محمد یونس اور اشفاق اللہ سید
28 اگست 2015
(مصنفین اور ناشرین کی اجازت کے ساتھ نیو ایج اسلام پر خصوصی اشاعت)
41.1۔ دولت، خواتین، جاہ و منصب کے لئے انسان کی فطری لالچ
قرآن اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے (7/100:6) اور اس دنیاوی زندگی کا گرویدہ ہو چکا ہے (2:212)۔ اس کے اندر دولت(100:8)1، خواتین، خزانے جمع کرنے اور نعمت اور دولت کی خواہش شدید ہے (3:14)، اور انسان مال و دولت اور بچوں میں اضافہ کرنے میں مشغول ہے (18:46، 57:20)، اور خدا کی بارگاہ میں قیامت کے دن حساب و کتاب سے بالکل غافل ہے (11-100:9(۔
"کافروں کے لئے دنیا کی زندگی خوب آراستہ کر دی گئی ہے اور وہ ایمان والوں سے تمسخر کرتے ہیں، اور جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا وہ قیامت کے دن ان پر سربلند ہوں گے، اور اﷲ جسے چاہتا ہے بے حساب نوازتا ہے (2:212)"۔
"لوگوں کے لئے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان کئے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اﷲ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے"(3:14)۔
‘‘مال اور اولاد (تو صرف) دنیاوی زندگی کی زینت ہیں اور (حقیقت میں) باقی رہنے والی (تو) نیکیاں (ہیں جو) آپ کے رب کے نزدیک ثواب کے لحاظ سے (بھی) بہتر ہیں اور آرزو کے لحاظ سے (بھی) خوب تر ہیں’’ (18:46)۔
"بیشک انسان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے (100:6)، اور یقیناً وہ اس (ناشکری) پر خود گواہ ہے (7)، اور بیشک وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہے (8)۔ تو کیا اسے معلوم نہیں جب وہ (مُردے) اٹھائے جائیں گے جو قبروں میں ہیں (9)، اور (راز) ظاہر کر دیئے جائیں گے جو سینوں میں ہیں (10)، بیشک ان کا رب اس دن ان (کے اعمال) سے خوب خبردار ہوگا (100:11)"۔
تاہم، قرآن ایمان کے ساتھ کسی مادی خوش حالی کو متصل نہیں کرتا ہے، اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ خدا ہی تمام لوگوں کی مدد کرتا ہے خواہ وہ دنیاوی فوائد حاصل کریں یا آخرت کی نعمت حاصل کرنے کی کوشش کریں (20/17:19)۔
"جو کوئی صرف دنیا کی خوشحالی (کی صورت میں اپنی محنت کا جلدی بدلہ) چاہتا ہے تو ہم اسی دنیا میں جسے چاہتے ہیں جتنا چاہتے ہیں جلدی دے دیتے ہیں پھر ہم نے اس کے لئے دوزخ بنا دی ہے جس میں وہ ملامت سنتا ہوا (رب کی رحمت سے) دھتکارا ہوا داخل ہوگا (17:18)، اور جو شخص آخرت کا خواہش مند ہوا اور اس نے اس کے لئے اس کے لائق کوشش کی اور وہ مومن (بھی) ہے تو ایسے ہی لوگوں کی کوشش مقبولیت پائے گی (19)۔ ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں ان (طالبانِ دنیا) کی بھی اور ان (طالبانِ آخرت) کی بھی (اے حبیبِ مکرّم! یہ سب کچھ) آپ کے رب کی عطا سے ہے، اور آپ کے رب کی عطا (کسی کے لئے) ممنوع اور بند نہیں ہے (17:20)"۔
ابتدائے اسلام کے دور میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکار مشکل ترین دور سے گزر رہے تھے، قرآن مسلمانوں کو مستحکم اور ثابت قدم رہنے اور عیش و عشرت کی زندگی کی خواہش کرنے سے رکنے کا حکم دیتا ہے:
"اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں (اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکنے کے آرزو مند ہیں) تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں ان سے نہ ہٹیں، کیا تو (ان فقیروں سے دھیان ہٹا کر) دنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے، اور تو اس شخص کی اطاعت (بھی) نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اس کا حال حد سے گزر گیا ہے" (18:28)۔
