New Age Islam
Sat Apr 01 2023, 08:07 PM

Urdu Section ( 17 Aug 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Bidding the Good and Forbidding the Evil :Essential Message of Islam: Chapter 29 نیکی کا حکم اور بدی کی ممانعت؛ اسلام کا اصل پیغام

 

محمد یونس اور اشفاق اللہ سید

11 اگست 2015

(مصنفین اور ناشرین کی اجازت کے ساتھ نیو ایج اسلام کی خصوصی اشاعت)

29.1. نیکی کا حکم اور بدی کی ممانعت

قرآن معروف کا حکم دیتا ہے جس کا مطلب دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنا اور معاشرے میں لوگوں کے ساتھ انتہائی مہذب اور مناسب رویہ پیش کرنا ہے۔ اور قرآن منکر سے منع کرتا ہے جس کا مطلب ان تمام حرکات، معمولات اور رویوں سے باز آنا ہے جو عقل کے خلاف اور اخلاق حسنہ کے تمام اصولوں سے متصادم ہو۔ (3:104, 3:110) آسانی کے لیے ہم (معروف) کے لیے اچھائی اور (منکر) کے لیے برائی جیسے لفظ کا استعمال کریں گے۔

(3:104) "اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں"۔

"بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقیناً ان کے لئے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں"(3:110)۔

نزول وحی کے تناظر میں مسلمانوں کو آیت 3:110 میں 'بہترین امت' قرار دیا گیا ہے۔ تاہم، اگر آیت کے صرف اسی حصے کو بیان کیا جائے تو یہ انتہائی گمراہ کن ہو سکتا ہے۔ اس نعمت کا مستحق بننے کے لئے، مسلمانوں کو قرآن کی وسیع ترین ہدایات پر عمل پیرا ہونا، اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مثالی اسوہ حسنہ اور عظیم الشان اصولوں کی تقلید ضروری ہے (33:21 / باب 15)۔ بظاہر اس آیت میں اہل کتاب (یہود و نصاری) کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی ہے، لیکن اس میں اس بات کا بھی اعلان کیا گیا ہے کہ اہل کتاب میں سے کچھ خدا پر حقیقۃً ایمان رکھنے والے (مومن) ہیں۔ لہذا، مسلمانوں (حضرت محمد کے پیروکاروں) کی امتیازی شان کو ظاہر کرنے کے لیے جزوی طور پر اس آیت کا حوالہ پیش کرنا گمراہ کن ہو گا۔

29.2. تمام قسم کی برائیوں کے خلاف تنبیہ

جیسا کہ مقدمہ میں ذکر کیا جا چکا ہے (نوٹ24) قرآن میں مختلف اقسام کی برائیوں کے لیے مختلف الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ لہٰذا، ذیل میں ترجمہ کی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لئے پہلی مثال میں ہر متعلقہ لفظ کو عربی میں بھی لکھا جائے گا۔

قرآن گناہوں (سیئہ) اور برے کاموں (فواحش) اور دہشت گردی (بغیہ) (7:33، 7:56) )سے منع کرتا ہے (16:90، 24:21، 42:37) خواہ وہ علی الاعلان ہو خواہ خفیہ ہو (6:120، 7:33)۔

 "اور تم ظاہری اور باطنی (یعنی آشکار و پنہاں دونوں قسم کے) گناہ چھوڑ دو۔ بیشک جو لوگ گناہ کما رہے ہیں انہیں عنقریب سزا دی جائے گی ان (اَعمالِ بد) کے باعث جن کا وہ ارتکاب کرتے تھے۔" (6:120)۔

"فرما دیجئے کہ میرے ربّ نے (تو) صرف بے حیائی کی باتوں کو حرام کیا ہے جو ان میں سے ظاہر ہوں اور جو پوشیدہ ہوں (سب کو) اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کو اور اس بات کو کہ تم اﷲ کا شریک ٹھہراؤ جس کی اس نے کوئی سند نہیں اتاری اور (مزید) یہ کہ تم اﷲ (کی ذات) پر ایسی باتیں کہو جو تم خود بھی نہیں جانتے"(7:33)۔

"اور زمین میں اس کے سنور جانے (یعنی ملک کا ماحولِ حیات درست ہو جانے) کے بعد فساد انگیزی نہ کرو اور (اس کے عذاب سے) ڈرتے ہوئے اور (اس کی رحمت کی) امید رکھتے ہوئے اس سے دعا کرتے رہا کرو، بیشک اﷲ کی رحمت احسان شعار لوگوں (یعنی نیکوکاروں) کے قریب ہوتی ہے (7:56)"۔

"بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو" (16:90)۔

"اے ایمان والو! شیطان کے راستوں پر نہ چلو، اور جو شخص شیطان کے نقوشِ قدم پر چلتا ہے تو وہ یقیناً بے حیائی اور برے کاموں (کے فروغ) کا حکم دیتا ہے، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی کبھی (اس گناہِ تہمت کے داغ سے) پاک نہ ہو سکتا لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک فرما دیتا ہے، اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے"(24:21)۔

‘‘سو تمہیں جو کچھ بھی (مال و متاع) دیا گیا ہے وہ دنیوی زندگی کا (چند روزہ) فائدہ ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور پائیدار ہے، (یہ) اُن لوگوں کے لئے ہے جو ایمان لاتے اور اپنے رب پر توکّل کرتے ہیں’’(42:36)۔

‘‘اور جو لوگ کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور جب انہیں غصّہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں’’(42:37)۔

29.3. قرآن کا رویہ توبہ کرنے والوں کے ساتھ نرم اور تکبر کرنے والوں کے ساتھ سخت ہے۔

قرآن خود اپنی جان کے ساتھ برائی یا غلط کام کرنے کی جبلی فطرت کو تسلیم کرتا ہے(5:100)، یہاں تک کہ خدا کی عبادت کرتے وقت بھی (17:11)۔ قرآن اپنے گناہوں پر نادم ہونے والے شخص کے لیے بخشش کا وعدہ کرتا ہے (4:110)۔ تاہم، قرآن ان لوگوں کے خلاف سخت رویہ اختیار کرتا ہے جو اس کا ذمہ دار معصوم کو ٹھہراتا ہے(112-4:111)۔ قرآن مومنوں کو ظلم و عدوان کے ساتھ ایمان کو خلط ملط کرنے سے منع کرتا ہے(6:82)، لیکن معمولی غلطیوں خطاؤں کے لیے رعایت بھی عطا کرتا ہے(53:32)۔

اور جو کوئی برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش طلب کرے وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا نہایت مہربان پائے گا، (4:110)۔ اور جو شخص کوئی گناہ کرے تو بس وہ اپنی ہی جان پر (اس کا وبال عائد) کر رہا ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے (4:111)۔ اور جو شحص کسی خطا یا گناہ کا ارتکاب کرے پھر اس کی تہمت کسی بے گناہ پرلگا دے تو اس نے یقیناً ایک بہتان اور کھلے گناہ (کے بوجھ) کو اٹھا لیا (4:112)۔

فرما دیجئے: پاک اور ناپاک (دونوں) برابر نہیں ہو سکتے (اے مخاطب!) اگرچہ تمہیں ناپاک (چیزوں) کی کثرت بھلی لگے۔ پس اے عقلمند لوگو! تم (کثرت و قلت کا فرق دیکھنے کی بجائے) اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤے۔ (5:100)

"جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو (شرک کے ظلم کے ساتھ نہیں ملایا انہی لوگوں کے لئے امن (یعنی اُخروی بے خوفی) ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں"(6:82)۔

"اور انسان (کبھی تنگ دل اور پریشان ہو کر) برائی کی دعا مانگنے لگتا ہے جس طرح (اپنے لئے) بھلائی کی دعا مانگتا ہے، اور انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے"(17:11)۔

"جو لوگ چھوٹے گناہوں (اور لغزشوں) کے سوا بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں، بیشک آپ کا رب بخشش کی بڑی گنجائش رکھنے والا ہے، وہ تمہیں خوب جانتا ہے جب اس نے تمہاری زندگی کی ابتداء اور نشو و نما زمین (یعنی مٹی) سے کی تھی اور جبکہ تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں جَنیِن (یعنی حمل) کی صورت میں تھے، پس تم اپنے آپ کو بڑا پاک و صاف مَت جتایا کرو، وہ خوب جانتا ہے کہ (اصل) پرہیزگار کون ہے، (53:32)"۔

URL for English article: https://newageislam.com/books-documents/bidding-good-forbidding-evil-essential/d/104232

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/bidding-good-forbidding-evil-essential/d/104298

 

Loading..

Loading..