New Age Islam
Sat Jan 18 2025, 08:08 PM

Urdu Section ( 9 Jun 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Broader Notion of Taqwa (Heedfulness) and Universal Brotherhood of Humanity تقوی اور پوری انسانیت کے لیے اخوت کا آفاقی تصور

 

محمد یونس اور اشفاق اللہ سید

27 مئی 2015

(مصنفین اور ناشرین کی اجازت کے ساتھ نیو ایج اسلام کی خصوصی اشاعت)

لفظ تقوی اور اس کا اسم متقی خدا کی طرف متوجہ ہونے اور اس کی ہدایت کے معنیٰ میں سینکڑوں قرآنی آیتوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ علماء نے اس کا ترجمہ خوف خدا، خدا کی طرف متوجہ ہونا، خدا کی یاد میں رہنا، خود کو شر سے محفوظ رکھنا، برائیوں سے اپنی حفاظت کرنا اور برائی کا راستہ بند کرناجیسے مختلف معانی کے ساتھ کیا ہے۔ تاہم، وسیع ترین قرآنی استعمال کی بنیاد پر اس کے معنی کو قرآن کی دوسری سورت یعنی سورہ بقر کی ابتدائی آیتوں میں جانا جا سکتاہے:

" یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لئے ہدایت ہے" (2:2)۔

دوسرے الفاظ میں اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ جو لوگ قرآنی ہدایات کی پیروی کرتے ہیں وہ تقوی سے سرشار رہتے ہیں یا متقین ہیں۔ اسی طرح، خدا کے احکام پر عمل کیے بغیر خدا کی طرف متوجہ ہونا؛ یا محض جسمانی طور پر کتاب کو اپنانا، لیکن اس کی ہدایات کو نظر انداز کرنا یا اس کی خلاف ورزی کرنا تقوی کے قرآنی معیار کو پورا نہیں کرتا۔

8.1۔ تقوی کا آفاقی تصور

قرآن کی کئی آیتوں میں تقوی کا ایک آفاقی تصور پیش کیا گیاہے، جن میں کچھ کا ذکر اس مضمون میں کیا گیا ہے۔ اور سب سے اچھے انداز میں اس کا ذکر ایک مدنی سورت کی آیت 49:13 میں ہے:

‘‘اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے’’ (49:13)

قرآن میں چند (عیسائیوں اور یہودیوں) 'اہل کتاب' کو بھی متقی کہا گیا ہے۔ ‘‘یہ سب برابر نہیں ہیں، اہلِ کتاب میں سے کچھ لوگ حق پر (بھی) قائم ہیں وہ رات کی ساعتوں میں اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں اور سر بسجود رہتے ہیں۔ وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نیک کاموں میں تیزی سے بڑھتے ہیں، اور یہی لوگ نیکوکاروں میں سے ہیں۔ اور یہ لوگ جو نیک کام بھی کریں اس کی ناقدری نہیں کی جائے گے اور اللہ پرہیزگاروں کو خوب جاننے والا ہے’’۔ (3:113-115

لہٰذا، ایک وسیع ترین معنی میں، لفظ تقوی اور اس کے دوسرے مادوں کا مطلب خدا اور روز قیامت پر ایمان کے ساتھ عالمگیر سماجی اور اخلاقی ذمہ داریوں کا بھی خیال رکھنا ہے۔

چونکہ وسیع تر قرآنی پیغام عملی طور پر تصور تقوی کے ارد گرد مرتکز ہے، جیسا کہ آیت 2:2 سے واضح ہے ہم نے بھی اس تحریر میں تقویٰ سے متعلق قرآنی آیتوں کا ذکر کیا ہے۔

        پوری انسانیت کے لیے آفاقی جذبہ اخوت

ایک مدنی آیت میں قرآن کا یہ اعلان ہے:

‘‘بات یہی ہے کہ (سب) اہلِ ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔ سو تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو، اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے’’(49:10)۔

مسلم علماء اکثر تمام مسلمانوں کے درمیان اخوت و بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے اس آیت کا حوالہ پیش کرتے ہیں، جبکہ اس میں تمام مومنوں درمیان اخوت کو فروغ دینے کا حکم کیا گیا ہے۔ تاہم، اسلام اور تقویٰ کے قرآنی آفاقی تصور، جیسا کہ اس کا جائزہ گزشتہ سورتوں 7 اور 8 میں لیا گیا ہےاور (ایک) نسلی اختلاف و انحراف ، (دو) مذہبی رواداری، (تین) مذہب میں تکثیرت پسندی، (چار) فیصلہ اور انصاف کے لیے الٰہی معیار کے متعلق قرآنی احکام سے، جیسا کہ ذیل میں اس کی توضیح کی گئی ہے؛ پوری انسانیت کے لیے جذبہ اخوت کے قرآنی تصور کی طرف اشارہ ملتا ہے، جنہیں زمین پر خدا کا نائب بنا کر بھیجا گیا ہے (2:30

9.1۔    رنگ و نسل اور زبان کا اختلاف

قرآن نسل انسانی، زبان اور رنگ میں تنوع کو تسلیم کرتا ہے (30:22)، اور یہ اعلان کرتا ہے کہ اگر خدا چاہتا تو پوری انسانیت کو ایک ہی جماعت اور ایک ہی قبیلے میں پیدا فرماتا(10:19، 11:118) اور ان سب کو ہدایت عطا فرماتا (6:149) ۔ قرآن مزید اس بات کی بھی تصدیق کرتا ہے کہ شروع میں پوری انسانیت ایک ہی جماعت تھی لیکن بعد میں لوگوں نے ایک دوسرے سے اختلاف کیا (10:19)۔

 " فرما دیجئے کہ دلیلِ محکم تو اﷲ ہی کی ہے، پس اگر وہ (تمہیں مجبور کرنا) چاہتا تو یقیناً تم سب کو (پابندِ) ہدایت فرما دیتا '' (6:149

"اور سارے لوگ (ابتداء) میں ایک ہی جماعت تھے پھر(باہم اختلاف کر کے) جدا جدا ہو گئے، اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک بات پہلے سے طے نہ ہوچکی ہوتی (کہ عذاب میں جلد بازی نہیں ہوگی) تو ان کے درمیان ان باتوں کے بارے میں فیصلہ کیا جا چکا ہوتا جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں"(10:19)۔

‘‘اور اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا (مگر اس نے جبراً ایسا نہ کیا بلکہ سب کو مذہب کے اختیار کرنے میں آزادی دی) اور (اب) یہ لوگ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے’’ (11:118

‘‘اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی) ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے، بیشک اس میں اہلِ علم (و تحقیق) کے لئے نشانیاں ہیں’’ (30:22)۔

9.2۔    مذہبی رواداری

 قرآن دین میں کسی بھی جبر و اکراہ سے منع کرتا ہے(2:256, 50:45, 88:21/22)، قرآن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو اسلام پر مجبور نہ کریں اس لیے کہ اگر خدا چاہتا تو اس روئے زمین پر تمام لوگ مسلمان ہوتے (10:99)۔

"دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطلہ کا انکار کر دے اور اﷲ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لئے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے" (2:256)۔

"اور اگر آپ کا رب چاہتا تو ضرور سب کے سب لوگ جو زمین میں آباد ہیں ایمان لے آتے، (جب رب نے انہیں جبراً مومن نہیں بنایا) تو کیا آپ لوگوں پر جبر کریں گے یہاں تک کہ وہ مومن ہوجائیں"(10:99)۔

 "ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ وہ کہتے ہیں اور آپ اُن پر جبر کرنے والے نہیں ہیں، پس قرآن کے ذریعے اس شخص کو نصیحت فرمائیے جو میرے وعدۂ عذاب سے ڈرتا ہ"(50:45)۔

"پس آپ نصیحت فرماتے رہئے، آپ تو نصیحت ہی فرمانے والے ہیں (88:21)؛ اور آپ ان پر جابر و قاہر (کے طور پر) مسلط نہیں ہیں" (88:22)۔

مذہبی آزادی پر قرآن کا موقف آیت (60:11) میں بالکل عیاں ہے، جس میں مدنی دور میں ان کافرہ عورتوں کو اپنے شوہروں کے ساتھ ساتھ مکہ کے لیے روانہ ہونے کی اجازت دی گئی ہے جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا:

‘‘اور اگر تمہاری بیویوں میں سے کوئی تم سے چھوٹ کر کافروں کی طرف چلی جائے پھر (جب) تم جنگ میں غالب آجاؤ اور مالِ غنیمت پاؤ تو (اس میں سے) ان لوگوں کو جن کی عورتیں چلی گئی تھیں اس قدر (مال) ادا کر دو جتنا وہ (اُن کے مَہر میں)خرچ کر چکے تھے، اور اُس اللہ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہو’’ (60:11)۔

9.3۔    غیر مسلموں کے خلاف کوئی امتیازی سلوک روا نہیں

قرآن مسلمانوں کو غیر مسلموں کے خلاف امتیازی سلوک اپنانے سے بھی منع کرتا ہے(4:94) ، اور نہ ہی ان کی توہین کرنے کی اجازت دیتا ہے جنہیں وہ خدا کے علاوہ پکارتے ہیں (6:108)۔

‘‘اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) سفر پر نکلو تو تحقیق کر لیا کرو اور اس کو جو تمہیں سلام کرے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے، تم (ایک مسلمان کو کافر کہہ کر مارنے کے بعد مالِ غنیمت کی صورت میں) دنیوی زندگی کا سامان تلاش کرتے ہو تو (یقین کرو) اللہ کے پاس بہت اَموالِ غنیمت ہیں۔ اس سے پیشتر تم (بھی) توایسے ہی تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا (اور تم مسلمان ہوگئے) پس (دوسروں کے بارے میں بھی) تحقیق کر لیا کرو۔ بیشک اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے’’ (4:94)۔

‘‘اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک لوگ) اللہ کے سوا پوجتے ہیں پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے۔ اسی طرح ہم نے ہر فرقہ (و جماعت) کے لئے ان کا عمل (ان کی آنکھوں میں) مرغوب کر رکھا ہے (اور وہ اسی کو حق سمجھتے رہتے ہیں)، پھر سب کو اپنے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے اور وہ انہیں ان اعمال کے نتائج سے آگاہ فرما دے گا جو وہ انجام دیتے تھے’’(6:108)۔

9.4۔    دین میں تکثیریت پسندی کا تصور

نزول وحی کے اختتامی مراحل میں جب اسلام ایک تاریخی حقیقت کے طور پر قائم ہو چکا تھا اور اسلام کو مقامی یہودیوں اور عیسائیوں سے کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا تب دین میں تکثیریت پسندی کے تصور پر قرآن کا پیغام نازل ہوا، (49:13/ 5:48)

"اور (اے نبئ مکرّم!) ہم نے آپ کی طرف (بھی) سچائی کے ساتھ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے پہلے کی کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور اس (کے اصل احکام و مضامین) پر نگہبان ہے، پس آپ ان کے درمیان ان (احکام) کے مطابق فیصلہ فرمائیں جو اﷲ نے نازل فرمائے ہیں اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں، اس حق سے دور ہو کر جو آپ کے پاس آچکا ہے۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لئے الگ شریعت اور کشادہ راہِ عمل بنائی ہے، اور اگر اﷲ چاہتا تو تم سب کو (ایک شریعت پر متفق) ایک ہی امّت بنا دیتا لیکن وہ تمہیں ان (الگ الگ احکام) میں آزمانا چاہتا ہے جو اس نے تمہیں (تمہارے حسبِ حال) دیئے ہیں، سو تم نیکیوں میں جلدی کرو۔ اﷲ ہی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں ان (سب باتوں میں حق و باطل) سے آگاہ فرمادے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہتے تھے" (5:48)۔

یہ ایک وضاحت طلب اور اہم آیت ہے:

1.      قرآن میں لفظ (شرع، یا شریعت) میں لفظ منہاج (ایک کھلا راستہ) کا اضافہ کرتا ہے اور اس طرح قرآن شریعت و منہاج کو یکجا طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور حیات کے بعد کے علاقائی مکتبہ فکراور مسلک و مذہب کے احکام یعنی شرعی قوانین سے کہیں زیادہ وسیع اور گہری معنویت اور اہمیت عطا کرتا ہے۔ (ضمیمہ، 1.4 / 1.7)۔

2.      چونکہ تعریف کے اعتبار سے لفظ منہاج (کھلا راستہ) میں اختیار کی آزادی، ایک بہتر راستہ اختیار کرنے کے امکانات اور زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے چیزوں میں تبدیل کرنے کی آزادی بھی شامل ہے، اسی لیے شریعت و منہاج مشترکہ طور پر ایک متحرک مفہوم کے حامل ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، اسلامی شریعت ایک ایسا متحرک قانونی نظام اور نظام حیات عطا کرتی ہے جو جگہ اور وقت کے سانچے میں ڈھل سکتا ہے۔

3.      قرآن ایک ایسی اسلامی شریعت کی نمائندگی کا دعوی کرتا ہے (45:18)جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر انسانیت کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے(45:20)۔

4.      قرآن انفرادی اور اجتماعی نظام زندگی کے لیے بنیادی اصول فراہم کرتا ہے، لیکن وقت، جگہ اور ضروریات کے مطابق اپنی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تفصیلی قوانین کی تدوین و تشکیل کو انسانوں کے اوپر چھوڑتا ہے۔

5.      اگر چہ قرآنی آیتوں میں الہی قانون (شریعت) کے اندر پائے جانے والے تنوعات کو اور مختلف کمیونٹیز کے لیے مقرر کی گئی ذمہ داریوں کو واضح انداز میں بیان نہیں کیا گیا ہے، لیکن ان آیتوں میں مشترکہ بنیادوں پر زور دیا گیاہے اور مختلف برادریوں کو (ایک دوسرے) کے ساتھ امن و سکون سے رہنے کا حکم دیا گیا ہے (2:148)۔ یہ مشترکہ طور پر نیک اعمال پر زور دیتے ہوئے، جیسا کہ ذیل میں اس کا جائزہ لیا گیا ہے، تنوعات کی صورت میں اتحاد کے قرآنی اصول اور مذہب میں تکثیریت پسندی کے اعتراف کے اصول کو ثابت کرتا ہے۔

9.5      اعمال صالحہ قرب خدا وندی کا ایک عام معیار

قرآن بار بار اس بات کو دہراتا ہے کہ قرب خدا وندی کسی کے دین سے قطع نظر ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ پر مبنی ہے(2:62, 5:69, 22:17)6۔

‘‘بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے اور (جو) نصاریٰ اور صابی (تھے ان میں سے) جو (بھی) اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس نے اچھے عمل کئے، تو ان کے لئے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر ہے، ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے’’۔ (2:62)۔

‘‘بیشک (خود کو) مسلمان (کہنے والے) اور یہودی اور صابی (یعنی ستارہ پرست) اور نصرانی جو بھی (سچے دل سے تعلیماتِ محمدی کے مطابق) اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے’’ (5:69)۔

‘‘بیشک جو لوگ ایمان لائے اور جو لوگ یہودی ہوئے اور ستارہ پرست اور نصارٰی (عیسائی) اور آتش پرست اور جو مشرک ہوئے، یقیناً اﷲ قیامت کے دن ان (سب) کے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔ بیشک اﷲ ہر چیز کا مشاہدہ فرما رہا ہے’’(22:17)۔

9.6      خدا انہیں معاف فرمائے گا جن کے پاس ہدایت کا کوئی ذریعہ نہیں تھا

قرآن میں ان لوگوں کے لئے بخشش کا وعدہ کیا ہے جو کسی بھی ذہنی، جسمانی، نفسیاتی یا سماجی حالات کی وجہ سے حقیقی رہنمائی سے محروم رہ گئے تھے، یا کسی ایسے مہلک دہشت میں مبتلاء رہے کہ ان کے لیے زندگی کی کوئی امید نہیں بچی تھی (4:97-99

‘‘بیشک جن لوگوں کی روح فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ (اسلام دشمن ماحول میں رہ کر) اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں (تو) وہ ان سے دریافت کرتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے (تم نے اِقامتِ دین کی جد و جہد کی نہ سرزمینِ کُفر کو چھوڑا)؟ وہ (معذرۃً) کہتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور و بے بس تھے، فرشتے (جواباً) کہتے ہیں: کیا اللہ کی زمین فراخ نہ تھی کہ تم اس میں (کہیں) ہجرت کر جاتے، سو یہی وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے، اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے (4:97)؛ سوائے ان واقعی مجبور و بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کے، جو نہ کسی تدبیر پر قدرت رکھتے ہیں اور نہ (وہاں سے نکلنے کا) کوئی راستہ جانتے ہیں (98)، یہ وہ لوگ ہیں کہ یقیناً اللہ ان سے درگزر فرمائے گا، اور اللہ بڑا معاف فرمانے والا بخشنے والا ہے (4:99)’’۔

9.7      پوری انسانیت کے درمیان اخوت و بھائی چارگی

سابقہ اور آخری کی دو آیتوں کو اگر ایک جگہ رکھا جائے تو پوری انسانیت کے درمیان اخوت و بھائی چارگی کا قرآنی نقطہ نظر سامنے آتا ہے جس میں مختلف مذہب و عقیدے ، ثقافت، رنگ و نسل اور زبان کے لوگوں کو ایک دوسرے کو جاننے، ایک دوسرےکی مدد کرنے اور ایک ساتھ مل کر زندگی گزر بسر کرنے اور تمام انسانوں کے لئے زندگی کو آسان اور پرامن بنانے کی گنجائش ہے۔

تاہم، عصر حاضر کے بعض مسلم علماء کرام کا یہ ماننا ہے کہ موجودہ دور کے غیر مسلم جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں رکھتے وہ اللہ کی رحمت کے حقدار نہیں ہیں۔ وہ عام لفظ اسلام کی تعبیر و و تشریح درج ذیل آیت 3:85 کی روشنی میں کرتے ہیں اور دین اسلام کے تصور کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں کے مذہب میں ہی محدود کر دیتے ہیں۔ یہ ایک گمراہ کن نظریہ ہے اس لیے کہ گزشتہ آیت 3:85 میں اسلام کے عمومی معنیٰ و مفہوم کی وضاحت کر دی گئی ہے۔

"کیا یہ اﷲ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں اور جو کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں ہے اس نے خوشی سے یا لاچاری سے (بہرحال) اسی کی فرمانبرداری اختیار کی ہے اور سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے (3:83)، آپ فرمائیں: ہم اﷲ پر ایمان لائے ہیں اور جو کچھ ہم پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب (علیھم السلام) اور ان کی اولاد پر اتارا گیا ہے اور جو کچھ موسٰی اور عیسٰی اور جملہ انبیاء (علیھم السلام) کو ان کے رب کی طرف سے عطا کیا گیا ہے (سب پر ایمان لائے ہیں)، ہم ان میں سے کسی پر بھی ایمان میں فرق نہیں کرتے اور ہم اسی کے تابع فرمان ہیں (84)، اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا"(3:85)۔

مذکورہ دلیل اسی سے ملتی جلتی آیات 9:33 اور 61:9 کے بھی حق میں ہے، جنہیں بعض علماء مذہب اسلام کے اختصاص کو ثابت کرنے کے لیے نقل کرتے ہیں۔

‘‘وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا لگے’’ (9:33/61:9

اپنے پیغام کی آفاقیت کے تعلق سے تمام شکوک وشبہات کو ختم کرنے کے لیے قرآن ان لوگوں کو خبردار کرتا ہے جو اپنے مذہب کو ایک محدود نظریہ میں مقید کرتے ہیں، اور یہ اعلان کرتا ہے کہ ان کی خواہشات کبھی پوری نہیں ہو سکتی اور برائی کرنے والوں کو اسی کے مطابق بدلہ دیا جائے گا۔

‘‘اللہ کا وعدۂ مغفرت) نہ تمہاری خواہشات پر موقوف ہے اور نہ اہلِ کتاب کی خواہشات پر، جو کوئی برا عمل کرے گا اسے اس کی سزا دی جائے گی اور نہ وہ اللہ کے سوا اپنا کوئی حمایتی پائے گا اور نہ مددگار’’ (4:123)

9.8      ارتداد کا مسئلہ

عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ اسلام ارتداد کے لئے سزائے موت مقرر کرتا ہے۔ یہ عقیدہ بھی باطل ہے۔ قرآن ارتداد کے لئے کسی بھی دنیاوی سزا کا تعین نہیں کرتا ہے۔ قرآن صرف مختلف مواقع پر سزا کا تعین کرتا ہے اور واضح طور پر یہ اعلان کرتا ہے کہ مرتد کو اس کے مرنے کے بعد سزا ملے گی (2:217, 16:106)۔7

"..................اور پھر وہ کافر ہی مرے تو ایسے لوگوں کے دنیا و آخرت میں (سب) اعمال برباد ہو جائیں گے، اور یہی لوگ جہنمی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے (2:217)"۔

‘‘جو شخص اپنے ایمان لانے کے بعد کفر کرے، سوائے اس کے جسے انتہائی مجبور کر دیا گیا مگر اس کا دل (بدستور) ایمان سے مطمئن ہے، لیکن (ہاں) وہ شخص جس نے (دوبارہ) شرحِ صدر کے ساتھ کفر (اختیار) کیا سو ان پر اللہ کی طرف سے غضب ہے اور ان کے لئے زبردست عذاب ہے’’ (16:106) ۔

قرآن ارتداد پر کسی بھی دنیاوی سزا کے خلاف مزید ہدایت دیتا ہے:

قرآن اس شخص کے لئے کوئی بھی سزا تجویز نہیں کرتا " جو لوگ ایمان لائے پھر کافر ہوگئے، پھر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے، پھر کفر میں اوربڑھ گئے۔" 8

قرآن ان خواتین کے لئے کوئی سزا تجویز نہیں کرتا ہے جنہوں نے مدنی دور میں اپنے مسلمان شوہروں کو چھوڑ دیا تھا، اور اسلام ترک کر کے کافروں کے پاس چلی گئی تھیں ۔9

قرآن مسلمانوں کو اس بات کی یقین دہانی کراتا ہے کہ "اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے ۔" 10

لہذا، ارتداد کے لئے سزائے موت اور اسی طرح کسی بھی سزا کا قانون تیار کرنے کے لیے کوئی قرآنی بنیاد نہیں ہے۔

تاریخی تناظر میں اگر اس کے پس منظر کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ امر واضح ہوتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں مرتدوں نے دشمنوں  کے ساتھ مل کر سنگین غداری کا ارتکاب کیا تھا، لہٰذا، ارتداد کی سزا در اصل مسلمانوں کے خلاف سازش اور غداری کے لیے تھی، نہ کہ اپنا مذہب چھوڑنے کے لئے۔

حوالہ جات:

1.    35:28۔

2.    16:93، 42:8۔

3.    32:13۔

4.    2:213, 21:92, 23:52۔

5.    47-5:44۔

6.    4:124/64:9, 65:11۔

7.    3:90, 27-47:25۔

8.    4:137۔

9.    60:11۔

10.   5:54۔

URL for English article: https://newageislam.com/books-documents/the-broader-notion-taqwa-(heedfulness)/d/103173

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/the-broader-notion-taqwa-(heedfulness)/d/103394

 

Loading..

Loading..