محمد یونس، نیو ایج اسلام
11 جنوری، 2015
(محمد یونس، مشترکہ مصنف اشفاق اللہ سید، Essential Message of Islam، آمنہ پبلیکیشن، امریکہ، 2009)
- تخلیق قرآن کے مسئلہ پر جاری موجودہ بحث سے پیدا ہونے والا ایک سوال۔
حوالہ:
مسلمانوں کو نظریاتی طور پر مذہبی دہشت گردی کا سامنا کرنا ضروری: اسلامی اصلاح کی سخت ضرورت
جن لوگوں کو اسلام میں مختلف فقہی مذاہب کے ارتقاء کا بنیادی علم بھی ہوگا وہ دوسری صدی میں معتزلہ کے نام سے مشہور ایک عقلیت پسند مکتبہ فکر کے عروج سے واقف ہوں گے۔ اس مکتبہ فکر نے دین میں عقل کے استعمال کی حمایت کی اور وحد ۃ الوجود، نزول وحی کے تاریخی پس منظر اور رضائے الٰہی حاصل کرنے میں انسانوں کے کردار وعمل جیسے مختلف مذہبی تصورات کی عقلی توضیح پیش کرنے کی کوشش کی۔ ان کے بنیادی عقائد میں سے ایک یہ بھی تھا کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی تخلیق اللہ نے کی ہے اور اس میں اس کے مخاطبین کے سوالات واشکالات کا جواب پیش کیا گیا ہے۔ اس طبقہ کے نظریات کو بہت سے معاصر خلفاء اور وزراء سمیت معاشرے کے دانشور اور اشرافیہ طبقہ کی حمایت حاصل ہوئی ۔ قرآن کے بارے میں ان کا نظریہ اس مروجہ نظریہ کے خلاف تھا کہ قرآن لوح محفوظ میں ابدی طور پر ذات باری تعالیٰ کے ساتھ موجود ہے۔ اس مکتبہ فکر کے عروج و زوال کا ایک سرسری جائزہ میری ایک حالیہ تصنیف میں اس طرح مذکور ہے[1]:
"833 بمطابق 217 ہجری میں خلیفہ [المامون] نے یہ حکم جاری کر دیا کہ کوئی قاضی اس وقت تک اپنا عہدے پر متمکن نہیں ہو سکتا یا کسی دوسرے کو مقرر نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ تخلیق قرآن کے معتزلی عقیدے کو تسلیم نہیں کر لے۔ بعد میں اس نے ایک مقدمہ دائر کر کے اس عقیدے کے مخالفین کو سزا سنائی جس کے متاثرین میں سے امام احمد ابن حنبل بھی ہیں ۔ اس کے بعد اس کے دو جانشینوں نے 848 بمطابق 233 ہجری تک علماء کرام پر اپنے ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رکھا، یہاں تک کہ خلیفہ المتوکل نے اس حکم کو منسوخ کر کے پھر اہل سنت کے اس عقیدے کو بحال کیا کہ قرآن لوح محفوظ میں محفوظ ایک ایسی کتاب ہے جو غیر مخلوق ہے'(قرآن 85:22)۔ تاہم، معتزلی مکتبہ فکر اس صدی کے آخر تک غالب اور مروج رہا یہاں تک کہ936 (بمطابق 323 ہجری) میں اشاعرہ نے روایتی اسلام کے سے متصادم ان کے نظریات کی تردید کی۔ اس کے بعد کی نسلوں نے معتزلی اثر و رسوخ کو بتدریج ختم ہوتے ہوئے اور راسخ الاعتقاد اسلام کو فروغ پاتے ہوئے دیکھا اور آخر میں ایک عظیم عالم ربانی امام غزالی (متوفی 504/1111) نے جنہیں علم الکلام کابانی سمجھا جاتا ہے(8) معتزلہ کے نظریات کا رد و ابطال شروع کیا اور اور راسخ الاتقاد اسلامی نظریات و معتقدات کو مکمل طور پر قائم کیا۔ سنی اسلام کے عظیم مکتبہ فکر کو قانونی حیثیت حاصل ہوئی اور معتزلیت کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔"
اسی لیے آج کوئی بھی روایتی سنی عالم دین قرآن کے مخلوق ہونے کے کسی بھی تصور کی تردید ضرور کرتا ہے۔
لیکن ہم اسلام کی تیسری یا چوتھی صدی میں زندگی نہیں گزار رہے ہیں اور آج انسانی ذہن اور عقل کی طاقت پہلے سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے اور ایک مختلف زاویہ سے اس سوال پر غور کرنے کی ہماری خدا داد صلاحیت پہلے سے زیادہ بہتر پوزیشن میں ہے۔ جو لوگ عقل کے استعمال سے خوف زدہ نہیں ہیں ان کے لئے یہاں ایک آسان مگر تشفی بخش گفتگو حاضر خدمت ہے:
