By Muhammad Yunus (Translation from English by Samiur Rahman, NewAgeIslam.com)
Hence the verb ahaqqu in 2:229 merits to be interpreted as a ‘duty’, and not a ‘right’. The Qur’an offers instances of the use of this verb to connoting duty in the verses 2:180, 2:236, 2:241, rendered by Yusuf Ali as follows:
“It is prescribed, when death approaches any of you, if he leave any goods that he make a bequest to parents and next of kin, according to reasonable usage; this is due (haqqan) from the God-fearing” (2:180).
“There is no blame on you if ye divorce women before consummation or the fixation of their dower; but bestow on them (A suitable gift), the wealthy according to his means, and the poor according to his means; A gift of a reasonable amount is due from (haqqan) those who wish to do the right thing” (2:236).
“For divorced women Maintenance (should be provided) on a reasonable (scale). This is a duty on (haqqan) the righteous” (2:241).
Conclusion: In view of a quantum change in gender dynamics in the recent times, there is an overriding need to bring the translation / interpretation of the verses 4:34 and 2:229 in line with the universal message of the Qur’an as captured in the tabled fresh readings. If the Muslim Ulama fail to do this, and to apply the same principle to other gender related verses, what was beautiful in Islam until recent times – say a hundred years ago, will become ugly in the modern era and the Muslim women will be liable to suffer far greater hardships in conjugal life than their non-Muslim counterparts, and Islam will be condemned as a misogynist faith as being already labelled. No wonder Allama Iqbal exclaimed- le gay taslis kay farzand miraase Khalil – khashte buniyade kalisa bun gaee khake Hijaz. (taswire dard, Bange dara)
URL for English article:
http://www.newageislam.com/islam,-women-and-feminism/notions-of-male-superiority,-domination-and-beating-of-wife-stand-un-islamic-today-/d/5780
مرد وں کی برتری،تسلط اور
بیویوں کی پٹائی کا تصور غیر اسلامی ہے
محمد یونس، نیو ایج اسلام
ڈاٹ کام
(شریک
مصنف) اسلام کا اصل پیغام، آمنہ پبلیکیشن،امریکہ، 2009
اس عنوان سے زیادہ تر مسلمان
مردوں کو صدمہ پہنچ سکتا ہے جن کا یقین ہے کہ خدا نے ان کے مرتبے کو خواتین کے مقابلے
برتر بنایا ہے اور ان کو ’باغی‘ یا’ نا فرمان‘ بیوی کی پٹائی کا حق عطا کیا ہے ۔قرآن
کی آیت 4:34اور2:229 کااردو، ہندی ،انگریزی یا کسی دوسری زبان میں کوئی بھی ترجمہ اس
تصور کی حمایت کرے گا۔تاہم روایتی ترجمہ ابتدائی مفسرین کی تحریروں پر مبنی ہے۔ان تحریروں
