محمد یونس، نیو ایج اسلام
20 مئی 2015
مشترکہ مصنف، اشفاق اللہ سید، ‘‘Essential Message of Islam’’ آمنہ پبلیکیشنز، امریکہ، 2009
بجا طور پر یہ کہا گیا ہے انتہائی محتاط اور شاطر سے شاطر مجرم یا قاتل سے بھی غفلت میں کوئی ایسی چوک ہو ہی جاتی ہے جو اسے پھانسی کے تختے تک لے جاتی ہے۔ ابو بکر البغدادی نے بھی اپنے ایک تازہ ترین بیان میں یہ کہہ کر ایسی ہی ایک غلطی کی ہے کہ "اسلام کبھی امن کا مذہب نہیں رہا ہے۔ بلکہ اسلام ہمیشہ لڑائی اور جنگ و جدال کا مذہب رہا ہے۔ "
کوئی بھی عقلمند انسان جسے اسلام کے عام مذہبی رسومات اور معمولات و معتقدات سے ذرا سی بھی واقفیت ہو، اسے یقیناً اس بات کا علم ہو گا کہ تمام اسلامی رسومات اور معمولات و معتقدات تشدد اور جبر و اکراہ کے کسی بھی تصور سے یکسر خالی ہیں۔ نماز پنجگانہ یا نماز جمعہ ، روزہ، زکوٰۃ، حج اور قرآن کی تلاوت مسلمانوں کے یہ تمام مراسم و معمولات روحانیت سے لبریز اور تشدد کے کسی بھی تصور سے بالکل پاک ہیں۔ بنگلا دیش، بھارت، پاکستان اور مصر جیسے مختلف مسلم اور سیکولر ممالک میں خط افلاس سے نیچے ایسے کروڑوں مسلمان ہیں جو تشدد کا سہارا لیے بغیر غربت اور اتھاہ مصائب میں اپنی ساری زندگی گزار دیتے ہیں، سوائے ان مجرموں کے جن کا عمل کسی بھی مذہبی اصول و تعلیمات کے مطابق نہیں ہے۔ سچائی یہ ہے کہ اگر اسلام تشدد کا مذہب ہوتا تو تمام اسلامی معاشروں میں بنیادی سطح پر پر تشدد واقعات رونماں ہو تے اور اسلام اپنی پیدائش کے بعد جلد ہی دم توڑ چکا ہوتا کیوں کہ مسلمان اپنی ایک مذہبی ذمہ داری کے طور پر ایک دوسرے کا قتل کرتے۔ لیکن اس کے برعکس اسلام پھلا پھولا اور آفاق و اکناف عالم میں مروج بھی ہوا۔ عباسی سلطنت کے خاتمے کے بعد منگولوں اور صلیبیوں کے ذریعہ تقریبا مکمل طور مٹا دیے جانے کے بعد بھی اسلام نے امن کے ذریعہ منگولوں کا دل جیتا، پھر اس کے بعد اسے تجدید و احیاء کے مراحل سے گزارا گیا اور اس کی ترویج و اشاعت کی گئی۔ سچ تو یہ ہےکہ مغرب کے چند نامور عیسائی مفکرین کے مطابق اسلام بنیادی طور پر امن اور انسانی حقوق کا مذہب:
"نویں صدی کے مشرقی مفکرین نے انسانی حقوق کے اصول اپنے مذہبی علوم کی بنیاد پر مرتب کئے......جس میں شرافت اور بہادری کی ہدایات نے جنگ عظیم کی چند متحارب جماعتوں کو شرمسار کر دیا ہوتا؛ اور انہوں نے غیر مسلموں کے تئیں رواداری کا ایک اصول مرتب کیا جو کہ اتنا لبرل تھا کہ ہمارے مغربی مفکرین کو ایسے ہی مساوات کے اصولوں کو مرتب کرنے میں ایک ہزار سال تک کا انتظار کرنا پڑا۔ "[کاؤنٹ لیون آسٹروروگ، من جانب اسف اےاے فیضی ‘Outlines of Mohammedan Law’، 5واں ایڈیشن، نئی دہلی، 2005، صفحہ۔ 53/54۔]
"نبوت، الہام اور وحی کے تصورات کی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر نازل ہونے والی غیر مشکوک وحی اور قرآن کے معیار کے مطابق نظر ثانی کی جانی ضروری ہے۔ اور اس کے بعد دیگر مذاہب کے ارکان کے تئیں انتہائی حقیقت پسندانہ، وسیع اور روادار تفہیم کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔ دوسرے اہل کتاب کے متعلق اسلام کی مثال اکثر ہمیں شرمندہ کرتی ہے۔ "[جیوفری پیرنڈر، Jesus in the Qur’an، ون ورلڈ پبلکیشن، امریکہ 196، صفحہ۔173۔]
"اسلام دوسرے مذاہب کے ان تمام پیروکاروں کے لئے رواداری اور مذہبی آزادی کا حکم دیتا ہے جو تحفظ کے بدلے میں خراج پیش کرتے ہیں.....، ان ممالک میں اتنی بڑی تعداد میں عیسائی فرقوں اور برادریوں کا وجود جہاں صدیوں تک مسلمانوں کی حکومت رہی ہے اس رواداری کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے جس کا مظاہرہ مسلمانوں نے کیا تھا، اور اس سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ انہیں مذہبی متعصب اور انتہا پسندوں کے ہاتھوں جس ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا اس کی بنیاد عدم برداشت کے کسی اصول کے بجائے وقت اور چند خصوصی اور مقامی حالات پر تھی۔ "[تھامس ڈبلیو آرنلڈ، Preaching of Islam ،نظر ثانی شدہ ایڈیشن، 1913، اشاعت ثانی دہلی، 1990 صفحہ 419/420۔]
ہاں یہ سچ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ان پیروکاروں کی بقاء اور ان کی زندگی کے تحفظ کے لیے مسلح جدوجہد میں مشغول ہونا پڑا تھاجنہیں تقریبا 12 سال قبل (610-622) مکہ میں ظلم و ستم اور جبر و تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور مدینہ میں (622-630) ان پر حملوں کے خطرات بڑھ گئے تھے۔ یہ بھی سچ ہے کہ مدینہ کے دو یہودی قبیلوں کو ایک معاملے میں جلاوطن کیا گیا تھا اور ان میں سے کچھ کو سولی پر بھی چڑھایا گیا، اور یہ بھی حق ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے بعد اسلام کے خاتمے کے ممکنہ خطرے سے اسلام کو بچانے کے لئے نزول وحی کے آخری دو سال کے دوران کچھ مہمات کی بھی قیادت کی تھی۔ تاہم، عصر حاضر کے واقعات کا اشارہ قرآن میں بالکل سرسری طور پر موجود ہے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت (632) کے بعد مختلف قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے۔ نازل ہونے والی ہر آیت کے تاریخی سیاق و سباق اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد حقیقی کے متعلق صدیوں سے چلی آ رہی کسی بھی حجت یا مباحثے میں قرآن کے کسی آفاقی پیغام کے تعلق سے غلط فہمی سے بچنے کے لیے قرآن پوری انسانیت کو اس سے بہترین معانی اخذ کرنے کے حکم دیتا ہے (39:18، 39:55)، کسی بھی ابہام سے خالی اس کے واضح اور مبین احکام پر توجہ مرکوز کرنے کا حکم دیتا ہے (3:7)، اور قرآن خود قرآن کو ہی اپنی بہترین تشریح ماننے کا حکم دیتا ہے(25:33)۔ قرآن میں اس بات کی تنبیہ کی گئی ہے کہ قرآن کی باتیں صرف انہیں لوگوں کے ذہنوں میں اتر سکتی ہیں، جو مثبت ذہنیت کے ساتھ اس سے رجوع کرتے ہیں(56:79)، اور یہ ایک الہی رہنمائی ہے (5:3) ایک سب سے خوبصورت کلام کی شکل میں جو کہ اپنی تائید و توثیق خود کرنے والی ہے (39:23) اور قرآن دانشمندوں اور عقلمندوں کو اس کی آیتوں میں غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے (38:29، 47:24)، جب تک کہ ان کے دلوں پر مہر نہ لگا دی گئی ہو۔
داعش اور اس کے نظریاتی حلیفوں کی جانب سے آج انتہائی وحشیانہ طریقے سے اسلام کی تعبیر و تشریح کے تناظر میں اس قرآن کی تعلیمات کے مطابق اس کے خلاف ایک اسلامی روایت پیش کرنا ضروری ہے، جو اسلام کی بنیادی کتاب ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ہی نسل در نسل مسلمانوں نے لفظ بہ لفظ حفظ کر کے آج تک اسے مکمل طور پر محفوظ رکھا ہے۔ اگر مذکورہ بالا ہدایات کے مطابق قرآن کا ایک معروضی مطالعہ کیا جائے تو درج ذیل میں متعلقہ قرآنی آیتوں کے 5 نکاتی چارٹر کے مطابق ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف ایک جوابی روایت تیار کرنے میں مدد مل سکتی ہے:
1 اسلام میں کسی معصوم شخص کے قتل کو "حرام" قرار دیا گیا ہے (6:151، 17:33، 25:68)، اور یہ پوری انسانیت کو قتل کرنے جیسا ایک سنگین گناہ (5:32)۔
‘‘اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر (نازل کی گئی تورات میں یہ حکم) لکھ دیا (تھا) کہ جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے یعنی خونریزی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کی سزا) کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)، اور بیشک ان کے پاس ہمارے رسول واضح نشانیاں لے کر آئے پھر (بھی) اس کے بعد ان میں سے اکثر لوگ یقیناً زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں (5:32)’’۔
"فرما دیجئے: آؤ میں وہ چیزیں پڑھ کر سنا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں (وہ) یہ کہ تم اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد کو قتل مت کرو۔ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے)، اور بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ (خواہ) وہ ظاہر ہوں اور (خواہ) وہ پوشیدہ ہوں، اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے (قتل کرنا) اﷲ نے حرام کیا ہے بجز حقِ (شرعی) کے، یہی وہ (امور) ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو (6:151)"۔
"اور تم کسی جان کو قتل مت کرنا جسے (قتل کرنا) اﷲ نے حرام قرار دیا ہے سوائے اس کے کہ (اس کا قتل کرنا شریعت کی رُو سے) حق ہو، اور جو شخص ظلماً قتل کردیا گیا تو بیشک ہم نے اس کے وارث کے لئے (قصاص کا) حق مقرر کر دیا ہے سو وہ بھی (قصاص کے طور پر بدلہ کے) قتل میں حد سے تجاوز نہ کرے، بیشک وہ (اﷲ کی طرف سے) مدد یافتہ ہے (سو اس کی مدد و حمایت کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی(17:33)۔"
‘‘اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی پوجا نہیں کرتے اور نہ (ہی) کسی ایسی جان کو قتل کرتے ہیں جسے بغیرِ حق مارنا اللہ نے حرام فرمایا ہے اور نہ (ہی) بدکاری کرتے ہیں، اور جو شخص یہ کام کرے گا وہ سزائے گناہ پائے گا’’(25:68)۔
2۔ انتشار اور تشدد کا ارتکاب کرنے والے اللہ کے عذاب اور قہر و غضب کا شکار ہوں گے (2:204-205، 28:77) اور ان پرجنت حرام ہے(13:25، 28:77 اور 83)۔
" اور لوگوں میں کوئی شخص ایسا بھی (ہوتا) ہے کہ جس کی گفتگو دنیاوی زندگی میں تجھے اچھی لگتی ہے اور وہ اﷲ کو اپنے دل کی بات پر گواہ بھی بناتا ہے، حالانکہ وہ سب سے زیادہ جھگڑالو ہے (2:204)۔ اور جب وہ (آپ سے) پھر جاتا ہے تو زمین میں (ہر ممکن) بھاگ دوڑ کرتا ہے تاکہ اس میں فساد انگیزی کرے اور کھیتیاں اور جانیں تباہ کر دے، اور اﷲ فساد کو پسند نہیں فرماتا"[2:205]۔
"اور جو لوگ اﷲ کا عہد اس کے مضبوط کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور ان تمام (رشتوں اور حقوق) کو قطع کر دیتے ہیں جن کے جوڑے رکھنے کا اﷲ نے حکم فرمایا ہے اور زمین میں فساد انگیزی کرتے ہیں انہی لوگوں کے لئے لعنت ہے اور ان کے لئے برا گھر ہے!" (13:25)
‘‘اور تو اس (دولت) میں سے جو اللہ نے تجھے دے رکھی ہے آخرت کا گھر طلب کر، اور دنیا سے (بھی) اپنا حصہ نہ بھول اور تو (لوگوں سے ویسا ہی) احسان کر جیسا احسان اللہ نے تجھ سے فرمایا ہے اور ملک میں (ظلم، ارتکاز اور استحصال کی صورت میں) فساد انگیزی (کی راہیں) تلاش نہ کر، بیشک اللہ فساد بپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا’’ (28:77)۔
" یہ) وہ آخرت کا گھر ہے جسے ہم نے ایسے لوگوں کے لئے بنایا ہے جو نہ (تو) زمین میں سرکشی و تکبر چاہتے ہیں اور نہ فساد انگیزی، اور نیک انجام پرہیزگاروں کے لئے ہے "(28:83)۔
3 دہشت گردی (بغیہ) حرام ہے (16:90, 42:42-43)۔
"بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو!" (16:90)
‘‘بس (ملامت و گرفت کی) راہ صرف اُن کے خلاف ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی و فساد پھیلاتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے’’(42:42)۔
‘‘اور یقیناً جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے تو بیشک یہ بلند ہمت کاموں میں سے ہے’’(42:43)۔
4 مسلمانوں کو جوابی کارروائی میں حد سے تجاوز کرنے سے منع کیا گیا ہے اور انہیں لوگوں کو معاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے (128-16:126، 42:40، 45:14)۔
‘‘اور اگر تم سزا دینا چاہو تو اتنی ہی سزا دو جس قدر تکلیف تمہیں دی گئی تھی، اور اگر تم صبر کرو تو یقیناً وہ صبر کرنے والوں کے لئے بہتر ہے’’ (16:126)۔
‘‘اور (اے حبیبِ مکرّم!) صبر کیجئے اور آپ کا صبر کرنا اللہ ہی کے ساتھ ہے اور آپ ان (کی سرکشی) پر رنجیدہ خاطر نہ ہوا کریں اور آپ ان کی فریب کاریوں سے (اپنے کشادہ سینہ میں) تنگی (بھی) محسوس نہ کیا کریں (16:127)’’۔
‘‘بیشک اللہ اُن لوگوں کو اپنی معیتِ (خاص) سے نوازتا ہے جو صاحبانِ تقوٰی ہوں اور وہ لوگ جو صاحبانِ اِحسان (بھی) ہوں’’ (16:128)۔
"برائی کا بدلہ اسی برائی کی مِثل ہوتا ہے، پھر جِس نے معاف کر دیا اور (معافی کے ذریعہ) اصلاح کی تو اُس کا اجر اللہ کے ذمّہ ہے۔ بیشک وہ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا"(42:40)۔
5 قرآن واضح طور پر مذہب میں کسی بھی جبر و اکراہ سے منع کرتا ہے (2:256, 10:99, 50:45, 88:21-22)۔
"دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطلہ کا انکار کر دے اور اﷲ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لئے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے" (2:256)۔
اب ہم تشریح کی طرف رخ کرتے ہیں؛ مندرجہ بالا آیتوں کے مطابق مختلف قسم کی دہشت گردی کی قرآن میں واضح ممانعت کی روشنی میں، ایسا کوئی بھی دعویٰ کہ ‘‘اسلام کبھی بھی امن کا مذہب نہیں رہا ہے۔ بلکہ اسلام ہمیشہ جنگ و جدال اور قتل و قتال کا مذہب رہا ہے"۔ واضح طور پر قرآن کے بنیادی پیغام کو مسترد کرنا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کوئی شخص اسلام کی ایک مکمل طور پر مختلف تصویر پیش کرنے کے لئے ثانوی ذرائع (احادیث) کا حوالہ پیش کر سکتا ہے، جیسا کہ آج داعش عملی طور پر کر رہا ہے۔ لیکن اسلام کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں لیا جانا چاہیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تقریباً پانچ چھ نسلوں کے بعد زبانی روایتوں کی بنیاد پر تیار کیے گئے ثانوی ذرائع کو قرآن کی صداقت کے خلاف قرار دیا جانا چاہیے، اس کے بر خلاف نہیں۔
تاکہ کوئی بھی نو مسلم یا اسلام کے پیغام سے نا واقف کوئی شخص البغدادی کے دعووں سے اسلام کے بارے میں کسی بھی باطل تصور کا شکار نہ ہو ، اور پوری دنیا کے لیے بھی اس میں کوئی شک نہ رہے کہ تمام قسم کی دہشت گردی اسلام میں حرام ہے، جیسا کہ قرآن میں یہ حقیقت اب بھی محفوظ ہے۔
URL for English article: https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/countering-violent-extremism-counter-terror/d/103042
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/countering-violent-extremism-counter-terror/d/103074