محمد یونس اور اشفاق اللہ سید
16 مئی 2015
قرآن فطرت کی خوبصورتی، اس کی ہم آہنگی اور وجودیاتی دلیل کے طور پر زندگی کے ساتھ اس کے تعلقات پر روشنی ڈالنے والی ایک زندہ و تابندہ کتاب ہے۔ قرآن کے اندر ان مظاہر فطرت کا ذکر بیانات کی شکل میں ہے جن میں اس طرح وسیع پیمانے پر واضح انداز میں کائنات کے قوانین کا احاطہ کیا گیا ہے کہ جس کی خوبصورتی، حسن، سر و اسرار اور کمالات ہماری توجہ کو اپنی طرف مبذول کر لیتے ہیں اور ہمیں اپنا گرویدہ بنا لیتے ہیں۔ لہذا مثال کے طور پر، مندرجہ ذیل قرآنی آیتیں خوبصورت اور تصوراتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان میں اجرام فلکی کے محوری اور مقناطیسی تعلقات کی واضح طور پر نشاندہی کی گئی ہے، جنہیں سائنس کئی صدیوں کے بعد دریافت کرنے میں کامیاب ہو سکی۔
• رات کو دن میں اور دن کو رات میں (یولج) کھپا دینا (31:29)1۔
• رات کو دن اور دن کو رات پر لپیٹ دینا (39:5)۔
• رات اور دن اور سورج اور چاند میں سے ہر ایک کا اپنے اپنے مدار میں تیرنا (21:33)2۔
مذکورہ بالا سمیت دیگر متعدد آیتوں کو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے تاکہ اس موضوع پر قرآنی موقف کا ایک وسیع جائزہ لیا جا سکے۔
4.1. اجرام فلکی کا اپنے مدار میں گردش کرنا
"بیشک تمہارا رب اﷲ ہے جس نے آسمانوں اور زمین (کی کائنات) کو چھ مدتوں (یعنی چھ اَدوار) میں پیدا فرمایا پھر (اپنی شان کے مطابق) عرش پر استواء (یعنی اس کائنات میں اپنے حکم و اقتدار کے نظام کا اجراء) فرمایا۔ وہی رات سے دن کو ڈھانک دیتا ہے (درآنحالیکہ دن رات میں سے) ہر ایک دوسرے کے تعاقب میں تیزی سے لگا رہتا ہے اور سورج اور چاند اور ستارے (سب) اسی کے حکم (سے ایک نظام) کے پابند بنا دیئے گئے ہیں۔ خبردار! (ہر چیز کی) تخلیق اور حکم و تدبیر کا نظام چلانا اسی کا کام ہے۔ اﷲ بڑی برکت والا ہے جو تمام جہانوں کی (تدریجاً) پرورش فرمانے والا ہے"(7:54)۔
"اور اس نے تمہارے فائدہ کے لئے سورج اور چاند کو (باقاعدہ ایک نظام کا) مطیع بنا دیا جو ہمیشہ (اپنے اپنے مدار میں) گردش کرتے رہتے ہیں، اور تمہارے (نظامِ حیات کے) لئے رات اور دن کو بھی (ایک نظام کے) تابع کر دیا" (14:33)۔
‘‘اور وہی (اﷲ) ہے جس نے رات اور دن کو پیدا کیا اور سورج اور چاند کو (بھی)، تمام (آسمانی کرّے) اپنے اپنے مدار کے اندر تیزی سے تیرتے چلے جاتے ہیں’’ (21:33)۔
"کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اﷲ رات کو دن میں داخل فرماتا ہے اور دن کو رات میں داخل فرماتا ہے اور (اسی نے) سورج اور چاند کو مسخّر کر رکھا ہے، ہر کوئی ایک مقرّر میعاد تک چل رہا ہے، اور یہ کہ اﷲ ان (تمام) کاموں سے جو تم کرتے ہو خبردار ہے (31:29) "۔
"اُس نے آسمانوں اور زمین کو صحیح تدبیر کے ساتھ پیدا فرمایا۔ وہ رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے اور اسی نے سورج اور چاند کو (ایک نظام میں) مسخّر کر رکھا ہے، ہر ایک (ستارہ اور سیّارہ) مقرّر وقت کی حد تک (اپنے مدار میں) چلتا ہے، خبردار! وہی (پورے نظام پر) غالب، بڑا بخشنے والا ہے"(39:5)۔
4.2. تخلیق ارض و سماء
‘‘بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کی گردش میں اور ان جہازوں (اور کشتیوں) میں جو سمندر میں لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیزیں اٹھا کر چلتی ہیں اور اس (بارش) کے پانی میں جسے اﷲ آسمان کی طرف سے اتارتا ہے پھر اس کے ذریعے زمین کو مُردہ ہو جانے کے بعد زندہ کرتا ہے (وہ زمین) جس میں اس نے ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے ہیں اور ہواؤں کے رُخ بدلنے میں اور اس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان (حکمِ الٰہی کا) پابند (ہو کر چلتا) ہے (ان میں) عقلمندوں کے لئے (قدرتِ الٰہی کی بہت سی) نشانیاں ہیں’’ (2:164)۔
"اور اﷲ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستون کے (خلا میں) بلند فرمایا (جیسا کہ) تم دیکھ رہے ہو پھر (پوری کائنات پر محیط اپنے) تختِ اقتدار پر متمکن ہوا اور اس نے سورج اور چاند کو نظام کا پابند بنا دیا، ہر ایک اپنی مقررہ میعاد (میں مسافت مکمل کرنے) کے لئے (اپنے اپنے مدار میں) چلتا ہے۔ وہی (ساری کائنات کے) پورے نظام کی تدبیر فرماتا ہے، (سب) نشانیوں (یا قوانینِ فطرت) کو تفصیلاً واضح فرماتا ہے تاکہ تم اپنے رب کے روبرو حاضر ہونے کا یقین کر لو (13:2)"۔
"اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا، اور ہم نے (زمین پر) پیکرِ حیات (کی زندگی) کی نمود پانی سے کی، تو کیا وہ (قرآن کے بیان کردہ اِن حقائق سے آگاہ ہو کر بھی) ایمان نہیں لاتے (21:30) " ۔
4.3. زمین کی جغرافیائی حالت
"اس نے آسمان کی جانب سے پانی اتارا تو وادیاں اپنی (اپنی) گنجائش کے مطابق بہہ نکلیں، پھر سیلاب کی رَو نے ابھرا ہوا جھاگ اٹھا لیا، اور جن چیزوں کو آگ میں تپاتے ہیں، زیور یا دوسرا سامان بنانے کے لئے اس پر بھی ویسا ہی جھاگ اٹھتا ہے، اس طرح اﷲ حق اور باطل کی مثالیں بیان فرماتا ہے، سو جھاگ تو (پانی والا ہو یا آگ والا سب) بے کار ہو کر رہ جاتا ہے اور البتہ جو کچھ لوگوں کے لئے نفع بخش ہوتا ہے وہ زمین میں باقی رہتا ہے، اﷲ اس طرح مثالیں بیان فرماتا ہے (13:17) "۔
"بلکہ وہ کون ہے جس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور اس کے درمیان نہریں بنائیں اور اس کے لئے بھاری پہاڑ بنائے۔ اور (کھاری اور شیریں) دو سمندروں کے درمیان آڑ بنائی؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی) معبود ہے؟ بلکہ ان (کفار) میں سے اکثر لوگ بے علم ہیں"(27:61)۔
"اس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بنایا (جیسا کہ) تم انہیں دیکھ رہے ہو اور اس نے زمین میں اونچے مضبوط پہاڑ رکھ دیئے تاکہ تمہیں لے کر (دورانِ گردش) نہ کانپے اور اُس نے اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا اور ہم نے اس میں ہر قسم کی عمدہ و مفید نباتات اگا دیں"(31:10)۔