اگر قرآن واقعی لوح محفوظ میں موجود ایک کتاب کی نقل ہے تو امت محمدیہ کے وہ تمام مشرکین جو اسلام کو قبول کرنے سے پہلے ہی مر گئے ان سب کے لیے اسلام میں داخل ہونا مقدر ہی نہیں تھا اس لیے کہ مکہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ پر ظلم و ستم، ان کے خلاف مدینہ پر قریش کاجنگی حملہ، منافقوں کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش کرنا اور کفار مکہ کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنا، یہ تمام باتیں پہلے سے طے شدہ تھیں۔ اور قرآن کریم میں محفوظ تھیں اور یہ تمام باتیں خدا کی مرضی کے مطابق انجام پذیر ہوئی تھیں۔ اس میں ان کی اپنی خواہشات اور مرضی کا کوئی دخل نہیں تھا۔ لہٰذا اگر وہ جہنم میں داخل ہوتے ہیں تو یہ ان کی غلطی نہیں ہے بلکہ یہ اس کی غلطی ہے جس نے ان کے لیے یہ راستہ منتخب کیا (نعوذ باللہ من ذالک)۔ اس کے علاوہ اس سے قرآن کے اس مقصد اصلی کی نفی ہوتی ہے کہ یہ کتاب ایک مینارۂ ہدایت ہے اس لیے کہ یہ ایک ایسے مشینی انسان کی رہنمائی کس طرح کر سکتی ہے جس کے معمولات پہلے سے ہیں طے کیے جا چکے ہیں۔ لہٰذا قرآن کے ایک غیر مخلوق کلام ہونے کا تصور بے بنیاد ہے۔
یہ اہم نہیں ہے کہ کتنے ائمہ کرام اس نقطہ نظر کے حامل ہیں۔ اگر ایک لاکھ ائمہ کرام بھی یہ دعوی کریں کہ وہ تمام آیتیں جن میں اعمال کے اعتبار سے رضائے الٰہی کا وعدہ کیا گیا ہے منسوخ ہو چکی ہیں اور مسلمانوں کے تمام گناہ اہل کتاب کے نامہ اعمال میں منتقل کر دیے جائیں گے، جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں ہے، تو بھی قرآنی آیات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی اس لیے کہ قرآن میں بارہا تاکید کے ساتھ اللہ کا یہ فرمان ہے کہ قرآن کے ایک لفظ میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ جب قریش نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن میں کچھ تبدیلی کرنے کے لیے دباؤ ڈالاتو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی:
"اور اگر یہ ہم پر کوئی بھی بات بنا لیتا، تو البتہ ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے، پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے، پھر تم میں سے کوئی بھی مجھے اس سے روکنے واﻻ نہ ہوتا"۔(47-69:44)
قرآن کے اس مسلسل اعلان کے مطابق کہ اس کائنات میں تمام حوادث کا ظہور خدا کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے - سچ تو یہ ہے کہ خدا کا موازنہ اس کی کسی بھی مخلوق کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا، وہ سب سے بر تر و بالا ہے۔ اسی لیے علی الطنطاوی فرماتے ہیں کہ خدا کی طاقت اور قدرت کو بیان کرنے کے لیے اگر 'مرضی' اور 'خواہش' وغیرہ جیسی انسانی صفات کا ذکر کیا جائے تو اس سے وہ معنیٰ و مفہوم اخذ نہیں کیا جا سکتا جو ان الفاظ سے انسانوں کے لیے اخذ کیا جاتا ہے [2]۔
حوالہ جات:
1۔ محمد یونس اور اشفاق اللہ سید، Essential Message of the Qur’an آمنہ پبلیکیشن، میری لینڈ امریکہ 2009، صفحہ351۔
2۔ علی طنطاوی، انگریزی ترجمہ، General Introduction to Islam مکہ 1994، صفحہ نمبر 88۔
متعلقہ مضامین:
مسلمانوں کو نظریاتی طور پر مذہبی دہشت گردی کا سامنا کرنا ضروری
URL for this article: http://newageislam.com/urdu-section/sultan-shahin,-editor,-new-age-islam/muslims-must-confront-islamist-terror-ideologically--مسلمانوں-کو-نظریاتی-طور-پر-مذہبی-دہشت-گردی-کا-سامنا-کرنا-ضروری/d/100952
محمد یونس نے آئی آئی ٹی سے کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور کارپوریٹ اکزی کیوٹیو کے عہدے سے سبکدوش ہو چکے ہیں اور90کی دہائی سے قرآن کے عمیق مطالعہ اور اس کے حقیقی پیغام کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کی کتاب اسلام کا اصل پیغام کو 2002میں الاظہر الشریف،قاہرہ کی منظوری حاصل ہو گئی تھی اور یو سی ایل اے کے ڈاکٹر خالد ابو الفضل کی حمایت اور توثیق بھی حاصل ہے اور محمد یونس کی کتاب اسلام کا اصل پیغام آمنہ پبلیکیسن،میری لینڈ ،امریکہ نے،2009میں شائع کیا۔
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-ideology/is-muslim-mind-anchored-2nd/d/100960
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/is-muslim-mind-anchored-2nd/d/100978