محمد یونس اور اشفاق اللہ سید
11 اگست 2015
(مصنفین اور ناشرین کی اجازت کے ساتھ نیو ایج اسلام کی خصوصی اشاعت)
28.1. انسانیت کے لئے لباس کی اہمیت
ایک مکی آیت میں قرآن نے لباس کی اہمیت و افادیت کا ذکر کیا ہے:
"اے اولادِ آدم! بیشک ہم نے تمہارے لئے (ایسا) لباس اتارا ہے جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپائے اور (تمہیں) زینت بخشے اور (اس ظاہری لباس کے ساتھ ایک باطنی لباس بھی اتارا ہے اور وہی) تقوٰی کا لباس ہی بہتر ہے۔ یہ (ظاہر و باطن کے لباس سب) اﷲ کی نشانیاں ہیں تاکہ وہ نصیحت قبول کریں (7:26)"۔
قرآن نے اس کی توضیح ایک طویل اور مخفی مدنی آیت میں کی ہے (24:30/31)، جس میں مومن مردوں اور عورتوں دونوں کو ان کی نگاہیں نیچے رکھنے اور شرمگاہوں کو ڈھکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس آیت میں عورتوں کو ‘ان کے سینوں پر دوپٹے’ رکھنے کا بھی حکم دیا گیا ہے اور انہیں بدن کا وہی عضو ظاہر کرنے کی اجازت دی گئی ہے جو عام حالات میں ظاہر ہوتے ہیں، اور خاندان کے محرم افراد کے علاوہ انہیں اپنی زینت کو ظاہر کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے، اور انہیں اشتعال انگیز انداز میں چلنے سے بھی روکا گیا ہے۔ ان احکام کی بھرپور ترجمانی آیت کے معنیٰ کے بعد مندرجہ ذیل تفسیر میں کی جائے گی جو کہ لفظ زینت کی صحیح معنی کے ساتھ مشروط ہوگی۔
"آپ مومن مَردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کے لئے بڑی پاکیزہ بات ہے۔ بیشک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیں (24:30)۔
اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کم سِنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنٰی ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حکمِ شریعت سے) پوشیدہ کئے ہوئے ہیں، اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ (24:31)۔
28.2. خواتین کے معیار لباس کے متعلق قدامت پسند نظریہ
قدامت پسند علماء کرام نے لفظ زینت کی تشریح زیورات، اور خواتین کے ایسے لباس سے کی ہے جو وہ دوسروں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے پہنتی ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ خواتین اپنی گردن،اپنے کانوں، اپنے بازو اور ہاتھوں پر زیورات پہنتی ہیں لہٰذا، جسم کے ان تمام حصوں کا پردہ کیا جانا ضروری ہے اور اس طرح وہ سر سے لیکر پپاؤں تک کے پردے کا قول کرتے ہیں۔1 وہ اپنی اس دلیل کا انحصار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر کرتے ہیں کہ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بہن عاصمہ سے کہا تھا کہ ایک نوجون لڑکی کے چہرے اور ہتھیلی کے علاوہ جسم کا کوئی اور حصہ نہیں نظر آنا چاہیے۔2 لیکن (اول) اس حدیث کے راوی ابو داؤد نے خود اس روایت کو کمزور کہا ہے، (دوم) اس حدیث کی روایات بخاری اور مسلم جیسے پہلے کے ائمہ نے نہیں کی ہے، (سوم) اس حدیث میں اتنے کپڑے کو ضروری قرار دیا گیا ہے جو کہ اس زمانے میں پائی جانے والی کپڑوں کی قلت کے پیش نظر بہت زیادہ ہے، جس کا اشارہ بے شمار احادیث میں ملتا ہے، اور اس زمانے میں مرد اور عورت ایک بغیر سلے کپڑے کو بدن پر لپیٹتے تھے۔ مذکورہ آیت کی کلاسیکی تشریح کی تائید میں پیش کی جانے والی یہ حدیث قابل اعتراض ہے۔ لہذا، زینت کا معنیٰ بیرونی زیور جو کہ کلاسیکی تشریح کی بنیاد فراہم کرتیا ہے، کمزور اور غیر مستحکم ہے۔
28.3. قرآنی حکم کے متن کا تجزیہ (24:31)
اس آیت میں مذکور اہم الفاظ اور جملوں کی تشریح ذیل میں پیش کی جاتی ہے۔
1۔ زینت: قرآن میں کثرت سے لفظ زینت کا استعمال دنیاوی زندگی کی طرح خدا کے تحفے، انسان کی کشش، جنس مخالف کے لئے محبت کے احساس اور ہر قسم کی خوبصورت چیزوں کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ قیاس کی بنیاد پر مندرجہ بالا آیت میں لفظ زینت سے مراد ایسی کوئی خوبصورت اور پر کشش چیز ہونی چاہیے جو خدا نے ایک عورت کو تحفے میں دیا ہے، اور یہ صرف اس کی 'جسمانی' کشش اور خوبصورتی ہی ہو سکتی ہے، نہ کہ وہ زیورات جو وہ پہنتی ہو یا نہ پہنتی ہوں۔ لہٰذ، اس نتیجے کی صراحت خاندان کے مرد اراکین کی موجودگی، (جنسی) خواہش نہ رکھنے والے مرد خادم کی موجودگی میں اور خواتین کی جنسیت سے ناواقف بچوں کی موجودگی میں جسم کی معمولی نمائش کی اجازت سے ملتی ہےاگر زینت سے مراد زیورات ہوتے تو یہ ہدایات بے معنی ہو جاتے اس لیے کہ :
• اس سے گھر کی خواتین (بہن، بیوی، ماں، چاچی وغیرہ) اپنے زیورات چھپاتی ہیں یا ظاہر کرتی ہیں، ایک گھر کے کسی مرد رکن کے لئے عملی طور پر یہ بات غیر اہم ہو جائے گی۔ اس حکم کا کوئی معنیٰ یا مطلب تبھی بنے گا جب زینت سے مراد جسمانی کشش اور خوبصورتی لی جائے، روز مرہ کی زندگی میں جس کے بے نقاب ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
• زینت سے مراد زیورات ہوتے تو حکم مرد ملازمین اور بچوں سے بھی اسے چھپانے کا ہوتا اس لیے کہ یہ دونوں اس کی کشش کی طرف متوجہ ہو سکتے ہیں۔ اس حکم کا کوئی معنیٰ یا مطلب تبھی بنے گا جب زینت سے مراد جسمانی کشش اور خوبصورتی لی جائے گی جس کی طرف ان دونوں میں سے کوئی متوجہ نہیں ہوں گے۔
• 2۔ 'ان میں سے جو ظاہر ہے': محمد اسد نے کہا ہےکہ ‘قفل’ کا ترجمہ یہ کیاجانا ‘‘کہ ایک انسان مروجہ روایت کے مطابق جو ظاہر کر سکتا ہے’’ واضح طور پر حیا اور شرافت کی قرآنی روح کے مطابق ہے۔
• ‘‘اپنے سینوں پر ڈوپٹہ رکھنا’’۔ محمد اسد سمیت بہت سے علماء کرام اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ قبل از اسلام عرب میں اپنے سینوں پر کپڑے نہ رکھنا بیشتر خواتین کا معمول تھا'۔ اور یہ ایک ایسا معمول تھا کہ جس کی دو وجہیں تھیں (اول) کپڑوں کی کمی (دوم) جنسیت کے تئیں کافروں کا اطمینان بخش رویہ۔ لہذا، خواتین کو صرف جسم کے اوپری حصے پر چادر ڈالنے کی ہدایت دی گئی۔
• ‘اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے’: اس زمانے میں جب کہ معاشرے میں کپڑوں کی قلت ہوتی تھی اور خواتین صرف ایک ٹکڑے کپڑے کو اپنے جسم پر لپیٹ کر اپنے جسم کا پردہ کیا کرتی تھیں بہت کم زیورات پہنتی تھیں، اس آیت میں ان خواتین کو اس انداز میں چلنے سے منع کیا ہے جس سے اشتعال انگیزی ہو اور ان کی زینت ظاہر ہو۔ اس کے آفاقی تناظر میں،جسم کو مناسب انداز میں ڈھانپنے کے علاوہ یہ ایک اشتعال انگیز چال اختیار کرنے کے خلاف خواتین کے لئے ایک عام ہدایات ہے۔
28.4. حیاء اور شرافت پر قرآن کے آفاقی رہنما خطوط
آیات 7:26 اور 24:30 کی واضح ہدایت کی روشنی اور آیت 24:31 کے متن کے تجزیہ سے جیسا کہ اوپر مذکور ہے، یہ امر واضح ہے کہ قرآن عوامی مقامات پر مردوں اور عورتوں دونوں کو اپنی نظریں جھکائے رکھنے اور اپنی شرمگاہوں کا پردہ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن جسمانی اعضا کو ظاہر کرنے والے لباس پہن کر مردوں کو مشتعل کرنے کی عورتوں کی فطری طاقت کو ملحوذ خاطر رکھتا ہے، اس وجہ سے قرآن عورتوں کو شرم و حیا کے ساتھ، مروجہ رسم و رواج کے مطابق کپڑے پہننے اور غیر اشتعال انگیز انداز میں رہنے کا حکم دیتا ہے۔ سر سے پاؤں تکڈھکنے والے کسی خارجی نقاب کا اہتمام کرنےاور جنسیی بنیاد پر علیحدہ رہنے کی قرآن میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔
خواتین کو ان کے قریبی رشتہ داروں مثلاً ان کے باپ، سسر، بھائیوں، بھتیجوں، بچوں اور ضعیف مرد ملازموں کے ساتھ ان کی مشترکہ رہائش کی سہولت کے لئے تھوڑی 'رعایت' بھی دی گئی ہے۔
28.5. قرآن بزرگ خواتین کو رعایت دیتا ہے
"اور وہ بوڑھی خانہ نشین عورتیں جنہیں (اب) نکاح کی خواہش نہیں رہی ان پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنے (اوپر سے ڈھانپنے والے اضافی) کپڑے اتار لیں بشرطیکہ وہ (بھی) اپنی آرائش کو ظاہر کرنے والی نہ بنیں، اور اگر وہ (مزید) پرہیزگاری اختیار کریں (یعنی زائد اوڑھنے والے کپڑے بھی نہ اتاریں) تو ان کے لئے بہتر ہے، اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے (24:60)۔
تاریخی تناظر میں، دنیا کے بیشتر حصوں میں عام لوگوں کے پاس بمشکل ہی اس کے علاوہ کوئی اور کپڑٖا ہوتا تھا جو وہ پہنے ہوئے ہیں، اور وہ مشترکہ حمام خانے کا استعمال باحجاب انداز میں کرتے تھے۔ یہ آیت ان عمر رسیدہ خواتین کے ساتھ نرمی برتتی ہے جن کے اندر فطری طور پر جسمانی خواہشات کے امکانات کم ہو گئے ہوں، اپنے روز مرہ کے کام کاج کر سکتی ہیں اور ان پر ن کی جسمانی زیب و زینت کے دکھاوے کا الزام بھی نہیں لگایا سکتا۔
28.6. پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات اور دیگر مسلم خواتین کے لئے لباس پہننے کے رہنما اصول
ایک واضح آیت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ازواج مطہرات، صاحبزادیوں اور دوسری مسلم خواتین کو اپنے چہروں کا پردہ کرنے کی حکم دیا گیا ہے تاکہ لوگ انہیں پہچان لیں اور انہیں کوئی نقصان نہ پہنچائیں (33:59)۔
‘‘اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے’’(33:59)۔
محمد اسد نے لکھا ہے کہ اس آیت میں ایک مخصوص زمانے کے ساتھ خاص پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ازواج مطہرات اور صاحبزادیوں کا حوالہ پیش کیا جانا، اوراس میں عمداًخفاء کا پایا جانا اور اس بات کی توضیح کا نہ ہونا کہ جسم کے کس حصے کا پردہ کیا جائے، اس بات کی ایک واضح علامت ہے کہ اس آیت میں عام اخلاقی ہدایات کا ذکر ہے۔
قدامت پسند علماء مسلم خواتین کے لئے سر سے پاؤں تک حجاب کی اپنی دلیل کو مضبوط بنانے کے لیے اس آیت کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔ لیکن قیاس کا یہ تقاضیٰ ہے کہ لباس پہننے کا یہ سخت طریقہ قبل از اسلام کے مسلم علماء کے ورثے کی عکاسی ہے۔
28.7. خواتین کے طریقہ لباس پر ماقبل اسلام ورثے کا اثر و رسوخ
اسلام کی آمد سے پہلے تک عملی طور پر تقریبا تمام اہم تہذیبوں میں خواتین مظلوم تھیں اور ان پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد تھیں، لہذا اسلام قبول کرنے والے (رومیوں اور یونانیوں سمیت) تمام عیسائیوں پارسیوں، مشرکوں اور ہندوؤں نے خواتین کے خلاف تصور اور رجحان کو اپنے متروکہ مذہب سے اخذ کر لیا تھا۔ اور لامحالہ شرم و حیاء سے متعلق قرآنی نصیحتوں کی ان کی تشریحات اس سے متاثر ہوئیں۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کے لیے مکمل حجاب اور گھر سے باہر مردوں سے ان کی علیحدگی سمیت عورتوں پر مختلف پابندیوں کے نفاذ کا رجحان پیدا ہوا۔ جو کہ ایک ایسی روایت ہے جسے بیزنطۃ کے یونانی عیسائیوں سے اخذ کیا گیا تھا جو اسی انداز میں اپنی عورتوں کو علیحدہ اور لمبے حجاب میں رکھتے تھے۔
URL for English article: https://newageislam.com/books-documents/bidding-good-forbidding-evil-essential/d/104232
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/on-personal-clothing-modesty;-essential/d/104286