New Age Islam
Sun Oct 06 2024, 10:49 AM

Urdu Section ( 20 Sept 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Prophet Hazrat Muhammad (saw)'s Personality Described in the Quran قرآن میں منعکس پیغمبرحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت

محمد یونس، نیو ایج اسلام

13ستمبر، 2012

شریک مصنف (اشفاق اللہ سید کے ساتھ)، اسلام کا اصل پیغام، آمنہ پبلیکیشن، یو ایس اے  2009

(انگریزی  سے ترجمہ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)

مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلمان اسکالرس  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی  سوانح  حیات  لکھنے   پر  اپنے علم کو وقف  کرتے ہیں اور  اس سلسلے میں وہ  مکمل طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قدیمی سیرت پر انحصار کرتے ہیں۔  تاہم،  قدیمی  سیرت  مکمل طور پر  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی  ابتدائی زمانے کی  سوانح حیات  لکھنے والوں کی  تحریرپر مبنی  رہی  ہیں جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے 125 سال سے بھی زیادہ  کے بعد ابن اسحاق (d.151 AH/768 CE)  کے ذریعہ ترتیب دیا گیا  اور  جسے تقریباً پچاس سال بعد ابن ہشام (d. 218/834) کے ذریعہ  شائع کیا گیا۔

یہ تحریر پوری طرح سے  عوام  میں مقبول  زبانی تذکرہ پر مبنی ہے  جس میں   سامعین کی پسند  اور مزاج  کے مطابق    خیالی  اضافہ اور  سنسنی خیز اور جذباتی انداز کا سہارا لیا گیا ہے [1]۔ اس کے علاوہ ،  یہ اس دور کے ادبی انداز میں لکھی گئی ہے،جس دور کے تحریر کی   خاصیت   مبالغہ آرائی اور  زینت  سے آراستہ کرنا تھا [2]۔  اس طرح یہ  غیر حقیقی قیاسوں اور  غلطیوں  سے بھری پڑی ہیں ۔  اس کے بعد صدیوں تک  ان گنت بار دہرائے جانے سے  ابن ہشام کے کام کی غیر حقیقی قیاس اور  غلطیاں اس نظام کا ایک   حصہ   بن گئیں ۔اور  اسے  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی زندگی اور مشن کی نمائندگی کے طور پر مان لیا گیا۔  تاہم، چونکہ قرآن  اس سے  کم از کم ایک 175 سال  پہلے کی ہے اور تاریخ کی مکمل روشنی میں اسے  درج کیا گیا تھا، اس لئے  یہ جو حقائق پیش کرتا ہے اسے تاریخی اعتبار سے  درست مانا جا سکتا ہے [3]۔  اس کے علاوہ،  ہاتھ میں  خدا  کے نہ  بدلے گئے الفاظ  کے طور پر اس کے ریکارڈ کو  مستند مانا جانا چاہیئے اور  اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  قدیم  سیرت پر ترجیح  دیا جانا چاہیئے۔زیر نظر مضمون  اسی  سلسلہ میں ایک کوشش ہے!

نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سازی  میں  اکثر  ایک مسئلہ یہ آتا ہے کہ   آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادت  سے  لے کر  نزول وحی سے   پہلے کی زندگی کے بارے میں قرآن تقریباً خاموش ہے۔   یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین ، بیویوں، اولاد، دوستوں یا جاننے والوں کے   نام نہیں  دیتا ہے اور  نہ ہی ان کے بارے میں اطلاعات فراہم کرتا ہے، اگرچہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی  ابتدائی زندگی کے بارے میں مندرجہ ذیل مختصر تبصرہ    پیش کرتا ہے:

" (اے حبیب!) کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر اس نے (آپ کو معزّز و مکرّم) ٹھکانا دیا؟(93:6) اور اس نے آپ کو بھٹکی ہوئی قوم کے درمیان (رہنمائی فرمانے والا) پایا تو اس نے (انہیں آپ کے ذریعے) ہدایت دے دی (7) اور اس نے آپ کو (وصالِ حق کا) حاجت مند پایا تو اس نے (اپنی لذتِ دید سے نواز کر ہمیشہ کے لئے ہر طلب سے) بے نیاز کر دیا "(93:8)