کی شروعات ایسے وقت (اسلام کی تیسری صدی)میں ہوئی جب پدرانہ نظام تمام تہذیبوں کی خصوصیات
میں شامل تھا، اور اس نے اسلام پر اپنا اثر بھی چھوڑا کیونکہ تبدیلی مذہب کے سبب ان
تہذیبوں کی سرحدیں اسلام کے ساتھ مشترکہ تھیں اوراس طرح لا محالہ اس دور کے عالموں
کو مطلع کیا۔ابتدائی مفسرین کے محتاط انداز میں تذکرہ کی تشریح کئی صدیوں بعد مردوں
کی برتری کا تصور بن گیا،حالانکہ دوسری تہذیبوں میں ان مفسرین کے ہم منصبوں کے مقابلے
ان کی تحریروں میں مسلم خواتین کا ذکر بہتر انداز میں پیش کیا گیا تھا ، اور ایسے میں
کسی طرح کی جانچ پڑتال کی ضرورت نہیں محسوس کی گئی۔تاہم موجودہ وقت میں خواتین کے با
اختیار ہونے کے بعد اس طرح کے تصورات اور صنفی معاملات کے بارے میں متعدد دوسری قرآنی
آیتیں، صنفی تعصب پر مبنی نظر آنے لگیں اور ان کی نئی تشریح کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔اس
کے علاوہ، کئی ابتدائی مبصرین نے قرآن کی کئی اہم آیات کے لئے کئی اختیاری دلائل پیش
کئے۔بعد کے مفسرین نے ان دلائل کا انتخاب کیا جو سب سے کمزور تھے۔ اس طرح بعد کے ادوار
میں وہ تفسیر تعلیم اور اپنانے کے معاملے میں زیادہ مقبول ہوئی جن میں قدیم زمانے کے
لوگوں (نے جس کی وکالت)کی خوبصورتی کا مکمل طور پر فقدان تھا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ
اسلام کے روایتی اسکالر بھی نئی تشریح کی ضرورت کو قبول کرتے تھے۔چونکہ کوئی بھی اسکالر
کسی اتھارٹی کے دعویٰ کے ساتھ ابتدائی مفسرین کے کام کو خارج نہیں کرسکتا ہے، ایسے
میں صنفی معاملات سے منسلک آیتوں اور دوسری اہم آیتوں کی نئی تشریح کا ایک ہی طریقہ
ہے کہ ان آیات کی وضاحت کے لئے قرآن کی ہی طرز تحریر اور اور بیان کا استعمال کیا جائے
اور پورے قرآن میں جہاں بھی اس طرح کے موضوع سامنے آئیں ان کا آپس میں حوالہ دیا جائے
یعنی بنیادی طور پر قرآن کے ذریعہ قرآن کی وضاحت کی جائے اور یہی طریقہ کار تفسیر کا
بہترین ذریعہ ہے۔
ایک حالیہ اشاعت جس میں اس
طریقہ کار کو اپنایا گیا ہے ، ان آیات کی تشریح مندرجہ ذیل طریقے سے کرتی ہے۔
4:34
’مرد
(اپنی) بیویوں کے مددگار ہیں کیونکہ اللہ نے مختلف اقدام میں ہر ایک پر مہربانی کی
ہے اور کیونکہ وہ اپنی دولت میں سے (ان کے لئے)جو خرچ کرتے ہیں۔صالح عورتیں متقی ہیں
جو ان سب چیزوں کی حفاظت کرتی ہیں جن کی اللہ تعالیٰ حفاظت کرتا۔اور جن عورتوں کے نسبت
تمہیں معلوم ہو کہ وہ سرکشی کرنے لگی ہیں ، تو(پہلے)ان کو سمجھاؤ، پھر ان کو انکے بستر
میں اکیلا چھوڑ دو اور ان پر ذور ڈالو، لیکن اگر وہ آپ کی بات سنیں، تو انکے خلاف بہانے
تلاش مت کرو، (یاد رکھو) خدا سب سے اعلیٰ اور عظیم ہے۔‘
زیادہ تر مبصرین نے اس آیت
کی تشریح اس طرح کی ہے(1)شادی میں ایک آدمی کے برتر اور حاکمانہ کردا اور ایک خواتین
کے کم تر اور ماتحتی کردار کو قبول کرتاہے۔۔(2)مرد کو مبینہ طور پر ضدی اور نافرمان
