محمد یونس اور اشفاق اللہ سید
28 اگست 2015
(مصنفین اور ناشرین کی اجازت کے ساتھ نیو ایج اسلام پر خصوصی اشاعت)
قبل از اسلام عرب میں مختلف قبائل خود مختار برادریوں کی شکل میں موجود تھیں؛ ہر قبیلے کا ایک سربراہ ہوتا تھا اور ان کی حکومت وہاں کی روایات کے مطابق ہوتی تھی۔ کسی بھی مرکزی ریاستی عدالت کی غیر موجودگی میں بین قبائلی دشمنی کا تصفیہ قبائلی ثقافت اور روایت کے مطابق کیا جاتا تھا جس میں جان کے بدلے جان کا قانون رائج تھا۔ لہٰذا ، یہ ان کا معمول تھا کہ اگر کسی ایک قبیلے سے اگر حادثاتی طور پر بھی کوئی قتل ہو جاتا تو دوسرا قبیلہ پہلے قبیلے کے ایک رکن کا قتل کر کے اس قتل کا بدلہ لیتا تھا۔ اور ساتھ ہی ساتھ، صحرائی زندگی میں وسائل کی کمی اور تلخ حقائق کسی کے اونٹ کے ایک پڑوسی کے کھیت چر جانے یا کسی دوسرے کے تلاب سے پانی پینے جیسے چھوٹے چھوٹے مسائل پر تشدد بھڑکانے کے لیے موزوں تھے، اور اس کا نتیجہ آسانی کے ساتھ کئی کئی سالوں تک خونریز انتقامی جنگ اور قتل و غارت گری کی شکل میں ظاہر ہوتا تھا۔ نتیجۃً اکثر عرب قبائل خونریز انتقامی جنگوں میں ملوث تھے جو بسا اوقات کئی کئی نسلوں تک جاری رہتی تھیں ۔ قرآن کو اس کا خاتمہ ہمیشہ کے لیے کرنا تھا۔
قرآن اس کا آغاز قبیلے یا مذہب سے قطع نظر کسی بھی انسان کے قتل کی ایک عام ممانعت کے ساتھ کرتا ہے، یہاں تک کہ اس کے علاوہ کوئی اور اس کا متبادل راستہ موجود نہ ہو اور قتل مکمل طور پر جائز اور قانونی ہو۔(6:151، 25:68 / باب 19.1؛ 17:33)۔
"اور تم کسی جان کو قتل مت کرنا جسے (قتل کرنا) اﷲ نے حرام قرار دیا ہے سوائے اس کے کہ (اس کا قتل کرنا شریعت کی رُو سے) حق ہو، اور جو شخص ظلماً قتل کردیا گیا تو بیشک ہم نے اس کے وارث کے لئے (قصاص کا) حق مقرر کر دیا ہے سو وہ بھی (قصاص کے طور پر بدلہ کے) قتل میں حد سے تجاوز نہ کرے، بیشک وہ (اﷲ کی طرف سے) مدد یافتہ ہے (سو اس کی مدد و حمایت کی ذمہ داری حکومت پر ہوگی"(17:33)۔
جیسے جیسے وحی کا سلسلہ آگے بٖڑھا، قرآن کو نو مسلموں کے درمیان بھی خونی انتقام کے تسلسل کو منقطع کرنا تھا۔ چونکہ غلامی کا خاتمہ بھی قرآن کے اہم ایجنڈوں میں سے ایک تھا، اسی لیے قرآن نے مومن غلام کو آزاد کرنے اور کسی بھی مومن کی حادثاتی ہلاکت کی صورت میں معاوضے کا حکم دیا اور کسی بھی مومن کے قتل کو حرام قرار دیا، (93/4:92)۔
"اور کسی مسلمان کے لئے (جائز) نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو قتل کر دے مگر (بغیر قصد) غلطی سے، اور جس نے کسی مسلمان کو نادانستہ قتل کر دیا تو (اس پر) ایک مسلمان غلام / باندی کا آزاد کرنا اور خون بہا (کا ادا کرنا) جو مقتول کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے (لازم ہے) مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں، پھر اگر وہ (مقتول) تمہاری دشمن قوم سے ہو اور وہ مومن (بھی) ہو تو (صرف) ایک غلام / باندی کا آزاد کرنا (ہی لازم) ہے اور اگر وہ (مقتول) اس قوم میں سے ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان (صلح کا) معاہدہ ہے تو خون بہا (بھی) جو اس کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے اور ایک مسلمان غلام / باندی کا آزاد کرنا (بھی لازم) ہے۔ پھر جس شخص کو (غلام / باندی) میسر نہ ہو تو (اس پر) پے در پے دو مہینے کے روزے (لازم) ہیں۔ اللہ کی طرف سے (یہ اس کی) توبہ ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے (4:92)۔ اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لئے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے"(4:93)۔
39.1. ایک معصوم زندگی کے ضیاع پر معاوضے کا قانون
نزول وحی کے آخری مرحلے میں قرآن نے قتل کے لئے معاوضے کا ایک قانون وضع کر کے جس میں قتل سے لیکر حادثاتی قتل تک زندگی کے ضیاع کے تمام ممکنہ پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے، خونی انتقام کے سد باب کا ایک طریقہ فراہم کیا۔
"اے ایمان والو! تم پر ان کے خون کا بدلہ (قصاص) فرض کیا گیا ہے جو ناحق قتل کئے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، پھر اگر اس کو (یعنی قاتل کو) اس کے بھائی (یعنی مقتول کے وارث) کی طرف سے کچھ (یعنی قصاص) معاف کر دیا جائے تو چاہئے کہ بھلے دستور کے موافق پیروی کی جائے اور (خون بہا کو) اچھے طریقے سے اس (مقتول کے وارث) تک پہنچا دیا جائے، یہ تمہارے رب کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے، پس جو کوئی اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لئے دردناک عذاب ہے (2:178)، اور تمہارے لئے قصاص (یعنی خون کا بدلہ لینے) میں ہی زندگی (کی ضمانت) ہے اے عقلمند لوگو! تاکہ تم (خوں ریزی اور بربادی سے) بچو"(2:179)۔
یہ پیراگراف چار مختلف پہلوؤں پر مشتمل ہے:-
اس کی شروعات ایک توضیحی بیان کے ساتھ ہوتی ہے، جس میں زندگی کے ضیاع پر منصفانہ جوابی کارروائی کی مروجہ روایت کا حوالہ پیش کیا گیا۔
اس کے بعد ایک ایسی آیت ہے جس میں اختیاری بخشش نیز معاوضہ کی بھی شق موجود ہے، جو ایک طرف تو مقتول کے خاندان کو بخشنے کی ہدایت دیتی ہے، جبکہ دوسری طرف مجرم کو مقتول کے خاندان کو معاوضہ کی ایک اچھی رقم پیش کرنے کا حکم دیتی ہے۔
رعایت اور مہربانی کو خدا سے منسوب کیا گیا ہے، مجرم سے نہیں۔
اگر مجرمین اس پر عمل کرنے میں ناکام رہے تو انہیں سخت عذاب کی وعیدیں سنائی گئی ہیں۔
اس حکم الٰہی کے پیچھے یہ اسباب و علل کار فرما ہیں:- یہ زندگی کو تحفظ فراہم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ لہذا، اس اقتباس کا لب لباب اس کی اختیاری بخشش نیز معاوضے کی شق میں پوشیدہ ہے؛ اس لیے کہ مقتول کا خاندان قتل کے حالات پر انحصار کرتے ہوئے، اسے معاف کر سکتا ہے یا معاف نہیں کر سکتا ہے۔
قرآن کا یہ قانون عالمگیر انصاف کے اصول پر مبنی ہے۔ یہ مقتول کے خاندان کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے اور ان مختلف حالات کا احاطہ کرتا ہے جن کے نتیجے میں زندگی ضائع ہوئی۔ لہٰذا، اگر یہ حادثاتی قتل کا معاملہ ہو تو مقتول کے خاندان کو ایک مناسب معاوضہ کے بدلے میں معافی کے عمل کو اپنانا ضروری ہے۔ لیکن ایک عمداً قتل کی صورت میں مقتول کا خاندان قاتل کے لئے سزائے موت پر اصرار کر سکتا ہے، جبکہ عدالت جرم کی سنگینی پر انحصار کر کے ایک مناسب سزا کا فیصلہ لے سکتی ہے۔