4.4. ہوا، بارش اور پانی کا دوران
"اور وہی ہے جو اپنی رحمت (یعنی بارش) سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ (ہوائیں) بھاری بھاری بادلوں کو اٹھا لاتی ہیں تو ہم ان (بادلوں) کو کسی مردہ (یعنی بے آب و گیاہ) شہر کی طرف ہانک دیتے ہیں پھر ہم اس (بادل) سے پانی برساتے ہیں پھر ہم اس (پانی) کے ذریعے (زمین سے) ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں۔ اسی طرح ہم (روزِ قیامت) مُردوں کو (قبروں سے) نکالیں گے تاکہ تم نصیحت قبول کرو" (7:57)۔
"کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ ہی بادل کو (پہلے) آہستہ آہستہ چلاتا ہے پھر اس (کے مختلف ٹکڑوں) کو آپس میں ملا دیتا ہے پھر اسے تہ بہ تہ بنا دیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے درمیان خالی جگہوں سے بارش نکل کر برستی ہے، اور وہ اسی آسمان (یعنی فضا) میں برفانی پہاڑوں کی طرح (دکھائی دینے والے) بادلوں میں سے اولے برساتا ہے، پھر جس پر چاہتا ہے ان اولوں کو گراتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ان کو پھیر دیتا ہے (مزید یہ کہ انہی بادلوں سے بجلی بھی پیدا کرتا ہے)، یوں لگتا ہے کہ اس (بادل) کی بجلی کی چمک آنکھوں (کو خیرہ کر کے ان) کی بینائی اچک لے جائے گی"(24:43)۔
4.5. عالم نباتات اور حیوانات
"اور وہی ہے جس نے آسمان کی طرف سے پانی اتارا پھر ہم نے اس (بارش) سے ہر قسم کی روئیدگی نکالی پھر ہم نے اس سے سرسبز (کھیتی) نکالی جس سے ہم اوپر تلے پیوستہ دانے نکالتے ہیں اور کھجور کے گابھے سے لٹکتے ہوئے گچھے اور انگوروں کے باغات اور زیتون اور انار (بھی پیدا کئے جو کئی اعتبارات سے) آپس میں ایک جیسے (لگتے) ہیں اور (پھل، ذائقے اور تاثیرات) جداگانہ ہیں۔ تم درخت کے پھل کی طرف دیکھو جب وہ پھل لائے اور اس کے پکنے کو (بھی دیکھو)، بیشک ان میں ایمان رکھنے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں (6:99) "۔
"اور وہی ہے جس نے (فضا و بر کے علاوہ) بحر (یعنی دریاؤں اور سمندروں) کو بھی مسخر فرما دیا تاکہ تم اس میں سے تازہ (و پسندیدہ) گوشت کھاؤ اور تم اس میں سے موتی (وغیرہ) نکالو جنہیں تم زیبائش کے لئے پہنتے ہو، اور (اے انسان!) تُو کشتیوں (اور جہازوں) کو دیکھتا ہے جو (دریاؤں اور سمندروں کا) پانی چیرتے ہوئے اس میں چلے جاتے ہیں، اور (یہ سب کچھ اس لئے کیا) تاکہ تم (دور دور تک) اس کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرو اور یہ کہ تم شکر گزار بن جاؤ"(16:14)۔
"کیا انہوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو آسمان کی ہوا میں (قانونِ حرکت و پرواز کے) پابند (ہو کر اڑتے رہتے) ہیں، انہیں اللہ کے (قانون کے) سوا کوئی چیز تھامے ہوئے نہیں ہے۔ بیشک اس (پرواز کے اصول) میں ایمان والوں کے لئے نشانیاں ہیں(16:79) "۔
"اور اُس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش ہے اور اُن چلنے والے (جانداروں) کا (پیدا کرنا) بھی جو اُس نے اِن میں پھیلا دیئے ہیں، اور وہ اِن (سب) کے جمع کرنے پر بھی جب چاہے گا بڑا قادر ہے" (42:29)۔
4.6. خدا نے ہر چیز کی تخلیق جوڑے میں کی ہے
"اور وہی ہے جس نے (گولائی کے باوجود) زمین کو پھیلایا اور اس میں پہاڑ اور دریا بنائے، اور ہر قسم کے پھلوں میں (بھی) اس نے دو دو (جنسوں کے) جوڑے بنائے (وہی) رات سے دن کو ڈھانک لیتا ہے، بیشک اس میں تفکر کرنے والوں کے لئے (بہت) نشانیاں ہیں"(13:3)۔
"پاک ہے وہ ذات جس نے سب چیزوں کے جوڑے پیدا کئے، ان سے (بھی) جنہیں زمین اگاتی ہے اور خود اُن کی جانوں سے بھی اور (مزید) ان چیزوں سے بھی جنہیں وہ نہیں جانتے "۔ (36:36)
‘‘آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود میں لانے والا ہے، اسی نے تمہارے لئے تمہاری جنسوں سے جوڑے بنائے اور چوپایوں کے بھی جوڑے بنائے اور تمہیں اسی (جوڑوں کی تدبیر) سے پھیلاتا ہے، اُس کے مانند کوئی چیز نہیں ہے اور وہی سننے والا دیکھنے والا ہے’’ ((42:11۔
"اور ہم نے ہر چیز سے دو جوڑے پیدا فرمائے تاکہ تم دھیان کرو اور سمجھو "(51:49)۔
4.7. انسانی علم الجنین
قرآن میں ایک یا زائد جنینی مراحل سے گزر کر عورتوں کے اندر تولیدی عمل کا ذکر ہے۔ ان آیات کے معانی و مطالب اور مضمرات بالکل واضح اور باصول ہیں جن کی تفصیل دو مراحل میں کی جا سکتی ہے۔ (1) انسان کی تخلیق مادہ منویہ کی ایک بوند سے کی گئی ہے3، جو کہ ایک محفوظ اور ساکن جگہ میں موجود ہے،4 جو پہلے ایک بستہ خون میں تبدیل ہوتا ہے (22:5, 23:14)، اس کے بعد گوشت کا ایک لوتھڑا بنتا ہے (22:5)، 5اس کے بعد ہٹیوں کی تشکیل ہوتی ہے، اور آخر میں اس پر صاف گوشت کا لباس چڑھایا جاتا ہے(23:14)۔ (2) اس (خدا) نے تم سب کو ایک حیاتیاتی خلیہ سے پیدا فرمایا پھر اس سے اسی جیسا جوڑ بنایا پھر اس نے تمہارے لئے آٹھ جاندار جانور مہیا کئے، وہ تمہاری ماؤں کے رحموں میں ایک تخلیقی مرحلہ سے اگلے تخلیقی مرحلہ میں ترتیب کے ساتھ تمہاری تشکیل کرتا ہے6 (اس عمل کو) تین قِسم کے تاریک پردوں میں (مکمل فرماتا ہے) (39:6)۔
‘‘اور اگر آپ دیکھیں (تو ان پر تعجب کریں) کہ جب مُجرِم لوگ اپنے رب کے حضور سر جھکائے ہوں گے اور (کہیں گے:) اے ہمارے رب! ہم نے دیکھ لیا اور ہم نے سُن لیا، پس (اب) ہمیں (دنیا میں) واپس لوٹا دے کہ ہم نیک عمل کر لیں بیشک ہم یقین کرنے والے ہیں (23:12)، اور اگر ہم چاہتے تو ہم ہر نفس کو اس کی ہدایت (اَز خود ہی) عطا کر دیتے لیکن میری طرف سے (یہ) فرمان ثابت ہو چکا ہے کہ میں ضرور سب (مُنکر) جنّات اور انسانوں سے دوزخ کو بھر دوں گا (13)، پس (اب) تم مزہ چکھو کہ تم نے اپنے اس دن کی پیشی کو بھلا رکھا تھا، بیشک ہم نے تم کو بھلا دیا ہے اور اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم کرتے رہے تھے دائمی عذاب چکھتے رہو (23:14) "۔
‘‘اے لوگو! اگر تمہیں (مرنے کے بعد) جی اٹھنے میں شک ہے تو (اپنی تخلیق و ارتقاء پر غور کرو) کہ ہم نے تمہاری تخلیق (کی کیمیائی ابتداء) مٹی سے کی پھر (حیاتیاتی ابتداء) ایک تولیدی قطرہ سے پھر (رِحمِ مادر کے اندر جونک کی صورت میں) معلق وجود سے پھر ایک (ایسے) لوتھڑے سے جو دانتوں سے چبایا ہوا لگتا ہے، جس میں بعض اعضاء کی ابتدائی تخلیق نمایاں ہو چکی ہے اور بعض (اعضاء) کی تخلیق ابھی عمل میں نہیں آئی تاکہ ہم تمہارے لئے (اپنی قدرت اور اپنے کلام کی حقانیت) ظاہر کر دیں، اور ہم جسے چاہتے ہیں رحموں میں مقررہ مدت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں پھر ہم تمہیں بچہ بنا کر نکالتے ہیں، پھر (تمہاری پرورش کرتے ہیں) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچ جاؤ، اور تم میں سے وہ بھی ہیں جو (جلد) وفات پا جاتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو نہایت ناکارہ عمر تک لوٹائے جاتے ہیں تاکہ وہ (شخص یہ منظر بھی دیکھ لے کہ) سب کچھ جان لینے کے بعد (اب پھر) کچھ (بھی) نہیں جانتا، اور تو زمین کو بالکل خشک (مُردہ) دیکھتا ہے پھر جب ہم اس پر پانی برسا دیتے ہیں تو اس میں تازگی و شادابی کی جنبش آجاتی ہے اور وہ پھولنے بڑھنے لگتی ہے اور خوش نما نباتات میں سے ہر نوع کے جوڑے اگاتی ہے’’ (22:5)۔
‘‘اس نے تمہارے لئے آٹھ جاندار جانور مہیا کئے، وہ تمہاری ماؤں کے رحموں میں ایک تخلیقی مرحلہ سے اگلے تخلیقی مرحلہ میں ترتیب کے ساتھ تمہاری تشکیل کرتا ہے (اس عمل کو) تین قِسم کے تاریک پردوں میں (مکمل فرماتا ہے)’’ (39:6)
تازہ ترین سائنسی علوم کے ساتھ قرآن کی مطابق ظاہر کرنے کے لئے مزید کوئی تفصیل تکنیکی ہوگی اور اس پر مزید لب کشائی موضوع کو خلط مبحث کا شکار کے متاردف ہوگا، بلکہ اس سلسلے میں ایک عظیم فرانسیسی سرجن میورائس بیوسیلے (Maurice Bucaille) کا حوالہ پیش کرنا ہی کافی ہو گا۔ حوالہ: 7
"جنین کے ارتقاء کے حوالے سے قرآن میں بعض مراحل کا ذکر اس کے متعلق ہمارے علم کے بالکل مطابق ہے، اور قرآن مجید میں اس حوالے سے ایک بھی بیان ایسا موجود نہیں جس پر جدید سائنس کو تنقید کرنے کی مجال ہو۔"
4.8. فطرت کے وہ اسرار جن کا انکشاف حالیہ زمانوں میں کیا گیا ہے
قرآن میں فطرت کے ان متنوع اور پراسرار مظاہر کا بھی وافر حوالہ موجود ہے جن کا انکشاف مختلف شعبوں میں جدید سائنس کی ترقی کے بعد حالیہ ادوار میں کیا گیا ہے۔ لہٰذا، یہ آیتیں اپنی نوعیت کے اعتبار سے انتہائی تکنیکی ہیں اور ان کی معنویت کو سمجھنے کے لیے سائنسی علوم میں مہارت درکار ہے:-
• وقت کی اضافیت: خلا میں ایک 'دن' ایک ہزار سال8، یا پچاس ہزار سال کے مساوی ہو سکتا ہے۔9
• زیادہ اونچائی پر خلاء میں آکسیجن کی کمی۔10
• رحم مادر میں ریش کی تین تہیں جنین کو اپنے اندر سمیٹے ہوتی ہیں۔11
• ارتقاء حمل کے ساتھ ساتھ عورت کے رحم میں جنین کا پروان چڑھنا۔ 12
• انسانوں کی انگلیوں کے نشانات کی انفرادیت ۔13
• کچھ خاص پودوں کی نشو نماء میں ہوا کا کردار ۔14
• میٹھے اور نمکین پانی کے درمیان 'رکاوٹ'۔15
• ایک ہی کمیت سے تخلیق کائنات، 16 اور پانی سے تمام زندہ اجسام کا ارتقا۔17
• کائنات ہمہ تن وسعت اختیار کر رہی ہے۔18
• سمندری اور خلائی دنیا کو مسخر کرنے کی انسان کی صلاحیت۔ 19
• انسانی درد کو وصول کرنے والے اس کی جلد میں ہیں۔20
• گناہ کا ارتکاب کرنے اور جھوٹ بولنے کے لیے ذمہ دار انسان کے دماغ کا اگلا حصہ ہے۔21
• سمندر کی گہرائیوں میں ایسی درجہ بند تاریکیاں ہیں کہ جس کی وجہ سے سمندر کی گہرائی میں اتنی گہری اور سخت تاریکی پیدا ہوتی ہے کہ انسان خود اپنا ہاتھ بھی نہیں دیکھ سکتا۔22
• شہد کا چھتہ تیار کرنے میں صرف مادہ مکھیوں کی شرکت۔ 23
• تمام جانوروں اور زندہ مخلوقات میں برادریوں کا وجود۔24
دریائے نیل میں انفجار کے ذریعہ فرعون کی لاش کا تحفظ25، 19ویں صدی کے اوآخر میں محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعہ اجساد کی دریافت تک اس کا محفوظ رہنا، فرعون کے بارے میں یہ جانا جاتا تھا کہ وہ مر کر تباہ و برباد ہو گیا تھا۔26
4.9. خلاصہ
مختلف ذیلی عنوانات کے تحت مذکورہ بالا قرآنی آیات سے واضح طور پر مظاہر فطرت کے ساتھ قرآن کی غیر معمولی مطابقت اور توافق کا پتہ چلاتا ہے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) یا اس دور میں کسی بھی شخص کے پاس، کسی بھی روایت اور شخصیت کے کسی بھی حوالے کے بغیر دو دہائیوں سے زیادہ تک فطرت کے مختلف پہلوؤں کا بدیہی طور پر اظہار کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ اور اس سے قرآن میں موجود غیر معمولی حقائق و معارف کی عکاسی ہوتی ہے۔
حوالہ جات:-
1۔ 35:13۔
2۔ 36:40۔
3۔ 35:11، 40:67، 53:46، 75:37، 76:2، 80:19۔
4۔ 23:13، 77:21۔
5۔ 40:67، 96:2۔
6۔ 75:38، 82:7۔
7۔ Maurice Bucaille, The Bible, The Qur’an and Science, 5th edition, Paris 1988, English translation, p. 218۔
8۔ 32:5۔
9۔ 70:4۔
10۔ 6:125۔
11۔ 39:6۔
12۔ 23:14۔
13۔ 75:4۔
14۔ 15:22۔
15۔ 25:53، 27:61، 55:19۔
16۔ 21:30۔
17۔ 21:30، 24:45۔
18۔ 51:47۔
19۔ 55:33۔
20۔ 4:56۔
21۔ 96:16۔
22۔ 24:40۔
23۔ 16:68، مزید وضاحت کے لئے دیکھیں،جیفری لینگ، ‘‘Struggling to Surrender’’ دوسرا نظر ثانی شدہ ایڈیشن، میری لینڈ، 1998، صفحہ 35۔
24۔ 6:38۔
25۔ 10:92۔
26۔ The Bible, Exodus 14.28۔
URL for English article: https://newageislam.com/books-documents/qur’anic-reflections-nature-chapter-4,/d/102994
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/qur’anic-reflections-nature-/d/103098