بیوی کی پٹائی کا اختیار دیتا ہے۔یہ اہم الفاظ اور جملوں کو مندرجہ ذیل روایتی انداز
میں تشریح کرتے ہیں۔
قوامہ کو انچارج،(مرمدوکے
پکتھل)، محافظ اور حاکم(یوسف علی)
بعضھم علیٰ بعض کو ترجیحی
مقابلے کے طور پر ا۔ خدا عورتوں کے مقابلے مردوں پر زیادہ مہربان ہے۔
قانتون کو (شوہر کی)اطاعت
کے طور پر۔
نشوز کو بے وفائی اور برے
فعل کے طور پر۔
وضربوکو(بیویوں کی) پٹائی
کے طور پر۔
اس طرح عبد اللہ یوسف علی
کا ترجمہ مخصوص روایتی طرز کا ہے، جو اس طرح ہے:
’مرد
عورتوں پر مسلط و حاکم ہیں اس لئے کہ خدا نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے
بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں
اور ان کی پیٹھ پیچھے خدا کی حفاظت میں(مال و آبروکی)خبرداری کرتی ہیں اور جن عورتوں
کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی(اور بد خوئی)کرنے لگی ہیں تو(پہلے)ان کو(زبانی)سمجھاؤ(اگر
نہ سمجھیں تو)پھر ان کے ساتھ سونا ترک کردو، اگر اس پر بھی باز نہ آئیں توزدو کوب کرو
اور اگر فرماں بردار ہو جائیں تو پھر ان کو ایذا دینے کا کوئی بہانہ نہ ڈھونڈھو، بے
شک خدا سب سے اعلیٰ(اور)جلیل القدر ہے۔‘(4:34)
مندرجہ بالا سطروں میں جو
ترجمہ پیش کیا گیا ہے وہ شوہر کی بالا دستی اور اور بیوی کی ماتحتی ،یا وجوہات سے قطع
نظر بیوی کی پٹائی کی حمایت نہیں کرتا ہے۔اور یہ قرآن کی مثالوں کے اہم الفاظ اور جملوں
کی تشریح پر مبنی ہے اور جس کو اوپر ذکر کئے گئے اشاعت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ترجمے
کی تکنیکی نوعیت اور تعداد میں زیادہ ہونے کے سبب اس مضمون میں شامل کرنے سے گریز کیا
گیا۔
قرآن کی وہ مثالیں جو مضمون
کے عنوان میں پیش تصورات کی تردید کی عکاسی کرتی ہیں:
(1)آیت
4:34کے فوراً بعد4:35میں ثالثی کی بات کہی گئی ہے اگر ازدواجی مسئلہ حل نہیں ہوتا ہے
۔
’اگر
تم(طبقہ)کو دونوں میں ان بن کا خدشہ ہے تو ایک ثالث مرد کے خاندان سے اور ایک ثالث
عورت کے خاندان سے مقرر کر دو۔ اگر وہ مفاہمت چاہتے ہیں تو خداان کو متحد کر دے گا۔
بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا اور خبردا رہے۔‘(4:35)
اس طرح آیت4:34اور4:35ایک
ساتھ پڑھا جائے اور اذدواجی زندگی کے لئے نہ صرف مردوں اور عورتوں کے کردار کو بھی
طے کیا جائے بلکہ اگر ایک عورت اذدواجی زندگی میں مسلسل بے وفائی پر رہتی ہے توناگوار
اقدامات کی جگہ اثرداراور اخلاقی طور پر کار آمد اقدام اٹھانے کی ضرورت ہوگی۔
(2)آیت9:71
وحی کے اختتامی مرحلے میں مرد اور عورتوں کو ایک دوسرے کا محافظ بتاتی ہے اور اس کے
لئے قرآن مردوں کو اذدواجی معاملات میں برتری کا حکم نہیں دیتا ہے۔
’مومن
مرداور مومن عورتیں ایک دوسرے کے محافظ ہیں۔وہ اچھے کام کا حکم دیتے ہیں اور برائی
سے روکتے ہیں۔وہ نماز ادا کرتے ہیں اور خیرات کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی
اطاعت کرتے ہیں۔یہ ایسے لوگ ہیں جن پر خدا کی رحمت ہوگی۔(یاد رکھو) خدا تعالیٰ بڑی