اس قرآنی قانون کے نتیجے میں خونریز دشمنی کا خاتمہ ہوا جو کہ قبل از اسلام عرب میں وسیع پیمانے پر رائج تھی۔ اس کے اصولوں کو جدید انصاف کے ضوابط میں شامل کر لیا گیا ہے، جبکہ، اس کی خالص شکل؛ جیسا کہ مندرجہ بالا میں تجزیہ کیاگیا ہے، حادثاتی ہلاکت سے لیکر عمداً قتل تک انسانوں کے ذریعہ زندگی کے ضیاع کے تمام معاملات میں عالمی سطح پر قابل نفاذ ہے، اور یہ مظلوموں کے حق میں سب سے بہتر ہے خاص طور پر اگر وہ غریب ہوں۔
40. سنگین جرائم کے لئے عبرتناک سزائیں
جرائم وقت اور تہذیب کی ترقی کے ساتھ تبدیلی ہوتے رہتے ہیں، اور اسی طرح ان جرائم کی تحقیقات، مجرم کی شناخت، فوجداری کے الزامات قائم کرنے کے طریقوں اور سزا کی نوعیت میں بھی ہمیشہ تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ لہٰذا، قرآن میں اس موضوع پر کوئی تفصیلی تذکرہ نہیں ہے۔ تاہم، قرآن مروجہ سنگین جرائم کے لئے کچھ عبرتناک اور توضیحی سزا کا ذکر کرتا ہے، اور سزا کے طریقے اور اس کی حد پر فیصلہ کرنے میں فقہاء کی رہنمائی کے لئے عالمگیر اصولوں کا تعین کرتا ہے۔
"نزول وحی کے زمانے کی سماجی صورت حال غیر محفوظ تھی۔ نہ کوئی سماجی انتظامیہ، نہ کوئی پولیس فورس، نہ کوئی قانونی عدالت، نہ جرم کے مقدمے کی کوئی سماعت، نہ کوئی جیل اور نہ ہی مجرموں کو سزا دینے کے لئے کوئی ادارہ تھا۔ لہٰذا، مجرموں کو لامحدود اختیارات حاصل تھے۔ وہ اپنے قبیلے کے اثر و رسوخ پر انحصار کرتے ہوئے کسی بھی غیر محفوظ شخص کو ستا سکتے تھے، ان کے ساتھ مار پیٹ کر سکتے تھے بڑے بڑے جرائم کا ارتکاب کر سکتے تھے اور معاشرے میں دہشت پھیلا سکتے اور دن کے اجالے میں اوارہ گردی کر سکتے تھے۔ قرآن کو یہ فتنہ و فساد روکنا تھا۔ ان کے سامنے حکمرانوں کا مقابلہ کرنے والوں کے اوپر خوفناک سزا اور معاشرے کے گمراہ کن طریقوں کی وجہ سے ان کے سخت عذاب کا شکار ہونے کی مثالیں تھیں۔ قرآن اپنے سامعین کو ان سزاؤں کی یاد دہانی کراتا ہے، (5:33)، اور ایک عبرت ناک سزا کے طور پر چوری کرنے کے لئے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا ہے (5:39)۔ تاہم، وہ اپنے احکام میں معافی کی شو ں کو بھی شامل کرتا ہے (5:39)، اور اس طرح سزا کے طریقہ کار میں لچک کی گنجائش رکھتا ہے۔ [باب 41.1، اسلام کا اصل پیغام]۔
"بیشک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریز رہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا پھانسی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیئے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے (5:33)۔ مگر جن لوگوں نے، قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پا جاؤ، توبہ کرلی، سو جان لو کہ اﷲ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے (5:34)۔"
اکثر مفسرین نے قرآن کی ان ہدایات کو سنگین جرائم کی سزا پر قرآن کا حکم تصور کیا ہے، اور اسی کے مطابق قانون سازی کے لب و لہجے میں انہوں نے اس کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ مثالاً:-
"اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ چھیڑنے والوں کی سزا........ قتل، یا مصلوب کیا جانا ہے...." (عبداللہ یوسف علی)۔
"اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے والوں کا اجر صرف یہ ہے کہ وہ ہلاک کر دیے جائیں گے یا مصلوب کر دیئے جائیں گے......." (Marmaduke Pickthall)۔
تاہم، جیسا کہ محمد اسد نے اس کی توضیح کی ہے کہ قرآن میں ان سزاؤں کا ذکر صیغۂ مجہول کے ساتھ ہے، مثلاً: 'قتل کر دیئے جائیں'، 'مصلوب کر دئے جائیں'، اور 'گھروں سے نکال دیئے جائیں' اور اسی طرح ان کا روایتی ترجمہ غلط ہے۔1 اس کے علاوہ قرآن میں فرعون کے حق میں تہدید آمیز جملے وارد ہوئے ہیں2، جسے قرآن میں برائی کا مظہر کہا گیا ہے۔ لہذا، وہ خدا کی رحمت اور عظمت سے محروم رہے گا، تاکہ آنے والے ہر زمانے کے مجرموں کے لئے اسی سزا کا تعین کیا جا سکے۔ مزید برآں، اس آیت میں نبی کی شمولیت اس آیت کو ایک وجودی جہت عطا کرتی ہے، جس سے ضروری طور پر مستقبل میں اس کے قانون ساز کردار کی حمایت نہیں ہوتی ہے۔
"اور چوری کرنے والا (مرد) اور چوری کرنے والی (عورت) سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو اس (جرم) کی پاداش میں جو انہوں نے کمایا ہے۔ (یہ) اﷲ کی طرف سے عبرت ناک سزا (ہے)، اور اﷲ بڑا غالب ہے بڑی حکمت والا ہے (5:38)۔ پھر جو شخص اپنے (اس) ظلم کے بعد توبہ اور اصلاح کرلے تو بیشک اﷲ اس پر رحمت کے ساتھ رجوع فرمانے والا ہے۔ یقیناً اﷲ بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے (5:39)۔"
40.1. قرآنی سزا کے نفاذ میں لچک
مذکورہ بالاان دو تادیبی آیتوں (34/5:33، 39/5:38) کی تشریح علیحدہ کرنا غلط ہوگا۔ الٰہی فیصلے کے معیار 2، پر قرآنی احکامات واضح طور پر جرائم اور سزا کے تناسب کے اصول پر دلالت کرتے ہیں، جب کہ ان دونوں آیتوں میں معافی کی شقوں کو بھی شامل کیا گیا ہے، اور ان کا اختتام رحمت اور مغفرت کی الٰہی صفت کے ساتھ ہوتا ہے، (5:34، 5:39)۔ لہٰذا، کسی بھی آخری فیصلے پر پہنچنے سے پہلے فیصل کے لیے جرم کی سنگینی، متاثرین پر اس کے اثرات اور تخفیف پیدا کرنے والے سماجی حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ لہٰذا، اسی قرآنی روح کی وجہ سے خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چھوٹے جرائم کے لئے جیل کی سزا کو متعارف کیا اور قران کی عبرت ناک سزاؤں کو سنگین جرائم کے لیے ہی خاص رکھا، (5:33)۔
1۔ محمد اسد، قرآن کا پیغام ، جبرالٹر 1980، باب 5، نوٹس 43-46۔
2۔ تین قرآنی آیات میں فرعون اور اس کے جادوگروں ساتھیوں کو اس انداز میں دھمکی دی گئی ہے: "میں یقیناً تمہارے ہاتھوں کو اور تمہارے پاؤں کو ایک دوسرے کی الٹی سمت سے کاٹ ڈالوں گا پھر ضرور بالضرور تم سب کو پھانسی دے دوں گا" (7:124، 20:71 اور 26:49)۔
3۔ 6:160، 28:84 / باب۔ 21.3؛ 42:40 / باب۔ 12.2؛ 40:40، 53:31۔ [نوٹ 2 / ۔ باب 21]
4۔ شبلی نعمانی، الفاروق، دہلی 1898، کراچی، صفح 1991۔ دوبارہ پرنٹ۔ 198۔
[4 حوالہ جات]
URL for English article: https://newageislam.com/books-documents/exemplary-punishments-major-crimes-essential/d/104401
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/abolition-blood-vendetta;-essential-message/d/104578