تاہم ، قرآن میں   نزول وحی کے وقت  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے موجودہ   حالات پر تبصرے  کثرت سے پائے جاتےہیں۔    اگرچہ  زیادہ تر یہ تبصرے مخفی اور غیر واضح ہیں، تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سازی  میں  ان سے  مدد لی جا سکتی ہے۔

جیسے  ہی  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی  کو زبانی طور پر حاصل کیا اور ان کی تلاوت کرنے لگے  تو مکہ کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا  مذاق  اڑانے لگے:   یہ لوگ آپ کے پیروکاروں پر ہنستے تھے،  اور ان لوگوں کے کسی جگہ سے گزرنے پر ایک دوسرے کو آنکھ سے اشارہ کرتے تھے اور جیسے ہی وہ گھر پہنچتے تھے ان کا مذاق اڑاتے تھے (21:36, 25:41, 83:29-31) ۔ وہ لوگ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو  (نعوذ باللہ ) بہو روپیہ، پاگل (30:58, 44:14, 68:51)  اور پاگل شاعر کہا کرتے تھے "(37:3)۔   وہ سوال کیا کرتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ  وسلم (6:37, 11:12, 13:7, 17:90-93, 21:5, 25:7/8, 29:50) کیوں  کسی معجزے  کو ظاہر نہیں کر سکے اور  کیوں قرآن دو شہروں میں اہمیت کے حامل شخص پر نازل نہیں ہوا"(43:31)۔  ان لوگوں نے   یہ بھی اعلان کیا کہ صبح شام   دوسرے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو  تربیت یا حکم  دیتے ہیں (25:5, 44:14)۔

  ہم یہ پاتے  ہیں کہ  یہ تمام الزامات  وحی کو بنیاد بنا کر لگائے گئے تھے ، ان لوگوں نے کبھی بھی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقی کردار پر کوئی سوال  نہیں کیا۔  جس سے  واضح طور پر یہ ثابت  ہوتا  ہے کہ وہ  پاک  اخلاقی کردار والی  شخصیت کے مالک تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی بھی سماجی، اخلاقی، سیاسی   کمی  نہیں تھی، جس سے  ظاہر ہوتا  ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش  منکسر مزاج  شخص تھے، اور آپ نے   کسی  کے معاملات میں دخل اندازی کبھی نہیں کی۔  قرآن میں مزید تحقیق کرنے پر ہم پاتے ہیں کہ   جب  تک خدا نے  نہیں  چاہا ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھایا نہیں ہوتا  تب تک   نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   اپنے سامعین کے سامنے  وحی کی تلاوت  نہیں کر سکتے تھے۔  یہ تمام حقا ئق قرآن کے مخاطبین   سے اس  بات پر غور و فکر کرنے کے لئے کہتےہیں ، کیونکہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  وحی کے نزول  کی شروعات سے  قبل تک ان لوگوں کے ساتھ  رہنا  (10:16, 12:3, 42:52)۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے نازل ہونے سے قبل  اپنی پوری زندگی میں   کسی بھی ادبی یا شاعرانہ یا کسی بھی فلسفیانہ، نفسیاتی، سیاسی یا مذہبی بصیرت کی   ذہانت کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔  اپنی زندگی کے آخری حصہ میں پورے عرب کے  حکمراں مجازی بننے  کی بات تو چھوڑ د یجیئے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ   نبی  کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   کی نہ تو کسی  عقیدہ   کو تلاش کرنے یا  کسی مذہبی طبقہ کی قیادت  کرنے میں  کوئی دلچسپی تھی جسکی آپ نے  نہ ہی تربیت لی اور نہ ہی آرزو تھی ۔  وحی کی طاقت کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا  سب سے بڑا تحفہ آپ کی  عظیم ذاتی خصوصیات تھیں۔