حکمت والا ہے۔(9:71)‘
(3)یہ
ایک عورت(بیوی) کو خود مختار آمدنی کا مستحق مانتا ہے اور اس طرح کنبے میں (برابر کا
مددگار) قوامہ کے کردار سے انکار نہیں کر تاہے۔
’اور
جس چیز میں خدا نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اس کی ہوس مت کرو،مردوں کو
ان کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے اور عورتوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے
کئے اور خدا سے اس کا فضل مانگتے رہو، اس میں شک نہیں کہ خدا ہر چیز سے واقف ہے۔(4:32)‘
(4)یہ
ایک عورت کو ایک مرد کے خلاف زنا،یا چھوڑ دینے کا خدشہ ہونے پر ویسے ہی کاروائی کا
حق دیتا ہے:
’اگر
کسی عورت کو اپنے شوہر سے برے فعل یا چھوڑے جانے کا خدشہ ہو ایسے میں کسی پر کوئی گناہ
نہیں ہے اگر دونوںآپس میں صلح کر لیں،ایسی صلح بہتر چیز ہے۔اور طبیعت تو بخل کی طرف
مائل ہوتی ہے اور اگر تم نیک کام اور پرہیز گاری کرتے رہو گے تو خدا تمہارے سب کاموں
سے واقف ہے۔(4:128)‘
(5)یہ
خدا کے بعد ایک عورت کی طاقت تولید کی ایک ایجنٹ کے طور پر احترام کرتی ہے نہ کہ مرد
کی:
’لوگوں
اپنے پروردگار سے ڈروجس نے تم سب کو ایک شخص سے پیدا کیا اس سے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر
ان دونوں سے کثرت سے مرد و عورت پھیلا دئیے۔اورخدا سے جس کے نام کو تم اپنی حاجت پر
آری کا ذریعہ بناتے ہو ، ڈرو اور ارحام سے ،کچھ شک نہیں کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے۔(4:1)‘
نوٹ: خدا نے تخلیق کا عمل
ایک بوند (35:11, 40:67, 53:46, 75:37, 76:2, 80:19)سے شروع کیا لیکن تخلیق کا یہ عمل
ایک محفوظ جگہ پراندھیرے کی تین تہوں میں(23:13) ہوا یعنی ایک عورت کے شکم میں۔
2:229
اوپر حوالے کے طور پر ذکر
کی گئی کتاب میں ترجمہ اس طرح ہے:
’اور
طلاق والی عورتیں تین حیض تک خود سے انتظار کریں۔اور اگر وہ خدا اور روز قیامت پر یقین
رکھتی ہیں تو ان کا جائز نہیں ہے کہ خدا نے جو کچھ ان کے شکم میں پیدا کیا ہے اس کو
چھپائیں۔اور ان کے شوہر پھر موافقت چاہیں تو اس(مدت)میں وہ ان کو اپنی زوجیت میں لے
لینے کا احسان کر سکتے ہیں۔اور عورتوں کا حق(مردوں پر)ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق(مردوں
کا حق)عورتوں پر ہے۔ البتہ مردوں کی عورتوں کے تئیں زمہ داری زیادہ ہے ۔ اور خداغالب
اور صاحب حکمت ہے(2:228)‘
روایتی طور پر مبصرین احقو
لفظ کے ساتھ بجائے احسان کے حق کا اشارہ دیتے ہیں اور آیت کا مخصوص ترجمہ اس طرح پیش
کرتے ہیں۔(یوسف علی سے نقل کیا گیا):
’۔۔اور ان کے خاونداگر پھر بھی موافقت چاہیں تو اس (مدت)میں وہ ان کو
اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حقدار ہیں۔اور عورتوں کا حق(مردوں پر)ویسا ہی ہے جیسے
دستور کے مطابق(مردوں کا حق)عورتوں پر ہے۔البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے۔اور خدا
غالب(اور)صاحب حکمت ہے۔‘
روایتی ترجمہ پدرانہ ہے۔یہ
