محمد یونس، نیو ایج اسلام
ڈاٹ کام (انگریزی سے ترجمہ۔سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
(شریک مصنف) اسلام کا اصل پیغام، آمنہ پبلیکیشن،یو ایس اے،۲۰۰۹
۶۔ مستقبل کی راہ
اسلامی فقہاء قرآن کے سماجی
اور اخلاقی مساوات،انصاف، ما ل و دولت کی تقسیم اور قید سے آزاد کرنے ،اور دیگر بنیادوں مبنی حدود کا لہاظ کرتے ہوئے جدید شرعی قوانین وضع کر سکتے ہیں پر ۔ان لوگوں
کو تاریخی تناظرمیں قرآن پر ضرور غور کرنا چاہیے کیونکہ قرآن کے بہت سے قوانین مثلاً شکاری جانوروں کے ذریعہ پکڑے گئے شکار(۵:۴)، دبلے پتلے اونٹوں پر سوار
ہو کر دور دراز را ستوں سے حج کیلۓ آنا (۲۲:۲۷)، جنگ کے لئے گھڑسوار تیار رکھنا(۸:۶۰)، زنا کے لئے درّے مارنا(شادی
شدہ خواتین کی عصمت دری کرنے پر )(۲۴:۲)، اور ہاتھ پیر کاٹنے کی سزا
ساتویں صدی کے عربی نظام سے ملتی جلتی ہیں۔
قرآن کسی بھی طرح اپنے ماننے والوں کو گزرے زمانے کی روایتوں کو ماننے کے لئے نہیں
کہہ سکتا ہے اور ۲۱ ویں
صدی کی تو بات ہی چھوڑ دیجئے۔اس لئےکہ ۲۱ ویں
صدی کا شرعی نظام اس کے حقائق اور مطالبات کے مطابق ہونا چاہیے۔قرآن کے مطابق شرعی قوانین
میں لچک کی گنجائش ہے جسے ایک منہاج
(ایک اصطلاح (۵:۴۸) )کے
ذریعہ منظم کیا جا سکتا ہے ۔ یہ ایسا ‘ایک
کھلا راستہ’ہے جو متعد فرقوں کو مختلف تاریخی
مقامات پر اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنی شریعت تیار کریں جو وقت کے تقاضوں اور فرقے کی ثقافتی
ترقی کے مطابق ہو۔(۷)
۷۔
مغرب کے سیکولر قوانین قدیم اسلامی قوانین
کے مقابلےقرآن سے زیادہ ہم آہنگی رکھتے ہیں
المیہ تو یہ ہے کہ مغرب کے
سیکولر قوانین کچھ ناقابل مذاکرات معاملوں
(مثلاً ہم جنس پرستوں کے حقوق اور شادیاں،
شادی کے بغیر جنسی تعلقات، بے روک ٹوک تقریر کی آزادی، ایوان کی اکثریت کا
قانون بنانے کا حق اور ریاست کے سربراہ وغیرہ) میں مغربی سیکولر تصور قرآنی پیغامات سے زیادہ مطابقت یعنی قدیم اسلامی قانون کے مقابلے قرآن سے زیادہ ہم
آہنگی رکھتے ہیں۔یہ مغربی ممالک کی منھ بھرائی کی کوشش نہیں ہے۔
تقریباًسو سال سے بھی قبل
مصر کے عالم محمد عبدو نے لکھا تھا کہ ۱۹ ویں
صدی میں یوروپ کی ترقی تب شروع ہوئی جب یوروپ نے اپنی تمام پابندیوں کو درکنار کر اپنے
حالات میں اصلاحات کرنا اور اور اپنی زندگی
کے معاملات کو اسلامی پیغامات کے مطابق کرنا
شروع کیا، حالانکہ ان کے حقیقی رہنما اور لیڈرغافل
تھے۔لہٰذا جدید تہذیب کے بنیادی اصول سامنے آئے۔(۸)
مصری عالم اور اسلامی کارکن
حسن البنا(۱۹۰۶تا
۱۹۴۹) جنہوں
نے اخوان المسلمین (مسلم بردرہڈ) کا قیام کیا
تھا ، انہوں نے مغربی تہذیب کو قرآنی پیغام کا
نقطہ عروج کہا تھا(۹)۔الاظہر
یونیورسٹی کے روایتی اسکالر اور مغرب کی سائنسی
ترقی کے مداح شیخ رفاع رفیع التہتاوی(۱۸۰۱ تا۱۸۷۳)نے فرانس سے اپنی واپسی پر کہا تھا کہ ‘انہوں نے فرانس
میں حقیقی اسلام کو پایا لیکن ایک بھی مسلمان نہیں ملا لیکن یہاں مصر میں بہت سے مسلمانوں
کو پایا لیکن حقیقی اسلام کو نہیں پایا اس
کا معنی ان کے نظریے کے مطابق یہ تھا کہ فرانس
کے سماج نے جو شہری قوائد اپنائے ہیں وہ ان کے
وقت کے مسلم معاشرے کے مقابلےاسلام کی سچی
نمائندگی کرتے ہیں۔’(۱۰) اس
لئے جو مسلم ممالک مغرب کی طرز پر اپنے یہاں عوامی جمہوری معاشرے کا
قیام کرنا چاہتے ہیں انہیں مغربی کے طرزعمل
پر غور کرنا چاہیے نہ کہ ترکی کے کمال عطا ترک(۱۸۸۱ تا
۱۹۳۸) کے ماڈل پر غور کرنا چاہیے۔
جنہوں نے اسلامی علامتوں (عربی رسم الخط، روایتی لباس،حجاب وغیرہ)اور ملک کے سماجی
اور سیاسی تانے بانے کو مٹا دیااور اسلامی
شرعی قوانین کو سوٹزر لینڈ اور اٹلی کے قوانین پر مبنی قانونی نظام سے تبدیل کر دیا۔آج
کے مسلم ممالک کو اسلام سے قطع تعلق کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کی نفسیات
میں پوری طرح رچا بسا ہے۔
۸۔
کیا مغرب کے قوانین مسلمانوں کے لئے حرام ہیں کیونکہ وہ انسانی تخلیق ہیں؟
گزشتہ سیکشن کے اختتامی حصے
میں ایسا لگتا ہے کہ اس جرائت مندانہ بیان میں کچھ بنیادی خامیاں ہیں:کیوں کہ انسانوں کے ذریعہ بنائے گئے مغرب کے سیکولر قوانین
کو قدیم اسلامی قوانین جو قرآن پر مبنی ہیں اور اللہ کی مرضی کو ظاہر
کرتے ہیں فوقیت نہیں دی جا سکتی ہے اس لئے
یہ دلیلیں گمراہ کرنے والی ہے۔
قرآنی نقطہ نظر سے اس زمین
پر اللہ کے نائب ہونے اور اللہ کی ہدایت (۱۵:۲۹، ۳۲:۹، ۳۸:۷۲)پانے والوں کی حیثیت سےتمام انسان برابر ہیں
اور اس لئے انسانوں کے تمام نیک کام اللہ کے فضل سے ہیں اور تمام میدانوں میں انسانوں
کی حصولیابیاں بشمول فقہہ اور ایک ریاست کی حکمرانی کچھ اور نہیں بلکہ خدا کی انسانیت
پر رحم اور کرم کے نتیجے میں ہے۔لہٰذا کسی سیکولر اور جدید ادارے کو صرف ان بنیادوں
پر مسرد کرنا کہ ان کے معمار غیر مسلم ہیں، یہ
اسی طرح گمراہ کن ہے جس طرح کہ جدید زندگی کی ان تمام چیزوں کو جو مغربی تہذیب
کی خصوصیات بتاتی ہیں اس بناید پر رّد کرنا کہ ان کی تخلیق غیر اسلامی ہے۔اس لئے سیکولر قوانین اور اداروں
کو ردّکرنے کے لیۓسوائے اس کے کہ اس میں قرآن کے واضح احکام کے خلاف اصول ہوں اور قرآنی احکام سے انکار کرتے ہوں کوئی اور بنیاد نہیں ہو سکتی ۔
اسلام کی پہلی صدی میں قرآن کے بعد
اصول فقہہ سب سے اہم تھے اور اسے حدیث پر بھی فوقیت دی جاتی تھی(۱۱)۔ یہ ایک وسیع تصور تھا جو قرآن کے لفظوں سے لیا گیا تھا(۶:۶۵) اور اپنےآپ میں ان نظریات (۱)قیاس،(۲)اجماع (۳)عرف ،(۴)اصلاح،(۵)اجتہاد،(۶)استحسان کو سموئے ہوئے تھا۔عملی
طور پر یہ نظریات قرآنی طرز تحریر سے لئے گئے تھے ،اور مغربی قانون بھی قرآنی اصول کے مطابق ہیں یہاں تک اصطلاحات
کے فرق کے سواءبرابر ہیں۔ یہی قرآنی نظریات
مغربی سیکولر ماہرین قانون نے اپنے قانونی معاملات کے لئےاختیار کیۓ ہیں۔اس
لئے اس سے قطع نظر کہ مغربی ماہرین قانون قرآن میں یقین رکھتے ہیں یا نہیں، ان لوگوں
نے جو قوانین وضع کئے ہیں ان کی بنیادیں قرآن کے عالم گیر نظریے پر ہیں۔ ان احکام
کے علاوہ جنہیں قرآن نے واضح طور پر نا جا
ئز کہا ہے اور انکے جائز حدود متعین کۓ ہیں ۔
مزید براں،قرآنی اصولوں کو
نافظ کرکے کسی بھی فرد کے شہری حقوق میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور رائے عامہ کو بدل
کر اسے جدید جمہوریت میں تبدیل کیا جا سکتا
ہے۔جیسا کہ محمد عبدو نے ذکر کیا ہے کہ اسلامی
قانون (قرآنی بنیادوں پر مبنی)ایک غریب غیر مسلم خاتون کواس صورت میں بھی اپنے مکان
کوفروخت کرنے سے انکا ر کا مکمل حق دیتا ہے
جب اسکے چھوٹے سے گھر کو مقامی طاقتور گورنر
(امیر)کسی بھی قیمت پر مسجد کی توسیع کے لئے خریدنا چاہتا ہو ۔اسی طرح ایک اور قانونی معاملے میں خلیفہ نے ایک یہودی کے مقابلے میں حضرت علی ؓ کو عدالت
میں طلب کیا اور قانو کار روائی کے دوران جج کے سامنے یہودی کے ساتھ کھڑا کیا تاکہ اسکے ساتھ مناسب انصاف ہو سکے(۱۲)۔اس کے برخلاف اگر ایک غریب مسلم خاتون کسی غیر مسلم ملک میں اپنی زمین اس ملک کے بااثر فرقہ
کو اس کی مرضی کے مطابق فروخت نہ کرنا چاہے،یا اس ملک کے سربراہ کے خلاف کوئی معاملہ
درج کرانا چاہے، تو یہ صرف نظریاتی طور پر
ہی ممکن ہیں۔اس طرح کے معاملات میں قرآنی مثالوں اور مغربی قوانین کے شقوں میں کافی
حد تک مطابقت ہے ، اس کے باجود کچھ منفی پہلو بھی ہیں۔ جبکہ قرآنی اصول شہری حقوق پر
کسی فرقے کی اتفاق رائے یا ریاستی حکومت کوفوقیت نہیں دیتا ہے۔مجموعی اعتبار سےقرآن میں ایسی
بنیادیں نہیں ہیں جو مغربی سیکولر قانون کو مسلمانوں کے لئے حرام قرار دے۔اس لئے فقہاءکو مغربی قوانین کے ان شقوں کے علاوہ جو قرآنی پیغامات سے اختلاف رکھتی ہیں مغربی قوانین
اپنانے میں تذبذب کا شکار نہیں ہونا چاہیۓ۔اسی
طرح فقہاء کومسلم پرسنل لاء میں بھی قرآن کے وسیع بنیادوں کی حد تک ان مسا ئل شامل کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے مثلاًوصیت
چھوڑنے (۲:۱۸۰)کے
بارے میں قرآن کا فیصلہ اور اس سے متعلق قوانین کو آپس میں جوڑنے نہ کیلۓ قرآن کو ترجیح دینا چاہۓ
نہ کہ قانون کو ۔اور طلاق شدہ بیوی کو اس کی
دوسری شادی یا موت (۲:۲۴۱)تک
نان نفقہ دینے کی میعاد کو بڑھانے، خدا میں یقین رکھنے والی ایک غیر مسلم بیوا کو اسلامی
وراثت کا مکمل حق دینے(کیونکہ اسے مہر کا پوراحق
ہے ۵:۵)،
خواتین کو ایک فرد کے برابر حق دینے(۹:۷۱)
کاروباری معاہدوں کے لئے اسے پوری شہادت کا اختیار دینے
کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیۓ (۲:۲۸۲ اسلیۓ
کہ کاروباری دنیا اب صرف خطرناک اور مردوں کے قبضے والی نہیں رہی )۔
نتیجہ: اس مضمون کا مقصد قدیم
اسلامی قانون کواس کے تابناک ابتدائی دور سے کم کر کے دکھانا قطعی نہیں ہے۔صدیوں پہلے اس نے اسلامی تہذیب کو اس وقت کی اہم تہذیبوں کے مقابلے انصاف ،امن اور عام انسان کی زندگی اور جائیداد
کی حفاظت کے اعلیٰ معیار کو پیش کرنے میں مدد
کی۔اور یہی معاشرے میں مجموعیت کے لئے بنیاد بنا جس کے سبب اقلیت آگے بڑھ سکے اور
مسلمانوں کے ساتھ ہم آہنگی بنا کر رہ سکے جیسا کہ اسپین،مصر، شام،عراق اور ہندوستان
میں ہوا اور اسی نے اپنی تہذیبوں اور زبانوں کو قائم رکھنے کا حق دیا ۔ سب سے پہلےاسلامی
(خاندانی )خلافت امویہ (۶۶۱
تا ۷۵۰)کے مرکز دمشق میں آج بھی ارامک ذبان بولی جاتی ہے۔
مغربی اہل علم کے مطابق یہ قانون انسانی تاریخ کےتقریبا ایک ہزار سال تک سب سے بہتر
نظام دینے والا رہا(۱۳)۔قرون وسطیٰ کے دور سے آج
تک انسانی تہذیب میں لامتناہی مثالی تبدیلیوں کے سبب قدیم اسلامی قانون کے کئی احکامات جدید سیکولر اقدار کے مخالف ہیں جو تہذیبی تقسیم پیدا کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ پاکستان،
افغانستان اور سوڈان میں انتہا پسند مسلمانوں
کے ذریعہ انہیں لاگو کرنے سے یہ ملک آمریت
اور سول وار کی جانب گامزن ہیں۔اور سب سے پریشان
کن بات یہ ہے کہ اس کے کچھ خلاف فطرت احکامات
اسلام ہراسی، عسکریت پسندی، اسلامو پیتھی،
اسلامو فاسزم، پر شدد فرقہ واریت اور بین الاقوامی دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں ،
اسلام اور اس کے پیغمبر کو برا بنا رہے ہیں اور پوری دنیا کی نظروں میں تمام اسلامی ممالک کو
نکما بنا رہے ہیں۔ان تمام حقاقٔ کی بنا پر کوئی بھی عقل والا یہ
نتیجہ اخذکر سکتا ہے کہ قدیم اسلامی قانون نے اپنی مدّت پوری کر لی ہے۔حالانکہ قرآن کی شریعت
الٰہی تاریخ کی قید سےآزآ دہے ۔مغربی سیکولر
اقدار، اجتماعیت، انسان دوستی ، صنفی غیر جانبداری اور عالم گیر مثالوں سے اس کی
مطابقت اسے قدیم شرعی قانون کی جگہ لینے کا مستحق بناتی ہے ۔تاہم بہتر قرآن فہمی کے
لئے تاریخی تنقید، صنفی غیر جانبداری، بین
السطور اور عالم گیر انداذ میں اس
کی تحقیق ہونی چاہیے(۳۹:۱۸،
۳۹:۵۵)(۱۴)۔
تاریخ کا ایک عظیم الشان المیہ یہ بھی ہیکہ مغربی اسلام ہراسی
کو تقویت دینے والے لوگوں اور قدیم اسلامی شرعی قانون کو ایک پوشیدہ دشمن
مان کر اسی سے جنگ کر رہے ہیں۔ در اصل یہ جنگ ان کی جانب سے ہے جو دشمن کا سامنا کر
رہے ہیں۔وقت آ گیا ہے کہ مسلمانوں کے اعلیٰ
طبقے اور لیڈران قدیم اسلامی شرعی قانون کو جدید اسلامی قانون ( شرعی)
سے تبدیل کریں جس میں مغربی سیکولر اقدار شامل
ہو اور جو قرآن کے وسیع دائرے میں ہو۔اس عمل میں دیری یا کوئی رعایت خالد ابو الفضل کی تشویش کو مزید تقویت
پہنچائے گی، ‘کیا یہ ممکن ہے کہ وہ دن آئے گا جب ہمارا تذکرہ ختم ہو جانے والی تہذیبوں
میں ہوگا’۔(۱۵)
اس کے باوجود قدیم اسلامی
شرعی قانون کو محافظ خانے میں رکھنے کی کوئی تجویز نہیں ہے۔اس
سے الگ قدیم اسلامی شرعی قانون کو تکنیکی مضمون کے طور پر پڑھا جانا چاہیے، جیسا
کہ آج دنیا کی کئی اہم یونیورسٹیوں میں ہو
رہا ہے۔ اور اس کے اصولوں کا استعمال انسانیت کی
بہتری کے لئے جدید قانون کی وسعت کو
بڑھانے کے لئے کیا جانا چاہیے۔
نوٹس:
۷۔
محمد اسد، دی میسیج آف اسلام، چیپٹر۔۵،
نوٹ ۶۶
۸۔
جان ایل اسپیسیٹو کی اسلام ان ٹرانزیشن ، نیو یارک ۱۹۸۲، صفحہ۔۲۷
۹۔ جان ڈان ہائواور جان ایل اسپیسیٹو کے دئے حوالے، اسلام ان ٹرانزیشن، نیو یارک ۱۹۸۲، صفحہ ۸۲
۱۰۔ہارورڈ
آن لائن انٹر نیشنل جرنل، والیوم۔۵۲،
اپریل ۲۰۱۱،
نوٹ ۱۹
۱۱۔
یوسف گرایا، اوریجن آف اسلامک جیورس پروڈینس، دہلی ۱۹۹۲، صفحہ ۲۹ تا
۳۰
۱۲۔
جان ایل اسپیسیٹو، اسلام ان ٹرانزیشن، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، یو ایس اے ۱۹۸۲، صفحہ ۲۶
۱۳۔
مندرجہ بالا قول کائونٹ لیون اوسٹرو روگ کے
انگورا ریفارم ۱۹۲۷
پر یونیورسٹی آف لندن میں دئے گئے تاریخی لیکچر سے لیا گیا ہے‘ ۹ ویں
صدی کے مفکروں نے اپنے علم دین کی بنیاد پر
ایک انسان کے حقوق کے اصول کو پیش کیا اور
انفرادی آزادی کے حقوق کو سمجھنے اور انسان اور املاک کے احترام کے انہیں بنیادوں پر جن کا ذکر اسلام میں ہے،جیسا کہ ایک معاہدہ میں ہوتا ہے جس
میں صلاحیت اور کار کردگی کے حالات کا مفہوم
ہوتا ہے اور اگر معاہدہ کے تحت دی گئی شرط پوری نہیں ہوتی تو معاہدہ منسوخ ہوتا ہے۔ جنگ کے ایک قانون کی وضاحت
کی ہے جس میں انسانی اور با اخلاق نسخوں کو دیا ہے جو عظیم جنگوں کے شرکاء کو بھی شرما
دے، اور غیرمسلم فرقے کے تئیں رواداری کے اصول کو
تفصیل سے بیان کیا اور اس قدر دریا دلی کہ مغرب کو اس اصول کو اپنانے کے لئے ہزار سال انتظار کر نا ہوگا۔’ آئوٹ لائن آف محمڈن
لاء سے لیا گیا، آصف اے اے فیضی، ۵
واں ایڈیشن، ۲۰۰۵، نئی دہلی، صفحہ ۵۳ تا
۵۴
۱۴۔
اسلام کا اہم پیغام، آمنہ پبلیکیشن، یو ایس اے ۲۰۰۹
۱۵۔
دی سرچ فار بیوٹی ان اسلام: اے کانفرنس آف دی بک، بارنیس اینڈ نوبل، یو ایس اے ۲۰۰۶، صفحہ۲۰۹
محمد یونس نے آئی آئی ٹی سے
کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور کارپوریٹ اکزی کیوٹیو کے عہدے سے سبکدوش
ہو چکے ہیں اور90کی دہائی سے قرآن کے عمیق مطالعہ اور اس کے حقیقی پیغام کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کی کتاب اسلام کا اصل پیغام
کو 2002میں الاظہر الشریف،قاہرہ کی منظوری حاصل ہو گئی تھی اور یو سی ایل اے کے ڈاکٹر
خالد ابو الفضل کی حمایت اور توثیق بھی حاصل ہے اور محمد یونس کی کتاب اسلام کا اصل
پیغام آمنہ پبلیکیسن،میری لینڈ ،امریکہ نے،2009میں شائع کیا۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islamic-sharia-laws/the-classical-islamic-sharia-law-is-not-a-word-of-god!-(part-ii--the-way-forward)/d/5723
URL: