New Age Islam
Mon Mar 17 2025, 08:21 AM

Urdu Section ( 10 Sept 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Quranic Concept of Taqwa تقویٰ کا وسیع قراٰنی تصوراور اس کی آفاقیت پر ایک ناقابل تردید شہادت


محمد یونس، نیو ایج اسلام

10 جولائی، 2012

برائی کرنے والی جاہل چوکڑی، ملّا، قدامت پسند لوگ،پروپگنڈہ پھیلانےوالا پڑھالکھاطبقہ اوراسلاموپیتھ(Islamopath) دانشوروں کےذریعہ اسلامی خلوت پسندی کی فرضی داستان کے پروپگنڈہ کو اس مضمون کےذریعہ دورکرنےکی کوشش ہے۔

اس مقصدکی شاعرمشرق محمداقبال کےشدیدغصےکےاظہارسے حوصلہ افزائی ملی ہے۔

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہےہیرےکاجگر

مردے ناداں پرکلام نرم ونازک بےاثر

شریک مصنف (اشفاق اللہ سید کے ساتھ)، اسلام کا اصل پیغام، آمنہ پبلیکیشن، یو ایس اے  2009

(انگریزی  سے ترجمہ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)

نیک اعمال (اعمال صالحہ) اورزکوٰۃ کی طرح تقوی قرآن کےبیان کردہ بنیادی اعمال میں سےایک ہے۔ اعمال صالحہ کرنے والوں کی طرح متقیوں کے لئےبھی خداکی طرف سےانعامات کی یقین دہانی کی گئی ہے۔جس جنّت کا وعدہ پرہیزگاروں سے کیا گیاھے اس کا حال یہ ہےکہ اس کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں۔ اس کا پھل ہمیشہ رہنے والا ہے اور اس کا سایہ بھی (13:35)، اس میں (ایسے) پانی کی نہریں ہوں گی جسکی بو یا رنگت میں کبھی تبدیلی نہی آئےگی۔ اور (اس میں ایسی) دودھ کی نہریں ہوں گی جس کا ذائقہ اور مزہ کبھی نہی بدلےگا۔ اور (ایسے) شراب (طہور) کی نہریں ہوں گی جو پینے والوں کے لئےسراسرلذّت ہے۔ اورخوب صاف کئےہوئےشہدکی نہریں ہوں گی۔ (47:15)  باغات اور چشمے۔(51:15)  باغات اور نعمتیں۔ (52:17) باغات اورنہریں۔(54:54) اورسائےاورچشمےھونگے(77:41) -  قرآن نے متقیوں کیلۓانعام کےطورپر ان کاذکرکیاہے۔ اس طرح وحی کےابتداسےانتہا تک  (610-632) قرآن پوری انسانیت کومذ ہبیّت اورلامذ ہبیّت سےقطع نظرتقوی کی راہ پر گامزن ہونےکی ہدایت دیتاہے۔ اس طرح مکّی زمانےکے ابتدایٔ ایّام (610-612/613) کی ایک آیت اعلان کرتی ہے۔" اور انسانی جان کی قَسم اوراسےہمہ پہلوتوازن ارودرستگی دینےوالےکی قَسم،(91:7)  پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی، (91:8) بیشک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی (91:9)۔ اور بیشک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کردیا (اور نیکی کودبادیا "(91:10)۔

اس کی فعل اور اسم کی  شکلیں اتقا، متقی اوراس سے بنے  دیگر  الفاظ  قرآن کی آیات میں سینکڑوں کی تعدادمیں ملتےہیں۔ سیاق وسباق کےمطابق اورذاتی الفاظ کےذخیرے کےمدنظرمبصرین نےاس کامفہوم خداسےڈرنےوالا، خدا کویاد کرنے والا، اس کی ہدایت چاہنےوالا ، خداسےواقفیت، برایئوسےاپنی حفاظت کرنےوالا، لیا ہے۔  جیساکہ قرآن خودکےبہترین شارح ہونے کادعویٰ کرتاہے (25:33) قرآن کیا کہتا ہے اس کوسمجھنےکابہترین طریقہ اس کی تحقیقات کرنا ضروری ہےجس کے لئے قرآن بار بار زور دیتا ہے (38: 29، 47:24)۔  مندرجہ ذیل سطروں میں انہیں ہی سمجھنےکی کوشش کی گئی ہے۔

