یکطرفہ فیصلہ ہے۔

پیرا گراف 3 میں نجی سہولیات (کنوئیں، ٹینک اور گھاٹ) سے متعلق آئین کے آرٹیکل 15 کا حوالہ دیا گیا ہے لہٰذا اس کا بھی اس مسئلے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک برہمن اگر اپنے خرچے پر ایک کوئیں کا انتظام کرتا ہے تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ جسے چاہے کوئی ظلم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کیے بغیر اس کے استعمال سے روکے۔ یہ ایک غیر منطقی مثال ہے۔

پیرا گراف 4 میں یہ دلیل دی گئی ہے کہ تین طلاق کو غیر آئینی قرار دے دیا جائے تب بھی مرد تین طلاق دینا جاری رکھیں گے اور شادی کو برقرار رکھنے کی خواہش رکھنے والی عورتوں کو عقد نکاح کی عدم تحلیل کا فیصلہ حاصل کرنے کے لئے برسوں تک ایسی قانونی لڑائی لڑنی ہوگی جس میں مال اور وقت دونوں خرچ ہوتے ہیں۔ یہ دلیل بھی ناقص ہے۔ اس لیے کہ اگر تین طلاق کو غلط یا غیر قانونی قرار دے دیا جاتا ہے تو (گواہوں کی موجودگی میں) میں تین طلاق دینے والے مرد پر مقدمہ چلایا جائے گا، یہاں تک کہ وہ اس بات کا اقرار کرے کہ اس نے طلاق بے پرواہی (2:225) یا نشہ کی حالت میں دیا ہے –کہ جس میں بولنے والے کا اعتبار نہیں کیا جاتا ہے(4:43)۔

پیرا گراف 5 میں ایک ناکام عقد نکاح کی صورت میں مرد کو اس کی مرضی کے خلاف عقد نکاح کو جاری رکھنے یا مطلقہ عورت کو ایسے شوہروں کے ساتھ رہنے پر مجبور کرنے کے بجائے رشتہ ازدواج کو ختم کرنے کے حق میں دلیل دی گئی ہے۔ بات سمجھ میں آ گئی! لیکن اس دلیل میں بھی خامی ہے اس لیے کہ اس میں عقد نکاح کو ختم کرنے کے لیے تین طلاق کو ایک آلۂ کار تسلیم کیا گیا ہے۔ تین طلاق کا موازنہ تعدد ازدواج سے کرنا ایک نا معقول دلیل ہے اس لیے کہ تعدد ازدواج ایک الگ مسئلہ ہے: اس لیے کہ ایک عورت جس کا شوہر مزید بیویاں رکھتا ہے اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی، تنہائی، محرومی، غیر انسانی سلوک، صدمے، بدنامی اور مالی نقصان کا شکار ہو، جو کہ اکثر مطلقہ عورتوں کے ساتھ پیش آتا ہے۔ لہذا یہ موازنہ درست نہیں ہے۔

پیرا گراف 6 الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کا حوالہ دیا گیا ہے کہ ایک معاہدہ ہونے کی وجہ سے عقد نکاح کو یکطرفہ طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ماہر قانون کی دلیل ہے کہ معاہدے کے شرائط کے مطابق نقصانات کا تاوان ادا کرکے 'تمام معاہدوں کو یکطرفہ طور پر ختم کیا جا سکتا ہے'۔ یہ ایک ایسی مسلم شادی کے لیے غیر افادیت بخش ہے جسے ایک ایسے نکاح نامہ پر انجام دیا گیا ہو جو کہ ایک بیوی کے یکطرفہ فوری طلاق کو روکنے والا ہو۔ نکاح نامہ میں ایک عورت کو معاوضہ ادا کرکے اپنے شوہر کو یک طرفہ طور پر طلاق دینے کی اجازت دی جا سکتی ہے(2:229)۔ اس دلیل سے مضمون کی شہ سرخی کی تائید نہیں ہوتی ہے۔

پیرا گراف 7 میں دوبارہ تین طلاق کا موازنہ تعدد ازدواج سے کیا گیا ہے۔ یہ دونوں بالکل مختلف منظرنامے کی ترجمانی کرتے ہیں جس کی وضاحت مندرجہ بالا پیرا گراف 5 میں کر دی گئی ہے لہٰذا، اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ اس میں ماہر قانونیات نے تاریخ دان شیریں موسوی کے حوالے سے مغل دور میں مروج شادی کے معاہدوں کا حوالہ دیا ہے اور اس میں تین عام حالات کا ذکر کیا ہے کہ"جن میں بیوی کو شوہر کو طلاق دینے یا عقد نکاح کوفسخ کرنےکا حق ہو حاصل گا، اور وہ حالات یہ ہیں:"1) گھریلو تشدد، 2) شوہر کا دوسری عورت سے شادی کرنا، 3) شوہر کا اپنی بیوی کو ایک طویل مدت کے لئے چھوڑے رکھنا، اور چوتھی شرط یہ ہے کہ اگر بعض صورتوں میں شوہر لونڈی رکھے۔ لیکن ان میں سے کسی میں بھی تین طلاق یا حلالہ کا ذکر نہیں ہے اور اس کی وجہ واضح ہے کہ تین طلاق اور حلالہ اسلامی نکاح میں اتنے ہی معتبر ہیں جتنے دوسرے ایسے ممنوعات جنہیں باہمی رضامندی کے ساتھ بھی نکاح نامہ میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔

پیرا گراف 8 میں اپنے پہلے تین شرائط کو برقرار رکھتے ہوئے دور مغلیہ میں مروج نکاح ماڈل کو اپنانے اور چوتھی شرط (شوہر کا کوئی لونڈی رکھنا) کو متبادل بنانے کی تجویز پیش کی گئی ہے جو کہ اب تین طلاق کی ممانعت کے ساتھ قابل عمل نہیں ہے۔ تاہم، اس متبادل کی کوئی معقول دلیل نہیں دی گئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ داشتہ رکھنے سے ایک بیوی کے کسی بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی لازم نہ آتی ہو۔ اور اس سے نہ تو وہ اپنا شوہر، اپنی اولاد، اپنا گھر بار، اپنی حیثیت اور نہ ہی اپنا ذریعہ معاش کھوئے گی اور نہ ہی اسے زندگی بھر دکھ مصیبت اور محرومی کا شکار رہنا ہوگا۔ لہٰذا، اگر کوئی مرد معاہدے کو توڑتا ہے اور ایک داشتہ رکھتا ہے تو اس صورت میں بھی جسمانی اور جذباتی نقصانات اور ایک موجودہ بیوی کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ایک معاہدے کے شرط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوراً تین طلاق دینے سے بہت کم ہیں۔

پیرا گراف 9 میں یہ جانکاری دی گئی ہے کہ مغل دور میں نکاح نامہ کا ماڈل معمولاً برطانوی جج نافذ کرتے تھے اور اس میں ترقی پسند شادی کے معاہدوں کی ایک جھلک پیش کرنے کے لئے پونو بی بی بمقابلہ پویکس پش کیس کا حوالہ پیش کیا گیا ہے۔ اس کا تین طلاق کے معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اختتامی پیراگراف میں دوبارہ تعدد ازواج اور تین طلاق کے درمیان عدم ربط کو نظرانداز کرتے ہوئے ان دونوں کو خلط ملط کر دیا گیا ہے اور نکاح نامہ میں اس کی شمولیت کی وکالت کی گئی ہے جیسا کہ اس کی تفصیل پیرا گراف 5 میں پیش کی جا چکی ہے۔

راقم الحروف کا تبصرہ:

کوئی مسلمان مرد نکاح نامہ میں اس شق کو شامل کر کے ‘‘کہ اس کی بیوی بدکاری اور اپنے بچے کو قتل نہیں کرے گی’’ اپنی ہونے والی بیوی کے بدکاری یا قتل کرنےکے رویے کے خلاف خود کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتا(60:12)۔ اس لیے کہ وہ واضح طور پر قرآن میں ممنوع قرار دیے گئے ہیں اور مجموعی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر منحصر ہیں اور قانوناً جرم ہیں، بلکہ یہ ان انسانی رویے کے متعدد دیگر پہلوؤں کی ہی طرح ہیں جن کا ذکر نکاح نامہ میں تحریری طور پر نہیں ہوتا ہے۔ یہی معاملہ فوری طور پر تین طلاق کا بھی ہونا چاہئے۔ اسے قرآن نے واضح طور پر حرام قرار دیا ہے (58:2, 2:228/2:229)، نیزیہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اس کا شکار ہونے والی مسلم خواتین کے لیے مستقل طور پر بے شمار مصائب و آلام کا سبب ہے۔ نکاح نامہ میں قبل از اسلام کے اس انتہائی ظالمانہ اور زن بیزار معمول کی تصریح کرنے کا مطلب مرد کے حقوق پر پابندی عائد کرنا ہو گا، جو کہ عملی طور پر معاہدے کی خلاف ورزی کر سکتا ہے اور اس معمول کا سہارا لے سکتا ہے جو کہ ایک قسم کی صنفی دہشت گردی ہے جیسا کہ میں نے اپنے ایک گزشتہ مضمون میں تفصیل کے ساتھ اس پر گفتگو کی ہے [1]۔ بہ الفاظ دیگر فوری طور پر تین طلاق کے عمل کو نکاح نامہ میں قبل از نکاح کے معاہدے کے طور پر شامل کرنے کے بجائے اسے آئینی طور پر غیر قانونی اور قانون کی میں ایک قابل سزا جرم قرار دیا جائے۔

تین طلاق کو تعدد ازدواج کے ساتھ خلط ملط کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو کہ 1) اسلام میں خاص حالات کے تحت جائز ہے –اگر چہ قرآن کا جامع پیغام ایک ہی نکاح کی تائید میں ہے[2]، اور 2) ایک بیوی کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اس کے المناک اثرات کے بارے اس کا موازنہ تین طلاق سے نہیں کیا جا سکتا ہے۔

…………………………………………………………۔

۔ AIMPLB Advocates Of Instant Triple Talaq Are Gender Terrorists And Traitors Of Islam And May Be Sued For Human Rights Violation Under Cover Of Religion

۔۔۔ Chapter 31۔۔۔۔۔۔۔محمد یونس نے آئی آئی ٹی سے کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور کارپوریٹ اکزی کیوٹیو کے عہدے سے سبکدوش ہو چکے ہیں اور90کی دہائی سے قرآن کے عمیق مطالعہ اور اس کے حقیقی پیغام کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کی کتاب اسلام کا اصل پیغام کو 2002میں الاظہر الشریف،قاہرہ کی منظوری حاصل ہو گئی تھی اور یو سی ایل اے کے ڈاکٹر خالد ابو الفضل کی حمایت اور توثیق بھی حاصل ہے اور محمد یونس کی کتاب اسلام کا اصل پیغام آمنہ پبلیکیسن،میری لینڈ ،امریکہ نے،2009میں شائع کیا۔

۔۔https://newageislam.com/urdu-section/triple-talaq-be-invalidated-constitutionally/d/111407

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..