New Age Islam
Sun Jan 26 2025, 02:58 PM

Urdu Section ( 18 Jun 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Social Responsibility and Spending Money on the Needy سماجی ذمہ داری اور ضرورت مندوں پر مال و دولت خرچ کرنا

 

محمد یونس اور اشفاق اللہ سید

16 جون، 2015

(مصنفین اور ناشرین کی اجازت کے ساتھ نیو ایج اسلام کی خصوصی اشاعت)

17۔ سماجی ذمہ داری

17.1۔ خود غرضی کے خلاف قرآنی انتباہ

قرآن کریم کی ابتدائی سورتوں یعنی (89 اور 90) میں مسلمانوں کو ان  کی فطری خود غرضی، دولت کے لئے ان کے سرکش حرص و ہوس،  اپنی میراث کو صرف کرنے کی ان کی لالچ اور معاشرے کے مفلس و نادار لوگوں کی ضروریات کو نظر انداز کرنے کے ان کے رجحان کے خلاف تنبیہ کیا گیا ہے۔

‘‘(89:15)مگر انسان (ایسا ہے) کہ جب اس کا رب اسے (راحت و آسائش دے کر) آزماتا ہے اور اسے عزت سے نوازتا ہے اور اسے نعمتیں بخشتا ہے تو وہ کہتا ہے: میرے رب نے مجھ پر کرم فرمایا،  16لیکن جب وہ اسے (تکلیف و مصیبت دے کر) آزماتا ہے اور اس پر اس کا رزق تنگ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے: میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا، 17یہ بات نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ عزت اور مال و دولت کے ملنے پر) تم یتیموں کی قدر و اِکرام نہیں کرتے، 18اور نہ ہی تم مسکینوں (یعنی غریبوں اور محتاجوں) کو کھانا کھلانے کی (معاشرے میں) ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہو، 19اور وراثت کا سارا مال سمیٹ کر (خود ہی) کھا جاتے ہو (اس میں سے افلاس زدہ لوگوں کا حق نہیں نکالتے)، 20اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہو۔’’

"(90:4)بیشک ہم نے انسان کو مشقت میں (مبتلا رہنے والا) پیدا کیا ہے، 5کیا وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس پر ہرگز کوئی بھی قابو نہ پا سکے گا؟، 6وہ (بڑے فخر سے) کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال خرچ کیا ہے، 7کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اسے (یہ فضول خرچیاں کرتے ہوئے) کسی نے نہیں دیکھا، 8کیا ہم نے اس کے لئے دو آنکھیں نہیں بنائیں، 9اور (اسے) ایک زبان اور دو ہونٹ (نہیں دئیے)، 10اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئے، 11وہ تو (دینِ حق اور عملِ خیر کی) دشوار گزار گھاٹی میں داخل ہی نہیں ہوا، 12اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ وہ (دینِ حق کے مجاہدہ کی) گھاٹی کیا ہے، 13وہ (غلامی و محکومی کی زندگی سے) کسی گردن کا آزاد کرانا ہے، 14یا بھوک والے دن (یعنی قحط و اَفلاس کے دور میں غریبوں اور محروم المعیشت لوگوں کو) کھانا کھلانا ہے (یعنی ان کے معاشی تعطل اور ابتلاء کو ختم کرنے کی جدّ و جہد کرنا ہے)، 15قرابت دار یتیم کو، 16یا شدید غربت کے مارے ہوئے محتاج کو جو محض خاک نشین (اور بے گھر) ہے، 17پھر (شرط یہ ہے کہ ایسی جدّ و جہد کرنے والا) وہ شخص ان لوگوں میں سے ہو جو ایمان لائے ہیں اور ایک دوسرے کو صبر و تحمل کی نصیحت کرتے ہیں اور باہم رحمت و شفقت کی تاکید کرتے ہیں۔

17.2۔ وسیع تر سماجی ذمہ داریاں

جیسے جیسے نزول وحی کا سلسلہ بڑھتا گیا، قرآن زیادہ سے زیادہ واضح انداز میں پوری تاکیدس کے ساتھ مسلمانوں کو ان کی وسیع تر سماجی ذمہ داریوں کا احساس دلانے لگا، جیسا کہ قرآن کا اعلان ہے:

‘‘(17:26) اور قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤ، 27بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے، 28اور اگر تم (اپنی تنگ دستی کے باعث) ان (مستحقین) سے گریز کرنا چاہتے ہو اپنے رب کی جانب سے رحمت (خوش حالی) کے انتظار میں جس کی تم توقع رکھتے ہو تو ان سے نرمی کی بات کہہ دیا کرو، 29اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا رکھو (کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ ہی اسے سارا کا سارا کھول دو (کہ سب کچھ ہی دے ڈالو) کہ پھر تمہیں خود ملامت زدہ (اور) تھکا ہارا بن کر بیٹھنا پڑے’’۔

‘‘(30:38) پس آپ قرابت دار کو اس کا حق ادا کرتے رہیں اور محتاج اور مسافر کو (ان کا حق)، یہ ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو اﷲ کی رضامندی کے طالب ہیں، اور وہی لوگ مراد پانے والے ہیں’’۔

17.3۔ تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ مہربانی کا رویہ اختیار کرنا

مدنی دور کے اس قانون سازی کے مرحلے میں نازل ہونے والی آیتوں میں قرآن سماجی ذمہ داریوں پر اپنے موقف کا اعادہ کرتا ہے (2:215, 2:177, 38-4:36) بخل اور نام و نمود کے خلاف خبردار کرتا ہے، (38-4:37) اور مذہب و مسلک سے قطع نظر تمام افراد کی مدد کرنے کا حکم دیتا ہے (4:36)۔

‘‘آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اﷲ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں: جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)، مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بیشک اﷲ اسے خوب جاننے والا ہے (2:215)’’۔

‘‘جو لوگ (خود بھی) بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو (بھی) بخل کا حکم دیتے ہیں اور اس (نعمت) کو چھپاتے ہیں جواللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کی ہے، اور ہم نے کافروں کے لئے ذلت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے (4:37)،  اور جو لوگ اپنے مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یومِ آخرت پر، اور شیطان جس کا بھی ساتھی ہوگیا تو وہ برا ساتھی ہے (4:38)’’۔

"اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو"(4:36)۔

قرآن کی اس آیت میں لفظ (قربہ) سے دو طرح کے لوگوں کا ذکر ہے۔ اور یہ ایک ایسا لفظ ہے جس کا  روایتی طور پر معنی رشتہ دار ہوتا ہے۔ تاہم، اس کا لفظی معنیٰ ‘کوئی قریبی’ ہے۔ لہذا، دوسری مثال میں اسکا معنی ہو گا ‘وہ لوگ جو بہت زیادہ قریبی’’ ہیں۔ اس کے  بعد ایسے پڑوسیوں کے حوالہ میں جو کہ نہ تو ‘اجنبی ’ ہے اور نہ کوئی رشتہ دار ہے اور نہ ہی کوئی 'قریبی' ہے، مذہب، قومیت، یا نسل سے قطع نظر اس میں تمام لوگ شامل ہوں کے۔ بالفاظ دیگر اس آیت میں واضح طور پر دیگر مذاہب، قومیت یا نسلوں سے تعلق رکھنے والوں اور ساتھ ہی ساتھ تمام اجنبی لوگوں کے ساتھ بھی رحمدلی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

17.4۔ والدین کے تئیں جذبہ محبت و احسان مندی

مختلف وجوہات یعنی سماجی، اقتصادی اور مالی وجوہات کی بنا پر  بچے اکثر اپنے والدین کو نظر انداز کر دیتے ہیں یا ان کی دیکھ بھال نہیں کرتے اور کبھی کبھی ان پر سختی کرتے ہیں اور ان کے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں۔ لہذا، خاندان میں ہم آہنگی اور انصاف کو برقرار رکھنے کے لئے، قرآن مومنوں کو والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیتا ہے۔ (29:8; 17:23/24, 31:14/15, 46:15)۔

" (17:23) اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو۔ اور ان دونوں کے لئے نرم دلی سے عجز و انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور (اﷲ کے حضور) عرض کرتے رہو: اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا'' (17:24)۔

‘‘اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں (نیکی کا) تاکیدی حکم فرمایا، جسے اس کی ماں تکلیف پر تکلیف کی حالت میں (اپنے پیٹ میں) برداشت کرتی رہی اور جس کا دودھ چھوٹنا بھی دو سال میں ہے (اسے یہ حکم دیا) کہ تو میرا (بھی) شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔ (تجھے) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے (31:14)۔  اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کی کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہرائے جس (کی حقیقت) کا تجھے کچھ علم نہیں ہے تو ان کی اطاعت نہ کرنا، اور دنیا (کے کاموں) میں ان کا اچھے طریقے سے ساتھ دینا، اور (عقیدہ و امورِ آخرت میں) اس شخص کی پیروی کرنا جس نے میری طرف توبہ و طاعت کا سلوک اختیار کیا۔ پھر میری ہی طرف تمہیں پلٹ کر آنا ہے تو میں تمہیں ان کاموں سے باخبر کر دوں گا جو تم کرتے رہے تھے، (31:15)’’۔

"اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم فرمایا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے (پیٹ میں) اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف کے ساتھ جنا، اور اس کا (پیٹ میں) اٹھانا اور اس کا دودھ چھڑانا (یعنی زمانۂ حمل و رضاعت) تیس ماہ (پر مشتمل) ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جاتا ہے اور (پھر) چالیس سال (کی پختہ عمر) کو پہنچتا ہے، تو کہتا ہے: اے میرے رب: مجھے توفیق دے کہ میں تیرے اس احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمایا ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک اعمال کروں جن سے تو راضی ہو اور میرے لئے میری اولاد میں نیکی اور خیر رکھ دے۔ بیشک میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں یقیناً فرمانبرداروں میں سے ہوں'' (46:15)۔

حوالہ جات

1۔ 107:3 / باب۔ 7.1؛ 51:19، 69:34۔

2۔ ابن سبیل کا لفظی معنیٰ 'گلی کا بیٹا' ہے اور روایتی طور پر اس کا ترجمہ ‘مسافر’ کیا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نزول وحی کے زمانے سے لیکر حالیہ صدیوں تک مسافر بے سر و سامانی کے عالم میں مفلس کی طرح ایک اجنبی زمین پر سفر کیا کرتے تھے اور اپنے وطن کو واپس لوٹنے کے لیے ان کے پاس کوئی ذریعہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ آج کے تناظر میں اس کا انطباق ان لاتعداد بے گھر افراد پر کیا جا سکتا ہے جو سڑکوں کے کنارے، پارکوں میں، ہائی وے سڑکوں کے نیچے اور دنیا کے کئی حصوں میں ریلوے اسٹیشنوں پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

3۔ لفظ صاحب سے کسی انسان، کسی ہم پیشہ،  کسی تعلقاتی اور اسی طرح ہر اس انسان کی طرف اشارہ ہے  جس سے آپ کا واسطہ پڑتا ہے۔

--------

18۔ ضرورت مندوں پر مال و دولت خرچ کرنا

نزول وحی کے ابتدائی مرحلے میں قرآن ایک انتہائی شاعرانہ منظر کشی کے انداز میں لوگوں کے سامنے اپنی آمدنی میں ضرورت مندوں کو شریک کرنے کا ایک انقلابی تصور پیش کرتا ہے:

" (92:1)رات کی قَسم جب وہ چھا جائے (اور ہر چیز کو اپنی تاریکی میں چھپا لے)، 2اور دن کی قَسم جب وہ چمک اٹھے، 3اور اس ذات کی (قَسم) جس نے (ہر چیز میں) نر اور مادہ کو پیدا فرمایا، 4بیشک تمہاری کوشش مختلف (اور جداگانہ) ہے، 5پس جس نے (اپنا مال اﷲ کی راہ میں) دیا اور پرہیزگاری اختیار کی، 6اور اس نے (اِنفاق و تقوٰی کے ذریعے) اچھائی (یعنی دینِ حق اور آخرت) کی تصدیق کی، 7تو ہم عنقریب اسے آسانی (یعنی رضائے الٰہی) کے لئے سہولت فراہم کر دیں گے، 8اور جس نے بخل کیا اور (راہِ حق میں مال خرچ کرنے سے) بے پروا رہا، 9اور اس نے (یوں) اچھائی (یعنی دینِ حق اور آخرت) کو جھٹلایا، 10تو ہم عنقریب اسے سختی (یعنی عذاب کی طرف بڑھنے) کے لئے سہولت فراہم کر دیں گے (تاکہ وہ تیزی سے مستحقِ عذاب ٹھہرے)، 11اور اس کا مال اس کے کسی کام نہیں آئے گا جب وہ ہلاکت (کے گڑھے) میں گرے گا، (92:11)"۔

ایسے مدنی دور میں جب ضرورت مندوں پر خرچ کرنے والی بے شمار قرآنی آیتوں کا نزول ہوا تب مسلمان پھل پھول رہے تھے اور بہت سے مسلمان اپنے ضرورت مند رشتہ داروں اور بھائیوں پر خرچ کرنے کی پوزیشن میں تھے۔

18.1۔ کسی کی زندگی پرخرچ کرنا

"کون ہے جو اﷲ کو قرضِ حسنہ دے پھر وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اﷲ ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے"(2:245)

"اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی اور (کافروں کے لئے) نہ کوئی دوستی (کار آمد) ہوگی اور نہ (کوئی) سفارش، اور یہ کفار ہی ظالم ہیں(2:254)"۔

"اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد (کہیں) تمہیں اللہ کی یاد سے ہی غافل نہ کر دیں، اور جو شخص ایسا کرے گا تو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں (63:9)۔ اور تم اس (مال) میں سے جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو قبل اِس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے پھر وہ کہنے لگے: اے میرے رب! تو نے مجھے تھوڑی مدت تک کی مہلت اور کیوں نہ دے دی کہ میں صدقہ و خیرات کرلیتا اور نیکوکاروں میں سے ہو جاتا" (63:10)۔

18.2۔ ذرائع آمدنی کے مطابق صدقہ کے لئے بجٹ تیار کرنا

"اور اﷲ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور نیکی اختیار کرو، بیشک اﷲ نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے" (2:195)۔

18.3۔ صدقہ کھلے عام یا خفیہ طور پر دیا جا سکتا ہے

" اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو یا تم جو مَنّت بھی مانو تو اﷲ اسے یقینا جانتا ہے، اور ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہیں (2:270) اگر تم خیرات ظاہر کر کے دو تو یہ بھی اچھا ہے (اس سے دوسروں کو ترغیب ہوگی)، اور اگر تم انہیں مخفی رکھو اور وہ محتاجوں کو پہنچا دو تو یہ تمہارے لئے (اور) بہتر ہے، اور اﷲ (اس خیرات کی وجہ سے) تمہارے کچھ گناہوں کو تم سے دور فرما دے گا، اور اﷲ تمہارے اعمال سے باخبر ہے (271)۔ ان کو ہدایت دینا آپ کے ذمہ نہیں بلکہ اﷲ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے، اور تم جو مال بھی خرچ کرو سو وہ تمہارے اپنے فائدے میں ہے، اور اﷲ کی رضاجوئی کے سوا تمہارا خرچ کرنا مناسب ہی نہیں ہے، اور تم جو مال بھی خرچ کرو گے (اس کا اجر) تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تم پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا"( 2:272)۔

"جو لوگ (اﷲ کی راہ میں) شب و روز اپنے مال پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں تو ان کے لئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور (روزِ قیامت) ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے" (2:274)۔

"اور جو لوگ اپنے رب کی رضاجوئی کے لئے صبر کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ (دونوں طرح) خرچ کرتے ہیں اور نیکی کے ذریعہ برائی کو دور کرتے رہتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت کا (حسین) گھر ہے"(13:22)۔

18.4۔ سائل کے جذبات کو چوٹ نہیں پہنچانا

‘‘جو لوگ اﷲ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں پھر اپنے خرچ کئے ہوئے کے پیچھے نہ احسان جتلاتے ہیں اور نہ اذیت دیتے ہیں ان کے لئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور (روزِ قیامت) ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے’’ (2:262)۔

"سائل سے) نرمی کے ساتھ گفتگو کرنا اور درگزر کرنا اس صدقہ سے کہیں بہتر ہے جس کے بعد (اس کی) دل آزاری ہو، اور اﷲ بے نیاز بڑا حلم والا ہے" (2:263)۔

"اے ایمان والو! اپنے صدقات (بعد ازاں) احسان جتا کر اور دُکھ دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کر لیا کرو جو مال لوگوں کے دکھانے کے لئے خرچ کرتا ہے اور نہ اﷲ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ روزِ قیامت پر، اس کی مثال ایک ایسے چکنے پتھر کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو پھر اس پر زوردار بارش ہو تو وہ اسے (پھر وہی) سخت اور صاف (پتھر) کر کے ہی چھوڑ دے، سو اپنی کمائی میں سے ان (ریاکاروں) کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا، اور اﷲ کافر قوم کو ہدایت نہیں فرماتا۔ (2:264)"۔

18۔5۔ دوسروں کی مدد کرتے ہوئے غلط احساسات کو نظرانداز کرنا

"اور تم میں سے (دینی) بزرگی والے اور (دنیوی) کشائش والے (اب) اس بات کی قَسم نہ کھائیں کہ وہ (اس بہتان کے جرم میں شریک) رشتہ داروں اور محتاجوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو (مالی امداد نہ) دیں گے انہیں چاہئے کہ (ان کا قصور) معاف کر دیں اور (ان کی غلطی سے) درگزر کریں، کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے، اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے" (24:22)۔

18.6۔ صدقے میں صرف اچھی چیزیں پیش کرنا

"اور (یہ بے زاری دیکھ کر مشرک) پیروکار کہیں گے: کاش! ہمیں (دنیا میں جانے کا) ایک موقع مل جائے تو ہم (بھی) ان سے بے زاری ظاہر کردیں جیسے انہوں نے (آج) ہم سے بے زاری ظاہر کی ہے، یوں اﷲ انہیں ان کے اپنے اعمال انہی پر حسرت بنا کر دکھائے گا، اور وہ (کسی صورت بھی) دوزخ سے نکلنے نہ پائیں گے"(2:267)۔

"تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو، اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو بیشک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے"(3:92)۔

18.7۔ لوگوں کی پیدائیشی لالچ اور خواہشات کا دروازہ بند کرنا

‘‘تمہارے مال اور تمہاری اولاد محض آزمائش ہی ہیں، اور اللہ کی بارگاہ میں بہت بڑا اجر ہے (64:15)۔ پس تم اللہ سے ڈرتے رہو جس قدر تم سے ہوسکے اور (اُس کے احکام) سنو اور اطاعت کرو اور (اس کی راہ میں) خرچ کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا، اور جو اپنے نفس کے بخل سے بچا لیا جائے سو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں(64:16)۔ اگر تم اللہ کو (اخلاص اور نیک نیتی سے) اچھا قرض دوگے تو وہ اسے تمہارے لئے کئی گنا بڑھا دے گا اور تمہیں بخش دے گا، اور اللہ بڑا قدر شناس ہے بُردبار ہے، (64:17)’’

‘‘اور جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اُس نے (اپنے) نفس کو (بری) خواہشات و شہوات سے باز رکھا (79:40)۔ تو بیشک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہوگا (79:41)’’۔

18.8۔ صدقہ حاصل کرنے والوں کے طبقات

‘‘بیشک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے’’ (9:60)۔

وضاحت:

1۔ نزول وحی کے اختتامی مرحلے میں نازل ہونے والی سورہ مائدہ کی مذکورہ بالا آیت میں ان تمام مسلمانوں پر صدقہ کو واجب قرار دیا گیا ہے جو اس کے اہل ہیں۔ اور بعد میں خلیفہ عمر نے زکوة  کی شکل میں اسے ایک قانونی شکل عطا کیا(باب 46)

2۔ زکوة فنڈ کی نگرانی کرنے والے عملہ کو لکھی گئی خلیفہ حضرت عمر کی ایک تحریری وضاحت کے مطابق آیت کے افتتاحی حصہ میں مذکور لفظ فقراء اور مسکین کا مطلب مسلم اور غیر مسلم ‘غریب اور ضرورت مند’ ہے 2۔ لہٰذا، اس  آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ  "صدقہ غریب (مسلمانوں) اور (کسی بھی دوسرے مذہب کے) مسکین لوگوں کے لیے ہے..........."

 اس آیت میں اسلام قبول کرنے والوں، اور اپنی آزادی خریدنے کے لئے غلاموں کو بھی صدقہ دینے کا مطالبہ کیا گیا ، اسلام قبول کرنے والے غلام اولالذکر زمرے میں شامل ہیں۔ لہذا، اپنی آزادی خریدنے کے لئے صدقہ دیئے جانے والے غلاموں میں غیر مسلم غلام بھی شامل ہوں گے۔

18.9۔ قرآن بھیک مانگنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے

"خیرات) ان فقراءکا حق ہے جو اﷲ کی راہ میں (کسبِ معاش سے) روک دیئے گئے ہیں وہ (امورِ دین میں ہمہ وقت مشغول رہنے کے باعث) زمین میں چل پھر بھی نہیں سکتے ان کے (زُھداً) طمع سے باز رہنے کے باعث نادان (جو ان کے حال سے بے خبر ہے) انہیں مالدار سمجھے ہوئے ہے، تم انہیں ان کی صورت سے پہچان لو گے، وہ لوگوں سے بالکل سوال ہی نہیں کرتے کہ کہیں (مخلوق کے سامنے) گڑگڑانا نہ پڑے، اور تم جو مال بھی خرچ کرو تو بیشک اﷲ اسے خوب جانتا ہے"۔ (2:273)۔

اس آیت سے بھیک مانگنے کی بالعموم ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ تاہم، قرآن اپنے وسیع تر پیغام میں قدرتی آفات بلیات کی صورت میں میں مدد کے لئے ہاتھ پھیلانے سے متاثرین کو نہیں روکتا ہے۔

URL for English article: https://newageislam.com/books-documents/social-responsibility-spending-money-needy/d/103519

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/social-responsibility-spending-money-needy/d/103548

 

Loading..

Loading..