اھل تقویٰ قرآن کی رہنمائی پرعمل ک رسکتےہیں۔

 سورہ بقرہ جو ایک افتتاحی دعا( سورۃ فاتحہ) کے بعدآتی ہے اورجوقرآن کو مندرجہ ذیل طریقے سے

متعارف کراتی ہے:

" یہ وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے"(2:2)۔

اسکےبعدقرآن مزیداعادہ کرتا ہےکہ "یہ قرآن لوگوں کے لئے واضح بیان ہےاور ہدایت ہےاور پرہیزگاروں کےلئےنصیحت ہے" 3:138)، "اور (یہ) پرہیزگاروں کے لئے نصیحت ہے" (24:34)۔   لہذا یہ بتاتا ہے کہ متقی وہ لوگ ہیں جو  قرآن کی ہدایت پر عمل کرنے کی صلاحیت رکھتے  ہیں۔ اس طرح قرآن اعلان کرتا ہے:  خدا کے بندے اس سے درخواست کرتے ہیں  کہ ' اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے (25:74)۔، جو :

•  "جو غیب پر ایمان لاتے اور نماز کو (تمام حقوق کے ساتھ) قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے (ہماری راہ) میں خرچ کرتے ہیں،" (2:3)۔

•  “اور وہ لوگ جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا (سب) پر ایمان لاتے ہیں، اور وہ آخرت پر بھی (کامل) یقین رکھتے ہیں" (2:4)۔

•  " اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے" (5:8)۔

•  " جو اپنی بیویوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کرتے  ہیں اگر ایک سے زیادہ ہوں تب بھی" (4:129)۔

•  " اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی جانب سے زیادتی یا بے رغبتی کا خوف رکھتی ہو تو دونوں (میاں بیوی) پر کوئی حرج نہیں کہ وہ آپس میں کسی مناسب بات پر صلح کر لیں" (4:128)۔

• " اور اگر تم نے انہیں چھونے سے پہلے طلاق دے دی درآنحالیکہ تم ان کا مَہر مقرر کر چکے تھے تو اس مَہر کا جو تم نے مقرر کیا تھا نصف دینا ضروری ہے" (2:237)

•  "(عورتیں)  جو  اپنا مہر خود معاف کر دیں اگر وہ  چھونے سے پہلے خود  طلاق دیتی ہیں" (2:237)۔

•  "(مرد) جو اپنی مطلقہ بیویوں کو مناسب نان نفقہ دیتے ہیں(2:241) "۔

•  "(مرد اور عورتیں) جو کچھ مال رکھتے ہوں  وہ  اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں بھلے طریقے سے وصیت کرے" (2:180)۔

• "پس جس نے (اپنا مال اﷲ کی راہ میں) دیا اور پرہیزگاری اختیار کی" (92:5)۔

• " جو اپنا مال (اﷲ کی راہ میں) دیتا ہے کہ (اپنے جان و مال کی) پاکیزگی حاصل کرے (92:18) اور کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں کہ جس کا بدلہ دیا جا رہا ہو (92:19) مگر (وہ) صرف اپنے ربِ عظیم کی رضا جوئی کے لئے (مال خرچ کر رہا ہے " (92:20)۔

• "جو سرکشی نہیں کرتا، اور زیادتیاں نہیں کرتا اور دوسروں کو ان کے  اپنے طریقے سے عبادت کرنے سے نہیں روکتا" (-1496:6)۔

قرآن اپنےبنیادی روحانی اصولوں میں سے کچھ کے ساتھ منسلک علامت کے مقابلے  تقوی کو فوقیت دیتا ہے۔اس طرح یہ حج پرجانے والے مسلمانوں اورقربانی کی رسم اداکرنے والوں کومتنبہ کرتا ہے: (1) "اور (آخرت کے) سفر کا سامان کرلو، بیشک سب سے بہترزادِ راہ تقویٰ ہے"(2:197)۔ (2) " ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقوٰی پہنچتا ہے... "(22:37)۔ یہ روزہ رکھنے کو  تقوی حاصل کرنے کےوسیلےکے طورپربیان کرتا ہے (2:183، 2:187)۔ جبکہ شرم گاہوں کو  ڈھکنے میں ذاتی لباس کےکردارکاحوالہ دیتے ہوئےقرآن کہتا ہے ، تقوی سب سے بہترین لباس ہے (7:26) ۔  یہ مزید بیان کرتا ہےکہ خداکی نظرمیں پرہزگاری کرنےوالےان لوگوں سےافضل ہیں دنیا کی اٰرآ ئش کو شدّت کے ساتھ حاصل  کرتے ہیں(2:212 47:36)۔

2 ۔ تقوی کا وسیع تر تصور

مذکورہ بالا میں  آیات 2: 3-4 اور حج اور روزے سے متعلق آیات کو چھوڑ کر بقیہ آیتیں صرف مذہبی نہیں ہیں۔ یہ ہر انسان کیلۓمذہبی جھکاؤسے قطع نظرقابل اطلاق ہیں۔ قرآن وحی کےآخری نرحلوں میں واضح طورپراس عالم گیرکردارکے  مجموعی تصور (49:13، 5:93) کے بارےمیں مطلع کرتاہےاوراس سےقطع نظرکی کون کیاکھاتایاپیتاہے یہ اعمال صالحہ کوپرزوراندازمیں خداکی خوشنودی حاصل کرنےکےلئےحتمی معیارکےطورپرپیش کرتا ہے (5:93)۔

"اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے"(49:13)۔

"ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اس (حرام) میں کوئی گناہ نہیں جو وہ  (حکمِ حرمت اترنے سے پہلے) کھا پی چکے ہیں جب کہ وہ (بقیہ معاملات میں) بچتے رہے اور (دیگر اَحکامِ اِلٰہی پر) ایمان لائے اور اَعمالِ صالحہ پر عمل پیرا رہے، پھر (اَحکامِ حرمت کے آجانے کے بعد بھی ان سب حرام اَشیاء سے پرہیز کرتے رہے اور (اُن کی حرمت پر صدقِ دل سے ایمان لائے، پھر صاحبانِ تقویٰ ہوئے اور (بالآخر) صاحبانِ اِحسان (یعنی اﷲ کے خاص محبوب و مقرب و نیکوکار بندے) بن گئے، اور اﷲ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہے"(5:93)۔

اس اہم تصور کے کسی بھی  خلوت پسند تشریح سے بچنے کے لئے، قرآن (عیسائیوں اور یہودیوں) اہل کتاب میں سے کچھ کو متقی لوگوں کے طور پر بیان کرتا ہے (3:113-115) ۔

" یہ سب برابر نہیں ہیں، اہلِ کتاب میں سے کچھ لوگ حق پر (بھی) قائم ہیں وہ رات کی ساعتوں میں اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور سر بسجود رہتے ہیں،  (3:113)، وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نیک کاموں میں تیزی سے بڑھتے ہیں، اور یہی لوگ نیکوکاروں میں سے ہیں (114) اور یہ لوگ جو نیک کام بھی کریں اس کی ناقدری نہیں کی جائے گے اور اللہ پرہیزگاروں کو خوب جاننے والا ہے"(3:115)۔

3۔  مذہب یا بےدینی سے قطع تعلق ہر ایک انسان تقوی کا  خزانہ ہے۔

قرآن اللہ کو  تقوی اور بخشش  کے سر چشمہ کے طور پر وضاحت کرتا ہے(74:56)، اور کہتا ہے کہ  خدا، انسان کے تخلیقی عمل کے آخری مرحلے میں اس میں کچھ خدادا د قوت  پھونکی (15:29،-9  32:7 ، 38:72)۔ اس طرح قرآنی نقطہ نظر سےہرانسان’خواہ وہ مذہبی ہوخواہ ملحداس سےقطع نظرسبھی تقوی کےخزانہ ہیں جوان کےشعورکی گہرائی میں سرایت کیاہواہے۔اوراس طرح وہ خوداخلاقی اقدارکوملامت کرنے والی نفس :نفس ِلوامہ: کےطورپررہتی ہے (75:2)۔ لیکن خدا داد تخلیقی منصوبہ بھی انسان کونفس امارہ عطاکرتی ہےجوگناہوں کی طرف مائل کرنےوالی نفس ہے (12:53) اس طرح مذہب سےقطع نظرتمام انسان تقوٰی کی سطح تک پہنچ سکتےہیں یا بداخلاقی یا برائی کی سب سےگہری کھائی میں گرسکتےہیں جیساکہ اس مکالمہ کی ابتدامیں آیت 91:8 میں  بیان کیا گیا ہے۔  قرآن اسےاپنےمخفی،مختصراورجامع اندازمیں اس طرح پیش کرتا ہے:

" بیشک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے (95:4) پھر ہم نے اسے پست سے پست تر حالت میں لوٹا دیا (95:5) سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ان کے لئے ختم نہ ہونے والا (دائمی) اجر ہے "(95:6)۔

تقوی کاوسیع ترتصوراورتمام انسانیت کے ساتھ اس کی گہری وابستگی مذہبی امتیازات کوختم کرتاہے۔  جنس سےقطع نظرسب سےزیادہ مذہبی علامتوں کےساتھ نظرآنےوالےیامذہبی رسومات کےمیں وقف ایک مسلمان شخص شخص تقوی میں پیچھےیااس میں ناکام بھی ہوسکتا ہےاور خداکی خوشنودی حاصل کرنےکا نا اہل بھی ہو سکتا ہےجبکہ ایک غیرمسلم یہاں تک کہ وہ ملحد ہوجس میں خداکی عطا کردہ قوت اس کےشعورمیں کسی طرح کم نہ ہو، وہ تقوی میں آگےجاسکتاہےاور مذہبی علامتوں کی غیر موجودگی  اور ظاہری  عبادات میں کم ہو نےہونےکےباوجود وہ خدا کی خشنودی حاصل کر سکتا ہے۔اگرچہ خدا بہترجانتاہےکہ کون اس کی خوشنودی حاصل کرےگا۔

 4 ۔ کیامسلمان غیر مسلمانوں کی مغفرت اوران کی بھلائی کےلئےدعاکرسکتے ہیں؟

تقوی اوربخشش کاخداداد سرچشمہ کاسنگم(74:56)  جوتمام انسانیت کی پرورش کرتا ہے وہ  اپنےکرم کو صرف مسلمانوں تک محدود کرنےکےکسی بھی تصورکو دورکرتا ہے۔  لہذا مسلم اماموں کو نمازیا قرآن کی تلاوت کے بعد ہونےوالی دعائوں میں خدا کا فضل طلب کرتے وقت ان لوگوں کو پوری انسانیت کو شامل کرنا چاہیے۔  صرف شہرت پرست اسلامی علماء کرام اورامام حضرات ہی اس کےخلاف بحث کرسکتےہیں اور وہ بغیرکسی سیاق وسباق کے آیت  9:84 اور 9:80 کا حوالہ دیں گے۔   کہ  آیت  9:84  جو لوگ کفر کی حالت میں مرگئےان کی قبر پر دعا کرنے سے مسلمانوں کومنع کرتی ہے۔  آیت  9:80  یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو  انتباہ دیتے ہوئے کہتی ہے،  یہاں تک کہ اگر وہ ان (منافقوں جو کفر کی حالت میں مر گئے)  لوگوں کے لئے ستر بار بھی مغفرت کی  دعا کریں گےتو بھی خداانہیں معاف نہیں کرےگا۔  آیت۔849:80  کو ایک ساتھ پڑھیں تویہ ناقابل تردید گواہی دیتی ہیں کہ یہ مخصوص سیاق سباق والی آیات ہیں۔  اس طرح  قرآن کے واضح اورغیرمبہم احکامات (3:7) اوراس کے بہترین معنی (39:18، 39:55) کو لینے کیلۓوہ ہدایت کی روح اور انسانیت کےلئے قرآن کےعالم گیرپیغام کاحصہ بمشکل ہی شمارکیاجاسکتا ہے ۔

نتیجہ

آسان لفظوں میں اگر کوئی اس کثیر جہتی  تصور کو سمجھنا چاہے تووہ اس طرح سمجھ سکتا ہےکہ تقوی کسی شخص  کے شعور کی  آفاقی سماجی اور اخلاقی ذمہ داریاں، یا اس کی 'اخلاقی راست بازی' کی علامت ہے۔  مذہب سےقطع نظر یہ  تمام انسانوں میں  ایک مجموعی تصور ہے یہاں تک کہ یہ ان میں بھی پایا جاتا ہے جو  شعور ی یا جہالت سے خدا کا انکار کرتے ہیں۔ چونکہ خدا کی رضاء انسانی اعمال اور تقوی  کی خداداد تشخیص کرنےکےساتھ مشروط ہے۔ مذہب سے قطع نظر کوئی انسانی کسی دوسرے کے مقابلے  زیادہ  پرہیزگاری کا دعوی نہیں کر سکتا ہے:

" اور اﷲ ہی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے تاکہ جن لوگوں نے برائیاں کیں انہیں اُن کے اعمال کا بدلہ دے اور جن لوگوں نے نیکیاں کیں انہیں اچھا اجر عطا فرمائے (53:31) جو لوگ چھوٹے گناہوں (اور لغزشوں) کے سوا بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں، بیشک آپ کا رب بخشش کی بڑی گنجائش رکھنے والا ہے، وہ تمہیں خوب جانتا ہے جب اس نے تمہاری زندگی کی ابتداء اور نشو و نما میں (مٹی) سے کی تھی اور جبکہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں جَنیِن (یعنی حمل) کی صورت میں تھے، پس تم اپنے آپ کو بڑا پاک و صاف مَت جتایا کرو، وہ خوب جانتا ہے کہ (اصل) پرہیزگار کون ہے"(53:32)۔

یہ بنیادی قرآنی اصول کسی بھی مسلمان کو کسی بھی دوسرے شخص کو خواہ وہ مسلم یا غیر مسلم کافر بلانے سے  روکتا ہے۔ اور دنیا کو مسلم کو اخلاقی طور پر پاک ،اور غیر مسلم کو  اخلاقی طور پر خراب  کے زمرے میں تقسیم کرنے کی مخالفت کرتا ہے۔  مسلمانوں کاخلوت پسند انہ رویہ ان کے اور ان کے عقیدے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور ذلت کا سبب بن رہا ہے۔ اور ایک تہذیبی رکاوٹ کو پیدا کر رہا ہے جو  ثقافت اور مذہبی تکثرتیت پر قرآن کے  حتمی پیغام کے متضاد ہے (5:93، 49:13، اوپر 2 میں دیا گیا حوالہ ) [1]۔ جتنی جلدی  مسلمان اس تصور کو دور کریں گے، اور قرآن کے عالم گیر پیغامات  کو اپنائیں گےاس گلوبلائزڈ دنیا میں ان کے لئے بہتر ہوگا۔  اور آخر میں قرآنی پیغام کے حقیقی گواہ ہونے کے طور پر ، جیسا کہ  ہمارے علماء اس کے  نگراں ہونے کا دعوی کرتے ہیں انہیں اپنی تمام تردعائوں کو صرف مسلمانوں تک محدود نہیں رکھنا چاہیے جیسا کہ وہ روایتی طور پر کرتے ہیں بلکہ اس میں  پوری انسانیت کو شامل کرنا چاہیے۔

نوٹ:

[1] تقوی پر مرکوز یہ مضمون اعمال صالحہ اور دیگر موضوعات پر قرآن کی بہت سی آیات کے حوالوں کو نظر انداز کرتا ہے (جو قرآن کی تکثرتیت کا مظاہرہ کرتا ہے) ۔ جو لوگ اس میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ اسی ویب سائٹ پر اس مصنف کے مندرجہ ذیل مضامین کو دیکھ سکتے ہیں۔

1. Any punishment for apostasy – let alone capital punishment is anti-Islamic

http://www.newageislam.com/NewAgeIslamIslamicShariaLaws_1.aspx?ArticleID=5998

 

2. The Qur’an espouses harmonious inter-faith relations with the Christians and the Jews and all other faith communities.

http://newageislam.com/islam-and-pluralism/muhammad-yunus,-new-age-islam/the-qur’an-espouses-harmonious-inter-faith-relations-with-christians-and-jews-and-all-other-faith-communities/d/7722.

محمد یونس نے آئی آئی ٹی سے کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور کارپوریٹ اکزی کیوٹیو کے عہدے سے سبکدوش ہو چکے ہیں اور90کی دہائی سے قرآن کے عمیق مطالعہ اور اس کے حقیقی پیغام کو سمجھنے  کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کی کتاب اسلام کا اصل پیغام کو 2002میں الاظہر الشریف،قاہرہ کی منظوری حاصل ہو گئی تھی اور یو سی ایل اے کے ڈاکٹر خالد ابو الفضل کی حمایت اور توثیق بھی حاصل ہے اور محمد یونس کی کتاب اسلام کا اصل پیغام آمنہ پبلیکیسن،میری لینڈ ،امریکہ نے،2009میں شائع کیا۔

URL for English article:

https://www.newageislam.com/islamic-ideology/the-quran-s-broader-notion-of-taqwa-–-an-irrefutable-testimony-to-its-universalism/d/7889

URL for this articlehttps://newageislam.com/urdu-section/quranic-concept-taqwa-/d/8626

Loading..

Loading..