قرآن گواہی دیتا ہے  کہ نبی  کریم صلی اللہ علیہ وسلم احد کے معرکہ میں  اپنے لوگوں کی غلطیوں کے باوجود  نرم طبیعت والے تھے  (3:159)۔  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے  آسانی سے تبوک   کے معرکہ میں (9:43) حصہ لینے سے دوسروں کو معاف کر دیا۔  آپ نے  بن بلائے مہمانوں کو کھانہ پیش کیا اور ان کا خیال رکھا، یہاں تک کہ لوگوں سے میل ملاقات کے لئے  منعقدہ کھانے کے بعد  بھی ٹھہر جانے والے   مہمانوں کا بھی خیال رکھا  جبکہ اس سے   آپ ناراض بھی ہوئے(33:53)۔  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دشمنوں کی  بخشش کے لئے دعا کر کے  سخاوت  کی  بہترین مثال پیش کی (9:80/84/113)۔  اس طرح  قرآن آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو بہترین کردار والا رسول بتاتا ہے (81:19)، اور بہترین کردار کے لئے وقف بتایا ہے(68:4)  اورآپ کی ثابت قدمی نے آپ کو  اپنے  دشمنوں کے ساتھ   کچھ سمجھوتہ   کرنے کی ترغیب دینے  سے بچا لیا  (17:74 )۔  آپ امین تھے(81:21) (خدا  کا ایک  مظہر) مومنوں  (9:61) اور تمام انسانیت کے لئے   رحمت تھے (21:107)۔

مزید برآں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سب سے زیادہ معروف اور  قابل  اصحاب کا قرآن کے ذریعہ نام نہ لینا ،  جو بعد میں خلیفہ ، گورنر اور جنرل بنے، جنہوں  نے  سب سے زیادہ شائستہ اور فرمانبردار پیروکاروں کے طور پر  آپ کی قیادت قبول  کی،  یہ  واضح طور پر  آپ کی طبقہ میں  خصوصی اور غیر معمولی حیثیت کو بتاتا ہے۔  ابتدائی  احادیث کے  مطابق، نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی موجودگی  کی  پرجوش اپیل تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کی کچھ خوبصورت خصوصیات اور کرامات  اس وقت باہر آئیں  کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود  لوگ ہی اس کا تجربہ کر سکتے تھے۔ ان غیر معمولی خوبیوں اور خصوصیات  کےنتیجہ کے طور پر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے  اپنے  اصحاب کے ساتھ خصوصی تعلقات تھے جس نے   آپ کے ہم عصر تمام مبصرین کو  متاثر کیا  اورتب سے   اپنے  مخالفین کو متحیر  کیا ہے۔ یہ بات واضح کرتی ہے کہ کیوں  صحابۂ        کرام   نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سب کچھ قربان  کرنے کو تیار تھے۔

تاہم، ایک ذاتی سطح پر، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  دوسروں کی طرح ایک بشر تھے (3:144، 18:110 41:6)۔  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس  خود کو نقصان سے بچانے یا خود کو فائدہ  پہنچانے کا  یا دوسروں کو نقصان یا ہدایت دینے کا اختیار نہیں تھا (7:180، 10:49 72:21)۔ مکہ کے دوسرے لوگوں کی ہی طرح  آپ صلی اللہ علیہ وسلم امّی تھے (7:157 / 158)، اور آپ  پڑھ   نہیں  سکتے  تھے۔  اگر ایسا نہ  ہوتا  تو   بک بک کرنے والوں کو شبہ  ہوتا (29:48)۔ آپ  اللہ کے رسول تھے اور آپ کا مشن  خدا کے پیغام کو ( 5:99, 7:158,13:40, 42:48)  وضاحت کے ساتھ(5:92، 16:82، 24:54) پہنچانا تھا۔  تا کہ انسانیت اندھیروں سے  نکل  کر  روشنی میں داخل ہو سکے (14:1، 57:9)۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ  خدا کی رہنمائی کو پہنچانے والے اور  قرآن  کی تعلیمات کے نمونہ(33:21)   بن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  خود اس کا عملی اظہار کیا۔  لہٰذا یہ نتیجہ نکالنا مناسب  ہوگا کہ  آپ صلی اللہ  علیہ وسلم   نے دوسروں کو معاف کیا اور جاہلوں کے ساتھ بحث سے اجتناب کیا (7:199)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  بے مروّت پڑوسیوں (4:36، 42:40) اور وہ لوگ جنہوں نے پہلے آپ  کو  نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی ، ان کی بھی مدد کی (5:2)، آپ نے ذاتی طور پر قربانیاں دے کر ، یہاں تک کی ناہموار حالات میں بھی  مستحق  لوگوں کے لئے خرچ کیا (3:134، 108:2)، اور آپ  نے غصے پر ضبط کیا اور غصے کی حالت میں بھی دوسروں  کو معاف کیا (3:135، 42:37)،  آپ سلام کا جوابے دینے میں  نہایت  شائستہ تھے (4:86) دوسروں کی برائی کرنے سے  اور  دوسروں کو برا بولنے سے  اجتناب کیا  (4:148)، آپ ہمیشہ  دوسروں کے بارے میں اچھی باتیں کیا کرتے تھے  تاکہ  معاشرے / خاندان میں تنازعات سے بچا جا سکے (17:53)۔  آپ نے  عبادت گاہوں میں  شفقت کے ساتھ برتائو کیا (7:31)، چلنے میں آپ عجز سے کام لیتے تھے ، جب آپ جاہلوں کو خطاب کرتے تھے تب بھی  آپ نے ان کے لئے  امن کی دعا کرتے تھے (25:63)، آپ  نہ تو  فضول خرچی کرتے تھے اور نہ ہی   بخل سے کام لیا  کرتے تھے بلکہ  آپ نے درمیانہ رویہ اختیار کیا (25:6)  آپ نے وہی کہا جو حق  اور متعلقہ (33:70)، منصفانہ اور مناسب(معاروف ) (4:5)  اور احسن طریقہ سے  (2:83) اور نرم لہجہ میں(31:19) کہا۔ آپ نے وہی فرمایا جو آپ کے دل میں تھا(3:167)