مردوں کو عورتوں پر برتری عطا کرتا ہے۔ اگر ہم سو سال پہلے کی زندگی میں ہوتے تو کوئی
بھی یہ سوال نہیں کرتا۔ کیونکہ عورتیں اس وقت اسلامی دنیا کے مقابلے اس کے باہر مردوں
کی اور بھی زیادہ برتری کا شکار تھیں، جیسا کہ ہم نے آیت4:34کا جائزہ لیتے وقت ذکر
کیا۔آج قرآن کی صنفی برابری (4:1, 4:32, 9:71)کا تصور اسلامی دنیا کے علاوہ پورے عالم
میں سرایت کر چکا ہے۔لہٰذا حوالے کے طور پر پیش ترجمہ روایتی ترجمے کے مقابلے زیادہ
مناسب ہے۔ یہ صرف دعویٰ نہیں ہے بلکہ مندرجہ ذیل قرآن کے اصولوں اور طرز تحریر پر مبنی
ہے:
(1)آیت4:34
ایک مرد کو اس کی بیوی کا مددگار ہونے کا حکم دیتا ہے اور آیت9:71اور اسے اس کا باہمی
طور پرمحافظ بناتا ہے، اس لئے اگر ایک عورت کے شکم میں اس کا بچہ ہے تویہ اس عورت کے
شوہر کی ذمہ داری ہے کہ اس سے مصالحت کرے اور اسے اپنی زوجیت میں واپس لے۔
(2)آیت2:233
ایک مرد کو حکم دیتی ہے کہ وہ طلاق شدہ اپنی بیوی کی اور طلاق کے بعد ہوئے بچے کا دوسال
تک نان نفقہ دے ۔ اس لئے یہ بھی شوہر کی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ وہ اس ایام میں بچے
کی ماں کو جذباتی مدد بھی محیہ کراتا رہے جو کی وہ شادی کو برقرار رکھ کر زیادہ بہتر
طریقے سے کر سکتا ہے۔
(3)چونکہ
اس آیت میں طلاق کا عمل مرد کے ذریعہ شروع کیا گیا ہے اس لئے اسے پورا حق ہے کہ وہ
اپنی بیوی کی حاملہ صورت سے قطع نظر اسے اپنی زوجیت میں واپس لے لے اور قرآن کو اس
کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
(4)چونکہ
ایک ذاتی حق ایک شوہر کو طلاق کے نوٹس پر اپنی بیوی کو واپس اپنی زوجیت میں لینے کو
اختیاری بناتا ہے، وہ اس سے انکار بھی کر سکتا ہے، کیونکہ یہ اس کے لئے مشکل پیدا کرنے
والا ہو سکتا ہے جبکہ اس کی چھوڑی گئی بیوی کے لئے راحت پیدا کرنے والا ہو سکتا ہے۔لیکن
اگر یہ ذمہ داری ہو تو شوہر کو ایسا عمل کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔
اس لئے آیت2:229میں فعل احقوکی
تشریح حق کے بجائے ذمہ داری ہونی چاہیے۔ قرآن کئی آیتوں2:180, 2:236, 2:241میں اس فعل
کو ذمہ داری کے اشارے کے طور پر استعمال کرتا ہے اور یہ یوسف علی کے ترجمہ میں اس طرح
ہے:
’تم
پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آ جائے تو اگر وہ کچھ مال چھوڑ
جانے والا ہو تو ماں باپ اور رشتہ داروں کے لئے دستور کے مطابق وصیت کر جائے(خدا سے)
ڈرنے والوں پر یہ ایک حق ہے۔(2:180)‘
’اور
اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے یاان کا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو تو تم پر
کچھ گناہ نہیں۔ہاں ان کو دستور کے مطابق کچھ خرچ ضرور دو(یعنی)مقدور والا اپنے مقدور
کے مطابق دے اور تنگ دست اپنی حیثیت کے مطابق۔ نیک لوگوں پر یہ ایک طرح کا حق ہے۔(2:236)‘
’اور
متعلقہ عورتوں کو بھی دستور کے مطابق نان و نفقہ دینا چاہیے، پرہیز گاروں پر(یہ بھی)حق
ہے۔(2:241)‘
