محمد یونس اور اشفاق اللہ سید
9 جون، 2015
(مصنفین اور ناشرین کی اجازت کے ساتھ نیو ایج اسلام کی جانب سے خصوصی اشاعت)
13۔ قرآن اور اہل کتاب
13.1۔ بین المذاہب تعلقات کا تاریخی سیاق و سباق
مدینہ میں نبوی مشن کے ابتدائی ادوار میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عیسائیوں اور یہودیوں کی ہمدردی حاصل تھی، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کے سابقہ انبیاء کے سچے دین کی تبلیغ کرنے کا دعوی کیا تھا اور ان میں سے کسی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی سیاسی خطرہ بھی لاحق نہیں تھا۔ لہٰذا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی میں ان کے خلاف کوئی شکایت نہیں تھی۔ تاہم، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے شہری اور سیاسی قائد کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے یروشلم کو چھوڑ کر کعبہ کو اپنا قبلہ مقرر کیا اور اپنے پیروکاروں کی ایک علیحدہ مذہبی شناخت قائم کی تو یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بن گئے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دشمنوں کے ساتھ مل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سازشیں رچیں۔ اس کے بعد قرآن کا لب و لہجہ بھی بدل گیا۔ البتہ! قرآن کے اختتامی مرحلے میں نازل ہونے والی آیتیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں اس لیے کہ وہ کسی بھی سیاق و سباق کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں اور وہ اعلیٰ ترین قرآنی پیغام کی نمائندگی کرتی ہیں۔ لہذا یہ بات قابل ذکر ہے کہ سورہ مائدہ میں نازل ہونے والی آخری آیت میں تورات اور انجیل کو آسمانی صحیفہ قرار دیا گیا ہے،اور اس طرح یہودیوں اور عیسائیوں کو اہل کتاب تسلیم کیا گیا ہے۔ تاہم، قرآن انہیں ان پر نازل کردہ آسمانی پیغام میں تبدیلی اور تحریف کرنے سے منع کرتا ہے۔
"بیشک ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور نور تھا، اس کے مطابق انبیاء جو (اﷲ کے) فرمانبردار (بندے) تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے اور اﷲ والے (یعنی ان کے اولیاء) اور علماء (بھی اسی کے مطابق فیصلے کرتے رہے)، اس وجہ سے کہ وہ اﷲ کی کتاب کے محافظ بنائے گئے تھے اور وہ اس پر نگہبان (و گواہ) تھے۔ پس تم (اقامتِ دین اور احکامِ الٰہی کے نفاذ کے معاملے میں) لوگوں سے مت ڈرو اور (صرف) مجھ سے ڈرا کرو اور میری آیات (یعنی احکام) کے بدلے (دنیا کی) حقیر قیمت نہ لیا کرو، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ کافر ہیں(5:44)، اور ہم نے اس (تورات) میں ان پر فرض کردیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے عوض آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے عوض کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں (بھی) بدلہ ہے، تو جو شخص اس (قصاص) کو صدقہ (یعنی معاف) کر دے تو یہ اس (کے گناہوں) کے لئے کفارہ ہوگا، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ ظالم ہیں (5:45)۔
" (5:46)۔ ،" (5:47)۔
13.2۔ قرآن چند اہل کتاب کو تسلیم کرتا ہے
قرآن اہل کتاب میں سے کچھ کو نیک اور متقی تسلیم کرتا ہے (3:113-115)، انہیں دوسروں کے تئیں ایماندار اور دیانت دار تسلیم کرتا ہے (3:75، 3:199)، اور انہیں اعتدال پسند قرار دیتا ہیے(5:66)۔
‘‘’’ (3:75)۔
‘‘’’ (3:199)۔
‘‘ (5:65)، ’’ (5:66)۔
13.3۔ اہل کتاب سے معاملات
قرآن مسلمانوں کو اہل کتاب سے خوبصورت اور منطقی انداز میں بحث کرنے کا مطالبہ کرتا ہے (16:125, 29:46)، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے دوسروں پر ظلم و ستم ڈھائے ہیں (29:46)۔
‘‘’’ (16:125)۔
‘‘’’ (29:46)۔
البتہ! قرآن مذہبی رہنماؤں کو بہت زیادہ مذہبی اختیارات دینے اور (9:31) اور خداکی خاص مخلوق ہونے کے ان کے دعوے کے لیے (2:111, 2:135) یہودیوں اور عیسائیوں کی سرزنش کرتا ہے
‘‘ (2:111)، (2:135)۔
‘‘’’(9:31)۔
‘‘ (2:120)۔
(5:51)
، ’’ (5:55)۔
"، (5:56)۔
(5:57)۔
(5:58)۔
13.4۔ عیسائیوں اور یہودیوں یا کسی بھی کمیونٹی سے نفرت کرنے کے لیے کوئی قرآنی بنیاد نہیں ہے
مذکورہ بالا آیات 5:51, 56-5:55 جنہیں اکثر ہر زمانے کے لیے تاریخی سیاق و سباق کے خلاف پیش کیا جاتا ہے، اور مسلمانوں کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ انہیں یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست یا اتحادی نہیں بنانا چاہئے۔ لیکن اوپر 13.2 اور 3 کے تحت مذکور ہدایات و احکامات اور پوری انسانیت کے لیے اخوت و بھائی چارے کا وسیع تر قرآنی پیغام ایسے کسی بھی تصور کو مسترد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، قرآن اس معاملے پر مزید روشنی ڈالتا ہے تاکہ اس مسئلہ میں کوئی ابہام نہ رہے۔
1۔ اگر قرآنی احکامات کے تناظر میں اس کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن صرف مذہب کے لئے ان کے خلاف لڑنے والوں اور انہیں ان کے وطن سے نکالنے والوں اور انہیں ان کے وطن سے نکالنے والوں کی مدد کرنے والوں کے ساتھ اتحاد کرنے اور ان کے ساتھ مراسم پیدا کرنے سے مسلمانوں کو رکتا ہے (60:9)۔ اسی طرح قرآن ان لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنے اور انصاف کرنے سے مسلمانوں کو نہیں روکتا جنہوں نے ان کے خلاف لڑائی نہیں کی اور نہ ہی انہیں ان کے وطن سے نکالا (60:8)۔
اور اس طرح، وحی کے اختتامی مرحلے میں قرآن مسلمان مردوں کو عیسائی اور یہودی عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت دیکر (5:5) انہیں اپنا سرپرست یا اتحادی بنانے اجازت دیتا ہے (9:71)۔
لہٰذا، عصر حاضر کے عیسائیوں اور یہودیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے مذورہ بالا کسی بھی قرآنی آیت کی تعمیم قرآن کے پیغامات کو مسخ کرنے کے مترادف ہو گی۔ البتہ! ناقد کو یہ تصور معذرت خواہانہ لگ سکتا ہے، اس لیے کہ یہ موجودہ دور کے مسلم ممالک کے زمینی حقائق کے منافی ہے جہاں اہل کتاب کے خلاف جذبات عروج پر ہیں۔ لہٰذا، اس موقع پر ایک جدید اور سیکولر اسکالر کیرن آرمسٹرانگ کے حوالے سے ایک اقتباس نقل کرنا مفید ہو گا۔
"مسلمانوں کے درمیان یہودیوں کے خلاف نفرت 1948 میں ریاستِ اسرائیل کے قیام کے بعد عام ہو گئی۔ اہم بات یہ ہےکہ مسلمان یورپ سے یہودی مخالف قصے کہانیاں درآمد کرنے اور اس کے انہیں عربی میں ترجمہ کرنے پر مجبور تھے، اس لیے کہ ان کی زبان میں ایسی کوئی روایت موجود نہیں تھی۔ یہودیوں کے تئیں اس نئی دشمنی کے سبب کچھ مسلمان اب اپنے تعصب کا جواز پیش کرنے کے لئے ان قرآنی آیتوں کا حوالہ پیش کرتے ہیں جن میں تین باغی یہودی قبائل کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جدوجہد کا حوالہ موجود ہے۔ سیاق و سباق سے باہر ان آیات کا استعمال کر کے وہ قرآنی پیغامات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رویہ دونوں کو مسخ کر دیا ہے جنہوں نے خود یہودیت کے خلاف ایسی کوئی نفرت محسوس نہیں کی۔"
URL for English article: https://newageislam.com/books-documents/the-qur’an-people-book-chapter/d/103407
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/the-qur’an-people-book-/d/103438