قرآن کے منع کرنے سے منسوب کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ان  بیہودہ باتوں سے (ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیں (23:3) آپ کے چلنے، بولنے اور برتائو میں تکبر نہیں تھا (17:37 ,19 / 31:18) آپ دھوکہ بازی   یا  دکھاوٹی طریقے کی بات نہیں کیا کرتے تھے (22:30)  آپ بخل سے کام نہیں لیتے تھے اور دوسروں کو بھی ایسا نہ کرنے  کی  ترغیب دیتے تھے (4:37)، مستحق لوگوں  کو دینے سے بچنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  اسے کبھی  نہیں  چھپایا  جو   کچھ بھی آپ کے پاس  موجود تھا (4:37)،  آپ  مال و دولت کے اشتراک میں یقین رکھتے تھے اور یہ کہ  آمدنی میں آپ  کا حصہ صرف  اتنا ہے  (4:32) جتنا اس میں ایک  ضرورت مند کا حصہ ہے (70:24)۔  آپ ضرورت مندوں کی مدد کرنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے(47:38) اور جب مالدار ہوئے تو  بخل سے کام نہیں لیا (.1192:8)، آپ نے کبھی کسی کا مزاق نہیں اڑایا (49:11) دوسروں میں کبھی برائی تلاش نہیں کی (49:11 ) یا عرفی ناموں سے  ان کی توہین نہیں کی (49:11) آپ دوسروں پر بہت زیادہ شک نہیں کیا کرتے تھے (49:12)  دوسروں کی برائی نہیں کی اور نہ ہی دولت جمع کی (104:2)۔

اس مضمون میں  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی  زندگی کے بارے میں کسی بھی حوالہ کو  نظر انداز کیا گیا  ہے کیونکہ  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی  بیویوں کے بارے میں  قرآنی حوالے کچھ آیات اور حصوں  تک ہی محدود ہیں، جس کی  اسلام کے  ابتدائی زمانے میں سیرت لکھنے والوں نے  انتہائی رنگین اور   سجا سنوار کر تشریح کی ہے۔

 مختصراً، اس مضمون نے  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی  عظیم شخصیت پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے اور عام طور پر قارئین کو یقین دلانے  کی کوشش کی ہے کہ کوئی بات نہیں اگر ادبی ترکیب کے ذریعہ  پروپگنڈہ کرنے والے، اسلام کی تنقید کرنے والے اور  تبدیلی  کی وکالت کرنے والے سیاست داں دعوی کریں، کارٹونسٹ خاکے  بنائیں، یا فلم بنائیں لیکن  محمد صلی اللہ علیہ وسلم   واقعی ایک عظیم انسان تھے، یہاں تک کہ اگر آپ کو  خدا کے رسول ہونے کے کریڈٹ نہیں دیا  جاتاہے، تب بھی ۔   جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے  وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کی ازواج مطہرات  یا   آپ کے نکاح   سے متعلق  کسی بھی غیر موافق  تحریر کے   سامنے آنے پر وہ سمجھ جائیں کہ   یہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی سیرت  سے  لیا گیا  ہے جو   قیاس آرائی پر مبنی  ہے اور جو  بہت عجیب بھی ہے[4]۔

جہاں تک  فریبی اور  حاسد  اشتعال پیدا کرنے والوں اور اسلام کی تنقید  کرنے والوں اور غیر مسلمانوں   کا تعلق ہے، وہ  نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی کردارکشی  یا قیاس پر مبنی سیرت سے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے بارے میں کہانیاں  پیدا کرتے ہیں،  تو ایسے میں   مسلمانوں کو قرآن کے مندرجہ ذیل اعلانات کی روشنی میں  انہیں نظر انداز کر دینا چاہیئے۔

" اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے انسانوں اور جِنّوں میں سے شیطانوں کو دشمن بنا دیا جو ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی ہوئی (چکنی چپڑی) باتیں (وسوسہ کے طور پر) دھوکہ دینے کے لئے ڈالتے رہتے ہیں، اور اگر آپ کا ربّ (انہیں جبراً روکنا) چاہتا (تو) وہ ایسا نہ کر پاتے، سو آپ انہیں (بھی) چھوڑ دیں اور جو کچھ وہ بہتان باندھ رہے ہیں (اسے بھی)"(6:112)۔

"اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے جرائم شعار لوگوں میں سے (ان کے) دشمن بنائے تھے (جو ان کے پیغمبرانہ مشن کی مخالفت کرتے اور اس طرح حق اور باطل قوتوں کے درمیان تضاد پیدا ہوتا جس سے انقلاب کے لئے سازگار فضا تیار ہو جاتی تھی)، اور آپ کا رب ہدایت کرنے اور مدد فرمانے کے لئے کافی ہے" (25:31)۔

نوٹس

1۔ اس کو بھر پور طریقے سے ان کے مندرجہ ذیل کام سے  ظاہر کیا جا سکتا ہے:

تحریر کے  ایک حصے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شہیدصحابہ خبیب    کا   شاعرانہ منظر نگاری  کے ذریعہ  ان کے گہرے جزبات کو  بتایا گیا  ہے جس میں وہ  بھانسی سے قبل کھڑے ہیں [5]۔   ایک اور حصہ میں منظر اس سے تضاد رکھتا ہے جس میں اشارہ دیا گیا ہے کہ  شہید پھانسی سے قبل  مسلسل روئے جا رہے ہیں[6]۔

اس تحریر میں  پروپگنڈہ کرنے والے شاعر  کعب ابن اشرف اور اس کی بیوی کے درمیان  جدا ہوتے وقت  کی بات چیت کا حوالہ اسی طرح دیا گیا ہے ،  جیسے وہ 'ابو نائلہ، جو ان کے گھر  اسے قتل کرنے کے لئے آیا تھا اس کی آواز پر باہر نکل آیا[7]۔   شاعر  کو اچانک ہلاک کر دیا گیا تھا اور یہ ناقابل تصور ہے کہ  مقتول شاعر کی  بیوہ اس سے جدا ہوتے وقت ہوئی بات چیت اس کے قاتل کو بتائے گی ۔    حوالے کے طور پر دئے گئے الفاظ  واضح طور پر قیاس آرائی پر مبنی تھے۔

2۔  اس زمانے کی  رپورٹ وضاحت کرتی ہے کہ  بادشاہ سلیمان  ایک رات  میں  اپنی تمام سو بیویوں کے ساتھ ہم بستری کیا کرتے تھے [8]، کنگ آرتھر کورٹ کے سر کی  اجنبیوں کو باہر نکالنے کے لئے  ایک گائے کے برابر پتھر کو پھینک دیا کرتے تھے اور جو ایک بار اچھلنے پر درخت  کے سب سے اوپر پہنچ جاتے تھے یعنی   ایک بار اچھلتے تھے تو  دو سو ہاتھ کی لمبائی کے برابر اوپر جاتے تھے [9]۔

3۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بین الاقوامی سطح پر جانے مانے سوانح نگار میکسم  روڈنسن ، جو وحی کے  خدائی ہونے کا منکر تھا: " بے شک قرآن صداقت کی ایک مضبوط بنیاد مہیا کرتا ہے " [محمد، انگریزی ترجمہ، دوسرا ایڈیشن، 1996، لندن]

4۔ اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے  مندرجہ ذیل بیان سے  ظاہر کیا جاتا ہے جس میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پیغمبر آدم علیہ السلام  کو اپنے  سفر معراج کے بارے میں  بتایا تھا ، جس کے بارے میں  قرآن کہتا ہے: "وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔"

"پھر میں نے اونٹوں کی طرح ہونٹ والے  مردوں کو دیکھا۔ ان کے ہاتھوں میں آگ کے گولے تھے  جسے وہ اپنے منھ میں ڈال رہے تھے اور    جسم کے آخری حصہ سے نکال کر پھر منھ میں ڈال رہے تھے ۔  میں نے پوچھا، ' اے جبرائیل  یہ لوگ کون ہیں؟' انہوں نے  جواب دیا کہ، ' یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا حق مار رہے تھے۔ اس کے بعد  میں نے  سینوں سے  لٹکی  عورتوں کو دیکھا اور پوچھا ، اے جبرائیل  یہ کون ہیں؟ جبرائیل امین نے  جواب دیا  اور  کہا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جنہوں نے اپنے شوہر کے بچوں پر ظلم کیا ، اپنو پر نہیں۔ اس کے بعد وہ مجھے جنت میں   لے گئے  جہاں میں نے  ایک خوبصورت ہونٹ والی   دو شیزہ کو دیکھا ،  جیسا کہ میں  اس کی طرف متوجہ ہو  گیا تھا، میں نے اس سے پوچھا، 'تم کس سے تعلق رکھتی ہو؟ اس نے جواب دیا،' زید ابن حارثہ     "-  محمد حسین ہیکل ، لائف آف  محمد( صلی اللہ علیہ وسلم)،انگریزی ترجمہ  اسماعیل راگی، 8واں ایڈیشن، کراچی ، 1989، صفحہ  143

5 ۔ ابن ہشام، سیرت النبی ، اردو ترجمہ غلام رسول،دہلی 1984، Vol.2، Chap.124، صفحہ 197

6۔ ابن ہشام، سیرت النبی ، اردو ترجمہ غلام رسول،دہلی 1984، Vol.2، Chap.124، صفحہ 198

7۔ ابن ہشام، سیرت النبی ، اردو ترجمہ غلام رسول،دہلی 1984، Vol.2، Chap.109، صفحہ 35

8۔ صحیح بخاری، Vol.7، ایکسیشن 169

9۔ مارک ٹوین ، اے کنیکٹیکٹ یانکی ان کنگ آرتھرس کورٹ، یو ایس اے ، 1988 صفحہ 23

------------

محمد یونس نے آئی آئی ٹی سے کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور کارپوریٹ اکزی کیوٹیو کے عہدے سے سبکدوش ہو چکے ہیں اور90کی دہائی سے قرآن کے عمیق مطالعہ اور اس کے حقیقی پیغام کو سمجھنے  کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کی کتاب اسلام کا اصل پیغام کو 2002میں الاظہر الشریف،قاہرہ کی منظوری حاصل ہو گئی تھی اور یو سی ایل اے کے ڈاکٹر خالد ابو الفضل کی حمایت اور توثیق بھی حاصل ہے اور محمد یونس کی کتاب اسلام کا اصل پیغام آمنہ پبلیکیسن،میری لینڈ ،امریکہ نے،2009میں شائع کیا۔

URL for English article: http://newageislam.com/islamic-personalities/muhammad-yunus,-new-age-islam/the-noble-persona-of-prophet-muhammad-(pbuh)-as-mirrored-in-the-qur’an/d/8657

URL: https://newageislam.com/urdu-section/prophet-hazrat-muhammad-(saw)-personality/d/8741

Loading..

Loading..