New Age Islam
Thu Sep 19 2024, 06:37 AM

Urdu Section ( 10 Sept 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Law of Inheritance: Essential Message of Islam Chapter: 38 وراثت کا قانون: اسلام کا اصل پیغام

 

محمد یونس اور اشفاق اللہ سید

28 اگست 2015

(مصنفین اور ناشرین کی اجازت کے ساتھ نیو ایج اسلام پر خصوصی اشاعت)

قرآن مختلف خاندانی حالتوں کے تحت وراثت کی تقسیم کے لئے واضح قوانین اور ہدایات کا تعین کرتا ہے۔ یہ قوانین قانونی لب و لہجے میں ایک طویل صفحہ پر مشتمل دو آیتوں میں بیان کیے گئے ہیں(12-4:7، 4:33، 4:176) جسے پڑھنے اور سمجھنے میں عام قارئین کو مشکلیں اور پریشانیاں ہو سکتی ہیں۔ لہذا، ہم نے آسانی کے لیے ان قوانین کے مختلف عناصر کو آیتوں کے حوالے کے ساتھ، مختلف عناوین کے ساتھ پیش کیا ہے۔ بعض اہل علم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ موضوع قانونی نظم و ضبط سے متعلق ہے لہٰذا، اسے فقہاء کے لیے ہی چھوڑ دیا جانا چاہیے۔

38.1. وراثت کے متعلق قرآنی قوانین کی وسیع تر منطق اور توجیہات

وراثت کے متعلق قرآنی قوانین مندرجہ ذیل وجوہات پر مبنی ہیں:

         بیٹی، بیوی اور ایک ماں کی شکل میں ایک عورت کی میراث کو کسی بھی ابہام کے بغیر پوری وضاحت کے بیان کر دیا گیا ہے، تاکہ اس کی وراثت اور اس کے حقوق کو پوری طرح محفوظ کیا جا سکے، اور کسی بھی پدرانہ بدعنوانی سے اس کی حفاظت کی جائے (کاش! کہ آج ایسا کیا جاتا)

         ایک عورت کے مقابلے میں ایک بیٹا، ایک شوہر یا ایک بھائی کے طور پر وراثت میں ایک مرد کا زیادہ حصہ اس کے گھر والوں کے لئے اس کی مالی ذمہ داری کی وجہ سے ہے (4:34 / باب 33.6)

         ایک میت کی اولاد کے طور پر ماں اور باپ کا برابر کا حصہ ان میں سے ہر ایک کے لئے بڑھاپے کی برابر ضرورت کے لیے ہے۔

         بعض صورتوں میں ایک بیٹا، ایک بھائی اور ایک باپ کی شکل میں ایک مرد کا حصہ غیر معین ہے، لیکن اس کا تصفیہ کل میراث سے مخصوص حصے کی تخفیف کر کے کیا جا سکتا ہے۔

38.2. وراثت کے عام اصول و ضوابط

وراثت کے متعلق قرآنی قوانین میں مندرجہ ذیل اصول و ضوابط کار فرما ہیں:

         زندہ والدین، شریک حیات، اور بچوں کو براہ راست وارث کی حیثیت دی گئی ہے (4:7، 4:11، 4:12)۔

         اگر کوئی براہ راست وارث (والدین، شریک حیات یا بچے) نہ ہوں تو، موجودہ بھائیوں اور بہنوں کو میراث میں شامل کیا جائے گا (4:176)۔

         براہ راست وارث کی غیر موجودگی میں وراثت کا حقدار اخیافی بھائیوں اور اخیافی بہنوں کو بنایا جائے گا (4:12)۔

         اور اگر تقسیمِ (وراثت) کے موقع پر (غیر وارث) رشتہ دار اور یتیم اور محتاج موجود ہوں تو اس میں سے کچھ انہیں بھی دے دیا جائے (10-4:8)۔

         وراثت کی تقسیم بقایا جات، ٹیکس اور تمام معاملات کے تصفیہ کے بعد ہی کی جانی چاہیے (4:11، 4:12، اور 4:33)۔

38.3. زندہ بچ جانے والوں کے درمیان وراثت کی تقسیم

اگر والدین، شریک حیات، بیٹے اور بیٹیاں زندہ ہوں:

         ماں اور باپ میں سے ہر ایک کو میراث کا چھٹا حصہ ملےگا (4:11)۔

         بیوی کو اس کے شوہر کے ترکہ سے ایک آٹھواں ملے گا، جبکہ شوہر کو اس کی بیوی کے ترکہ کا چوتھا حصہ ملے گا (4:12)۔

         ہر بیٹے کو ہر بیٹی کے مقابلے میں دوگنا حصہ حاصل ہو گا، لیکن وارث اگر صرف ایک بیٹی کے علاوہ اور کوئی نہ ہو تو اسے وراثت کا نصف حصہ حاصل ہو گا (4:11)۔

         اگر بیٹیاں دو یا دو سے زیادہ ہوں اور کوئی بیٹا نہیں ہو تو ان کا مشترکہ حصہ وراثت کا دو تہائی ہے (4:11)۔

• اگر صرف ایک یا ایک سے زادہ بیٹے ہوں اور کوئی نہیں، تو والدین کے حصص دینے کے بعد انہیں یکساں طور پر ان کے درمیان تقسیم کر دیا جائے گا۔

اگر صرف والدین اور شریک حیات موجود ہوں اور ان کے علاوہ کوئی اولاد نہ ہو تو اس صورت میں جائداد کی تقسیم:

         بیوی کو اس کے شوہر کے ترکہ کا ایک چوتھائی حصہ ملے گا، جبکہ شوہر کو اس کی بیوی کے ترکہ کا نصف حصہ حاصل ہوگا (4:12)۔

         اگر میت نے اپنے پیچھے بھائیوں اور بہنوں کو چھوڑا ہو تو والدین میں سے ہر ایک کو وراثت کا ایک چھٹا حصہ ملےگا، اور بھائیوں اور بہنوں کو ان کا متناسب حصہ حاصل ہو گا، یعنی مردوں کو خواتین کے مقابلے میں دوگنا حصہ حاصل ہو گا (4:11)

         اگر کوئی بھائی یا بہن نہ ہو تو ماں کو وراثت کا ایک تہائی ملے گا (4:11)۔

اگر نہ والدین ہوں نہ شریک حیات ہو اور نہ ہی کوئی اولاد ہو تو اس صورت میں جائداد کی تقسیم:

        اگر میت نے اپنے پیچھے صرف ایک بہن کو چھوڑ ہو تو اسے ترکہ کا نصف حصہ حاصل ہو گا، لیکن اگر بہنیں دو یا دو سے زیادہ ہوں تو انہیں ترکہ کا دو تہائی حصہ حاصل ہو گا (4:176)۔

        اگر ایک میت عورت نے اپنے پیچھے صرف ایک بھائی کو چھوڑا ہو تو اسے مکمل ترکہ حاصل ہوگا (4:176)

        ایک میت مرد یا عورت نے اپنے پیچھے بھائی اور بہن دونوں کو چھوڑا ہو تو مرد کو عورتوں کا دوگنا حصہ حاصل ہو گا (4:176)

        اگر میت مرد یا عورت نے اپنے پیچھے اپنی ماں کی طرف سے ایک بھائی یا ایک بہن چھوڑا ہو توان میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ حاصل ہو گا- اور اگر بھائی اور بہن دو سے زیادہ ہوں تو انہیں مشترکہ طور پر ترکہ کا ایک تہائی حصہ ملے گا (4:12)۔

وراثت کا قانون؛ محولہ آیات کی تعبیر و تشریح: 38.4

"(4:7) : اسلام کا اصل پیغاممردوں کے لئے اس (مال) میں سے حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لئے (بھی) ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے حصہ ہے۔ وہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ (اللہ کا) مقرر کردہ حصہ ہے، (8) اور اگر تقسیمِ (وراثت) کے موقع پر (غیر وارث) رشتہ دار اور یتیم اور محتاج موجود ہوں تو اس میں سے کچھ انہیں بھی دے دو اور ان سے نیک بات کہو، (9) اور (یتیموں سے معاملہ کرنے والے) لوگوں کو ڈرنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے پیچھے ناتواں بچے چھوڑ جاتے تو (مرتے وقت) ان بچوں کے حال پر (کتنے) خوفزدہ (اور فکر مند) ہوتے، سو انہیں (یتیموں کے بارے میں) اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے اور (ان سے) سیدھی بات کہنی چاہئے، (10) بیشک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں نری آگ بھرتے ہیں، اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گے، (11) اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لئے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے، اور مُورِث کے ماں باپ کے لئے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ترکہ کا چھٹا حصہ (ملے گا) بشرطیکہ مُورِث کی کوئی اولاد ہو، پھر اگر اس میت (مُورِث) کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث صرف اس کے ماں باپ ہوں تو اس کی ماں کے لئے تہائی ہے (اور باقی سب باپ کا حصہ ہے)، پھر اگر مُورِث کے بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لئے چھٹا حصہ ہے (یہ تقسیم) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہو گی)، تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ فائدہ پہنچانے میں ان میں سے کون تمہارے قریب تر ہے، یہ (تقسیم) اللہ کی طرف سے فریضہ (یعنی مقرر) ہے، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے، (12) اور تمہارے لئے اس (مال) کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو تمہارے لئے ان کے ترکہ سے چوتھائی ہے (یہ بھی) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو انہوں نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے ہوئے (مال) میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لئے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے تمہاری اس (مال) کی نسبت کی ہوئی وصیت (پوری کرنے) یا (تمہارے) قرض کی ادائیگی کے بعد، اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جا رہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور اس کا (ماں کی طرف سے) ایک بھائی یا ایک بہن ہو (یعنی اخیافی بھائی یا بہن) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے چھٹا حصہ ہے، پھر اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے (یہ تقسیم بھی) اس وصیت کے بعد (ہو گی) جو (وارثوں کو) نقصان پہنچائے بغیر کی گئی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد، یہ اللہ کی طرف سے حکم ہے، اور اللہ خوب علم و حلم والا ہے۔

"اور ہم نے سب کے لئے ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے چھوڑے ہوئے مال میں حق دار (یعنی وارث) مقرر کر دیئے ہیں، اور جن سے تمہارا معاہدہ ہو چکا ہے سو اُنہیں ان کا حصہ دے دو، بیشک اللہ ہر چیز کا مشاہدہ فرمانے والا ہے (4:33)"۔

"لوگ آپ سے فتویٰ (یعنی شرعی حکم) دریافت کرتے ہیں۔ فرما دیجئے کہ اﷲ تمہیں (بغیر اولاد اور بغیر والدین کے فوت ہونے والے) کلالہ (کی وراثت) کے بارے میں یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص فوت ہو جائے جو بے اولاد ہو مگر اس کی ایک بہن ہو تو اس کے لئے اس (مال) کا آدھا (حصہ) ہے جو اس نے چھوڑا ہے، اور (اگر اس کے برعکس بہن کلالہ ہو تو اس کے مرنے کی صورت میں اس کا) بھائی اس (بہن) کا وارث (کامل) ہوگا اگر اس (بہن) کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر (کلالہ بھائی کی موت پر) دو (بہنیں وارث) ہوں تو ان کے لئے اس (مال) کا دو تہائی (حصہ) ہے جو اس نے چھوڑا ہے، اور اگر (بصورتِ کلالہ مرحوم کے) چند بھائی بہن مرد (بھی) اور عورتیں (بھی وارث) ہوں تو پھر (ہر) ایک مرد کا (حصہ) دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہوگا۔ (یہ احکام) اﷲ تمہارے لئے کھول کر بیان فرما رہا ہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو، اور اﷲ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے (4:176)"۔

38.5. وراثت میں ایک بیٹی کا حصہ ایک بیٹے کے حصے سے نصف کیوں ہے

بظاہر صنفی تعصب پر مبنی اس حکم کا تصفیہ خواتین کے مالی مفادات کا تحفظ کرنے والے قرآنی قوانین کے مجموعی تجزیہ سے کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ قرآن خواتین کو ان باتوں کی اجازت دیتا ہے کہ:-

        خواتین خود اپنی محنت سے روپے کما سکتی ہیں، اور انہیں اس بات پر مجبور نہیں کیا جائے گا کہ وہ اپنی آمدنی میں اپنے شوہروں کو بھی شریک کریں، (4:32/ باب 33.5)

        وہ شادی کے وقت ہی اپنے مہر کا مطالبہ کرنے کے لیے آزاد ہیں (4:4 / باب 33.4)۔

        ان کے رہنے سہنے اور دیگر اخراجات ان کے شوہروں کے ذمہ ہوں گے (4:34 / باب 33.6)۔

        وہ مہر کے علاوہ، اپنے شوہر سے تحفے تحائف اور صدقات بھی لے سکتی ہے (2:229، 4:20 / باب 34.2)۔

        انہیں اپنے اولاد چھوڑنے والے اپنے مرحوم بچوں کے ترکہ سے ان کے شوہر کے برار حصہ حاصل ہو گا (4:11)

لہٰذا، اگر قرآن وراثت میں ایک بہن کا حصہ ایک بھائی کے برابر متعین کر دیتا تو، مردوں کے مقابلے میں خواتین کے پاس زیادہ مال و دولت جمع ہو جاتی، اور اس سے مردو کی مالی ذمہ داری پر قرآنی احکامات باطل ہو جاتے۔

38.6 ترکہ میں نمائندگی کا اصول

آیت 4:8 میں واضح طور پر نمائندگی کے اصول کو بیان کیا گیا ہے، جو کہ اس طرح ہے کہ  اگرع زید نے اپنے پیچھے  بکر کو چھوڑا جس نے اپنے پیچھے عمر کو چھوڑا اور زید کی موت کے وقت یتیم عمر موجود ہے(4:8)، تو عمر کو وراثت سے محروم نہیں  رکھا جائے گااور جو لوگ انہیں اس سے محروم  رکھتے ہیں(4:9)، وہ "اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں" (4:10)۔  لہٰذا، تکنیکی لحاظ سے قرآن مرحوم بکر کی اولاد کو اس کے والدین یعنی زیدکے ترکہ میں ایک یتم شخص عمر  کی موجودگی کو تسلیم کرتا ہے،  یہ اور بات ہے  کہ اسلامی قانون اس اصول کو تسلیم نہیں کرتا ہے، لیکن ہم اس مسئلہ کے تصفیہ کو فقہاءپر چھوڑتے ہیں۔

 

URL for English article:  https://newageislam.com/books-documents/exemplary-punishments-major-crimes-essential/d/104401

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/law-inheritance-essential-message-islam/d/104533

 

Loading..

Loading..