قرآن مزید اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ دنیا کی زندگی کھیل اور تماشا، (6:32، 57:20) 2، دھوکہ (7:51، 57:20) 3، کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کا بھی اعلان کرتا ہے کہ جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہیں(اوپر 2:212، 6:32) 4، اور اچھے اعمال کرتے ہیں (اوپر 18:46) انہیں اللہ کا تقرب حاصل ہو گا اور انہیں اجروثواب سے نوازا جائے گا۔
‘‘اور دنیوی زندگی (کی عیش و عشرت) کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں، اور یقیناً آخرت کا گھر ہی ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں، کیا تم (یہ حقیقت) نہیں سمجھتے (6:32)’’۔
‘‘جنہوں نے اپنے دین کو تماشا اور کھیل بنا لیا اور جنہیں دنیوی زندگی نے فریب دے رکھا تھا، آج ہم انہیں اسی طرح بھلا دیں گے جیسے وہ (ہم سے) اپنے اس دن کی ملاقات کو بھولے ہوئے تھے اور جیسے وہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے’’ (7:51)۔
‘‘بس دنیا کی زندگی تو محض کھیل اور تماشا ہے، اور اگر تم ایمان لے آؤ اور تقوٰی اختیار کرو تو وہ تمہیں تمہارے (اعمال پر کامل) ثواب عطا فرمائے گا اور تم سے تمہارے مال طلب نہیں کرے گا’’(47:36) ۔
‘‘جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا ہے اور ظاہری آرائش ہے اور آپس میں فخر اور خود ستائی ہے اور ایک دوسرے پر مال و اولاد میں زیادتی کی طلب ہے، اس کی مثال بارش کی سی ہے کہ جس کی پیداوار کسانوں کو بھلی لگتی ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہے پھر تم اسے پک کر زرد ہوتا دیکھتے ہو پھر وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے، اور آخرت میں (نافرمانوں کے لئے) سخت عذاب ہے اور (فرمانبرداروں کے لئے) اللہ کی جانب سے مغفرت اور عظیم خوشنودی ہے، اور دنیا کی زندگی دھوکے کی پونجی کے سوا کچھ نہیں ہے’’(57:20)۔
دنیاوی زندگی کی آرائشیں اور عیش و عشرت سے متعلق قرآنی رویہ کو خدا کا فضل حاصل کرنے (62:10/ باب 45.1)، اور زندگی میں تمام اچھی چیزوں کا فائدہ اٹھانے کے لیے خواہ وہ غذا ہو یا اور کچھ، قرآن کی مجموعی نصیحت کے تناظر میں دیکھا جانا چاہئے(2:168, 2:172/ باب 23.4)۔ اس طرح، خدا مسلمانوں کو خاص طور پر اور پوری انسانیت کو عام طور پر مال و دولت کی لالچ، جاہ و منصب کے جذبہ اور جنسی لذت کے بہکاوے میں آنے سے منع کرتا ہے، جبکہ ان تمام اچھی چیزوں سے کا فائدہ اٹھانے کا حکم دیتا ہے جن کی اجازت قرآن دیتا ہے۔
41.2۔ زندگی کی آرائش اور عیش و عشرت کی لالچ غربت کے فروغ کی واحد وجہ ہے
دنیاوی زندگی کی آرائش اور عیش و عشرت کی لالچ پوری تاریخ انسانیت میں انسانی معاشرے میں غربت اور مصائب و آلام کے فروغ کی ایک واحد وجہ رہی ہے:
قرون وسطی کے معاشرے میں 20ویں صدی کے آغاز تک اقلیتی امیر طبقے نے سخت غربت میں رہنے والی ایک بڑے آبادی سے زیادہ خود کے لیے زمین اور صنعت کی پیداوار کے زیادہ حصے پر قبصہ کرنے کے لیے زمین، تجارت اور صنعت پر اپنا تسلط قائم کر لیا تھا۔ اور اس کا محرک دولت، عزت اور طاقت کی شکل میں دنیاوی زندگی کی آرائش اور عیش و عشرت کے لئے کبھی نہ ختم ہونے والی لالچ ہے۔
ابھی جلد ہی ہمارے درمیان سے رخصت ہونے والی 20ویں صدی میں دوسری چیزوں کے درمیان خوراک اور ان تمام چیزوں کی فراہمی میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا جو زندگی کو آسان، آرام دہ اور پرسکون بنانے کے لئے ضروری ہیں۔ لیکن اس نے انسانی معاشرے کو اس دور میں داخل کر دیا ہے جس میں مصنوعات کی کھپت اور امیر اور غریب کے درمیان عدم مساوات قرون وسطی کے دور کے پیمانے تک پہنچ چکا ہے۔ اور اس کا بھی محرک قرون وسطی کی ہی طرح مال و دولت اور عیش و آرام کی اشیاء، یا دنیاوی زندگی کی آرائش و اسائش کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والی لالچ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
آج کے دور میں دنیا بھر میں لوگوں اپنے سماجی اخراجات میں تخفیف کر رہے ہیں اور مال و دولت اور عیش و آرام کی اشیاء حاصل کرنے پر زیادہ سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔ چونکہ دولت یعنی نقد، سونا، اسٹاک، عمارات اور عیش و آرام کی اشیا کی فراہمی پر انہیں مالداروں کا تسلط ہے اسی لیے صارفین کے اس رویہ سے سب سے زیادہ فائدہ انہیں کو ہے، جبکہ دنیا بھر میں غریبوں کی بڑھتی ہوئی آبادی حقیقی اجرت اور کم ہوتے ہوئے فوائد کی مار جھیل رہی ہے۔ لہذا قرآنی اصول کے نفاذ سے امیر اور غریب کے درمیان ہر لمحے بڑھتے ہوئے فرق کو کم کیا جا سکتا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے، آج کے دور میں، کسی تیسری دنیا کے مسلم ممالک میں امیر اور غریب کی آمدنی کے درمیان سب سے زیادہ خلا دیکھنے کو مل رہا ہے۔ مفروضہ زکوة کا ایک تصور (باب 46.3)، اور خدا کی رحمت اور بخشش کا خود غرض عقیدہ اکثر کبھی نہ ختم ہونے والی لالچ کے خلاف ان ممالک میں مالداروں اور مراعات یافتہ طبقے کے ضمیر کو غافل کر دیتا ہے۔ وہ بالکل آسانی کے ساتھ جائداد و املاک اور تمام اقسام کے اثاثے حاصل کر لیتے ہیں ، اور اپنے رشتہ داروں، ملازمین، ضرورت مند اور بڑے پیمانے پر کمیونٹی کے تئیں اپنی مالی ذمہ داریوں کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہوئے خود پر اور اپنے خاندان پر بے تحاشہ مال و دولت خرچ کرتے ہیں، اور اس طرح امیر اور غریب کے درمیان فرق وسیع ہو جاتا ہے اور وہ ممالک غربت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
41.3۔ تفریح طبعاور فنون لطیفہ
قرآن کے مطابق خدا نے انسانوں کو سب سے بہترین خلقت کے ساتھ پیدا کیا ہے (95:4 / باب 10)، اور انہیں باقی تمام مخلوقات کے مقابلے میں خصوصی نعمتوں سے نوازا ہے (17:70 / باب 10)۔ اور انہیں میں تفریح طبع کے ذرائع اور قدرتی فنون لطیفہ بھی شامل ہیں جو کہ دنیاوی آرائش و زیبائش (زینت) کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں، (2057:/ باب 41.1) اور 'کھیل اور تماشا' کے اسباب ہیں (6:32 ، 7:51، 47:36 / باب 41.1)۔ جبکہ قرآن انسانوں کو ان سے دھوکہ کھانے(2057:)، یا انہیں اپنا مذہب بنانے کے خلاف سخت تنبیہ کرتا ہے (7:51)، اور زندگی کی تمام خوبصورت چیزوں کے جواز پر قرآن کا عام حکم (7:32 / باب 25.4)، انہیں ضائع یا ترک کرنے کی کوئی بنیاد فراہم نہیں کرتا ہے۔
چونکہ قرآن نے پوری انسانیت کے لیے اپنی تہذیب(5:48 / باب 9.4)، اور گیت، موسیقی، شاعری، ایتھ لیٹکس، تیراکی اور کھیلوں سمیت تمام قسم کے فنون لطیفہ کو فروغ دینے کا راستہ کھولا ہے، اسی لیے آج بھی جب تک فنکار اور شائقین شرافت اور اخلاقیات پر قرآنی تعلیمات کی پاسداری کرتے رہیں گے اور اپنی تمام سماجی، مالی، ذاتی اور مذہبی ذمہ داریوں کے ساتھ منسلک رہیں گے جو کہ قرآنی پیغام کا ایک جزو لاینفک ہیں، یہ تمام چیزیں جائز رہیں گیں۔ یہی معاملہ تمام گھریلو اور باہری کھیلوں سمیت ہر قسم کی تفریحی سرگرمیوں اور مچھلیوں کے شکار کا بھی ہے، 6 (مثال کے طور پر تلوار بازی اور کشتی وغیرہ)، اور وہ تفریحی سرگرمیاں جو قرآنی اصولوں سے متصادم ہیں وہ اسلام میں حرام ہیں (مثلاًجسم فروشی، شراب، جوا، اور اسی طرح کی دیگر بدکاریاں)۔
حوالہ جات
1۔ 89:20، 102:1/2
2۔ 29:64۔
3۔ 28:60، 45:35۔
4۔ 3:15۔
5۔ افضل الرحمن، سوسائٹی میں خواتین کا کردار ، لندن 1986، صفحہ۔ 374-381۔
6۔ 6:152 / باب۔ 19.1؛ 2:233، 65:7 / باب 34.5۔
[6 حوالہ جات]
URL for English article: https://newageislam.com/books-documents/exemplary-punishments-major-crimes-essential/d/104401
URL for English article: https://newageislam.com/urdu-section/allurements-worldly-life;-essential-message/d/104601