نتیجہ: صنفی برابری کی سمجھ
کے معاملے میں حالیہ وقت میں بڑی تبدیلی کے پیش نظر اس کی اشد ضرورت تھی کہ آیت4:34اور2:229
کے ترجمے/ تشریح کو قرآن کے آفاقی پیغام کو پیش نظر رکھ کر سامنے لایا جائے جو کہ حوالے
کے طور پر پیش کئے گئے ترجمہ میں شامل ہے۔اگر مسلم علماء ایسا کرنے میں ناکام رہے اور
اس اصول کو دوسرے صنفی معاملات میں لاگو کیا تو جو آج اسلام میں بہت خوبصورت ہے یا
کہیں کہ سو سال پہلے تک وہ دور حاضر میں بد صورت ہو جائے گا اور مسلم خواتین اپنی ازدواجی
زندگی میں غیر مسلم اپنی بہنوں کے مقابلے کہیں زیادہ مشکلات کا شکار ہوں گی، اور ذن
بیذار مذہب کے طور پر اسکی مذمت کی جائے گی، اس کا لیبل پہلے سے ہی اسلام پر لگایا
جا چکا ہے۔علامہ اقبال نے اسی سلسلے میں کہا ہے : لے گئے تثلیث کے فرذند میراث خلیل
خشت بنیاد کلیسا بن گئے خاک
حجاز
نوٹ:
(1) کس
طرح اسلام سے قبل قرون وسطیٰ کے ادوار میں متعدد تہذیبوں میں خواتین کے ساتھ برتاؤ
کیا جاتا تھا، کی تفسیر: پارسی لوگ اپنی بیویوں کو قید میں رکھتے تھے اور خواجہ سرا
ان کی حفاظت کرتے تھے۔یونانی لوگوں نے ان کی مثالوں پر عمل کیا اور اپنی بیویوں کو
حرم میں رکھا اور اکثر طالے میں قید رکھا۔ہندوؤں نے اپنی بیواؤں کو شوہر کی چتا پر
زندہ جلا دیا۔یہ عمل گزشتہ صدی تک جاری رہا۔چینی لوگوں نے اپنی خواتین کے چلنے پھرنے
کو محدود کرنے کے لئے اور ثقافتی معیار کے طور پر لوہے کے جوتے پہناتے تھے۔عیسائی چرچ
نے خواتین کو مردوں کی پوری طرح تسلط میں رکھا(بائبل: گینیسس 3.16)۔رومن مرد قانونی
طور پر اپنی بیویوں کو قتل کر سکتے تھے اگر وہ انہیں زنا میں ملوث پاتے تھے۔
(2) ابو
الکلام آزاد، ترجمان القرآن،1931دوبارہ پرنٹ، نئی دہلی،1989والیوم1،ص۔43
(3) احمد
وان ڈیفنر، علوم القرآن، اسلامک فاؤنڈیشن، انگلینڈ،1983 ،ص۔126
(4) محمد
یونس اور اشفاق اللہ سید، ایسینشئل میسیج آف اسلام، آمنہ پبلیکیشن، میری لینڈ،2009
(5) اے۔
یوسف علی، دی ہولی قرآن، آمنہ کارپ، میری لینڈ،1983
(6) اس
صورت میں ایک مرد چاہے گا کہ اس کہ بیوی اسے طلاق دے اور تاکہ وہ معاوضہ کا دعویٰ کر
سکے جبکہ ایک عورت کو لالچ ہوگا کہ اس کا شوہر اسے طلاق دے تاکہ وہ شادی ختم کرنے کے
علاوہ بھی وہ تمام تحائف لے کر اپنے شوہر سے الگ ہو سکے۔
محمد یونس نے آئی آئی ٹی دہلی
سے کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور کارپوریٹ اکزی کیوٹیو کے
عہدے سے سبکدوش ہو چکے ہیں
اور90کی دہائی سے قرآن کے عمیق مطالعہ اور اس کے حقیقی پیغام کو سمجھنے کی کوشش کر
رہے ہیں۔ان کی کتاب اسلام کا اصل پیغام کو 2002میں الازہر الشریف،قاہرہ کی منظوری حاصل
ہو گئی تھی اور یو سی ایل اے کے ڈاکٹر خالد ابو الفضل کی حمایت اور توثیق بھی حاصل
ہے اور محمد یونس کی کتاب اسلام کا اصل پیغام آمنہ پبلیکیسن،میری لینڈ ،امریکہ نے،2009میں
شائع کیا۔
(انگریزی
سے ترجمہ۔سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام
URL: