محمد یونس اور اشفاق اللہ سید
25 جولائی 2015
(مصنفین اور ناشرین کی اجازت کے ساتھ نیو ایج اسلام کی خصوصی اشاعت)
21۔ انصاف
21.1۔ انصاف کی پاسداری کرنا ایک دینی فریضہ ہے
قرآن انصاف کا حکم دیتا ہے(7:29، 16:90)، اور اسے مذہبی فریضہ کے زمرے میں رکھتا ہے۔ (6:152/ باب 19)۔
‘‘فرما دیجئے: میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے، اور تم ہر سجدہ کے وقت و مقام پر اپنے رُخ (کعبہ کی طرف) سیدھے کر لیا کرو اور تمام تر فرمانبرداری اس کے لئے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کیا کرو۔ جس طرح اس نے تمہاری (خلق و حیات کی) ابتداء کی تم اسی طرح (اس کی طرف) پلٹو گے’’(7:29)۔
‘‘بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے، 1 اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو’’(16:90)۔
‘‘بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بیشک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے، (4:58)۔
‘‘اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مال دار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ (گے)، اور اگر تم (گواہی میں) پیچ دار بات کرو گے یا (حق سے) پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہے’’ (4:135)۔
‘‘اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اﷲ سے ڈرا کرو، بیشک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے’’ (5:8)۔
توضیح:
1۔ آیت نمبر 4:58 میں خون، فرقہ، نسل یا دیگر تمام تعلقات سے قطع نظر تمام لوگوں کے ساتھ انصاف کا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جیسا کہ یہ الناس کی عام اصطلاح کے استعمال سے واضح ہے۔
2۔ آخر میں نازل ہونے والی سورت المائدہ کی آیت نمبر 8 میں مسلمانوں کو ایسی کسی بھی قوم پر ظلم کرنے سے خبردار کیا گیا ہے جن سے انہیں نفرت ہو سکتی ہو۔
21.2۔ انصاف کی ترویج و اشاعت کے لئے دوسروں کی حقیقی رہنمائی کرنا
قرآن ان لوگوں کے کردار کو تسلیم کرتا ہے جنہیں سچائی کی راہ کی طرف ججوں کی رہنمائی کے لئے تربیت دی گئی ہے تاکہ انصاف سماج میں غالب ہو سکے (7:159 /181)۔
‘‘اور موسٰی (علیہ السلام) کی قوم میں سے ایک جماعت (ایسے لوگوں کی بھی) ہے جو حق کی راہ بتاتے ہیں اور اسی کے مطابق عدل (پر مبنی فیصلے) کرتے ہیں’’ (7:159)۔
‘‘اور جنہیں ہم نے پیدا فرمایا ہے ان میں سے ایک جماعت (ایسے لوگوں کی بھی) ہے جو حق بات کی ہدایت کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ عدل پر مبنی فیصلے کرتے ہیں’’(7:181)۔
21.3۔ الٰہی انصاف کا کلیہ اور معیار
الٰہی انصاف کے معیار پر قرآنی ہدایات و احکامات (6:160، 28:84) 2 سے ہمیں جرم اور سزا کے درمیان متناسبیت کا اصول ملتا ہے، خواہ ان کا تعلق دنیاوی امور سے ہی کیوں نہ ہو۔
‘‘جو کوئی ایک نیکی لائے گا تو اس کے لئے (بطورِ اجر) اس جیسی دس نیکیاں ہیں، اور جو کوئی ایک گناہ لائے گا تو اس کو اس جیسے ایک (گناہ) کے سوا سزا نہیں دی جائے گی اور وہ ظلم نہیں کئے جائیں گے’’ (6:160) ۔
"جو شخص نیکی لے کر آئے گا اس کے لئے اس سے بہتر (صلہ) ہے اور جو شخص برائی لے کر آئے گا تو برے کام کرنے والوں کو کوئی بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر اسی قدر جو وہ کرتے رہے تھے" (28:84)۔
21.4۔ قرآن میں انصاف کی افضلیت و برتریت
مذکورہ بالا میں انصاف کے متعلق قرآنی بیانات واضح، جامع اور مبین ہیں، اور تمام مل کر ایک انقلابی اصول قائم کرتے ہیں۔ اسلام کی آمد سے قبل صدیوں تک معاشرے کے غریب اور کمزور طبقے کو انصاف سے محروم رکھا گیا تھا، جبکہ معاشرے کے مالدار اور طاقتور طبقے کو انصاف سے رعایت حاصل تھی جس کی وجہ سے انسانی معاشرے میں ظلم اور ناانصافی کو ایک قانونی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔ قرآن نے ان سب کو ختم کر دیا اور ایسے معاشروں کے قیام کے لیے راہ ہموار کی جس میں ایک کمزور تر انسان کو ایک قوی ترین انسان کو قانونی عدالت میں لے جانے اور انصاف حاصل کرنے کی آزادی حاصل ہو۔
اپنی بات کو ختم کرنے اور ایک عملی مثال کے ذریعہ اپنی دلیل کو مضبوط کرنے کے لیے ہم خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہدایات کا ایک اقتباس نقل کریں گے جو انہوں نے اپنے گورنروں کے نام لکھوائے تھے۔3
"انصاف کا نظم و نسق قائم کرنا خدا کی حمد و ثناء کے بعد ایک سب سے اہم فریضۂ دینی ہے۔ تمام لوگوں کے ساتھ یکساں طور پر اپنی فوری موجودگی میں یا اپنی عدالت میں انصاف کا معاملہ کرو تاکہ معاشرے کا غریب اور کمزور طبقہ انصاف سے مایوس نہ ہو جائے، اور مجرم کو تم سے رعایت کی امید نہ بندھ جائے۔ جو کسی بات کا دعوی کرے اس کے لیے اسے ثابت کرنا ضروری ہے۔ اور جو انکار کرے اسے حلف لینا ضروری ہے۔ مصالحت جائز ہے بشرطیکہ اس سے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنا لازم نہ آئے۔ اگر تمہیں کل ایک فیصلہ دینا ہے تو آج اس پر پورے احتیاط کے ساتھ غور و فکر کر لو۔ اگر تمہیں کسی معاملے میں شک ہو جائے اور اس کا حل قرآن یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں نہ ملے تو اس پر پوری گہرائی کے ساتھ غور و خوض کرو، اور اس سے ملتی جلتی کسی مثال یا اس سے متعلق دوسروں کی رائے لیکر اس پر منطقی انداز میں غور و فکر کرو......."
حوالہ جات:
1۔ جیسا کہ آیت 4:36/ باب 17.3کے معاملے میں لفظ قربہ کا ترجمہ ایک وسیع تر مفہوم کے ساتھ انسان کیا گیا ہے۔
2۔ 42:40 / باب۔ 12.2؛ 40:40، 53:31۔
3۔ شبلی معمانی، الفاروق، 1898، کراچی اشاعت ثانی 1991، صفحہ نمبر۔ 191/192۔
[3 حوالہ جات]
URL for English article: https://newageislam.com/books-documents/the-primacy-justice-qur’an-essential/d/104027
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/essential-message-islam-chapter-21/d/104050