New Age Islam
Mon Mar 27 2023, 10:29 AM

Urdu Section ( 3 Sept 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Broadest Concept of Islam is the Culmination of all the Religions Preaching Tawhid دین اسلام کا وسیع تر تصور تمام توحیدی مذاہب کا جامع ہے

محمد یونس، نیو ایج اسلام

باشتراک اشفاق اللہ سید ، اسلام کا اصل پیغام، آمنہ پبلیکیشن، یو ایس اے  2009

26 جولائی، 2012

انگریزی  سے ترجمہ مصباح الہدی ٰ، نیو ایج اسلام

قران کی زبان میں، دین اسلام یا (یا عام زبان  میں مذہب) یا اسکے اخلاقی قانون،ایک خاص (مخصوص) اورساتھ  ہی ساتھ عالمگیر (جامع) مذہب سے عبارت ہے۔ اپنے  مخصوص معنوں میں یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والوں کا دین ہے۔ قرآن کی آخری آیتوں میں سے ایک میں اس کی وضاحت کی گئی ہے:

"...آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہو گئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا... "(5:3)۔

اپنے  عا م معنی میں، یہ وہی  عالمگیردین (اخلاقی قانون)  ہے ،جس کی تبلیغ محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تشریف لا نے والے  تمام انبیا ءکرام  نے کی خواہ ان کا ذکرقرآن میں ہو  یا نہ ہو ۔ قرآن اس مشترکہ مذہب  کی اصل روح کی  درج ذیل میں وضاحت  کرتا ہے:

" ہاں جو شخص خدا کے آگے گردن جھکا دے، (یعنی ایمان لے آئے) اور وہ نیکو کار بھی ہو تو اس کا صلہ اس کے پروردگار کے پاس ہے اور ایسے لوگوں کو (قیامت کے دن) نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے"(2:112)۔

"اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا کو قبول کیا اور وہ نیکوکار بھی ہے۔ اور ابراہیم کے دین کا پیرو ہے جو یکسوں (مسلمان ) تھے اور خدا نے ابراہیم کو اپنا دوست بنایا تھا"(4:125) * [قران کی زبان میں دین اخلاقی قوانین کا مجسمہ  ہے]

" اور اس شخص سے بات کا اچھا کون ہوسکتا ہے جو خدا کی طرف بلائے اور عمل نیک کرے اور کہے کہ میں مسلمان ہوں ۔" (41:33)

قرآن اسی کے مطابق 'دین الاسلام' کی وضاحت  ایسے عالم گیر مذہب کے طور پر کرتا ہے جس پر چلنے  حکم  پہلے کے انبیاء کرام کو  بھی کیا گیا تھا، جو سب کے سب  سچے مسلم تھے (-1332:131) اورسب  نے اسی بنیادی پیغام  کو لوگوں تک پہنچایا۔

 " جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سر اطاعت خم کرتا ہوں (2:131)۔

اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی اور یعقوب (علیہ السلام) نے بھی (یہی کہا:) اے میرے لڑکو! بیشک اللہ نے تمہارے لئے (یہی) دین (اسلام) پسند فرمایا ہے سو تم (بہرصورت) مسلمان رہتے ہوئے ہی مرنا  (132)۔

 بھلا جس وقت یعقوب وفات پانے لگے تو تم اس وقت موجود تھے، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے، تو انہوں نے کہا کہ آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق کے معبود کی عبادت کریں گے جو معبود یکتا ہے اور ہم اُسی کے حکم بردار ہیں (2:133)  [ آیت  3:52, 28:52-53بھی ملاحظہ ہو ]

یہ آیات لفظ اسلام کا کے متعلق قواعد کی  مختلف شکلوں مثلاً اسلم،مسلم(اور جمع، مسلمون)کا استعمال اسلام کی تعریف ایسے   عالم گیر مذہب کے طور پر کرنے کے لئے کرتےہیں ،  جو خود کو خدا کی مرضی  کے تابع کرنےاوراچھے  اعمال کر نےکے دو بنیادی معیار پر مبنی ہے۔  نیک اعمال کے متعلق قرآن کے ذریعہ   بار بارخالص مذہبی  فرائض کا  حوالہ دیا جا نا  [1]مثلا نماز،زکوٰۃ،  حج اور روزہ ، اس با ت کی طرف واضح اشارہ ہے کہ قرآن ان تمام اعمال و افعال کو نیک مانتا ہے جس سےانسان کا بھلاہو یا انسانیت کی خدمت ہو ۔اسی لئے  قرآن نے خدا کی باگاہ میں مقبولیت کے لئے نیک اعمال کو تمام انسانیت کے لئے عام معیارمتعین کرتا ہے(2:62، 4:124، 5:69، 64:9، اور 65:11) ۔

تاہم ، قرآن اعمال  صالحہ کے تصور کو  اخلاقی دیانت داری (تقوی) کی علامت قرار دیتا ہے۔  نزول وحی کے ابتدائی مرحلے میں قرآن  نے تقوی کے ساتھ اسکے دوسرے رخ  بدکرداری کی تمیز بتا  دی (91:8) ۔

مختلف مقامات پر قرآن نے  تقوی کا مفہوم ،خدا سے ڈرنے والا، خدا کو یاد رکھنے والا، خدا کی  ہدایت طلب کرنے والا ،خدا کی معرفت  رکھنے والا، برائیوں سے خود کی حفاظت کرنے والا، صبر اور پرہیزگاری اختیار کرنے والابتایا ہے۔  یہ کسی کےسماجی اور  اخلاقی ذمہ داریوں کے انسانی بیداری اور ہر طرح کی برائی ،بد اخلا قی اور نا انصافیوں سے اسکے تحفظ  کی علامت ۔لہٰذاقرآنی نقطہ نظر سے  ایک نیک مسلمان وہ ہے جو  خدا پر ایمان رکھا تا ہے، جو اعمال صالحہ میں  سرگرم ہے، اور جو  اپنی سماجی و  اخلاقی ذمہ داریوں کا شعور رکھتا ہے اور جو ہر طرح کی برائیوں ،بد اخلاقیوں اور ظالمانہ عمل سے اپنی حفاظت کرتا ہے۔

قرآن اسکی چند روحانی رسومات سے  منسلک علامتیت  جیسے سفر حج کیلئے اہتمام اور حج کے جانوروں کی قربانی پر تقویٰ کو فوقیت دیتا ہے (2:197 22:37)۔روزے کو تقوی کے حصول کا ذریعہ بیان کیا ہے (2:183،  1872:)۔اور تقوی کی تعریف بہترین لباس کے طور پر کی ہے (7:26)۔قرآن یہ بھی اعلان کرتا ہے کہ  خدا کی نظر میں تقوی پر  عمل کر نے والے ،ان سے افضل ہیں جنہوں نے دنیا کی آسائش  حاصل کرنے پوری زندگی گنوادی (2:212 47:36) ۔ اعمال  صالحہ کی طرح،تقویٰ بھی صرف  پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے  پیروکاروں کا حق  نہیں ہے۔ اس سے مطابقت رکھنے والی  نزول وحی کے آخری دور کی دو کلیدی آیات (5:93، 49:13)   یہ اعلان کرتی ہیں:

 "اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے"(49:13) ۔

"جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان پر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھا چکے جب کہ انہوں نے پرہیز کیا اور ایمان لائے اور نیک کام کیے پھر پرہیز کیا اور ایمان لائے پھر پرہیز کیا اور نیکو کاری کی اور خدا نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے"(5:93)۔

نتیجہ: قرآن کے بتائے گئے طریقے کے مطابق، اسکے تجزیہ(38:29، 47:24)اور اس مکالمے سے پتہ چلتا ہے کہ  قرآن کے  نقطۂ  نظر کے مطابق ایک اچھا  مسلمان وہ ہے جو  مذہب،  نسل، ذات اور کسی روحانی فرقہ  سےتعلق سے قطع نظر  خدا پرایمان رکھتا ہے جو نیک عمل کرنے میں سرگرم ہے، اور جو  اپنی سماجی واخلاقی ذمہ داریوں کا شعور رکھتا ہے اور جو تمام برائیوں ،بد اخلاقیوں  اورنا انصافیوں  سے خود کو محفوظ رکھتا ہے ۔چونکہ صرف خدا ہی انسان کے ایمان ،ا عمال اور تقوی کا فیصلہ کر سکتا ہے، تفرقہ ڈالنے والی انسانی زبان میں ایک غیر مسلم خدا کی نظر  میں  ایک مسلمان (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار)سے  زیادہ  بہتر مسلمان ہو سکتا ہے۔  لہٰذا انفرادی یا اجتماعی طور پر  مسلمانوں کے پاس  کسی غیر مسلم کو کافر پکارنے کی کوئی بھی بنیاد نہیں ہے۔

غلط بیانی  کی جانچ

1۔ علماء کرام درج بالا میں بیان کئے گئے آیت 3:85 کا حوالہ دے کر مذکورہ نتیجے کی  تردید کر سکتے ہیں: " اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا"۔روایتی علماء کرام اس آیت  کو آیت 3:83-84 سے منقطع کرکے فوراً بیان دیتے ہیں ،جو قطعی طور پر اعلان کرتی ہے ‘ کیا یہ اﷲ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں اور جو کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں ہے اس نے خوشی سے یا لاچاری سے (بہرحال) اسی کی فرمانبرداری اختیار کی ہے اور سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے‘اور قرآن کے آفاقی  پیغام کو واضح انداز میں  پیش کرتی ہے۔

"آپ فرمائیں: ہم اﷲ پر ایمان لائے ہیں اور جو کچھ ہم پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) اور ان کی اولاد پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ موسٰی اور عیسٰی اور جملہ انبیاء (علیہم السلام) کو ان کے رب کی طرف سے عطا کیا گیا ہے (سب پر ایمان لائے ہیں)، ہم ان میں سے کسی پر بھی ایمان میں فرق نہیں کرتے اور ہم اسی کے تابع فرمان ہیں(3:84)"۔

2 ۔ علماء  یہ الزام لگا سکتے ہیں کہ مذکورہ نتیجہ مسلمانوں کو ،ایمان کے ستونوں  پر  عمل  کرنے، یا قرآن کی تلاوت کرنے  یا سختی کے ساتھ  اسلامی لباس میں ملبوس ہونے  سے بری کر  دیتا ہے۔ ان کایہ اعتراض مناسب نہیں ہے کیونکہ (i)  قرآن خدا کی ہدایت و رہنمائی کی ایک کامل کتاب  ہے (5:3) حکمت کی ایک ایسی کتاب  ہےجو ہمیں صرا ط مستقیم،تقوی کے  راستے  (36:1-3 ) کی رہنمائی کرتی ہے۔ نماز عابدوں اور زاہدوں کے لئےان کو خدا سے جوڑنے( صراط مستقیم) کی واحد گذارش ہے (1:6)۔اور روزہ اور حج دونوں  تقوی پیدا کرنے کے  روحانی اور جسمانی ذرائع  ہیں (2:183, 2:187, 2:197, 22:37)۔

 3 ۔ جن لوگوں کے پاس اپنے اصل صحیفے(آسمانی کتاب ) نہیں  ہیں وہ  (عام معنوں میں) کیوں کر  نیک مسلمان ہو سکتے ہیں؟ جواب: قرآنی نقطہ نظر کے مطابق  مذہب سے قطع نظر ہر ایک انسان اگر چہ وہ بے دین  ہو ،تب بھی خدا  کے کرم  کے ایک حصے کا حقدار ہے (15:29، 32:7-9، 38:72)۔اور نفس امارہ  (75:2)اور اسکی ضد نفس لوامہ(12:53)بھی  اس میں شامل ہے  ، جن میں  سے پہلا اس کے  ضمیر یا تقوی کی نمائندگی کرتا ہے  جبکہ دوسرا اس کی رذالت  یا حیوانی   فطرت کی نمائندگی کرتا ہے۔ انفرادی طور پر مذہب سے قطع نظریہ  انسانوں کے لئے ہے  کہ وہ   تقوی میں اونچا مقام  حاصل کرتا ہے یاحیوانی فطرت کا شکار ہو جاتا ہے۔ لہٰذاتقوی میں ایک غیر مسلم کئی مسلمانوں سے اعلیٰ  ہو سکتا ہے اور قیامت کے دن اس سےبلند مقام حاصل کر سکتا ہے(2:212)۔

 4 ۔ مشرکوں اور کافروں(جو سچائی سے انکار پر اڑے ہوئے ہیں ) کے با رے میں  خداکی  ان تنبیہات کا  کیا جن میں سنگین نتائج کا ذکر ہے ؟ جواب: در اصل قرآن نےان کے وجودیاتی تنوع کےمدنظر  بتوں  کی پرستش کرنے والوں ، اور سرکش مخاطبین  کے لئے یہ وعیدیں بیان کی ہے ۔مزید برآں،جیسا کہ ایک حالیہ تشریحی اشاعت  میں اسے بیان کیا  گیا ہے [2] کہ "انصاف اور اخلاقیات کے  قیام کے لئے سزا کا خوف ضروری ہے"۔ لہٰذا    گناہوں کا ارتکا ب  کرنے والوں کا انتظار سزا کر رہی ہے ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کس طرح ان کا ذکر کیا گیا ہے، ان کا ذکراس گفتگو کے لئے ضروری تھا  جس  کا بنیادی مقصد  معاشرے میں انصاف کا قیام ،اور تاریخی اعتبار سے کمزور اور مظلوم طبقے کی حفاظت کرنا تھا"۔

نوٹس

1۔  2:25, 3:57, 4:57, 4:122, 4:173, 5:9, 7:42, 10:4, 10:9, 10:26, 11:23, 13:29, 14:23, 17:9, 18:2, 18:30, 18:107/110, 19:59/60, 19:76, 19:96, 20:75, 20:112, 21:94, 22:23, 22:50, 22:14, 22:56, 22:77, 24:55, 28:67, 28:80, 29:7, 29:9, 29:58, 30:14/15, 30:44/45, 31:8, 32:19, 34:4, 34:37, 35:7, 38:28, 39:10, 39:33/34, 40:58, 41:8, 41:33, 41:46, 42:26, 44:22, 45:15, 45:21, 45:30, 47:2, 47:12, 67:2, 77:41-44, 84:25, 85:11, 95:3-6, 98:7, 99:7/8, 103:2/3.

2 ۔ محمد یونس اور اشفاق اللہ سید، اسلام کا اصل پیغام، آمنہ پبلیکیشن، یو ایس اے، 2009 ، صفحہ 80/81۔

-----------

محمد یونس نے آئی آئی ٹی سے کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور کارپوریٹ اکزی کیوٹیو کے عہدے سے سبکدوش ہو چکے ہیں اور90کی دہائی سے قرآن کے عمیق مطالعہ اور اس کے حقیقی پیغام کو سمجھنے  کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کی کتاب اسلام کا اصل پیغام کو 2002میں الاظہر الشریف،قاہرہ کی منظوری حاصل ہو گئی تھی اور یو سی ایل اے کے ڈاکٹر خالد ابو الفضل کی حمایت اور توثیق بھی حاصل ہے اور محمد یونس کی کتاب اسلام کا اصل پیغام آمنہ پبلیکیسن،میری لینڈ ،امریکہ نے،2009میں شائع کیا۔

URL for English article: http://www.newageislam.com/islamic-ideology/the-broader-notion-of-din-al-islam-is-inclusive-of-all-monotheistic-faiths/d/8054

URL:  https://newageislam.com/urdu-section/the-broadest-concept-islam-culmination/d/8558

Loading..

Loading..