محمد یونس ، نیو ایج اسلام
03 فروری 2018
(مشترکہ مصنف (اشفاق اللہ سید)، اسلام کا اصل پیغام، آمنہ پبلکشنز، امریکہ، 2009)
یہ مضمون 1 فروری کو شائع ہونے والے سیدہ حمید کے مضمون، ' A Woman Can Lead Friday Prayers (ایک خاتون نماز جمعہ کی امامت کر سکتی ہے) کا ضمیمہ ہے اور یہ اس میں کئے گئے دعوں کو ایک تفسیری بنیاد فراہم کرتا ہے۔
قرآن مذہب کو جنس کے ساتھ متعلق نہیں کرتا ہے (33:35)، قرآن مردوں اور عورتوں دونوں کو رضائے الہی حاصل کرنے کا یکساں موقع فراہم کرتا ہے (4:124)، قرآن حالت حیض کو خواتین کے لئے کوئی روحانی اور عقلی و فکری نقص نہیں قرار دیتا (2:222) ، قرآن مردوں اور عورتوں دونوں کو ایک دوسرے کا محافظ ( ولی ) مقرر کرتا ہے (9:71)۔ ذیل میں اس سے متعلقہ قرآن مجید کی آیتوں کو پیش کیا جاتا ہے:
"بےشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں مومن مرد اور مومن عورتیں فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرمانبردار عورتیں راست باز مرد اور راست باز عورتیں صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اپنی شرمگاه کی حفاﻇت کرنے والے مرد اور حفاظف کرنے والیاں بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ان (سب کے) لئے اللہ تعالیٰ نے (وسیع) مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے(33:35)۔
"جو ایمان واﻻ ہو مرد ہو یا عورت اور وه نیک اعمال کرے، یقیناً ایسے لوگ جنت میں جائیں گے اور کھجور کی گٹھلی کے شگاف برابر بھی ان کا حق نہ مارا جائے گا" (4:124)۔
"آپ سے حیض کے بارے میں سوال کرتے ہیں، کہہ دیجیئے کہ وه گندگی ہے، حالت حیض میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وه پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جاؤ، ہاں جب وه پاک ہوجائیں تو ان کے پاس جاؤ جہاں سے اللہ نے تمہیں اجازت دی ہے، اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے"(2: 221)
نوٹ: یہاں پاکیزگی سے صرف جسمانی صفائی اور حفظان صحت ہی مراد ہے [1]۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر کی زوجہ عاصمہ کومدینہ سے روانگی پر مکہ کے راستے میں اس قافلۂ حج کے اندر کہ جس کی قیادت نبی ﷺ کر رہے تھے بچے کی پیدائش کے بعد پندرہ دن سے کم کے اندر ہی حجۃ الوداع میں شرکت کرنے کی اجازت دی تھی۔ ظاہر ہے کہ وہ اس وقت حالت حیض میں تھیں۔ [2] نبی ﷺ سے ایک یہ بھی روایت مروی ہے کہ مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے پہلے جب حضرت عائشہ صدیقہ حالت حیض میں داخل ہوئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ چونکہ اللہ نے اس کا فیصلہ تمام عورتوں کے لئے کر دیا ہے لہٰذا، ‘‘وہ کعبہ کے گرد طواف کے علاوہ باقی تمام رسوم ادا کر سکتی ہیں[3]۔ آپ ﷺ ایام حیض میں بھی حضرت عائشہ کی گود میں سر رکھ کر قرآن کی تلاوت فرمایا کرتے تھے [4]۔
"مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور) دوست ہیں، وه بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجا ﻻتے ہیں زکوٰة ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک اللہ غلبے واﻻ حکمت واﻻ ہے"(9:71)۔
قرآن مندرجہ ذیل پیغام کے ذریعہ مردوں سے عورتوں کی کسی بھی قسم کی روحانی یا عقلی اور فکری کمتری کے تصور کی تردید کرتا ہے:
جنت سے آدم کے نکلنے کے واقعہ (38-2:30) میں آدم کی پسلی سے حوا کے نکلنے یا انہیں اس شجر ممنوعہ سے پھل کھانے پر ابھارنے کا کوئی ذکر نہیں ہے ، یا بائبل کے مطابق ایک غدار کردار ادا کرنے کی بنیاد پر ان کے لئے الہی لعنت کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔
وحی کے تناظر میں قرآن نے مکی خواتین کو باضابطہ طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وفاداری کا حلف لینے کا اختیار دیا (60:12) اور اس کے لئے بحیثیت گواہ کے ان کے شوہر یا کسی مرد سرپرست کی کوئی قید نہیں رکھی گئی۔
قرآن اپنے عیسائی ہم منصبوں کے ساتھ مسلم عورتوں اور مردوں سے بھی ایک روحانی اہمیت و افادیت کے مسئلے پر حلف لینے کا مطالبہ کرتا ہے، اور وہ یسوع مسیح کی پیدائش کا مسئلہ ہے(3:61)۔
خواتین تجارتی معاہدے کے علاوہ مردوں کی ہی طرح تمام معاملات میں یکساں صلاحیت کے ساتھ ایک گواہ بن سکتی ہیں اور اس کی وجہ سخت کاروباری حقائق ہیں جو کہ عورتوں کے لئے اس زمانے میں اور بھی تلخ تھے (2:282)۔
مردوں کی طرح خواتین بھی آزادانہ طور پر آمدنی حاصل کرسکتی ہیں اور جائیداد کی مالک بھی بن سکتی ہیں (4:32)۔
مردوں کی طرح عورتیں بھی عالمگیر علوم حاصل کر سکتی ہیں اور زمین پر خدا کے نائب ( خلیفہ ) کا مرتبہ حاصل کرنے کی صلاحیتیں اپنے اندر پیدا کرسکتی ہیں (2:30، 6:165، 27:62، 35:39) جو کہ خدا کی سب سے عظیم تخلیقی شاہکار ہے (95:4، 17:70)۔
قرآن ایک ایسی عورت (جس کا نام معلوم نہیں ہے) کی مثال بیان کرتا ہے جو اپنے سرداروں کی مشاورت کے ساتھ زمین (شبیہ) پر حکومت کرتی تھی اور بعد میں جس نے اسلام قبول کر لیا (33-27:32، 27:44)۔
متعلقہ قرآنی آیات اور احکامات سے یہ واضح ہے کہ قرآن عورتوں پر نماز جمعہ سمیت کسی بھی نماز کی امامت کرنے پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتا۔ اب رہ گئی یہ بات کہ اس نماز میں صرف خواتین ہی شامل ہوں گی یا اس میں مرد بھی شامل ہوں گے یا مرد اور عورتیں دونوں کی شمولیت ہوگی- اس کا انحصار اس دور کے صنفی رجحان پر ہے، لیکن قرآن میں عوامی مقامات یا عبادت کی جگہ میں جنس کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہے۔
یہ سچ ہے کہ اسلام کا کلاسیکی شرعی قانون خواتین کو نماز جمعہ جیسی نماز میں مردوں کی امامت کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ اس کی تائید حسب ذیل اس موضوع پر اٹھائے گئے ایک سوال کے جواب میں ایک ممتاز مسلمان عالم شیخ یوسف القرضاوی نے کی ہے[6]:
"پوری مسلم تاریخ میں کسی بھی مسلم خاتون کو جمعہ کی امامت کرتے ہوئے یا خطبہ جمعہ دیتے ہوئے نہیں سنا گیا ہے، یہاں تک کہ جب مملوک کے دور میں مصر کے اندر مسلمانوں پر ایک عورت شجر الدر کی حکمرانی تھی۔
لہٰذا، یہ بات ثابت شدہ ہے کہ اسلام میں نماز کی امامت مردوں کے لئے مختص ہے۔ امام کے پیچھے نماز ادا کرنے والوں کو نماز میں سجدہ اور اور رکوع وغیرہ میں امام کی پیروی کرنی ہوتی ہے اور نماز میں ان کی تلاوتِ قرآن کو پوری توجہ کے ساتھ سننا ہوتا ہے۔ "
لیکن یہ بات بھی یکساں طور پر حق ہے کہ کلاسیکی شرعی قانون صرف اسلام کے فقہائے کی مجموعی رائے یا اتفاق رائے کی نمائندگی کرتا ہے، اور نہ ہی یہ الہی ہے اور نہ ہی ابد الآباد تک مسلمانوں پر اس کی پیروی لازم ہے۔ لہٰذا، گزرتے دور کے ساتھ ساتھ اسلامی فقہاء اور علماء ہمیشہ ان مذہبی مسائل پر نئی تشریحات، توضیحات اور نظریات پیش کر سکتے ہیں جو قرآن میں واضح طور پر مذکور نہیں ہیں۔ لہٰذا، UCLA اسکول آف لاء کے پروفیسر خالد ابو الفضل الفی نماز جمعہ کی میں عورت کی امامت کے جواز پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں ، [7]:
"میرا خیال یہ ہے کہ اگر ایک عورت مرد کے مقابلے میں زیادہ علم رکھتی ہے ، اگر ایک عورت کے اندر تلاوت قرآن اور مسلم معاشرے کو اسلامی تعلیم دینے کی اچھی صلاحیت موجود ہے تو محض خاتون ہونے کی بنیاد پر اسے نماز جمعہ ادا کرنےسے نہیں روکا جانا چاہئے۔"
خلاصہ یہ ہے کہ مسلم خواتین کو آج سے قبل یونیورسٹی کیمپس سمیت دنیا بھر کے متعدد خطوں میں وہ تحفظ اور اسلامی تعلیمات حاصل کرنے کے وہ امکانات حاصل نہیں تھے جو آج انہیں حاصل ہیں ، لہٰذا، صرف صنفی بنیاد پر انہیں نماز جمعہ کی نماز امامت سے نہیں روکا جانا چاہئے۔
1. Sahih al-Bukhari, English translation by Mohsin Khan, New Delhi, 1984, Vol.1, The Book of Menses, Chapter 1.
2. Lings, Martin (Abu Bakar Siraj al-Din), Muhammad, George Allen and Unwin, U.K. 1983.p.332.
3. Sahih al-Bukhari, English translation by Mohsin Khan, New Delhi, 1984, Vol.1, Acc. 302.
4. Ibid, Acc. 296.
5. AN EPILOGUE TO THE RECENT ANTI-SHARIA LAW RALLIES ACROSS AMERICAN CITIES: The Dichotomy between Sharia Law of Islam (Islamic Law) and the Sharia of Islam
6. https://archive.islamonline.net/?p=1230
7. https://www.searchforbeauty.org/2010/04/05/fatwa-on-women-leading-prayer/
محمد یونس نے آئی آئی ٹی سے کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور کارپوریٹ اکزی کیوٹیو کے عہدے سے سبکدوش ہو چکے ہیں اور90کی دہائی سے قرآن کے عمیق مطالعہ اور اس کے حقیقی پیغام کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کی کتاب اسلام کا اصل پیغام کو 2002میں الاظہر الشریف،قاہرہ کی منظوری حاصل ہو گئی تھی اور یو سی ایل اے کے ڈاکٹر خالد ابو الفضل کی حمایت اور توثیق بھی حاصل ہے اور محمد یونس کی کتاب اسلام کا اصل پیغام آمنہ پبلیکیسن،میری لینڈ ،امریکہ نے،2009میں شائع کیا۔
URL for English article: http://www.newageislam.com/islam,-women-and-feminism/muhammad-yunus,-new-age-islam/the-qur’an-puts-no-bar-against-a-muslim-woman-from-leading-friday-prayers/d/114156
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism