محمد یونس اور اشفاق اللہ سید
28 اگست 2015
(مصنفین اور ناشرین کی اجازت کے ساتھ نیو ایج اسلام پر خصوصی اشاعت)
37. وصیت لکھنا
قرآن اپنے پیچھے جائداد چھوڑ کر فوت ہونے والے مؤمنوں کو دو انصاف پسند لوگوں کی موجودگی میں وصیت کرنے کا حکم دیتا ہے (2:180)۔ اگر وہ سفر پر ہوں اور انہیں اسی دوران موت کا اندیشہ ہو تو انہیں باہر کے لوگوں کو ہی گواہ کے تیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے (2:180، 5:106)۔ اگر گواہوں پر شک ہو تو قرآن ان دونوں کو اس بات پر اللہ کی قسم کھانے کا حکم دیتا ہے کہ وہ اس کے عوض کوئی قیمت حاصل نہیں کریں گے خواہ کوئی (کتنا ہی) قرابت دار ہو اور نہ وہ اللہ کی (مقرر کردہ) گواہی کو چھپائیں گے (اگر چھپائیں تو) وہ اسی وقت گناہگاروں میں ہو جائیں گے (5:106) پھر اگر انہیں اس بات کی خبر ملے کہ وہ دونوں (صحیح گواہی چھپانے کے باعث) گناہ کے مرتکب ہو چکے ہیں تو ان کی جگہ ان لوگوں میں سے دو اور دوسرے (گواہوں) کو تیار کیا جائے جن کا حق پہلے دو (گواہوں) نے دبایا ہے جو میت کے زیادہ قرابت دار ہیں، یا قسم کھانے کے بعد جن کا قانونی حق ہو (107/5:108)۔ اور اس کے بعد قرآن کا بیان ہے کہ: اس کے بعد جس شخص نے وصیت کو بدل دیا تو وہ اس کا گنہگار ہو گا۔ لیکن اگر کسی شخص کو وصیّت کرنے والے سے (کسی کی) طرف داری یا (کسی کے حق میں) زیادتی کا اندیشہ ہو تو پھر قرآن انہیں ان کے درمیان صلح کروانے کی اجازت دیتا ہے (182/2:181)۔
"تم پر فرض کیا جاتاہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت قریب آپہنچے اگر اس نے کچھ مال چھوڑا ہو، تو (اپنے) والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں بھلے طریقے سے وصیت کرے، یہ پرہیزگاروں پر لازم ہے (2:180) پھر جس شخص نے اس (وصیّت) کو سننے کے بعد اسے بدل دیا تو اس کا گناہ انہی بدلنے والوں پر ہے، بیشک اﷲ بڑا سننے والا خوب جاننے والا ہے، (2:181)۔ پس اگر کسی شخص کو وصیّت کرنے والے سے (کسی کی) طرف داری یا (کسی کے حق میں) زیادتی کا اندیشہ ہو پھر وہ ان کے درمیان صلح کرادے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، بیشک اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے (2:182)۔
‘‘اے ایمان والو! جب (تمہارا) نماز کیلئے کھڑے (ہونے کا ارادہ) ہو تو (وضو کے لئے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)، اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی رفعِ حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے قربت (مجامعت) کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو (اندریں صورت) پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔ پس (تیمم یہ ہے کہ) اس (پاک مٹی) سے اپنے چہروں اور اپنے (پورے) ہاتھوں کا مسح کر لو۔ اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ (یہ) چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ، (5:106)۔ اور اﷲ کی (اس) نعمت کو یاد کرو جو تم پر (کی گئی) ہے اور اس کے عہد کو (بھی یاد کرو) جو اس نے تم سے (پختہ طریقے سے) لیا تھا جب کہ تم نے (اقراراً) کہا تھا کہ ہم نے (اﷲ کے حکم کو) سنا اور ہم نے (اس کی) اطاعت کی اور اﷲ سے ڈرتے رہو، بیشک اﷲ سینوں کی (پوشیدہ) باتوں کو خوب جانتا ہے(107)۔ اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے، اور اﷲ سے ڈرا کرو، بیشک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے(5:108)۔
محمد اسد سمیت اکثر علماء نے ‘تم میں سے’ کی تشریح مسلمان سے کی ہے (5:106)۔ لہٰذا، 'باہر والوں' سے مراد غیر مسلم مگر اللہ پر ایمان رکھنے والے ہوں گے، اس لیے کہ انہیں اپنی گواہی کو برقرار رکھنے کے لئے اللہ کی قسم کھانا ضروری ہے۔ تاہم،ابوالکلام آزاد نے 'باہر والوں' سے مراد واضح طور پر غیر مسلم مراد لیا ہے۔1
نوٹس
1۔ ابوالکلام آزاد، ترجمان القرآن، 1931؛ اشاعت ثانی نئی دہلی 1989، جلد۔2، صفحہ۔ 679۔
[1 حوالہ]
URL for English article: https://newageislam.com/books-documents/exemplary-punishments-major-crimes-essential/d/104401
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/drawing-up-wills-essential-message/d/104524